قرض چوری کا بڑھتا بحران

بینکوں سے 100 قرض نا دہندوں کے62 ہزار کروڑ روپے کے قرضے معاف

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

بسواناتھ گوسوامی نے قانون حق اطلاعات (آرٹی آئی) کے تحت ایک درخواست دائر کی جس میں انہوں نے ریزرو بینک آف انڈیا سے بینکوں کے قرض معافی سے متعلق سوالات کیے تھے۔ وہاں سے حاصل شدہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ قومیائے ہوئے بینکوں نے مارچ 2020تک ایک سو دانستہ قرض نادہندگان کے تقریباً باسٹھ ہزار کروڑ روپے کے قرض معاف کر دیے ہیں یعنی ایسے قرض دہندگان جو اپنے قرض واپس نہیں کر رہے ہیں ان کے قرض کو معاف کر دیا۔ بسواناتھ گوسوامی نے ٹویٹ کیا ’’آر بی آئی نے بڑے شش و پنچ اور بہت ہی ٹال مٹول کے بعد بڑے قرض نادہندگان کا ڈیٹا شائع کیا ہے۔ یعنی آخر کار بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ عوام کے پیسے کے ساتھ بینکوں نے کھلے عام گھوٹالا اور جعلسازی کی ہے‘‘۔ گوسوامی نے کہا ’’آر ٹی آئی کے جوابات میں تاخیر اور معلومات فراہم نہ کرنا اس بات کا ایک بین ثبوت ہے کہ ان مالی اداروں میں دیانتداری اور شفافیت کی بے انتہا کمی پائی جاتی ہے‘‘۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے جو اعداد وشمار بسواناتھ گوسوامی کی درخواست پر فراہم کیے ہیں ان کے مطابق مہول چوکسی ان میں سرِ فہرست ہیں۔ ان کی گیتانجلی جیولرس نے جو قرض لے کر واپس نہیں کیا اس کا (این پی اے) 5071 کروڑ روپے ہے۔ بینکوں نے ونسوم ڈائمنڈز کے 3098 کروڑ، باسمتی چاول کی کمپنی REI ایگرو کے2789 کروڑ، کیمیائی مرکبات ایجنسی کڈوس کیمی کے 1979 کروڑ، تعمیراتی ایجنسی زوم ڈویلپرز کے1927 کروڑ، جہاز سازی کی کمپنی اے بی جی شپ یارڈ کے 1875 کروڑ، وجے مالیا کی کنگ فشر ایئر لائن کے 1314 کروڑ ، فارایور پریشیس جیولری اینڈ ڈائمنڈس کے 1715 کروڑ، سوریہ دنایک انڈسٹری کے 1629 کروڑ، ٹانسوٹری انڈیا کے 1446 کروڑ، فارسٹ انٹرنیشنل کے 1428 کروڑ، یس کمارس نیشن وائیڈ کے 1363 کروڑ، وی یم سی سسٹمس کے 1324 کروڑ، روٹومیک گلوبل کے 1302 کروڑ اور دکن کرانیکل ہولڈنگس کے 1294 کروڑ روپے غیر کارکرد اثاثوں (نان پرفارمنگ اسیٹس) میں درج کر دیے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی مالیاتی ادارے نے اگست کے آخری مہینے میں گوسوامی کی طرف سے دائر کردہ آر ٹی آئی کی درخواست کے جواب میں سو بڑے اور نامور قرض نادہندگان کے بارے میں تفصیلات دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے آر بی آئی سے اس کی شکایت کر دی اور اسے چیلنج کر دیا تب جا کر آر بی آئی نے ان کی تفصیلات فراہم کیں۔ آر بی آئی بینکوں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ چار سال پرانے این پی اے رائٹ آف کر دیں تاکہ نئے سرے سے قرض فراہم کیے جاسکیں۔ بینک بھی قرضوں کو این پی اے میں لکھتے ہوئے اپنی بیلنس شیٹس برابر کر لیتے ہیں تاکہ ان کی بیلنس شیٹ صاف نظر آئے۔
قرضوں کو معاف کرنے سے بینکوں میں ان کے کھاتوں کی کتابوں کو توصاف کیا جاسکتا ہے اور ان کی بیلنس شیٹ کو برابر کرنے میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن اس سے قرضوں کی وصولی میں کوئی مدد نہیں مل سکتی نہ بینکوں کا نظام درست ہو سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے خطرے کو سامنے دیکھ کر شتر مرغ اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے۔ البتہ اس طرح کے قرض معاف کرنے سے بینک اپنی ساکھ ہی متاثر کرتے ہیں۔ جس بینک میں جتنے این پی اے ہوں گے وہ بینک اسی تناسب سے اپنی ساکھ کھو دیتا ہے کیونکہ این پی اے کا زیادہ تناسب یقینی طور پر نقدی یعنی لیکویڈیٹی کے مسائل پیدا کرتا ہے اور بینک میں نقد کے ختم ہونے کا خدشہ ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک بد ترین قرضوں کے بحران میں گھرا ہوا ہے۔ بینکوں نے 31 مارچ 2020 تک ایک سو قرض نادہندگان کے قرضوں کو معاف کر دیا ہے، یعنی انہیں غیر کارکرد اثاثوں میں درج کر دیا گیا، جس کی کل رقم 61949 کروڑ روپے ہے۔ جب کہ گزشتہ سال مارچ 2019 میں معاف کیے گئے قرضوں کی رقم 58375 کروڑ روپے تھی۔ یعنی ہر سال اس میں مسلسل اضاٖفہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یقیناً اس طرح کے این پی اے ملک میں بینکنگ کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیں گے۔ اسے دوسرے لفظوں میں این پی اے کا بحران قرار دیا جاسکتا ہے ۔
ساکت گوکھلے نامی ایک جہد کار نے بھی آر ٹی آئی درخواست دائر کی تھی۔ وہ اپنے 27 اپریل 2020کے ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’وایاناڈ کے ایم پی نے لوک سبھا میں سوال کیا تھا کہ پچاس دانستہ قرض نادہندگان کے نام بتائیں تو نرملا سیتا رمن نے ان کا جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے اسی سوال کو بنیاد بنا کر آر بی آئی سے پچاس قرض نادہندگان کے ناموں سے متعلق آر ٹی آئی دائر کی۔ آر بی آئی نے اس آر ٹی آئی کے جواب میں 30ستمبر 2019کو قرض نادہندگان اور ان کی واجب الادا رقم کی فہرست مجھے ارسال کی۔‘‘
’’آر بی آئی نے جو فہرست فراہم کی ہے وہ بھی نئی نہیں ہے، ان ناموں کی فہرست اس سے قبل ’دی وائر‘ نے بھی شائع کی تھی۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ آر بی آئی نے 30 ستمبر 2019 سے اب تک اس فہرست کو اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے۔ آر بی آئی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم قرض دہندگان کی فہرست کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرنے والی پناہ گاہوں میں ہی رہیں گے۔ ان پچاس قرض نادہندگان کی واجب الادا کل رقم 68607 کروڑ یعنی 8 بلین امریکی ڈالر ہے۔ بھارت نے کوویڈ-19 سے لڑنے کے لیے عالمی بینک سے جتنی رقم لی تھی یہ رقم اس سے آٹھ گنا زیادہ ہے یا یوں سمجھیے کہ کوویڈ-19 کے دوران مرکزی حکومت نے جو اسٹی میلس پیکیچ دیا تھا اس کا تیس فیصد یا پھر 45 کروڑ کوویڈ-19 ٹیسٹنگ کٹس کے برابر ہے۔
دی ویک میگزین نے ساکت گوکھلے کی آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی کے جواب کو شائع کیا ہے۔ پچاس ڈفالٹنگ کمپنیوں کی فہرست اور ان کمپنیوں کی واجب الادا رقم کی ساری تفصیلات اس میں درج ہے۔ ان پچاس لوگوں میں ہمارے وزیر اعظم کے عزیز دوست ’مہول بھائی‘ کی گیتانجلی جیولرس پہلے نمبر پر ہے۔ یہ شخص اب ملک سے فرار ہو کر ویسٹ انڈیز (جزائرِ غرب الہند) منتقل ہو چکا ہے اور اس نے وہاں کی شہریت بھی اختیار کر لی ہے جبکہ اس کا بھتیجا ایک اور مفرور ہیروں کا سوداگر نیرو مودی ہے جس نے ملک سے بھاگ کر لندن میں پناہ لی ہے اور وہاں کا شہری بھی بن گیا ہے۔ ایک اور حیرت انگیز انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ مرکزی بینک نے بابا رام دیو اور بل کرشنا کی کمپنی روچی سویا انڈسٹریز لمیٹڈ کے 2212 کروڑ روپے قرض بھی معاف کر دیا ہے۔
یہ خطیر رقم جو ان کمپنیوں کے مالکین نے بینکوں سے بطور قرض لی ہے وہ آخر کس کی ہے؟ یقیناً یہ عوام کا ہی پیسہ ہے عوام ہی اپنے محنت کی کمائی ان بینکوں میں جمع کرتے ہیں اسی رقم سے بینک دوسروں کو قرض دیتے ہیں۔ آر بی آئی جو آزاد ادارہ ہے وہ بینکوں کو کہتا ہے کہ ان قرض چور کمپنیوں کے قرضے یک لخت معاف کر دے، آخر وہ کس اختیار سے یہ کہہ سکتا ہے کہ قرض کی رقم معاف کر دی جائے؟ ایک طرف کسان اگر قرض لیتے ہیں تو ان کو ہر طرح سے تنگ کیا جاتا ہے، قرض واپسی کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے جب کہ ان کے قرض محض چند ہزار روپے ہوتے ہیں۔ قرض کی واپسی کے لیے انہیں اس قدر پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ عدم ادائیگی پر خود کشی تک کر لیتے ہیں۔ نہ تو آر بی آئی اور نہ ہی حکومت کو کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کسانوں کے قرضوں کو معاف کیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو صرف انتخابات میں ہی کسان نظر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشوروں میں، انتخابی جلسوں میں بلند بانگ دعوے کرتی ہیں کہ وہ کسانوں کے قرضوں کو معاف کر دیں گی لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کسانوں کے قرض معاف بھی کرتے ہیں تو کسی کے پچاس روپیہ تو کسی کے پانچ سو روپیہ گویا حکومت کسانوں پر احسان کر رہی ہو۔ حقیقت میں یہ کسانوں کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ان ٹیکس چوروں اور قرض چوروں کو پکڑے ان سے وصول شدنی خطیر رقم وصول کرے جو مفرور ہوئے ہیں چاہے جس ملک میں بھی وہ فرار ہوئے ہوں وہاں سے ان کو گرفتار کر کے لائے، ان کی زمینوں اور جائیدادوں کو قرق کرے ان لوگوں نے جہاں بھی رقم چھپا کر رکھی ہو اسے ملک واپس لائے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ عوام کا پیسہ محفوظ رہ سکے اور ملک میں بینکوں کا نظام صحیح چل سکے ورنہ وہ دن دور نہیں جب بینک نقدی کے بحران سے دوچار ہوں گے اور دیوالیہ کا شکار ہو جائیں گے۔
***

قرضوں کو معاف کرنے سے بینکوں میں ان کے کھاتوں کی کتابوں کو توصاف کیا جاسکتا ہے اور ان کی بیلنس شیٹ کو برابر کرنے میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن اس سے قرضوں کی وصولی میں کوئی مدد نہیں مل سکتی نہ بینکوں کا نظام درست ہو سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے خطرے کو سامنے دیکھ کر شتر مرغ اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021