قرآن مجید: مؤمنوں کے غلبے کا نسخۂ کیمیا

کلام الٰہی میں پیش کردہ کرداروں میں نوع انسانی کے لیے رہنمائی

ابو فہد ، دلی

حالات چاہے دشوار گزار ہوں یا پرسکون، معمول کے ہوں یا ہنگامی قرآن مجید تمام حالات میں مکمل رہنمائی فراہم کرنے والی کتاب ہے۔ چناں چہ حضرت یوسف کواندھے کنوئیں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے جاتے ہیں، حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں زندگی کے کئی دن گزارتے ہیں، حضرت موسیٰؑ شیرخوارگی کے ایام میں ہی دریا کی موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ حضرت نوحؑ دنیا کے سب سے بڑے طوفان کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حضرت لوطؑ کے ساتھ جو کچھ ان کی قوم کی طرف سے پیش آیا دنیا کی تاریخ میں کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ جب محلے کے لوگ نوخیز خوبصورت لڑکوں کے بارے میں سن کر جو فی الحقیقت فرشتے تھے، ان کے گھر کی دیوار کود کر اندر گھس آتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ لڑکے ان کے حوالے کر دیے جائیں تاکہ وہ اپنی ہوس پوری کر سکیں۔ حضرت محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں نے پوری زندگیاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر گزار دیں، تین سال کی طویل مدت تک سماجی ومعاشی بائیکاٹ کی صعوبتیں برداشت کیں اور ایک نہیں بلکہ دو بار اپنے پیارے وطن مکہ مکرمہ کو چھوڑا۔ ان کے علاوہ دیگر انبیاء کرام کے واقعات بھی اسی نوعیت کے ہیں، پھر قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں ہیں اور عبرت انگیز واقعات ہیں۔
قرآن میں مذکور یہ سب واقعات اور تفصیلات نارمل زندگی کا بیان نہیں ہے بلکہ ہنگامی، ایمرجنسی اور دھماکہ خیز صورت حال کا پتہ دیتے ہیں۔ قرآن میں جتنے بھی کرداروں کو پیش کیا ہے، خاص طور پر انبیاء کرام کے واقعات، وہ سب کے سب خصوصی نوعیتوں اور نسبتوں کے حامل ہیں۔ ان کی زندگی میں تو بے شمار واقعات پیش آئے ہوں گے مگر قرآن میں ان میں سے صرف چند ہی کو جگہ مل سکی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن نے چیدہ چیدہ واقعات ہی کو لیا ہے، جو اپنے آپ میں حیران کن ہیں اور اللہ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہیں۔ اور پھر انہیں مختصر ترین لفظوں میں بیان کیا ہے۔ پھر انہیں اتنے دلکش انداز بیان اور حسن وزیبائی کے ساتھ معرض اظہار میں لایا گیا ہے کہ قرآن سے محبت کرنے والا ہر صاحب ایمان اس قرآن کو اپنی زندگی میں ہزاروں بار پڑھتا اور سنتا ہے مگر اسے کبھی سیری نہیں ہوتی۔
ان تمام خصوصیات اور صفات کی بنا پر قرآن ایسا کلام بن جاتا ہے جو کبھی فرسودہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ الفاظ وہی ہوتے ہیں جن سے دیگر تحریریں اور کتابیں ترتیب دی جاتی ہیں اور میٹر وہی ہوتا ہے جو انسانوں کے ذریعہ لکھی گئی کتابوں میں سمیٹا اور پھیلایا جاتا ہے۔
اسی طرح قرآن کا بیان اکہری نوعیت کا نہیں ہے۔ قرآن میں ہے:
’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پیشتر کی امتوں پر ڈالا تھا‘‘ [البقرۃ : 286]
یہ ایک دعا ہی ہے مگر اس میں ایک تاریخی شہادت بھی آگئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی امتوں کو ایسی شریعتیں دی گئی تھیں جن پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو قرآن کا بیانی اکہری نوعیت کا نہیں رہ جاتا، بلکہ متعدد نوعیتوں اور پہلؤوں کا حامل بن جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک دعا ہے مگر اس سے یہ تاریخی شہادت بھی ملتی ہے کہ سابقہ امتوں کے لیے جو شریعتیں تھیں وہ آخری امت کو دی گئی شریعت سے نہ صرف یہ کہ مختلف تھی بلکہ وہ کافی سخت اور مشکل بھی تھی۔
نیز قرآن کا بیان ایسی قطعیت والا بھی نہیں کہ جس میں استثنیات نہ ہوں،بلکہ قرآن کے بہت سارے بیانات میں استثنیات ہیں۔ مثلاً:
’’دیکھو! تم ہمت نہ ہارو اور کچھ غم نہ کرو، اگر تم اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘ [آل عمران:139]
اس آیت میں اہل ایمان سے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ صاحب ایمان رہے تو وہی سربلند رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سربلندی غیر مسلم اقوام کے مقابلے میں ہو گی۔ کئی اہل علم، موجودہ حالات کے تناظر میں اس آیت کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا تو ہم صحیح معنیٰ میں مسلمان نہیں ہیں یا پھر (نعوذ باللہ) قرآن کا بیان درست نہیں۔ جبکہ قرآن نے ایمان کا پیمانہ اور کسوٹی علمی یا عسکری غلبے کو نہیں بتایا کہ غلبہ ہے تو ایمان ہے اور غلبہ نہیں ہے تو ایمان نہیں ہے۔
دراصل قرآن کا بیان بالکل سچا ہے۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ اہل ایمان، ہر زمانے میں اور ہر مقام پر غیروں پر حاکم رہیں گے اور علمی میدانوں سے لے کر عسکری میدانوں تک ہر جگہ انہیں فوقیت حاصل ہو گی۔ بلکہ معاملہ اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں اہل ایمان صحیح معنیٰ میں صاحب ایمان ہوتے ہوئے بھی مغلوب ہوں، بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے وقت کی قوموں سے عسکری میدانوں میں ہار جائیں، یا کسی جگہ علمی میدان میں وہ بہت پیچھے رہ جائیں اور یہ عرصہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس سے اس آیت کی حقانیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ ویسے قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ میں ایک دو صدیوں کا عرصہ کوئی قابل ذکر بھی نہیں ہے۔
قرآن ہی کے بیان کے مطابق شکست وفتح، عروج وزوال اور غلبہ ومغلوبیت مختلف قوموں کے درمیان موجود رہتی ہے، یہی سنت اللہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور اصحاب رسول کے زمانے میں جو جنگیں ہوتی تھیں وہ بھی اہل کفر اور اہل ایمان کے درمیان ہوتی تھیں۔ مگر آخر کار سر بلندی اہل ایمان ہی کا مقدر ہوئی۔ ایسا ہوتا ہے کہ کئی بار جھوٹ اور جعل سازی سچائی اور حقیقت پر غلبہ پالیتی ہے اور غلبے کا یہ وقفہ طویل بھی ہو جاتا ہے، مگر آخر کار سچائی جھوٹ پر غالب آہی جاتی ہے۔ ایسے ہی حق اور باطل کا معاملہ ہے۔ قرآن میں ہے :
’’بے شک حق آتا ہے تو باطل ختم ہوجاتا ہےاور باطل کو تو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہے‘‘[الاسرا:81]
 یہ ایسے ہی ہے جیسے روشنی آتی ہے تو اندھیرا خود بخود ختم ہو جاتا ہے، حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے تو جعل سازی اور مکر وفریب کے سارے پردے تار تار ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایسا تو نہیں ہوتا کہ اندھیرا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہو اور جھوٹ کا وجود قیامت تک کے لیے مٹ جاتا ہو۔ حق آگیا ہے اور باطل پھر بھی موجود ہے، بلکہ آج کی دنیا میں بھی غالب اکثریت باطل ہی کی ہے، آج کی دنیا میں مسلمان محض بیس بائیس فیصد ہی ہیں۔ حضورﷺ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا، حتیٰ کہ جو دور اسلام اور مسلمانوں کے عروج کا دور کہا جاتا ہے اس میں بھی ایسا ہی تھا کہ مسلمان دنیا کی غیر مسلم آبادی کے مقابل اکثریت میں نہیں تھے۔
تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ کسی زمانے میں اہل ایمان کے پاس ہمہ جہت سر بلندی یا غلبہ نہیں ہے تو اس سے ان کے ایمان کی نفی ہو گئی۔ ہاں ایمان اور ایمان کے تقاضوں کی کمزوری ضرور کہہ سکتے ہیں۔ دراصل غلبہ یا سر بلندی حاصل کرنا بحیثیت ایک قوم اہل ایمان کے لیے ان کے ایمان کے تقاضوں میں سے ہے، اگر وہ غلبہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انہیں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جس جدوجہد اور جانفشانی کی ضرورت ہے وہ پوری طرح نہیں کر پا رہے ہیں۔ مغلوب رہنے سے ایمان کی نفی نہیں ہوتی۔
قرآن اللہ کا کلام ہے، قرآن دنیا میں رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر تک اللہ کے برگزیدہ فرشتے جبریل امین کے ذریعہ پہنچایا گیا ہے۔ پھر یہ عربی زبان میں ہے اور اس کا ذکر گزشتہ آسمانی کتابوں میں بھی آیا ہے۔ یہ سب باتیں خود قرآن نے ہی اپنے بارے میں بتائی ہیں، اس بیان کی جامع آیات سورۃ الشعرا آیات نمبر 192تا196 ہیں۔
حدیث شریف میں تصدیق کی گئی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کم وبیش سوا لاکھ انبیاء کرام کو دنیا میں بھیجا ہے۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام دنیا میں آئے ہیں جن میں 315 صاحب کتاب تھے۔ قرآن مجید میں ہمیں صرف 25 انبیاء کرام ہی کا تذکرہ ملتا ہے۔ پھر جن کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی زندگیوں کی بھی بس جھلکیاں ہی ہیں، یعنی ان کی زندگی کے ایسے واقعات کا ہی ذکر ہے جو ہر انسان کی زندگی کے معروف اور عام واقعات سے ذرا ہٹ کر ہیں اور جو روز مرہ کی زندگی کے عام معاملات و واقعات سے بہت مختلف ہیں۔ تو اس طرح قرآن کا بیان بہت ہی خاص ہو جاتا ہے۔
***

 

***

 دراصل غلبہ یا سر بلندی حاصل کرنا بحیثیت ایک قوم اہل ایمان کے لیے ان کے ایمان کے تقاضوں میں سے ہے، اگر وہ غلبہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انہیں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جس جدوجہد اور جانفشانی کی ضرورت ہے وہ پوری طرح نہیں کر پا رہے ہیں۔ مغلوب رہنے سے ایمان کی نفی نہیں ہوتی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021