فلسطینی ماؤں اور ان کے بیٹوں کا پیار

ان نوجوانوں کو سلام جنہیں ایک امتی کافرض اور ممتا کے تقاضے دونوں یاد ہیں

پروفیسرایاز احمد اصلاحی،لکھنؤ

 

سب سے پہلے فلسطین کے غرب اردن کے علاقے میں حال ہی میں رونما ہونے والے ایک حیرت انگیز واقعے کا ذکر جس کی خوشبو میڈیا اورسوشل کے توسط سے پوری دنیا میں پھیل گئی :
یہ واقعہ تعلق رکھتا ہے ایک ایسے نوجوان فلسطینی سے، جسے کورونا انفکشن کی وجہ سے کچھ روز پہلے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا تھا ، گھر پر دیگر افراد کے علاوہ ایک بیمار بوڑھی ماں بھی تھی جو اس کے گھر آنے سے پہلے ہی وفات پا چکی ہے۔ اس نوجوان فلسطینی کا نام جہاد السویتی ہے۔ اس کی ماں کا نام رزمی السویتی ہے جس کا 16 جولائی 2020 کو 73 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ اس خاندان کا تعلق فلسطینی علاقہ غرب اردن سے ہے۔ اس فرض شناس بیٹے نے بالآخر اسپتال میں بنی آئی سی یو بلاک کی اونچی دیوار کی ایک کھڑکی سے اپنی ماں کو آخری بار الوداع کہا۔
اس فلسطینی نے اسپتال میں اپنا معمول بنا لیا تھا کہ وہ ہر روز اسپتال کی ایک کھڑکی پر چڑھ جاتا اور وہاں بیٹھ کر اپنی بیمار ماں کو دیر تک دیکھتا رہتا۔ یہ گویا اپنی بیمار ماں کی خدمت کا ایک انوکھا طریقہ تھا، اس عمل سے اسے جو سکون ملتا وہ شاید اس دوا سے کہیں زیادہ مفید و کار گر تھا جو وہ کورونا کے علاج کے طور سے لے رہا تھا۔ وہ ہر شام کھڑکی پر چڑھ جاتا اور ایسا ہی کرتا یہاں تک کہ ایک روز اس کی ماں گزر گئی۔ میں نے پڑھا تھا کہ نماز میں اگر قیام کرنا ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے، اور اگر بیٹھ کر بھی ادا کرنا ممکن نہ ہو تو لیٹ کر آنکھوں کے اشارے سے پڑھی جائے لیکن ہوش و حواس میں رہتے ہوئے وہ کسی بھی حال میں ترک نہ کی جائے۔ یہ فلسطینی نوجوان کوئی فقیہ نہیں ہے، لیکن اس نے غیر شعوری طور سے نماز کے حکم پر بیمار ماں کی خدمت و عیادت کے اسلامی حکم کو قیاس کرکے جس طرح اپنی شریعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے اس پر اصول شریعت سے متعلق ہزاہا فلسفوں اور فقہی استنباط پر مشتمل ہزارہا تحقیقات کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ بے شک مرض کی تکلیف سہ لے جانا اور اس سے جانبر ہونا تو عام سی بات ہے لیکن ماں کی جدائی کا غم سہنا زندگی کا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔
ماں تو ماں ہوتی ہے، وہ ایک بدبخت ہی ہوگا جو جیتے جی اس کے سائے سے محروم ہونا چاہے گا۔ سب سے پاکیزہ محبت، سب سے اچھی دوست، دل کی سب سے میٹھی دھڑکن، سب سے سے زیادہ انحصار کی جانے والی ہستی، سب سے شفاف آئینہ، سب سے عظیم استاذ، سب سے بڑی مددگار ، مودت و ہمدردی کا سب سے دلکش و شفاف سرچشمہ، نرم ریشمی احساس، زندگی اور روشنی کا سب سے بڑا مرکز، اگر ان تمام خوبیوں کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ "ماں” ہے۔ ماں ایک ایسا وجود ہے جو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا ، یہ وجود حقیقت میں جذبات کا ایک طاقت ور طوفان ہوتا ہے لیکن وہ ہمارے ساتھ باد صبا کی طرح رہتا ہے، ماں اکیلی ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کی ہستی کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لیے اپنی آپ کو مٹا دیتی ہے، وہ خاک میں مل کر ہمیں گل و گلزار بنادیتی ہے، وہ ہماری رگوں میں خون کی مقدار بڑھانے کے لیے اپنی رگوں کا خون نچوڑ دیتی ہے۔ ماں کا یہ وجود ہمارے اپنے دل کی دھڑکنوں کی طرح ہم سے باتیں کرتا ہے، لیکن انہیں نہ تو ظاہر بیں نگاہوں سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ دوسروں کو دکھایا جا سکتا ہے، انہیں تو بس وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس نوجوان فلسطینی کی طرح ماں کی ہر دھڑکن کے جواب میں اپنے پاس بھی دھڑکنے والا ایک دل رکھتا ہو ۔ کیا آپ اپنی ان دھڑکنوں کی مصوری کبھی کر سکتے ہیں؟
میں نے نہ تو اس کی تحقیق کی ہے اور نہ موازناتی مطالعے پر مبنی ایسے کسی نتیجہ سے واقف ہوں جس کی بنیاد پر حتمی طور سے یہ کہہ سکوں کہ دنیا میں اپنی ماں سے سب سے زیادہ پیار کرنے والی قوم فلسطینی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اپنی ماں سے محبت اتنی ہی جذباتی اور منفرد ہوتی ہے جتنی آزادی فلسطین کے تعلق سے ان کی بے مثال جدوجہد۔ میں نے خود فلسطین سے متعلق ایسی کئی ویڈیوز دیکھے ہیں اور فلسطینی ماں بیٹے کا کردار بیان کرنے والے ایسے کئی قصوں کو پڑھا ہے جو ماں کے تعلق سے ہمارے احساس کو جگانے اور ہماری آنکھوں کو اشکبار کرنے والے ہیں۔شاید فلسطین کے اس مزاج میں وہاں کے موجودہ حالات کا بھی دخل ہے جہاں ہر ماں اپنے بیٹے کی یہ سوچ کر ایک بے خوف مجاہد کی طرح پرورش کرتی ہے کہ اس کا بیٹا بڑا ہوکر جہاد قدس میں حصہ لے گا اور مجھے میری بے لوث محبتوں اور بے داغ شفقتوں کا سچا صلہ دے گا ۔ جہاں زندگی جذبات کے ایسے مقدس رشتوں سے بندھی ہو وہاں ماں سے اس کے بیٹے کی محبت یقیناً ویسی ہی پرسوز ہوگی جیسی وہ اس واقعے میں ہمیں نظر آرہی ہے۔فلسطینی ماں کے تعلق سے جہاں بہت سی مثبت اور خوش کن باتیں مشہور ہیں وہیں اسرائیلی پروپیگنڈے کی وجہ سے کچھ ایسی باتیں بھی آپ کو میڈیا میں مل جائیں گی جو بظاہر منفی تاثر پیدا کرنے والی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے بعض مثالوں کی مدد سے یہاں اس کی وضاحت بےجا نہیں ہوگی۔ ماہا نصار امریکہ کی اریزونا یونیورسٹی میں شعبہ "مڈل اسٹرن اینڈ نارتھ افریکن اسٹڈیز” میں پروفیسر اور
”Brothers Apart: Palestinian Citizens of Israel and the Arab World.”کی مصنفہ ہیں ، مسئلہ فلسطین پر ان کی گہری نظر ہے، بہت دنوں پہلے، جب انتفاضہ ثانی کی تحریک اپنے عروج پر تھی، انہیں ایک مرتبہ شکاگو میں یہودیوں کے ایک کنیسہ، (ریفارم سینیگاگ) میں فلسطین کے حوالے سے ایک لکچر دینے کا موقع ملا، وہ کہتی ہیں سوال و جواب کے وقفے کے دوران ایک عورت نے انہیں بغور دیکھتے ہوئے یہ سوال کیا:: "فلسطینی مائیں اپنے بچوں سے پیار کیوں نہیں کرتیں؟” ۔ وہ کہتی ہیں اس اچانک اور بے تکے سوال نے انہیں چونکا دیا، بقول ان کے اس کی وجہ سے کچھ لمحوں کے لیے "میں کنفیوز ہو گئی” اور ، مجھے یقین ہوگیا کہ لگتا ہے میں نے اس کا سوال پوری طرح سنا نہیں ہے۔ میں نے کہا: "افسوس کہ میں سوال ٹھیک سے نہیں سن سکی”۔ اس مصنفہ کے دوبارہ پوچھنے پر اس نے اپنا سوال کچھ اس طرح دہرایا جو یہ تھا: ” اگر فلسطینی مائیں اپنے بچوں سے پیار کرتی ہیں تو وہ انہیں فوجیوں سے لڑنے کے لیے گھر سے باہر کیوں بھیجتی ہیں؟” ۔
اس قصے کو دہرانے کا مقصد بس اتنا ہے کہ آپ یہ جان سکیں کہ وہ بڑا مفروضہ( متھ) کیا ہے جس کی وجہ سے فلسطینی عورتوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت دل ہوتی ہیں اس لیے اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتیں۔ حالانکہ اس مفروضے کی اصل وجہ دوسری بار کیے گئے سوال میں بڑی حد تک واضح ہوگئی ہے، پھر بھی آپ سے میرا سوال ہے کہ اس یہودی لڑکی کے اس بیانیہ سے آپ نے کیا سمجھا کہ "فلسطینی مائیں اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتیں”؟
آپ کے جواب سے پہلے میں یہ وضاحت کردوں کہ جس کے سامنے بھی لڑکی کا یہ سوال رکھا جائے گا، وہ بالآخر یہ ضرور پوچھے گا کہ جب وہاں کی مائیں اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتیں تو فطری طور سے ان کے بچے بھی اپنی ماؤں سے کبھی ٹوٹ کر پیار نہیں کرسکتے؟ حالانکہ یہاں ماجرا دوسرا ہے، جیسا کہ بتایا گیا یہاں کے بچے دوسری بہت سی قوموں کے مقابلے میں اپنی ماؤں سے سب سے بڑھ کر پیار کرتے ہیں۔
ماہا نے گوکہ اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ ” بے شک فلسطینی مائیں اپنےبچوں سے بھر پور پیار کرتی ہیں کیونکہ وہ بھی انسان ہیں” لیکن سوال کا مقصد وہ نہیں تھا جس کی طرف اس جواب میں اشارہ ہے۔۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس سوال کے پیچھے وہ حقیقت نہیں ہے جیسی اس سوال کے ظاہر سے محسوس ہورہی ہے، اور نہ یہ لڑکی یا ایسا کہنے والے صیہونی یہودی اور ان کے ہمنوا یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی عورتیں اپنے بچوں سے خوب پیار کریں۔ خود ہی سوچیے کہ آخر ایسا وہ لوگ کیوں چاہیں گے جو خود ہزاروں فلسطینی بچوں کے قاتل ہیں اور سیکڑوں فلسطینی بچوں کو ان کی ماؤں سے دور کر کے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے؟ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ سوال ہمیں جو پیغام دینا چاہتا ہے وہ اس کے ظاہری مفہوم سےبالکل الگ ہے، ایسا کہنے والے دراصل یہ چاہتے پیں کہ فلسطینی مائیں اگر اپنے بچوں سے دوسری ماؤں کی طرح پیار کرتی ہیں تو انہیں اپنے بچوں کو مجاہدوں اور شہیدوں والی تربیت نہیں دینا چاہیے، انہیں غاصب اسرائیلی فوجیوں سے لڑنے اور انہیں ظلم سے روکنے کے لیے اپنے بچوں کو کشمکش کے محاذوں پر ہرگز نہیں بھیجنا چاہیے، انہیں اپنے بچوں کو آزادی فلسطین اور القدس کی حفاظت کے لیے گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہیے، انہیں اپنی اولاد کو الحماس اور الفتح سے دور رکھنا چاہیے تاکہ ان کے پیارے بچے اسرائیلی فوجیو ں، بمبار طیاروں اور میزائلوں کا نشانہ بن کر ہلاک نہ ہوں اور اسرائیل کو پورے فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ بر قرار رکھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ یہ ہے اس مفروضے کا اصل مقصد جس کا حقیقت سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے۔دوسرے لفظوں میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلسطینی مائیں اپنے بچوں سے کچھ پیار کرنا سیکھیں وہ در اصل در پردہ یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ان بچوں کو ہمارے مقابلے میں اترنے سے نہیں روکا گیا تو ہم فلسطینی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں گے۔
اسی خاص مقصد سے یہ مفروضہ صیہونی عناصر کے ذریعہ تقریباً نصف صدی سے عام کیا جارہا ہے، اس سے ایک طرف وہ فلسطینی عورتوں کو کمتر اور غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی مدد سے فلسطینی جہاد آزادی کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ حامیان اسرائیل گولڈا مائیر (Golda Meir ) کے اس جملے کو اکثر دہراتے ہیں جو مذکورہ سوال میں چھپے مدعا کو مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح پیش کرتا ہے: ” اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن اس وقت ہی ممکن ہے جب عرب اپنے بچوں کو اس سے زیادہ پیار کریں جتنا وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں”۔ اب اس صیہونی سے کون پوچھے کہ کیا کوئی صہیونیوں اور اسرائیلیوں جیسی نسل پرست اور فسطائی ریاست سے بھی زیادہ کسی سے نفرت کرسکتا ہے؟
اس دلچسپ مفروضے پر مبنی مذکورہ سوال کا جواب دینے کا پہلا حق تو فلسطینی ماؤں کو ہی ہے جن کے نزدیک "یہاں کی ماؤں کا اپنے بچوں سے پیار نہ کرنے والا مفروضہ” فلسطینی کاز کو بالواسطہ نقصان پہنچانے والے ایک صیہونی حربے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو وجہ بنا کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ فلسطینی ماں اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتی وہی چیز انہیں اپنے بچوں سے سب سے زیادہ محبت کرنے پر اکساتی ہے، اور یہی فلسطین اور اس کا مستقبل ہے۔ چنانچہ اس مفروضے کا جائزہ لینے والی اسکالر ماہا نصار کا یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ "یہ باتیں تو بس فلسطینیوں کا اپنے بچوں سے پیار کرنے کا انکار کرنے اور ان کی برحق جد و جہد آزادی کو تسلیم نہ کرنے کے لیے ہیں”
یہ مائیں ایسا کیا کرتی ہیں کہ اسرائیل ان سے گھبرا کر ایک ماں کی محبت کا ہی منکر ہوگیا؟ یہ مائیں اپنے بچوں کو گھر کے صندوقوں میں بند کر کے رکھنے کی بجائے ایک مضبوط و بے خوف سپاہی کی طرح محاذ جنگ پر بھیجتی ہیں، ان میں اسرائیلیوں کے سامنے نہتے بھی کھڑا ہونے کا حوصلہ بھرتی ہیں، وہ انہیں آزادی کے نغمے، جہاد کے قصے اور تحریک مزاحمت کے زمزمے سنا کر جوان کرتی ہیں، ایک ماں کا دل رکھنے والی یہ مائیں بھی اپنے جوان بچوں کی شہادت پر اپنے آنسوؤں سے اپنا آنچل ضرور تَر کرتی ہیں لیکن وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ تشکر بھی بجالاتی ہیں کہ ان کے بیٹے تا دم آخر جادہ حق پر قائم رہے اور القدس پر اپنی جان نچھاور کی۔ اس الزام کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ وہ یہ سب اپنے بچوں کے پیار میں ہی تو کرتی ہیں اور ان کی شکل میں وہ جو دفاعی لائن تیار کر رہی ہیں وہ ان بچوں کی حفاظت کے لیے ہی تو ہے جن کی نسل کشی اسرائیل کا آخری ہدف ہے۔ یہ دفاعی لائن تیار نہ ہو تو نہ تو وہ محفوظ رہیں گی اور نہ ان کے بچے۔ ان کی یہی وہ مومنانہ خوبی ہے جسے صیہونی، دنیا کے سامنے ایک عیب بنا کر پیش کرتے ہیں تا کہ وہ اپنے شر انگیز پروپیگنڈے سے فلسطین کی تحریک آزادی کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرسکیں۔ فلسطین کی بہادر مائیں اسرائیل کے اس شیطانی حربے سے بخوبی واقف ہیں، اور وہ اپنے بچوں کی عقابی تربیت اور مجاہدانہ پرورش جس انداز سے کرتی ہیں وہ صیہونی امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ آج اپنے بچوں کو فلسطین کی جدوجہد آزادی میں نہیں لگائیں گی تو نہ القدس محفوظ رہے گا نہ فلسطین، نہ اس کا مستقبل اور نہ اس کے بچے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آج کو اس لیے قربان کر رہی ہیں تاکہ ان بچوں کا کل صیہونی غاصبوں سے محفوظ رہے اور اسرائیل ان کی نسل کشی کے اپنے ناپاک ارادے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے۔
یہ اسلام کا وہ نظریہ حیات ہے جو ایک مسلم ماں ہی نہیں بلکہ ایک مسلم باپ کو بھی اپنے دین کی سرفرازی کے لیے اپنی جان و مال کی طرح اپنی اولاد کو بھی قربان کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔ خود عید الاضحٰی کی قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے۔ ان صیہونیوں کو کیا خبر کہ اسلام میں اولاد سے محبت کا فلسفہ کیا ہے۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس امت کی مائیں اپنی اولاد سے حد درجہ پیار کرنے کے باوجود انہیں محض مادی سبق پڑھا کر اپنے لیے فتنہ نہیں بننے دیتیں کیونکہ مسلم والدین کے لیے قرآن کی تعلیم یہی ہے کہ اپنی اولاد کی محبت کو اپنے اوپر اتنا غالب نہ کرلو کہ وہ تمہیں اللہ کے احکام سے ہی غافل کردیں اور وہ تم دونوں کے لیے مہلک ہو( المنافقون: ۹)۔ ان صیہونیوں کو کیا خبر کہ جب قرآن کہتا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنے لیے فتنہ نہ بننے دو ( الانفال ۲۷- ۲۸) تو اس کا مقصد والدین اور ان کے بچوں دونوں کو جہنم سے بچانا ہے ( التحریم: ۶) ۔ اس نظریے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ایک طرف اس امت کے پیروؤں میں خدا اور رسول کی محبت پر کسی اور شئے کی محبت غالب نہیں ہوتی، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ کبھی مال و اولاد کے نام پر اپنے فرض منصبی کو فراموش نہیں کرتے اور نہ وہ اپنی اولاد کو محض جہنم کا ایندھن بننے کے لیے پالتے ہیں۔
۲۰۱۸ میں نوریمان تمیمی نام کی ایک ماں نے اپنے لڑکے احد تمیمی کی گرفتاری پر اپنے اسی نظریے کو دہرایا تھا اور کہا تھا جس ظلم کی کوئی "توجیہ” ممکن نہ ہو اسے روکنے کے لیے ہم اور ہماری اولادیں مزاحمت کرتے رہیں گے۔ یہ اس نے اس وقت کہا تھا جب ایک فوجی کو زبردستی گھر میں گھسنے پر اس کے لڑکے نے طمانچہ مار دیا تھا اور اس کے نتیجے میں اسے گرفتاری اور پولیس ٹارچر کے مرحلے سے گزرنا پڑا اور ساتھ ہی اس کی ماں کو بھی اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ وہ اپنے بچے کو ان فوجیوں سے مقابلے کے لیے "اکساتی” رہی۔ یہ غرب اردن میں واقع ایک گاؤں "بنی صالح” میں آباد تمیمی نام کے خاندان کی کہانی ہے۔ آج حال یہ ہے کہ اس گاؤں کے پانی کے ذرائع، زرعی اراضی اور چراگاہ غرض کہ تمام وسائل پر قریب بسی غیر قانونی یہودی بستی کے لوگوں نے دھیرے دھیرے قبضہ کر لیا ہے۔ بڑھتی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں اس ماں کے بھائی کو ۲۰۱۲ میں اسرائیلی فوجیوں نے قتل کردیا اور خود چار بچوں کی اس ماں کو بھی ۲۰۱۴ میں اسرائیل فوج نے ایک احتجاج کے دوران گولی مار کر شدید زخمی کردیا تھا۔ لیکن تمام مظالم اور فوجی رکاوٹوں کے باوجود اس بستی میں آج بھی جب جب موقع ملتا ہے نوریمان اور دوسری عورتیں سر پر کفن باندھ کر اپنی اولاد کے ساتھ احتجاج کرنے نکل آتی ہیں۔ یہ ہے فلسطین کا وہ ماحول جس میں جہاد سویتی اور احد تمیمی جیسی اولاد اور رزمی اور نوریمان جیسی مائیں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کو پیار اور تلوار دونوں کا ایک ساتھ تحفہ دیتی ہیں، اسی لیے ان کی کوکھ سے خالد مشعل اور اسمعیل ھنیئہ جیسی اولادیں جنم لیتی ہیں اور ان کے بے لوث پیار اور پختہ پرورش کے صلے میں ان کے ایک اشارے پر ان کے بچے خود کو قربان کر دیتے ہیں۔
جس قوم میں یہ جذبہ نہیں ہوتا کہ اس کی مائیں اپنی اولاد کو مقصد پر قربان ہونے کی تربیت دیں اس کی عزت و آزادی کا تاج زیادہ دنوں تک محفوظ نہیں رہتا اور نہ ہی نازک حالات میں ان کی اولادیں ان کی حفاظت کی ضامن بن پاتی ہیں۔ لیکن ماضی اور حال دونوں گواہ ہیں کہ فلسطینی ماؤں میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، انہیں ایک امتی کا فرض اور ایک ماں کی ممتا کے تقاضے دونوں یاد ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی اولاد سے اور ان کی اولاد ان سے جو پیار کرتی ہے وہ دنیا کا ایک منفرد پیار ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ قبلہ اول کے محافظ فلسطینیوں کے دل صرف جینے اور کھانے کے لیے نہیں دھڑکتے بلکہ وہ خود سے پہلے دوسروں کو زندگی دینے کے لیے دھڑکتے ہیں، جی ہاں یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ان جگہوں پر زندگی کی بقا محض پھیپھڑوں سے نکلنے والی سانسوں سے طے نہیں ہوتی بلکہ اس کا اصل معنی اپنے خون سے اپنی قوم اور اپنے مشن کو حیات تازہ بخشنے سے متعین ہوتا ہے۔
(پروفیسر ایاز احمد اصلاحی لکھنؤ یونیورسٹی کے معروف محقق، صحافی اور ادیب ہیں۔ قرآنیات اور جدید و قدیم مشرق وسطیٰ کے امور پر مہارت رکھتے ہیں۔)

ماں تو ماں ہوتی ہے، وہ ایک بدبخت ہی ہوگا جو جیتے جی اس کے سائے سے محروم ہونا چاہے گا۔ سب سے پاکیزہ محبت، سب سے اچھی دوست، دل کی سب سے میٹھی دھڑکن، سب سے سے زیادہ انحصار کی جانے والی ہستی، سب سے شفاف آئینہ، سب سے عظیم استاذ، سب سے بڑی مددگار ، مودت و ہمدردی کا سب سے دلکش و شفاف سرچشمہ، نرم ریشمی احساس، زندگی اور روشنی کا سب سے بڑا مرکز، اگر ان تمام خوبیوں کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ "ماں” ہے