قصرِ ابیض سے زنداں کی سلاخوں کا منظر

صدارتی استثنیٰ ختم ہونے کے بعد ٹرمپ کے لیے قانون کے چنگل سے بچنا مشکل

ڈاکٹر سلیم خان

 

امریکی انتظامیہ اتنا سنگدل بھی نہیں کہ اپنے سابق صدر کو گوانتانا موبے کی جیل بھیج دے۔ جو بائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے سارے قصور معاف کر دیں گے۔ انتظارِ بسیار کے بعد امریکہ کے صدارتی انتخابات 2020کا آخری نتیجہ آ ہی گیا اور اس میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کامیاب قرار پائے۔ ریاست جارجیا میں 12ہزار سے زیادہ ووٹوں سے جیت کے بعد جو بائیڈن کے الیکٹورل ووٹ میں مزید 16 کا اضافہ ہوا۔ جارجیا کی جیت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہاں پر ڈیموکریٹک پارٹی کو 25برس بعد کامیابی ملی ہے۔ 1996کے بعد سے یہ ریاست ریپبلکن صدارتی امیدواروں کے زیر اثر تھی۔ اس قلعہ کو فتح کر کے بائیڈن اب 306 پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہی جادوئی عدد ہے جسے حاصل کرکے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ ہیلری کلنٹن کو اس کی شکایت نہیں تھی کہ زیادہ مجموعی ووٹ حاصل کرنے کے باوجود انہیں فتح کیوں نہیں ملی۔ 232الیکٹورل ووٹ پانے والی ہیلری نے اپنے حریف ٹرمپ کو فون پر مبارکباد دے کر ہار تسلیم کر لی لیکن ٹرمپ سے یہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ ٹرمپ کی بد حواسی سہیل احمد زیدی کے اس شعر مصداق ہو گئی ہے؎
دو پاؤں ہیں جو ہار کے رک جاتے ہیں
اک سر ہے جو دیوار سے ٹکراتا ہے
جارجیا میں چراغ بجھ جانے کے بعد یہ امید تھی کہ صدر ٹرمپ عقل کے ناخن لے کر دانشمندانہ بیان دیں گے لیکن انہوں نے پھر وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے ٹوئٹ کر دیا کہ جارجیا کی مختلف کاؤنٹیز میں ہزاروں ایسے ووٹ ملے ہیں جنہیں گنا نہیں گیا۔ یہ ووٹ کسے ملے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا؟ ممکن ہے ٹرمپ نے خوابوں میں اسے دیکھا ہو اور وہ ہنوز مونگیری لال کے حسین سپنوں میں کھوئے ہوئے ہوں اس لیے کوئی ہوش مند انسان تو یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ بہت جلد جارجیا کے نتائج ریپبلکن کے حق میں آجائیں گے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ بظاہر یہ تسلیم کیا تھا کہ جو بائیڈن صدارتی الیکشن جیت گئے ہیں لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ صدر ٹرمپ کسی ثبوت کے بغیر ٹوئٹ کیے چلے جارہے ہیں کہ اُن کی شکست کی وجہ دھاندلی ہے لہذا وہ انتخابی بے قاعدگیوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کریں گے حالانکہ ان کے حامیوں کو ووٹوں کی گنتی میں بے قاعدگی کے تعلق سے کئی مقدمات میں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یہ ایسی ہی حالت ہے گویا؎
اک موج فنا تھی جو روکے نہ رکی آخر
دیوار بہت کھینچی دربان بہت رکھا
صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ’’ووٹوں کی گنتی کے لیے کسی کو مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ووٹوں کو ایک بنیاد پرست بدنامِ زمانہ بائیں بازو کی پرائیویٹ پارٹی نے ترتیب دیا‘‘۔ فی الحال چونکہ ذرائع ابلاغ نے بھی ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اس لیے وہ الزام لگاتے ہیں کہ میڈیا جعلی اور خاموش اور بہت کچھ ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق بائیڈن محض جعلی میڈیا کی نظروں میں جیتے ہیں۔ وہ اپنی شکست نہیں مان رہے ہیں اور اب اس دھاندلی زدہ الیکشن میں طویل راستہ طے کرنا ہے۔ اس کے برعکس انتخابی عہدے دار فراڈ کے ثبوت کا انکار کرتے ہیں۔ کسی صدر کے ذریعہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار چونکہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے اس لیے جو بائیڈن دھاندلی کے الزامات اور اقتدار منتقل کرنے میں روڑے اٹکانے کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب میں شکست کا علم ہے۔ بائیڈن فی الحال حکومت سازی کے لیے مشاورت میں مصروفِ عمل ہیں تاکہ مستقبل کی کابینہ کے لیے وزراء نامزد کیے جاسکیں۔ بائیڈن کی20 جنوری کو حلف لینے کی تیاری بھی جاری ہے۔
ایسے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے اس لیے وہ دیوار پر لکھی یہ تحریر پڑھنے سے قاصر ہیں۔ کوئی کہتا ہے وہ خوفزدہ ہیں۔ کسی کے نزدیک یہ اڑیل رویہ انتخابی عمل کو ناکارہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ امریکی عوام و خواص فی الحال عجیب الجھن میں مبتلا ہیں۔ ویسے یہ تینوں باتیں کسی نہ کسی حد تک درست ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عدل و مساوات کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والی جمہوریت میں ایک عام شہری کو اقتدار پر فائز ہوتے ہی تمام فوجداری اور دیوانی مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہو جاتا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مراعات کا بھرپور فائدہ اٹھایا مگر اب یہ ان سے چھن کر دشمنوں کو ملنے والی ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اپنے مخالفین پر اقتدار کے سبب جو زیادتیاں وہ کرتے تھے اب اس کا شکار خود ہوں گے۔ ٹرمپ کو انتقام کے خوف نے باولا کر دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ صدرات کے ختم ہوتے ہی ان کی دنیا بدل جائے گی۔ تحقیقات پر قدغن لگانے کے صدارتی اختیار سے وہ محروم ہو جائیں گے۔ ان کے لیے اپنی ذات اور اپنے تجارتی اداروں کے جرائم کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے خلاف مختلف النوع مقدمات کی فہرست بہت توانا اور طویل ہے۔ ان میں اقرباء کی حق تلفی اور بدعنوانی سے لے کر جنسی ہراسانی تک کے سنگین الزامات ہیں۔
دورانِ اقتدار عام طور پر رشوت لینے کا الزام لگتا ہے جیسا کہ رافیل معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی پر لگا لیکن صدر ٹرمپ پر دینے کے دلچسپ الزامات ہیں۔ فحش فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ سٹرامی ڈینیل کے مطابق 2006 میں اس سے ڈونلڈ ٹرمپ نے جنسی تعلق قائم کیا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ فحش جریدے پلے بوائے کی ماڈل کیرن میکڈوگل کے ساتھ بھی تھا۔ ان دونوں خواتین کا دعویٰ ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل انہیں چُپ رہنے کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔ ان لوگوں نے 2018 میں لب کشائی کر کے ٹرمپ کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ان جرائم سے متعلق تفتیش میں یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ اس معاملے میں کسی وفاقی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟ اس بات کو ٹرمپ کے سابق نجی سکریٹری مائیکل کوہن نے تسلیم کرلیا کہ انہوں نے دونوں خواتین کو رقم کی ادائیگی کی تھی جو انتخابی مہم کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس جرم کی پاداش میں 2018 کے اندر کوہن کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی یعنی جرم ثابت ہو چکا ہے۔ مائیکل کوہن یہ کہہ چکے ہیں انہوں نے اپنے آقا کی ایما پر یہ رقم ادا کی تھی لیکن صدر ہونے کے سبب ٹرمپ بچ گئے ورنہ ان کو بھی سزا ہوتی لیکن جب صدارت کی کرسی نہیں ہوگی تب کیا ہوگا؟ استغاثہ اگر ثابت کر دے کہ ٹرمپ نے واقعی مائیکل کوہن کو ادائیگی کا حکم دیا تھا تو سابق صدر پر فرد جرم عائد ہو جائے گی اور اس کے لیے وافر مقدار میں شواہد مل جائیں گے۔
صدر ٹرمپ کے خلاف دوسرا متوقع مقدمہ ان کی کمپنی کے حساب کتاب میں فراڈ کا ہے۔ اس معاملے کی تفتیش ضلع مین ہٹن کے اٹارنی جنرل سائرس وانس کر رہے ہیں۔ نیو یارک کے قوانین میں کاروباری ریکارڈ میں رد وبدل کے جرم کی سزا ایک سال قید ہے لیکن اگر یہ خرد برد ٹیکس فراڈ سے جڑ جائے تو سنگین جرم بن کر مجرم کی سزا کو طویل کر دیتا ہے۔ اٹارنی جنرل وانس نے صدر ٹرمپ اور ان کے تجارتی ادارے سے آٹھ سال کا فینانشیل ریکارڈ طلب کر کے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے مذکورہ دستاویزات کو پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے اگر سب کچھ صاف و شفاف ہے تو اسے کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ صدر ٹرمپ نے انتخابی نتائج کی مانند ٹیکس چوری کے الزامات کو بھی فیک نیوز کہہ کر رد کر دیا تھا۔ انہوں نے اسے عدالتی ہراسانی کا نام دیا لیکن وفاقی جج نے ان کے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ کے ٹیکس کے گوشواروں کی تفتیش کے بعد ہی یہ پتہ چلے گا کہ ان کے خلاف کیا مقدمہ بنتا ہے؟ لیکن ان کا خوف چور کی ڈاڑھی میں تنکے کے مترادف ہے۔
ٹرمپ کا ماضی سیاسی نہیں بلکہ تجارتی ہے۔ تعمیرات کا کاروبار ان کو وراثت میں ملا ہے۔ بشمول ممبئی دنیا کے مختلف بڑے شہروں میں ٹرمپ ٹاور موجود ہیں۔ ان کا شمار دنیا کے بڑے رئیل اسٹیٹ تاجر (Tycoons) میں ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل لتیتیا جیمز ان کی رئیل اسٹیٹ کمپنی کے خلاف ممکنہ فراڈ کی تحقیق کررہی ہیں۔ نیویارک کی یہ اٹارنی جنرل مارچ 2019 سے صدر ٹرمپ کے اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے ممکنہ غلط بیانی کا پتہ لگانے میں مصروف ہیں۔ صدر ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن کے مطابق انہوں قرضوں کے حصول کی خاطر اپنی جائیدادوں کی قیمت بڑھا چڑھا کر پیش کی جبکہ ٹیکس چرانے کے لیے ان کی مالیت کو کم کر کے بتائی گئی یعنی ڈبل کا میٹھا (دوہرا فائدہ)۔ امریکی کانگریس (پارلیمان) کے سامنے مائیکل کوہن کی گواہی نے اثاثوں کے حوالے سے متوقع بدعنوانی کی جانب واضح اشارہ کیا ہے۔ اس ادارے کے نائب صدر ایرک ابن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے والد کی مانند اس کارروائی کو سیاسی عداوت پر مبنی بتایا لیکن اس کے باوجود انہیں نیویارک اٹارنی جنرل کے دفتر میں جا کر اپنا بیان درج کرانا پڑا۔ ٹرمپ پر چوتھا معاملہ دورانِ صدارت مالی فوائد کے حصول کا ہے۔ امریکی آئین کے مطابق صدر سمیت کسی بھی وفاقی عہدیدار کو دوسرے ملک سے مالی فائدہ قبول کرنے سے قبل کانگریس (ایوان) کی اجازت لازمی ہے۔ ٹرمپ پر ایک کے بجائے تین تین ایسے مقدمات درج ہیں جن میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ مذکورہ اجازت کے بغیر بیرونی ممالک سے فوائد حاصل کیے گئے مثلاً دارالخلافہ واشنگٹن میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل میں غیر ملکی اہلکاروں کو ٹھہرانے کا معاملہ وغیرہ۔ صدرٹرمپ اس دستوری خلاف ورزی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اسے بیہودہ الزام کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ماضی میں امریکی صدور اپنے دور اقتدار میں اس طرح دولت کماتے رہے ہیں۔ ٹرمپ کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ تو اس الزام کی تردید کرتے ہیں اور نہ کوئی توجیہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ دوسروں کی قانون شکنی کو اپنے حق میں نظیر بنا کر پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ملک کا سربراہ مملکت ہی اگر آئین کو ببانگ دہل پامال کرنےلگے تو پھر عوام سے کیا توقع کی جائے؟
صدر ٹرمپ کا پانچواں سنگین ترین معاملہ جنسی ہراسانی کا ہے۔ یہ دراصل امریکی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلمانوں پر مغرب کا یہ اعتراض ہے کہ وہ اپنی خواتین کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔ گورے بڑے فخر سے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ یوروپ اور امریکہ میں عورتیں محفوظ و مامون ہوگئی ہیں ان کی عزت و وقار بحال ہو گیا ہے اس تناظر میں ان الزامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ پر جنسی بے راہ روی کے کئی مقدمات ہیں جنہیں وہ فیک نیوز کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ 2016 میں جب صدر ٹرمپ صدارتی مہم چلا رہے تو کئی عورتوں نے ان پر دست درازی کا الزام عائد کیا تھا۔ ٹرمپ نے ان الزامات کو بے بنیاد اور بد نیتی پر مبنی قرار دے کر رد کر دیا تھا اور عوام نے بھی یقین کرلیا تھا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہوں الزام لگانے والی خواتین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی تک دی تھی مگر اس کی جرأت نہیں کر سکے، الٹا ان عورتوں نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات دائر کر دیے۔
اس طرح کے سنگین معاملات میں ٹرمپ کی نا پاک ذہنیت کا اندازہ ان کے معروف صحافی جین کیرول کو دیے جانے والے جواب سے لگایا جا سکتا ہے۔ کیرول نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1990 میں مین ہٹن کی ایک دوکان کے ڈریسنگ روم میں ان کی عصمت ریزی کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ ان جیسی عورتوں کو وہ پسند نہیں کرتے یعنی اگر وہ پسندیدہ ہوتی تو اس کی عصمت ریزی ضرور کرتے! کیرول نے اس بیان کو بنیاد بنا کر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اسی طرح کا مقدمہ سمر زرواس نے بھی دائر کیا ہوا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملازمت کی تلاش کے دوران ان کی عزت تار تار کی تھی۔ صدر ٹرمپ اس الزام کو مس زرواس کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں۔ دورانِ صدارت ٹرمپ کے وکلا نے صدارتی استثنیٰ کا فائدہ اٹھایا مگر 20 جنوری 2021 کے بعد جب وہ عام شہری بن جائیں گے تو یہ تحفظ ختم ہو جائے گا اور شواہد کے جمع کرنے کا آغاز ہو جائے گا۔صدر ٹرمپ کے خلاف غیروں کے علاوہ ان کی بھتیجی میری ٹرمپ نے بھی مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اپنے الزامات کی تفصیل درج کی ہے۔ میری کا الزام ہے کہ ان کے والد کی وفات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے بھائیوں نے خاندانی کاروبار میں ان کا حصہ غصب کر لیا۔میری ٹرمپ اس فراڈ کو خاندانی پیشہ ہی نہیں بلکہ طرزِ زندگی قرار دیتی ہیں۔ وہ نرگسیت کے شکار چچا کو دنیا کا خطرناک ترین آدمی گردانتی ہیں۔میری ٹرمپ کی شکایت ہے کہ جب ان کے 42 سالہ والد فریڈ ٹرمپ جونیئر کا 1981 میں انتقال ہوا تو ان کی عمر 16برس کی ہونے کے سبب وہ چچا کی کفالت میں تھیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے جھوٹ اور فراڈ کے ذریعہ انہیں مالی نقصان پہنچایا۔ میری ٹرمپ نے پانچ لاکھ امریکی ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر مسترد تو کر دیا لیکن ہنوز مقدمے میں جواب نہیں داخل کیا۔ اب اگر عدالت سے دستاویزات پیش کرنے کا حکم آتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی استثنیٰ کا سہارا نہیں لے سکیں گے اور الزامات کے درست ہونے کی صورت میں ہرجانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ صدر ٹرمپ پر لگنے والے ان الزامات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظام جمہوریت کی مدد سے کیسے کیسے بد کردار لوگ اقتدار کی کرسی پر فائز ہو جاتے ہیں۔ یہ نظام ان کو اقتدار میں آنے سے روکتا تو کیا ہے الٹا ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس موقع پر جبکہ ٹرمپ کی سفاکی کا دور آخری سانسیں لے رہا ہے اس کے ابتدائی دور کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ آج کل جو صدر جیل جانے کے ڈر سے تھر تھر کانپ رہا ہے اس کا چار سال قبل بغیر سوچے سمجھے بے قصور لوگوں کی سزا کو طول دے دینے کی یاد آتی ہے۔ ٹرمپ کے ظلم کا آغاز عہدہ سنبھالنے سے دو ہفتے پہلے ہی ہو گیا تھا جبکہ اس رعونت پسند شخص نے ایک ٹویٹ میں لکھ دیا تھا کہ ’گوانتانا موبے سے مزید رہائیاں نہیں ہوں گی۔ یہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں اور ہمیں ان کو جنگ کے میدان میں واپس آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘ ٹرمپ کا یہ ٹوئٹ سرزمین امریکہ پر قانون کی حکمرانی کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے لیکن اب جبکہ اس کے سر سے اقتدار کا نشہ اترنے لگا ہے تو اس رعونت پسند صدر کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ؎
وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
لباس پہنے رہا اور بدن اتار گیا
ٹرمپ کی اس احمقانہ سفاکی کا نتیجہ یہ ہوا کہ گوانتانا موبے میں رہائی کی تیاری کرنے والے عبد اللطیف ناصر کی ساری امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ان کو اس بدنام زمانہ جیل میں 14 سال بطور قیدی گزارنے کے بعد آزادی کا پروانہ مل چکا تھا۔ وہ اپنی مرتب کردہ 2 ہزار الفاظ کی انگریزی عربی لغت کے ساتھ آزاد فضاؤں میں سانس لینے کی تیاری کر رہے تھے۔ مراقش میں ان کے بھائی نے ناصر کے لیے ملازمت تک تلاش کرلی تھی اور اہل خانہ نےدلہن بھی دیکھ لی تھی۔ سبھی لوگ رہائی کے منتظر تھے کیونکہ حکومتی ایجنسیاں ان پر کوئی الزام تک عائد نہیں کر سکی تھیں۔ ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ نے ان سب کے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ اس موقع پر ناصر نے اپنے وکیل سے کہا تھا ’کسی کی آزادی کو سلب کرنا، جبکہ اس کو جانے کی اجازت بھی مل گئی ہو، انتہائی درد ناک عمل ہے۔‘ ناصر کے علاوہ مزید 4 قیدیوں کی رہائی کا اجازت نامہ بھی بلا کسی جواز کے رد کر دیا گیا۔ دوسروں کو بلا جواز جیل کی سلاخوں میں ٹھونس دینے والا ظالم صدر آج خود جیل جانے کے خوف سے کانپ رہا ہے۔ یہ اللہ کی لاٹھی ہے جس میں آواز نہیں ہوتی۔ دنیا میں اس کی سزا عارضی ہے مگر آخرت میں لامتناہی ہے۔ یہاں تو انسان بچ بھی جاتا ہے لیکن قیامت کے دن کوئی اقتدار اور کوئی نظام یا فوج ظالموں اور جابروں بچا نہیں سکتی۔
***

دوسروں کو بلاجواز جیل کی سلاخوں میں ٹھونس دینے والا ظالم صدر آج خود جیل جانے کے خوف سے کانپ رہا ہے۔ یہ اللہ کی لاٹھی ہے جس میں آواز نہیں ہوتی۔ دنیا میں اس کی سزا عارضی ہے مگر آخرت میں لامتناہی ہے۔ یہاں تو انسان بچ بھی جاتا ہے لیکن قیامت کے دن کوئی اقتدار اور کوئی نظام یا فوج ظالموں اور جابروں بچا نہیں سکتی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020