لاک ڈاؤن کے معاشرے پر مفید اور مضر اثرات
آسیہ تنویر
انسانی فطرت نسبتاً سہولت پسند واقع ہوئی ہے۔ لگے بندھے ماحول میں پرسکون زندگی گزارنا پسند کرتی ہے۔ کسی خوشگوار یا ناخوشگوار واقعے کو بہت جلد قبول کرنے میں تردد کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن آج کے موجودہ دور میں تعلیم، سائنس اور ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی ترقی نے انسان کی طرزِ زندگی پر بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ کرونا وائرس جیسی ہلاکت خیز عالمی وبا سے گھبرا کر پوری نسلِ انسانی متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
کرونا وائرس بلاشبہ ایک مہلک اور وائرل وبا کی طرح اچانک ہم پر ٹوٹ پڑا ہے لیکن جس طرح ہر تخریب میں کچھ نہ کچھ تعمیر کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے، سو اس میں بھی موجود ہے۔ کرونا وائرس نے ہمیں پہلے کے مقابلے زیادہ مہذب اور عملیت پسند بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو سب سے بڑی انقلابی تبدیلی ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں، وہ یہ کہ دنیا بھر میں مذہبی نقطہ نظر سے "احتیاط” کا دائرہ کافی وسیع ہوا ہے۔ ایسے تمام مقدس مقامات جہاں ہر وقت ہجوم ہوتا ہے، وہاں پابندی لگا دی گئی ہے۔ دنیا میں اس وائرس کے آنے سے ہمارے معاشرے میں عملیت پسندی کا رجحان بڑھا ہے جو اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ آج کا انسان سمجھ چکا ہے کہ بیماریاں آسمانوں سے نہیں اترتیں بلکہ زمین کی ہی پیداور ہیں جس کا علاج بھی انسان کو ہی دریافت کرنا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کو قبول کرنے کے بعد انسان نے اسی مستعدی کے ساتھ اپنی نجی، عملی اور معاشرتی زندگی میں اس وائرس کے راست اور بالواسطہ اثرات کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ رفتہ رفتہ معاشرتی زندگی کی تصویر تبدیل ہوتی نظر آئی۔ ڈرامائی انداز میں سڑکیں خالی ہوتی گئیں۔ گھر آباد ہوتے گئے۔ کاروبار ٹھپ ہو گئے۔
معاشرتی زندگی کی اس اچانک تبدیلی نے روز مرہ کے معمولات پر مفید اور مضر دونوں طرح کے اثرات مرتب کیے ہیں۔ عالمی سطح پر اس صورتحال کا ہر ممکن جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تبدیلی آنے والے کچھ دنوں معاشرتی زندگی کی تصویر کو بڑی حد تک بدل دے۔ یہ تبدیلی جہاں معاشرے میں کئی اصلاحات اپنے ساتھ لائی ہے وہیں پہلے ہی سے مشکلات کا سامنا کرنے والے طبقات کی زندگی کو اور مشکل بنا دیا ہے.
مفید اثرات
• انسان اس حقیقت کو قبول کر چکا ہے کہ کرونا وائرس ایک جان لیوا متعدی مرض ہے، جس
سے نہ صرف خود کو بلکہ نوع انسانی کو بھی بچانا ہے۔
• انسان ہر حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے مگر موت کو نہیں جھٹلا سکتا۔ موت سے ہر شخص ڈرتا
ہے اور اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
• حکومت کی ایک اپیل پر عوام کا گھروں میں اپنے آپ کو قید کر لینا بہت بڑی خوبی ہے۔ یہی
خوبی ہر معاملے میں بروئے کار لائی جائے تو کوئی بدامنی ہوگی نہ کوئی فساد فی الارض برپا ہوگا۔
(بشرطیکہ حکومت خود فساد فی الارض کا ارادہ نہ رکھتی ہو)
• ایسے وقت میں باہمی معاشرتی تعاون کے فروغ کے امکانات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ امداد
باہمی جیسے اشیائے خوردنی کی تقسیم، طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے جذبہ انسانی بیدار ہوتا
نظر آرہا ہے۔
• کرونا وائرس نے انسانوں کو ان کے خالقِ حقیقی سے اور فطری زندگی سے قریب کیا ہے۔
• اس وائرس نے برائی کے اڈوں جیسے نائٹ کلبوں، کوٹھوں، شراب خانوں، جوئے خانوں اور
تھیٹروں وغیرہ کو بند کیا ہے۔
• اس وائرس نے شرح سود میں کمی لائی ہے۔
• خاندا نوں کو ملایا ہے۔
• اس وائرس کی وجہ سے لوگوں نے مردہ اور حرام جانور کھانا چھوڑ دیا ہے
• اس وائرس نے فوجی اخراجات کا ایک تہائی حصہ صحت کی دیکھ بھال میں منتقل کر دیا ہے۔
• انسان اب ترقی اور ٹکنالوجی کی بجائے خدا کی عبادت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
• یہ وائرس انسانوں کو چھینکنے کھانسنے کے طریقے سکھا رہا ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمیں 1400 سال قبل سکھایا تھا۔
• کرونا وائرس نے ہمیں زیادہ وقت گھر پر رہنے، سادہ غذا کھانے، سادہ لباس پہننے، فضول ادھر
ادھر گھومنے پھرنے سے بچنے اور سادہ زندگی گزارنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ جس کے
نتیجہ میں ہم ایک بار اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے اسے دوبارہ صحیح راستے پر ڈال سکتے ہیں۔
• سڑکوں سے اچانک ٹریفک غائب ہو جانے سے صوتی اور فضائی آلودگی میں کمی آنے کے
امکانات بڑھ گئے ہیں۔
مضر اثرات
• صفائی ستھرائی دین کا جزو لا ینفک ہے۔ اس مرض سے بچنے کے لیے ہر شخص کو اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے حتیٰ کہ حکومت بھی خصوصی توجہ دینے لگی ہے.
• لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشرے کا ہر فرد یہ محسوس کرنے لگا ہے گویا کہ وہ جیل میں بند ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہوگی جن کو کئی مہینوں سے اپنے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔
• جو لوگ ہمیشہ کام کرنے کے عادی ہیں اندیشہ ہے کہ وہ نفسیاتی مریض نہ بن جائیں۔
• ہر کام گھر میں بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ جن ملازمین کو گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی جملہ تعداد ہمارے ملک میں پانچ فیصد بھی نہیں ہے۔
• لاک ڈاؤن کے نتیجے میں سب سے پہلے اسکول کالجز کو بند کردیا گیا اور ڈیجٹل کلاسس کے ذریعہ تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن کیا ہندوستان میں ہر طالب علم کے گھر میں کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ موجود ہے؟
• جن طلباء کے امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں ان میں سے بعض تعلیمی تسلسل کے ٹوٹنے کی وجہ سے لاپروائی یا مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے خوابوں کے محل چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ جن تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کا تابناک مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
• طلباء کو بغیر کسی آئندہ لائحہ عمل کے رخصت پر بھیج دیا گیا ہے جس کی بناء پر بچے انتشار کی کیفیت کا شکار ہیں۔
• اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ بے حد متاثر ہونے والا ہے۔ ان کا مداوا حکومتی اعلانات سے پورا نہیں ہوسکتا۔ اگر حکومت ان کے روزگار/روزی روٹی کے لیے کچھ کر بھی دے تو لیڈروں اور بروکروں کی چاندی ہوجائے گی۔ جس طرح کسی بھی حکومتی اسکیم کے وقت ہوتا ہے.
• ایسے موقع پر مالدار لوگوں پر کوئی راست اثر نہیں پڑے گا لیکن غریب اور دیہاڑی کے مزدوروں کو بے انتہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آخر میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ با برکت کا شکر بجا لانا چاہیے کہ اس نے ہمیں حقیقت سے واقف ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس سے مغفرت اور مدد کے لیے دعا کرنے کا موقع عنایت کیا۔ عقل مندوں کے لیے اس میں بہت بڑا سبق ہے۔