افروز عالم ساحل، دلی
تقریباً ڈیڑھ مہینے سے جاری یہ لاک ڈاؤن اب سماجی رشتوں اور خاندانی تعلقات پر بھاری پڑ رہا ہے۔ نہ جانے کتنی شادیاں مشکل میں پڑ گئیں اور کتنی اس لاک ڈاؤن کے بھینٹ چڑھ گئیں۔ لیکن بہت سی جگہوں پر لوگوں نے شادی بیاہ کے ایسے طریقے بھی ایجاد کر لیے کہ ماضی میں اس کی نظیر شاید ہی دیکھنے کو ملتی ہے یا پھر عام دنوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ اتوار دہلی کے گاندھی نگر سے ایک بارات نکلی اور عثمان پور پہنچی اس بارات میں پولیس والے ساتھ تھے۔ بارات میں چار افراد شامل تھے لیکن فزیکل ڈسٹنسنگ کا خصوصی طور پر عمل کیا گیا۔
دراصل شادی کی تاریخ پہلے سے طے تھی، لیکن لاک ڈاؤن میں یہ ناممکن سا محسوس ہونے لگا۔ شادی کی تاریخ ملتوی کرنے کے بارے میں غور وفکر ہو ہی رہا تھا کہ لڑکے نے اپنی آخری کوشش کے طور پر کچھ لوگوں کے ساتھ اے سی پی سدھارتھ جین سے ملاقات کی۔ اے سی پی صاحب بڑے دل والے نکلے، انہوں نے اس کے لیے اجازت دے دی نیز، اپنے سپاہیوں کو بارات کی حفاظت کا حکم بھی دیا۔
پولیس کی مدد سے دہلی میں شادی ہونے کی ایک اور خبر ہے۔ یہ کہانی دہلی کے گووند پوری علاقے کی ہے۔ خوشحال والیا اور پوجا والیا دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن لاک ڈاؤن میں یہ ممکن نظر نہیں آ رہا تھا چنانچہ لڑکے کے گھر والوں نے پولیس سے مدد مانگی۔ کالکاجی پولیس اسٹیشن کے ہیڈ کانسٹیبل سنجیو اور انیل باراتی بن کر دو پولیس کی گاڑیاں لے کر پہونچے۔ دولہا دلہن اور ان کے والدین کو لے کر گریٹر کیلاش کے آریہ سماج مندر لے آئے اور دونوں کی شادی کرائی۔ اس شادی میں کل 4 افراد شریک ہوئے تھے۔ دولہا دلہن کو پہنانے کے لیے پھولوں کے ہار نہ مل سکے تو پلاسٹک کے ہار پہنائے گئے۔ شادی کے وقت ہیڈ کانسٹیبل سنجیو نے پوجا کو چنری اور ناریل تحفے میں دیا اور خوشحال نے بدلے میں سنجیو اور انیل کو ایک ایک سینیٹائزر اور ماسک گفٹ کیا۔ شادی کے بعد پولیس کی گاڑیاں جب دولہا دلہن کو گھر تک چھوڑنے کے لیے گئیں تو سڑکوں، چھتوں اور گھروں کی بالکونی میں کھڑے لوگوں نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔
لیکن سب کی قسمت ایسی نہیں ہوتی ہے۔ غازی آباد میں ایک دولہے کو حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ لاک ڈاؤن میں تمام تر کوششوں کے بعد جب کوئی راستہ باقی نہیں بچا تو دولہا تاج الدین دیر رات اپنے نکاح کے لیے 5 باراتیوں کے ساتھ میرٹھ کے لیے نکل پڑا، لیکن راستے میں پولیس نے اس بارات کو حراست میں لے لیا۔ ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 188 ، 269 اور 270 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اسی غازی آباد میں ایک اور دلچسپ کہانی سامنے آئی۔ لاک ڈاؤن کے دوران بیٹا سبزی اور راشن لینے باہر نکلا۔ لیکن جب واپس آیا تو ساتھ میں دلہن بھی تھی۔ یہ دیکھ کر ماں کے ہوش اڑ گئے چنانچہ اس نے دونوں کو گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ معاملہ بڑھا تو سیدھا پولیس تھانہ پہونچا۔ کافی مشقت کے بعد پولیس نے ایک درمیانی راستہ نکالا اور دولہا دلہن کو کرایے کے ایک مکان میں شفٹ کر دیا۔
اس دوران بگ باس-2 کے فاتح آشوتوش کوشک نے بھی شادی کرلی۔ یہاں تو بنا بارات کے ہی گھر کی چھت پر پھیرے لے لیے گئے۔ اس شادی میں بھی دونوں کنبے کے صرف چار افراد موجود تھے۔ آشوتوش سہارنپور کے رہنے والے ہیں اور ارپیتا علی گڑھ کی رہائشی ہیں۔
اسی لاک ڈاؤن کے درمیان چھتیس گڑھ کے شہر بلاس پور میں گریما اور سبیہ ساچی کی بھی شادی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ شادی کی رسومات کے دوران دولہے نے دلہن کو منگل سوتر سے پہلے ماسک پہنایا۔ شادی میں فزیکل ڈسٹنسنگ کا بھی خیال رکھا گیا۔ تمام مہمانوں نے شادی میں آن لائن شرکت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 26 اور 27 اپریل کو چھتیس گڑھ میں ایسی کئی شادیاں ہوئیں۔
بارات کا لاک ڈاؤن
اب ایک ایسی شادی کا قصہ جس میں دولہا دلہن سمیت تمام باراتی لاک ڈاؤن میں ایسے پھنسے کہ 35 دنوں تک نکل نہ سکے۔
جھارکھنڈ کے ضلع دھنباد کے ویلمی گاؤں سے آئی بارات علی گڑھ کے اتروولی کے ودھی پور گاؤں پہنچی تھی کہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا۔ پورے 35 دنوں بعد انتظامیہ سے اجازت ملنے کے بعد اب یہ بارات جھارکھنڈ کے لیے روانہ ہوگئی ہے۔ 35 دنوں تک گاؤں والوں نے ہی دولہا اور براتیوں کا خیال رکھا، لہٰذا رخصتی کے وقت ہر شخص جذباتی ہوگیا۔ بارات میں دولہا دلہن کے علاوہ اس کنبہ کے 12 افراد شامل تھے۔ ان کی شادی 22 مارچ کو ہوئی تھی۔
لیکن سب کی قسمت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ایسی ہی بد قسمتی اوڈیشہ سے آئے قریب 50 باراتیوں کی ہے۔ جھارکھنڈ کے جمشید پور کے سوناری کے پردیسی پاڈا علاقے میں شادی تو ہوئی لیکن دلہن کی وداعی نہیں ہو سکی۔ ایک ٹینٹ میں باراتیوں کو رکھا گیا جہاں باراتی قطار میں لگ کے کھانا کھاتے۔ دلہن کے والد باراتیوں کی خاطرداری کے لیے جدو جہد کرتے رہے۔ پہلے تو قرض لے کر باراتیوں کو کھانا کھلاتے رہے۔ اب سماجی کارکن، سیاستدان اور تاجروں سے راشن پانی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں۔ بارات کو بھیجنے کے لیے وہ انتظامیہ کے پاس بھی گئے، لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔ اب لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اب مزید باراتیوں کے کھان پان سے قاصر ہیں۔
ایسی ہی ایک شادی بہار میں دو خاندانوں کے لیے مصیبت کا سبب بن گئی ہے۔ یہاں بھی 24 مارچ سے لے کر اب تک دلہن کے گھر پر باراتی ٹھیرے ہوئے ہیں۔ اس مشکل وقت میں دلہن کے والد جیسے تیسے اپنے گھر میں ٹھیرے مہمانوں کی خاطر مدارات میں لگے ہوئے ہیں۔ دولہا اور اس کے رشتہ داروں نے ریاست کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے مدد کی اپیل کی ہے لیکن ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
دولہا اور اس کا کنبہ غازی آباد کے رہائشی ہیں۔ دولہا محمد عابد نے بھی سی ایم نتیش کمار سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘مہمانوں کی بھی اپنی عزت اور ڈیکورم ہوتا ہے جس کی تعمیل کی جانی چاہیے۔ ہندوستانی تہذیب وثقافت میں میزبان کے گھر زیادہ دیر رکنا اعزاز کی بات نہیں ہے۔ سی ایم نتیش کمار ہماری اس بے بسی کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم ایک مخمصے کے عالم میں ہیں‘ دولہا کے والد اکبر میاں کا کہنا ہے کہ ‘میرے سمدھی کی معاشی حالت خراب ہے انہوں نے ہمیں کھانا کھلانے کے لیے قرض لیا ہے انہیں اس طرح دیکھنا ہمارے لیے شرمندگی باعث ہے‘
بہار کے ضلع سیوان کے گاؤں فرچھوئی میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے باراتی ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ اب یہ باراتی ’سرکاری مہمان‘ ہیں۔ دراصل لڑکی کے گھر والوں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کے جانے کا کوئی انتظام نہیں ہوا۔ البتہ 37 ویں دن انتظامیہ کی طرف سے یہ ضرور کہا گیا کہ جب تک یہ باراتی یہاں رہیں گے حکومت کی طرف سے کھانے کا انتظام کیا جائے گا۔
واضح کہ 23 مارچ کو کولکتہ سے ایک بارات سیوان کے گاؤں فرچھوئی کے رہائشی علی حسین کے گھر آئی۔ اسی دوران لاک ڈاؤن کا اعلان ہوگیا۔ کولکاتہ واپس جانے کے لیے انتظامیہ سے اجازت حاصل کرنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن اجازت نہیں ملی۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی جو سیوان سے ہی ہے۔ یہاں حسین گنج میں مغربی بنگال کے ضلع ہگلی سے آیا دولہا سمیت 39 باراتیوں کا قافلہ لاک ڈاؤن میں پھنسا ہوا ہے۔ اب ان باراتیوں کے سامنے کھانے کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ ایسی کئی باراتیں بہار کے مختلف شہروں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ لاک ڈاؤن ۳ میں یہ اپنے اپنے گھروں کو پہونچ جائیں گی۔دراصل اس لاک ڈاؤن میں جہاں بہت سے لوگوں کو رشتوں کے معنی سمجھ میں آئے، وہیں بہتوں کو رشتوں کے معنوں کو تھوڑا بدل کر دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ کہیں محبت کا سیلاب امڈ پڑا تو کہیں پہلے سے موجود محبت میں کمی محسوس کی گئی۔ اس لاک ڈاؤن کا سب سے اہم سبق یہ رہا کہ رہا کہ مسلمانوں نے جو شادی کو کافی مشکل کام بنا کر رکھ دیا ہے اگر اس کو اسلامی طریقے پر انجام دیا جائے تو لوگوں کو اس قسم کی پریشانیوں سے گزرنا نہیں پڑے گا اور جو لوگ اس صورت حال سے گزر چکے ہیں ان کو بھی اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ شادی کے لیے تام جھام باراتی سواری شکماری ٹھاٹھ باٹھ گھوڑا گاڑی سب بے کار کی چیزیں ہیں شادی سیدھے سادے طریقے سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ سب بیڑیاں ہیں جو مسلمانوں نے اپنے گلے میں ڈال رکھی ہیں ان بیڑیوں کو نکال پھینکنا ہوگا اور لاک ڈاؤن کے بعد بھی شادیوں کو سیدھے سادے طریقے پر انجام دینا ہوگا اس سے جو بچت ہوگی وہ آنے والی نسل کی تعلیم وتربیت میں کام آئے گی۔
***
اس شادی میں کل 4 افراد شریک ہوئے تھے۔ دولہا دلہن کو پہنانے کے لیے پھولوں کے ہار نہ مل سکے تو پلاسٹک کے ہار پہنائے گئے۔ شادی کے وقت ہیڈ کانسٹیبل سنجیو نے پوجا کو چنری اور ناریل تحفے میں دیا اور خوشحال نے بدلے میں سنجیو اور انیل کو ایک ایک سینیٹائزر اور ماسک گفٹ کیا۔