قومیت پر ٹیگور کے نظریہ کی معنویت

وطن پرستی کو مذہبیت سے ہم آہنگ کرکے بنگال کی رائے عامہ کو الجھانے کی کوشش

آسیہ تنویر

 

کم فہم معصوم لوگوں کے ذہنوں میں ایک خیالی خوش گمانی پیدا کردینا اور اس کا متواتر غلط استعمال کرتے رہنے کا فن صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ قومیت یا قوم پرستی کے نظریات کو مذہب سے جوڑ کر مفادات کو حاصل کرنے کا عمل کسی نہ کسی طریقے سے کارگر رہا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں بھی ہر دور میں عوام کے اذہان اس قبیح عمل سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس عمل کی کامیابی کا دارومدار عوام کی ناخواندگی اور زبوں حالی سے رہا ہے۔ معاشی پسماندگی، بھوک اور افلاس میں لتھڑے غریب عوام جب نجات کے لیے خدا کی ڈور پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو زمینی خدا انہیں مذہب کے نام پر نجات کے حسین خواب دکھا کر بے جا استحصال کرتے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی کا مظاہرہ آزادی سے پہلے نجانے کب سے برصغیر رواج پاتا چلا گیا۔ بالآخر یہ شدت پسندی تقسیم کی سیاست کی صورت میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد بھی اذہان کو قید کرنے کا عمل فی زمانہ بڑی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ مذہبی شدت پسندی کو سماج کے دونوں فرقے بڑی شدت سے اپناتے چلے گئے جس کے نتیجے میں عام آدمی کے مسائل پس دیوار ہوگئے اور فرقہ واریت کے تیر کارگر ہوتے گئے۔
یہی وہ پہلو تھا جس کی آنچ کو رابندر ناتھ ٹیگور نے آزادی کی تحریک کے ابتدائی دور میں ہی محسوس کر لیا تھا۔ قومیت اور مذہبیت کے جذبات کے آہنگ کو انسانیت کے لیے نقصاندہ بتایا۔ وہ تو مذہبی جکڑ بندیوں کو توڑ کر خدا سے محبت اور تعلق قائم کرنے کے قائل تھے۔ ٹیگور مذہب کی ظاہری سطح سے اوپر اُٹھ کر خدا سے محبت اور تعلق کو قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں خدا سے محبت کا یہ تعلق اس کی کمزور مخلوق سے محبت کا اظہار بھی بن جاتا ہے۔
پچھلے دنوں رابندر ناتھ ٹیگور کا چرچا قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ رہا۔ دراصل ہمارے وزیر اعظم نے اپنے ظاہری لبادے کو کیا بدلا ان کے اندھے بھکت رابندر ناتھ ٹیگور سے ان کا تقابل کرنے لگے۔ ان کے افکار و نظریات کا ان پر اطلاق کرنے لگ گئے۔ کیا صرف ویراٹ کوہلی یا ہالی ووڈ کے اداکاروں کے طرز پر داڑھی بنانے سے آپ کے نظریات اور افکار رابندرناتھ ٹیگور سے مماثلت اختیار کرسکتے ہیں؟ جبکہ رابندر ناتھ ٹیگور کے نظریات موجودہ حکمراں جماعت کے نظریات سے بالکل مختلف ہیں۔ لیکن عوام کو گمراہی میں مبتلا کرنے کا فن حکمراں جماعت کے اعلیٰ خواص میں شامل ہے۔
اسی سیاق و سباق میں غیر منقسم ہندوستان کے پہلے الفریڈ نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے افکار کی گہرائی کا جائزہ لیتے ہوئے مشہور صحافی رویش کمار نے اپنے پرائم ٹائم شو میں کہتے ہیں "پانچ اگست 1941ء کو رابندر ناتھ ٹیگور کا ندھن ہوا۔ اور اسی پانچ اگست کو ایک نئے بھارت کے نرمان کی گھوشنا کی گئی "۔اسی نئے بھارت کے اعلان کے تناظر میں ٹیگور کے قومیت کے نظریہ کو ایک بار پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بنگال میں قومیت، ثقافت اور مذاہب کے وضاحت کے ساتھ کئی رنگ ملتے ہیں۔ ٹیگور کے نظریات میں قومیت کا اثر نہیں تھا۔ ٹیگور کے نزدیک راشٹرواد یعنی وطن پرستی کی اصل انسانیت کی خدمت تھی۔ اس سلسلہ میں رویش کمار نے 120 سال پہلے لکھی گئی رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم ” خاکی مندر ” کی مثال دی جس میں ایک پجاری اپنے بادشاہ سے کہتا ہے کہ "اس مندر میں بھگوان ہی نہیں ہے۔ جس پر بادشاہ خفا ہوکر کہتا ہے دو لاکھ سونے کی اشرفیوں سے بنے اس مندر میں بھگوان کیسے نہیں ہے؟ جس پر جواب ملتا ہے ’’راجن! جس شاندار مندر کا تم نے نرمان کیا ہے وہ کھوکھلا ہے۔ میرے گھر کی بنیاد سچائی، امن، ہمدردی اور پیار سے بنتی ہے۔ دو لاکھ سونے کے سکوں سے بنا گھر شان و شوکت، دولت و فخر کا بلبلہ ہے۔‘‘ آزاد ہندوستان میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی اس طرح کی مثالیں جگہ جگہ اور بار بار نظر آتی ہیں۔
نظم خاکی مندرکا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔
بھجن، پوجا، بھگتی، عبادت، سب پڑے رہیں یونہی
مندر کے ایک کونے میں کیوں بیٹھے ہو چپ چاپ
کس کی عبادت کر رہے ہو خشوع و خضوع کے ساتھ
آنکھیں مل کر دیکھو
دیوتا نہیں ہیں مندر میں
وہ وہاں گئے ہیں جہاں کسان ہل جوت رہے ہیں
جہاں پتھر توڑ کر راستہ بنا رہے ہیں مزدور بارہ مہینے
دھوپ میں جھلس رہے ہیں وہ سبھوں کے ساتھ
دونوں ہاتھ دھول میں سنے ہیں ان کے
ان کی طرح تو بھی مراقبے سے نکل
آ گرد و غبار کے اس طرف
نجات؟ نجات کہاں ملے گی تجھے
نجات کہاں ہے؟
پربھو اپنی تخلیق کے سامنے خود گرفتار ہے
رہنے دو اپنی عبادت، رہنے دو پھولوں کی ڈالی
پھٹ جانے دو لباس
لگنے دو دھول مٹی
اس کے ساتھ کام کاج میں مشغول رہو
بہنے دو پسینہ
یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ ثقافتی اعتبار سے جس طرح ٹیگور کی موجودگی برقرار ہے۔ کیا وطن پرستی پر ان کی قومیت پر مبنی نظریات بھی اسی طرح اثر انداز ہیں؟ ایسا اثر کیوں نہیں ہے جس طرح ٹیگور چاہتے تھے۔ ۔۔بلاشبہ ٹیگور کے ادبی نظریات بہت وسیع تھے لیکن قومیت پر وطن پرستی کے جذبات کے حاوی ہونے کے وہ سخت مخالف تھے اور اس دور میں بھی انگریز اسی بے سمت قومیت کے نظریہ کو دن بہ دن مضبوط کرنے میں لگے ہوئے تھے۔
اسی قومیت کے بے تکے پن کو آج بھی فروغ دے کر اور مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حال ہی میں جب چین، لداخ کے اندر دور تک گھس گیا تو چین کے خلاف ایک مصنوعی عوامی تحریک پیدا کی گئی۔ ٹک ٹاک جیسے غیر اہم کئی ایپ اور چینی کمپنیوں کو بند کر کے چین کو سبق سکھانے کا جشن منایا گیا۔ جبکہ حقیقی صورتحال کچھ اور تھی۔ پہلے سرحد پر کسی قسم کی دخل اندازی سے انکار کر دیا گیا پھر اس کے بعد وزارت دفاع کے ویب سائٹس سے دراندازی کے اطلاعات کو بھی ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ چینی کمپنیوں کے سامنے قومیت یا وطن پرستی کا نظریہ کتنا خود مکتفی یا سرنگوں ہے اس کو سمجھنے کے لیے ایک بار پھر ہمیں ٹیگور کے نظریات جائزہ لینا چاہیے۔
جہاں ٹیگور کہتے ہیں’’دیش پریم ہمارا آخری روحانی سہارا نہیں بن سکتا۔ میں انسانیت میں پناہ لینے میں یقین رکھتا ہوں۔ میں ہیرے کے دام میں گلاس نہیں خرید سکتا۔ اور جب تک زندہ ہوں انسانیت کے اوپر وطن پرستی کی جیت نہیں ہونے دوں گا‘‘
یوں تو بنگال میں بنکم چندر چٹرجی، ویویکانند، سبھاش چندرا بوس اور ٹیگور جیسے قوم پرستی کے بہت سارے نظریات موجود ہیں لیکن قوم پرستی پر گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کی خود مختاری ابھی بھی کسی سیاسی تنظیم کے بغیر برقرار ہے۔1882ء تک بنکم چندر چٹرجی وندے ماترم لکھ چکے تھے۔ 1911ء میں ٹیگور جن گن من لکھ چکے تھے۔ دونوں کی ان نظموں یا ترانوں کے بغیر جدید قومیت کے نظریات مکمل بھی نہیں ہوتے۔ ایسا کوئی دور نہیں گزرا جب ہندوستان کی دھرتی پر ان نظموں کے پس منظر میں حب الوطنی پر بات نہ کی گئی ہو۔ قومی ترانے کے متعلق رابندر ناتھ ٹیگور کے افکار کو ان کی قومیت کے نظریات کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے سے الوہیت پر ان کا یقین اور بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے "جن گن من” کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔
ٹیگور کی نظم :جن گن من، سب سے پہلے 27 دسمبر 1911ء کو انڈین نیشنل کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھی گئی۔ اس وقت برطانوی بادشاہ جارج پنجم ہندوستان کے دورے پر تھا، لہٰذا اجلاس کی اسی نشست میں بادشاہ کے لیے استقبالیہ تجویز بھی منظور ہوئی۔ 28 دسمبر کو برطانیہ کے اخبار ’اسٹیٹس مین‘ نے یہ سرخی لگائی ’’بادشاہ کے استقبال میں بنگلہ شاعر ٹیگور نے استقبالیہ نظم کہی‘‘ برطانوی استعمار کے زیر اثر چلنے والے دیگر اخبارات نے بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ٹیگور بھی ’استعمار حامی‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی وقفے وقفے سے یہ بحث وقتا فوقتاً اٹھتی رہتی ہے کہ کیا واقعی ٹیگور کی یہ نظم یا ترانہ، شرکیہ کلمات پر مبنی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود ٹیگور کا مذہبی رجحان کیا تھا۔ اگر ٹیگور مشرک تھے تو یہ ترانہ بھی بے شک مشرکانہ ہے، لیکن ٹیگور کے لٹریچر میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ پروفیسر جان واٹسن نے اپنی کتاب ’’ٹیگور کے مذہبی نظریات‘‘ میں ایک خط نقل کیا ہے جس میں ٹیگور لکھتے ہیں: "نہ میں کسی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں اور نہ ہی میں کسی خاص عقیدے پر کاربند ہوں، میں اتنا جانتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے بنایا ہے اس نے اپنے کو میرا بنالیا ہے جان واٹسن لکھتے ہیں کہ ’’ٹیگور کا مذہب خدا اور فطرت سے محبت تھی‘‘۔ مورخین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے۔ البتہ وہ اسی فلسفے سے متاثر تھے جس سے ہمارے بہت سے غالی صوفیاء بھی متاثر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے خدا کے قائل تھے جو بے نیاز ہو، زمان ومکان سے ماورا ہو اور کائنات کا تنہا خالق وہادی ہو۔ البتہ وہ وحدت الوجود کے عقیدے سے سخت متاثر تھے۔
ٹیگور فلسفیانہ تصوف سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے مذہب اور خدا کے تعلق سے منقول بہت سے اقوال سے ایسا لگتا ہے گویا وہ اسی تصوف سے ماخوذ تھے۔ غالی صوفیاء کے یہاں ایک موضوع حدیث کا بڑا رواج رہا ہے: ’’كنت كنزا مخفيا۔۔۔‘‘ میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے جانا جائے لہذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ ٹیگور نے اس سے ملتی جلتی ہی ایک بات کہی ہے ’’ خدا نے تخلیق کے ذریعے اپنے کو جانا‘‘۔ ایک دوسرے موقع پر وہ کہتے ہیں کہ ’’اصل عبادت اس کے سامنے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے‘‘۔
ٹیگور کے اس نظم سے متعلق تنازعہ ان کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا، جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ نے یہ ترانہ شاہ جارج پنجم کے لیے لکھا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ: ’’میں صرف اپنی ہی بے عزتی کرتا اگر میں بادشاہ کی تعریف کرتا، یہ میری حماقت ہوتی اگر میں جارج کو – چہارم ہو کہ پنجم- خدائے صمد (کہ جس نے ہمیشہ اپنے طالبوں کی راہنمائی کی ہے) قرار دیتا‘‘۔اس اقتباس سے اندازہ ہوا کہ نہ تو ٹیگور نے وہ ترانہ شاہ جارج کے لیے لکھا تھا اور نہ ہی بھارت ماتانامی کسی معبود کے لیے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹیگور کا خدا کے بارے میں کیا تصور تھا۔ اب آئیے ’امرت بازار پتریکا‘ کی 28 دسمبر 1911ء کی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے: ’’کانگریس کی کارروائی کا آغاز بنگلہ میں لکھی حمد سے ہوا‘‘۔
اس پورے پس منظر اور شاعر کے مذہبی رجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب آپ ترانہ ہندی کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
’’ائے بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے تیری جئے ہوتیرا نام ہی، پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا عللاقوں کے دلوں میں بلند ہے
دراوڈ، اتکل اور بنگال میں بھی
تیرا ہی نام وندھیہ اور ہمالہ کی پہاڑیوں میں گونجتا ہے
جمنا اور گنگا کے پانی میں یہی رواں دواں ہے
مذکورہ علاقے تیرا ہی نام گنگناتے ہیں
اور تجھ سے ہی دعائیں مانگتے ہیں
وہ صرف عظیم فتوحات کے نغمے گاتے ہیں
ان لوگوں کی نجات تیرے ہی ہاتھوں ہے
اے بھارت کی منزل کا فیصلہ کرنے والے، عوام کے ذہن و دلوں پر حکومت کرنے والے
تیری جئے ہو، تیری جئے ہو، تیری جئے ہو‘‘
برصغیر میں شروع سے ہی ذات پات اور چھوت چھات کا نظام موجود تھا۔ کچھ ذاتوں کے لوگوں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔ سماج میں عدم مساوات پائی جاتی تھی۔ رابندر ناتھ ٹیگور اس کے سخت مخالف تھے۔ ٹیگور معاشرے میں برابری کے قائل تھے۔ اور قومیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تفریق کی سخت مذمت کرتے تھے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کے نزدیک راشٹرواد یعنی قومیت کا تصور یہی تھا کہ تمام انسان بغیر کسی بھید بھاؤ کے آپس میں مل جل کر بحیثیت ایک قوم کے امن و سکون کے ساتھ رہیں۔ ان میں آپسی تعصب و فرقہ پرستی نہ ہو اور عوام کے مختلف طبقات میں سے کسی کا استحصال نہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ٹیگور کے قومیت کے اس نظریے کو فروغ نہیں مل سکا۔ اس میں ذات پات، اونچ نیچ، بھید بھاؤ کے نظام، مختلف مذاہب اور نسلوں کے درمیان اختلافات نے اہم کردار ادا کیا اور پھر انگریزوں نے سوشلزم اور جمہوریت کے پر فریب نعروں سے ایک دوسری قومیت کے نظریہ کو فروغ دیا۔ جس کے ذریعے وہ اپنے مقصد کو پاتے گئے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی دور رس نگاہوں نے وقت کی اس چال کو بھانپ لیا تھا۔ اور اس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ٹیگور نے قومیت اور وطنیت کے جذبات کو صرف انسانیت کے دائرے میں محدود رکھا اور مذاہب کی بات اس میں شامل ہی نہیں کی۔رابندر ناتھ ٹیگور ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے تھے جس کی بنیاد روحانیت پر ہو نہ کہ مادیت پر۔ لیکن آج رابندر ناتھ ٹیگور کی ظاہری شخصیت کو اپنا کر ان کے نظریات کی بات کرنے والے انسانیت کی کسوٹی پر کہاں پورے اترتے ہیں؟
***

پچھلے دنوں رابندر ناتھ ٹیگور کا چرچا قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ رہا۔ دراصل ہمارے وزیر اعظم نے اپنے ظاہری لبادے کو کیا بدلا ان کے اندھے بھکت رابندر ناتھ ٹیگور سے ان کا تقابل کرنے لگے۔ ان کے افکار و نظریات کا ان پر اطلاق کرنے لگ گئے۔ کیا صرف ویراٹ کوہلی یا ہالی ووڈ کے اداکاروں کے طرز پر داڑھی بنانے سے آپ کے نظریات اور افکار رابندرناتھ ٹیگور سے مماثلت اختیار کرسکتے ہیں؟ جبکہ رابندر ناتھ ٹیگور کے نظریات موجودہ حکمراں جماعت کے نظریات سے بالکل مختلف ہیں۔ لیکن عوام کو گمراہی میں مبتلا کرنے کا فن حکمراں جماعت کے اعلیٰ خواص میں شامل ہے۔