ڈاکٹر سلیم خان
ساری دنیا میں یکم مئی مزدوروں کا دن کہلاتا ہے۔ اس سال جب کہ محنت کشوں کے عالمی دن کا سورج ڈھلنے لگا تھا حکومت نے لاک ڈاون کی توسیع کا فرمان جاری کر دیا۔ اسی کے ساتھ یہ خوش خبری بھی سنائی گئی کہ اب تارکین وطن مزدوروں کو اپنے گھر پہنچانے کے لیے خصوصی ریل گاڑیاں چلائی جائیں گی۔ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن لگا کر مہاجر مزدوروں کو اپنے گھروں کو جانے سے روک دیا گیا۔ اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے شمار لوگ پیدل ہی اپنے گھروں کے لیے نکل پڑے۔ انہوں نے اپنے بال بچوں کے ساتھ پیدل سیکڑوں میل کا سفر کیا۔ ان میں سے کچھ اپنی منزل پر پہنچے اور کچھ درمیان ہی میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے اور ایک بڑی تعداد اس امید میں صبر کر کے بیٹھ گئی کہ تین ہفتے کسی طرح گزار کر چلے جائیں گے۔ وہ قت بھی نکل گیا لیکن سفاک سرکار نے ان کی خیر خبر نہیں لی۔ دوسرے لاک ڈاون سے قبل ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر پہنچ گئے لیکن انہیں وہاں سے بھی سمجھا بجھا کر یا مارپیٹ کر کے واپس بھیج دیا گیا۔ اس دوران مختلف صوبائی حکومتوں نے ان امیر کبیر طلبا کو جنہیں ہاسٹل میں کوئی مشکل نہیں تھی ان کے گھروں تک پہنچانے کا اہتمام تو کیا مگر فاقہ کش مزدور پیشہ لوگوں کو نظر انداز کر دیا۔ اس پر کچھ لوگوں نے عدالت عظمیٰ سے فریاد کی چنانچہ عدالت کو مطمئن کرنے کی خاطر مرکزی حکومت نے بحالت مجبوری ملک میں جگہ جگہ پھنسے ہوئے مہاجر مزدوروں، سیاحوں، طلبا اور عقیدتمندوں کو مختلف احتیاطی تدابیر کے ساتھ نقل مکانی کی اجازت دے دی۔ یہ فیصلہ دراصل عدالت کے دباو کی وجہ سے مجبوراً لیا گیا۔ یہ شرم کی بات ہے کہ ایسا معمولی فیصلہ کرنے میں حکومت کو پانچ ہفتوں کا طویل وقت لگا۔ یہ اس نا اہل حکومت میں قوت فیصلہ کے زبردست فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے یہ سرکار عوامی مسائل کی بابت کس قدر غیر حساس ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ۲۲ مارچ کو تالی اور تھالی کی نوٹنکی کرنے کے بجائے یہ اعلان ہوتا کہ تارکین وطن مزدوروں کو خصوصی ریل گاڑیوں سے پہلے اپنے گھر پہنچایا جا ئے گا اور پھر لاک ڈاون کیا جاتا۔ اس وقت یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا لیکن اس نعرے کا کھوکھلا پن اس وقت ثابت ہو گیا جب دہلی کے ایک محنت کش نے یکم مئی ہی کو بھوک سے اپنی جان دے دی ۔
یہ سانحہ اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں پیش آیا ۔ لاک ڈاون میں 34 دن گزارنے کے بعد جب کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں بچا تو کھگڑیا بہار کے ۶ مزدور 1300 کلومیٹر کے طویل سفر پر بذریعہ سائیکل نکل پڑے۔ ابھی انہوں نے ایک تہائی سفر بھی پورا نہیں کیا تھا کہ ان میں سے ایک 28 سالہ دھرم ویر نے دم توڑ دیا۔ دھرم ویر کے ساتھی رام نواس کے مطابق ان کے پاس صرف دس دن کے گزارے کی جمع پونجی تھی۔ اس کے بعد پاس پڑوس کے لوگوں سے مانگ کر پیٹ بھرا۔ کئی دنوں تک بسکٹ پر گزارہ کیا اور مجبوراً بھکمری کے ڈر سے یہ قدم اٹھایا۔ چار دن تک بھوکے پیاسے شاہجہاں پور پہنچے تو وہاں ایک مندر میں کھانے کو ملا اس کے بعد دھرم ویر کی طبیعت بگڑی تو اسے لے کر میڈیکل کالج پہنچے جہاں اس نے آخری سانس لی۔ اب یہ حال ہے کہ دھرم ویر کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا اور اس کے ساتھیوں کو قرنطینہ میں روانہ کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس بے قصور کی موت کے لیے کون ذمہ دار ہے۔ دھرم ویر جیسے جتنے بھی لوگ اس لاک ڈاون کے سبب ہلاک ہوئے ان کے لیے صرف اور صرف یہ بے حس حکومت ذمہ دار ہے۔
لاک ڈاون کے سبب ملک بھر کے غریب الوطن مزدوروں نے اپنے گھروں کو جانے کی کوشش کی لیکن سب سے زیادہ واقعات دہلی کے سامنے آئے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں، اول تو یہ کہ دہلی میں ان کی کثیر تعداد رہائش پذیر ہے۔ دوم ان میں سے زیادہ تر پڑوسی صوبوں سے آئے ہوئے تھے اس لیے ان کا فاصلہ نسبتاً کم تھا۔ ممبئی سے اتر پردیش ایک ہزار سے زیادہ کلومیٹر دور ہے۔ اس کے باوجود گورکھپور کے ۲۰ نوجوانوں کے سائیکل پر نکل جانے کی خبر آئی لیکن آگے پتہ نہیں چلا کہ وہ کب پہنچے اور ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ممبئی راجوری سے جموں کا ایک نوجوان محمد عارف سائیکل پر اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے 2100 کلومیٹر سائیکل سے چلنے کا ارادہ کرکے نکل پڑا۔ اس کے والد پر دل کا دورہ پڑا تھا اور ان کی حالت نازک تھی۔ عارف ان کی خدمت کرنا چاہتا تھا یا کم ازکم آٓخری بار ان کا دیدار کرلینا چاہتا تھا اس لیے پانچ سو روپیوں میں سائیکل خریدی اور ۸۰۰ روپے جیب میں رکھ کر نکل پڑا۔ راستے میں کسی صحافی سے اس کی ملاقات ہوئی اس نے انتظامیہ سے مدد دلانے کا یقین دلایا۔ انتظامیہ نے بھی آمادگی ظاہر کی لیکن مہاراشٹرا اور گجرات کی سرحد کے قریب اس کا موبائل فون بند ہوگیا اور پھر اس کا کیا بنا اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔عارف کی اس ادھوری داستان کے درمیان ممبئی سے اتر پردیش جانے والے انصاف علی کی درد ناک کہانی منظر عام پر آئی۔ یکم اپریل کو ضلع تھانے کے وسئی میں رہائش پذیر انصاف علی نے اتر پردیش میں اپنے گھر والوں سے ملنے کی خاطر 1500 کلو میٹر پیدل چلنے کا ارادہ کیا۔ لاک ڈاون کی رکاوٹوں کے سبب راستے میں اس کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دوکانوں کے بند ہونے کی وجہ سے کھانے اور پانی کے لیے کافی دقت پیش آئی لیکن اس کا سفر جاری رہا۔ 15 دن کی طویل مسافت کے بعد وہ پیدل چل کر ضلع شراوستی میں اپنے گاؤں کے قریب پہنچا۔ اس طرح انصاف علی گویا غلام محمد قاصر کے اس شعر کی عملی تفسیر بن گیا ؎
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
اس کے بعد کہانی میں جو درد ناک موڑ آیا اس کی تفصیل انصاف علی کے گاوں مٹکھنوا کے گرام پردھان آگیارام نے یوں بیان کی کہ وہ 14 اپریل کو شراوستی پہنچا اور اپنے گھر سے تقریباً 10 کلو میٹر پہلے سسرال میں رک گیا۔ اس کے بعد جب وہ اپنے گھر کے لیے نکلا تو طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔27 اپریل کو علی کے شراوستی پہنچنے پر مقامی انتظامیہ نے اسے 14 دنوں کے لیے ایک اسکول میں قرنطینہ کی خاطر بھیج دیا۔ یہ اسکول ملہی پور پولیس اسٹیشن کے تحت واقع ہے۔ شراوستی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ انوپ کمار سنگھ کے مطابق صبح 7 بجے کے قریب جب وہ مٹکھنوا پہنچا تو مقامی اسکول میں شروعاتی جانچ کے تحت اسے ناشتہ دیا گیا۔ پانچ گھنٹے آرام کرنے کے بعد اسے پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی شکایت شروع ہوگئی اور تین بار الٹی ہوئی۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر کو بلایا جاتا، انصاف علی کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس طرح محنتِ شاقہ سے اپنے گاؤں کو پہنچنے والا انصاف علی اپنے رشتہ داروں سے ملے بغیر ہی دارِ فانی سے کوچ کر گیا اور پسماندگان میں اہلیہ سلمیٰ بیگم اور 6 سالہ بیٹے کو چھوڑ گیا۔ اس پر قائم چاند پوری کا یہ شعر صادق آگیا کہ ؎
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
انصاف علی کی یہ داستان گواہ ہے کہ انسان اپنے عزم وحوصلے سے دنیا کی بڑی سے بڑی مہم سر تو کر سکتا ہے لیکن مشیتِ الٰہی کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ انسان اپنوں میں جینا چاہتا ہے اور اپنوں کے اندر مرنا بھی چاہتا ہے۔ انصاف علی کی پہلی خواہش پوری نہ ہو سکی اس لیے کہ موت کا مقام اور وقت مقرر تھا لیکن دوسری تمنا بھی ادھوری رہ گئی۔ راستے میں اس کے ساتھ یہ ناگہانی ہو جاتی تو کسے پتہ چلتا کہ انصاف علی کہاں کھو گیا۔ غالب کے شعر ’نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کوئی مزار ہوتا ‘ والا معاملہ ہو جاتا اور اہل خانہ لا متناہی انتظار کے کرب میں مبتلا ہو جاتے۔ اپنوں کے درمیان مرنے کی خواہش کا اظہار ہوڈل (ہریانہ ) کے رہنے والے محنت کش راجندر چوہان نے 30 اپریل کو انڈین ایکسپریس کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کیا تھا۔ اگلے دن دیپنکر گھوش نے اپنے مضمون میں اس کو رقم کیا ۔ راجندر چوہان ملک کے کروڑوں تارکینِ وطن مزدوروں میں سے ایک تھا۔ وہ بھوپال میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا۔ لاک ڈاون کے بعد اپنے 30 ساتھیوں کے ساتھ ایک ٹرک میں سوار ہو کر وہ ہریانہ کی طرف چل پڑا۔ اتر پردیش سے گزر کر جب راجندر کا قافلہ ہریانہ میں داخل ہوا تب اپنے گاوں سے 15 کلو میٹر قبل کوسی کلاں کی چیک پوسٹ پر انہیں غیر قانونی سفر کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہاں موجود پولیس افسر نے ان سے پوچھا ’’کیا تم لوگوں نے پردھان منتری کو نہیں سنا؟ بار بار بول رہے ہیں کہ گھر میں رہو، گھر میں رہو لیکن تم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا یہ بیماری خطرناک ہے‘‘۔ اس کے جواب میں راجندر چوہان نے جراءت دکھا کر پوچھا اگر کورونا آتا ہے اور میں مر جاتا ہوں تو کیا مرنے سے پہلے میں اپنے خاندان والوں کو دیکھ بھی نہیں سکتا؟ اس سوال کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ وہ اپنے لوگوں کو دیکھ کر ان کے درمیان مرنا چاہتا تھا۔
انصاف علی نے اپنے گاوں میں آکر آخری سانس لی۔ بظاہر اس کی موت جسم میں پانی کی کمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہوئی لیکن چیف میڈیکل افسر اے پی بھارگو کا کہنا تھا کہ انہوں نے انصاف علی کے نمونے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال (لکھنؤ ) میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے بھیج دیے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد ہی انصاف علی کی موت کے اصل سبب معلوم کرنے کے لیے پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔” ویسے ڈاکٹروں کے مطابق شروعاتی جانچ کے دوران کورونا وائرس کی کوئی علامت دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ آگے کیا ہوا نہیں معلوم۔ بہت ممکن ہے انصاف علی کی رپورٹ منفی آئی ہو اور عام لوگوں کی طرح اس کی تدفین ہوئی ہو لیکن کورونا کے خوف نے اپنوں کو بھی پرایا کر دیا۔ اس طرح کا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ مدھیہ پردیش سے سامنے آیا۔بھوپال اور اجین کے درمیان شولاجپور کے ایک شخص پر 8 اپریل کو فالج کا دورہ پڑا ۔ اسے شہر کے ملٹی کیئر اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ 10 اپریل کو اس کے خون کا نمونہ کورونا کی جانچ کے لیے بھیجا گیا اور 14 اپریل کو رپورٹ مثبت آگئی ۔ ۔ اس کے بعد اسے بھوپال کے چرایو دواخانے میں منتقل کیا گیا جہاں دورانِ علاج 20 تاریخ کو اس کی موت ہوگئی۔ انتظامیہ نے گھروالوں کو اطلاع دی تو بیوی، بیٹا اور سالا اسپتال پہنچ گئے۔ بیٹے کو جب بتایا گیا کہ کورونا کے سبب لاش کو گاوں نہیں لے جایا جا سکتا تو وہ گھبرا گیا اور پلاسٹک میں لپٹی لاش کو ہاتھ تک لگانے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ وہاں موجود افسروں نے کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کا حوالہ دے کر اس کا ڈر دور کرنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور دور کھڑا لاش کو دیکھتا رہا۔ افسران نے بتایا کہ لاش گھر کا عملہ بھی تو انسان ہے اس کے باوجود وہ آخری رسومات ادا کرنے لیے راضی نہیں ہوا۔ اپنے بیٹے کو سمجھانے کے بجائے اس کی ماں نے بیرا گڑھ کے تحصیل دار گلاب سنگھ بگھیل سے کہا کہ اس کو حفاظتی لباس پہننا اتارنا نہیں آتا آپ کو آتا ہے اس لیے آپ ہی ہمارے بیٹے ہو، یہ کہہ کر انہیں آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دے دی اور خود 50 میٹر دور بیٹے اور بھائی کے ساتھ بیٹھی چتا کو دیکھتی رہی۔ یہ بات کس کے تصور میں نہیں تھی کہ کورونا سے موت کا ڈر بیوی اور بیٹے کے رشتوں کو بھی جلا کر راکھ کر دے گا۔ ایسے میں بشر نواز کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح
جاگتی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کیا کیا کاروبار ہوئے
صحافت پر سیاست غالب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اخبار لکھنے اور پڑھنے والوں کے اعصاب پر سیاست ہی سوار رہتی ہے۔ قصے کہانیوں کو ہفتے میں ایک آدھ دن کسی کونے میں ایک گوشہ مل جاتا ہے۔ اس کی عدم مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو کے ایک موقر اخبار نے جس میں ہر روز مقامی سے لے کر عالمی خبروں تک کے لیے صفحات مختص ہیں، اس کے علاوہ خواتین، صنعت وحرفت اور سیاسی تجزیہ کا صفحہ ہر روز شائع ہوتا ہے۔ رمضان کی مناسبت سے خصوصی مضامین شائع کرنے کے لیے جن صفحات کی قربانی پیش کی گئی ان میں ہفتہ وار ادبی صفحہ بھی تھا کیوں کہ اس بے ضرر کی موت کا ماتم کوئی نہیں کرتا۔ ویسے بھی کورونا کی وباء نے موت کی خبروں کو ارزاں کر دیا ہے۔
افسانہ نگار کے مقابلے میں ایماندار صحافی کا قلم حقائق کی ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔ بے ایمانوں کی بات اور ہے کہ شتر بے مہار کی مانند جہاں چاہتے ہیں منہ مارتے پھرتے ہیں۔ حق وباطل کی آمیزش کر کے اسے مشکوک بنا دینا جن کا فرض منصبی بن چکا ہے۔ افسانہ نگار حقیقت کی پابندیوں سے نکل کر جہاں مرضی ہو، جانے کے لیے آزاد ہوتا ہے لیکن اس آزادی کے استعمال میں بھی اسے محتاط رہنا پڑتا ہے۔ کئی ایسے خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں جنہیں وہ نا ممکن کہہ کر جھٹک دیتا ہے۔ وہ ممکنات کے افق پر بہت دور نکل جانے کے باوجود ایک حد پر جا کر ٹھہر جاتا ہے۔ اس کے باوجود ناقدین طرح طرح کی مین میخ نکالتے ہیں۔ یہ کیسے ہو گیا؟ اس کا جواز کیا ہے؟ یہ تو نا ممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کورونا نے ایسے حقائق اجاگر کیے ہیں کہ جس نے بڑے بڑے قلمکاروں کے اندر اپنے دامن کی تنگی کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ کورونا کے سانحات نے ثابت کر دیا کہ حقیقت کی دنیا تخیل سے کہیں زیادہ کشادہ ہوتی ہے۔
***
یکم اپریل کو ضلع تھانے کے وسئی میں رہائش پذیر انصاف علی نے اتر پردیش میں اپنے گھر والوں سے ملنے کی خاطر 1500 کلو میٹر پیدل چلنے کا ارادہ کیا۔ لاک ڈاون کی رکاوٹوں کے سبب راستے میں اس کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دوکانوں کے بند ہونے کی وجہ سے کھانے اور پانی کے لیے کافی دقت پیش آئی لیکن اس کا سفر جاری رہا۔ 15 دن کی طویل مسافت کے بعد وہ پیدل چل کر ضلع شراوستی میں اپنے گاؤں کے قریب پہنچا۔