‘فيک نيوز’ پر وزارت داخلہ کے تھنک ٹينک کی رپورٹ: ايک معمہ!
مولاناسعد کے آڈيو کلپ سے چھيڑ چھاڑ کا انکشاف۔ خبر دينے والے صحافيوں کي پولس آفس ميں طلبي،آزادي صحافت پر حملہ!
دعوت نیوز ڈیسک
ملک کي موجودہ صورت حال اور خاص کر مسلمانوں کے تئيں بڑھتي نفرت اور تعصب کي تحريک ميں فيک نيوز يعني جعلي خبروں نے نہايت کليدي کردار ادا کيا ہے۔ خاص کر سوشل ميڈيا پر عجيب وغريب، بے بنياد اور نفرت انگيز خبريں بلا کسي تحقيق و توثيق کے بڑي تيزي سے پھيلا دي جاتي ہيں اگرچہ بعد ميں ان کي صداقت پر سوال اٹھنے پر حقائق کي روشني ميں ان کي ترديد کر دي جاتي ہے، ليکن تب تک يہ اپنا کام کر چکي ہوتي ہيں اور ان کا زہر معاشرے ميں ايک حد تک پھيل چکا ہوتا ہے۔
فيک نيوز کے تعلق سے حکومت ہند کس قدر سنجيدہ ہے، يہ خبر اسي کي ايک مثال ہے۔ آپ کو يہ جان کر بے حد حيراني ہوگي کہ وزرات داخلہ کے تھنک ٹينک نے فيک نيوز کا پتہ لگانے اور اس کي تفتيش کرنے کے ليے اپني ايک رپورٹ پيش کي تھي جسے وزرات داخلہ کي ويب سائٹ پر جاري تو کيا گيا کيا ليکن بعد ميں ہٹا ليا گيا ہے۔ دراصل اس رپورٹ ميں تبليغي جماعت کے سربراہ مولانا سعد کاندھلوي کي مبينہ آڈيو کا بھي ذکر تھا۔ بتايا جاتا ہے کہ اس رپورٹ ميں اس بات کا بھي ذکر تھا کہ مولانا سعد کے متنازعہ آڈيو کلپ کے ساتھ چھيڑ چھاڑ کي گئي تھي، جس کا انکشاف جانچ ميں ہوا ہے۔ وزارت داخلہ کے تھنک ٹينک کے ذريعے فيک نيوز کا سراغ لگانے اور ان کي تفتيش کے ليے تيار کردہ اس رپورٹ ميں اس بات کي بھي آگہي دي گئي تھي کہ فيک نيوز کتني طرح کي ہوتي ہيں ان کو کيسے سپورٹ کيا جاتا ہے اور ان کي تفتيش کيسے کي جاتي ہے؟ ’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کي يہ رپورٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ ميں فيک نيوز کا پتہ لگانے اور ان کي چھان بين سے متعلق گائيڈ لائنس بھي موجود ہيں۔ ميڈيا کے ايک گوشے ميں شائع خبر کے مطابق يہ رپورٹ وزرات داخلہ کو سونپنے کے بعد ’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کي ويب سائٹ پر سنيچر کو اپ لوڈ کي گئي تھي اور اگلے دن اتوار کو اسے وہاں سے ہٹا ليا گيا۔
دو صحافي طلب کيے گئے
’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کي اسي رپورٹ کي بنياد پر جس ميں مبينہ طور پر کہا گيا تھا کہ مولانا سعد کے حوالے سے شيئر کي جانے والي آڈيو کلپ کے ساتھ چھيڑ چھاڑ کي گئي ہے، روزنامہ انڈين ايکسپريس نے يہ خبر شائع کر دي۔ اس خبر کے شائع ہونے کے دوسرے دن ہي اس رپورٹ کو ’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کي ويب سائٹ سے ہٹا ليا گيا اور ايک بيان جاري کرکے مذکورہ اخبار کي خبر کو بے بنياد قرار ديتے ہوئے کہا گيا کہ يہ رپورٹ حقيقت پر مبني نہيں ہے۔ اس ميں صرف ذرائع کا استعمال کيا گيا ہے اور پوليس اب بھي مولانا سعد کي تمام آڈيوز کي جانچ کر رہي ہے۔ اس آڈيو کلپ سميت ديگر کئي آڈيو کلپس کو جانچ کے ليے فارينسک ليباريٹري بھيج ديا گيا ہے۔ انڈين ايکسپريس نے ايک دوسري رپورٹ ميں بيورو کے ترجمان کا بيان بھي شائع کيا ہے، جس ميں انہوں نے کہا ہے کہ رپورٹ ميں کچھ ترميم کي جا رہي ہے اس کے بعد اسے دوبارہ ويب سائٹ پر ڈال ديا جائے گا۔
انڈين ايکسپريس نے اپني خبر ميں يہ لکھا تھا کہ متنازعہ آڈيو کلپ کي جب پوليس نے جانچ کي تو انکشاف ہوا کہ يہ آڈيو ديگر 20 آڈيو کلپنگ کو جوڑ کر اور ايڈٹ کر کے تيار کي گئي ہے۔ ليکن بعد ميں دہلي پوليس نے اس سے صاف انکار کر ديا اور اپني اس رپورٹ کي ترديد کرتے ہوئے اخبار کے دو صحافيوں کو اپنے دفتر ميں طلب کيا۔ اس کي اطلاع خود انڈين ايکسپريس نے اپني ۱۱؍ مئي کي اشاعت ميں دي ہے اور يہ واضح کيا ہے کہ اخبار اپني اس خبر پر قائم ہے۔غور طلب ہے کہ مولانا سعد کے حوالے سے ايک متنازعہ کلپ ملک کے تمام نيوز چينلوں پر سنائي گئي تھي۔
اس آڈيو کلپ ميں مولانا سعد مبينہ طور پر يہ کہتے ہوئے سنائي دے رہے ہيں کہ تبليغي جماعت کے لوگوں کو سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرنے کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔ يہ آڈيو سوشل ميڈيا ميں بھي ٹرينڈ پر رہي اور خوب شيئر کي گئي۔ دراصل اسي آڈيو کلپ کي بنياد پر ملک ميں تبليغي جماعت کے لوگوں کے خلاف بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول تيار کيا گيا۔ جس کا اثر ملک کے ہر گاؤں و سڑک پر ديکھنے کو ملا۔ وہيں دہلي پوليس نے مولانا سعد اور ان کے ديگر چھ معاونين کے خلاف غير ارادتاً قتل کا معاملہ درج کيا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ لاک ڈاون کے باوجود انہوں نے بستي حضرت نظام الدين ميں واقع تبليغي جماعت کے عالمي مرکز ميں تقريباً دو ہزار لوگوں کو جمع کيا تھا۔ حالاں کہ مولانا سعد ان الزامات کو پہلے ہي مسترد کر چکے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ يہ لوگ لاک ڈاون شروع ہونے سے بہت پہلے ہي مقررہ پروگرام کے مطابق مرکز پہنچے تھے اور وزير اعظم مودي کي اپيل پر عمل کرتے ہوئے لاک ڈاون کے بعد مسجد ميں ہي رہنے کا فيصلہ کيا تھا۔
دہلي پوليس کي صحافيوں سے تين گھنٹے تک پوچھ تاچھ
دہلي پوليس نے انگريزي روزنامہ انڈين ايکسپريس کے سٹي ايڈيٹر اور چيف رپورٹر کو اپنے دفتر ميں طلب کيا اور ان سے تين گھنٹوں تک پوچھ تاچھ کي۔ پوليس نے دونوں صحافيوں سے کہا کہ وہ اس معاملے کي جانچ ميں تعاون کريں ورنہ ان کے خلاف قانوني کارروائي کي جائے گي۔
دہلي پوليس نے صاف طور پر يہ انتباہ ديا ہے کہ جانچ ميں شامل نہ ہونے پر دونوں کے خلاف آئي پي سي کي دفعہ 174 کے تحت، يعني ايک سرکاري ملازم کي ہدايات پر عمل نہ کرنے کے ليے قانوني کارروائي کي جائے گي۔
اس تعلق سے روزنامہ انڈين ايکسپريس کا کہنا ہے کہ ’اس معاملے ميں جس طرح دہلي پوليس نے قانوني نوٹس بھيج کر رپورٹر اور ايڈيٹر کو ان کے سامنے پيش ہونے کي ہدايت دي ہے، يہ ميڈيا کي آزادي پر حملہ ہے۔‘
پريس کلب آف انڈيا نے کي پوليس کے اقدام کي مذمت
انڈين ايکسپريس کے سٹي ايڈيٹر اور چيف رپورٹر کے خلاف دہلي پوليس کي اس کارروائي کي مخالفت کرتے ہوئے منگل کو پريس کلب آف انڈيا نے ايک بيان جاري کيا، جس ميں کہا گيا ہے کہ تبليغي جماعت اور مولانا سعد کي آڈيو کلپ سے متعلق يہ ايک اہم خبر تھي، کيوں کہ اس کلپ کے ذريعے پورے ملک ميں لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسايا گيا۔ پريس کلب آف انڈيا نے اپنے اس بيان ميں صاف طور پر کہا کہ يہ اچھي صحافت کي جڑ پر حملہ ہے، جس کے بغير کوئي جمہوريت زندہ نہيں رہ سکتي۔
’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کيا ہے؟
’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کو پوليس فورس کو جديد بنانے کے مقصد کے ليے 1970 ميں وزارت داخلہ امور کے تحت تھنک ٹينک کے طور پر قائم کيا گيا تھا۔ يہ تنظيم پوليس کو ٹيکنالوجي اور ڈيجيٹل ذرائع سے منسلک معاملوں کي ٹريننگ ديتي ہے۔
’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کي رپورٹ کيا کہتي ہے؟
’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ کي ’’فيک نيوز اينڈ ڈس انفارميشن: اسپاٹ اينڈ انوسٹي گيشن‘‘ کے عنوان سے 40 صفحات پر مشتمل ايک گائيڈ لائنس ميں ’فيک نيوز‘ کي نشان دہي اور تفتيش کيسے کريں؟ کے موضوع پر بتايا گيا ہے کہ کورونا وائرس کے دور ميں بہت ساري اطلاعات مستقل طور پر آرہي ہيں۔ لہذا قانوني ايجنسي سب سے پہلے يہ پتہ کرے کہ ايسے فيک نيوز کے ذرائع کيا ہيں۔ اس رپورٹ ميں ذرائع تلاش کرنے کے ليے کس عمل کو اپنانا چاہيے، اس کي بھي مکمل آگہي دي گئي ہے۔
اسي رپورٹ ميں اس بات کي بھي جانکاري دي گئي ہے کہ ’فيک نيوز کيسے پھيلتي ہيں؟‘ اسي تعلق سے بتايا گيا ہے کہ فيک نيوز تصاوير، ويڈيوز، آڈيو، ٹيکسٹ پوسٹس اور يو آر ايل لنکس کے ذريعے پھيلتي ہيں۔تبليغي جماعت سے متعلق ايک ويڈيو کا تذکرہ ’بيورو آف پوليس ريسرچ اينڈ ڈيولپمنٹ‘ نے اپنے اسي مطالعے ميں کيا ہے۔ اس تھنک ٹينک نے صاف طور پر کہا ہے کہ اس ميں غلط تصاوير دکھائي گئيں اور اس کا مقصد معاشرے ميں نفرت اور عداوت پھيلانا تھا۔ اسي انداز ميں تبليغي جماعت کا مبينہ آڈيو پيغام بھي سوشل ميڈيا پر جاري کيا گيا۔ وہ آڈيو پيغام بھي فيک تھا۔
يہ تھنک ٹينک اپني اس رپورٹ کے آخر ميں اس نتيجے پر پہنچا کہ فيک نيوز کے بہت سے مہلک نتائج برآمد ہو سکتے ہيں لہٰذا ايجنسياں فيک نيوز پھيلانے والوں پر نگاہ رکھيں اور ان کے ذرائع کا پتہ لگانے کے ليے اس کے تہہ تک جائيں۔