فقط احساسِ آزادی سے ، آزادی عبارت ہے
اختلافِ رائے کی آزادی کے بغیر حریت کا تصور ناقص۔انگریز ی سامراج سے نجات ملی مگر مغربی نظریات کی غلامی باقی
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
لال قلعہ کی بے جان تقریب ایک رسمِ ادائیگی
75 ویں یوم آزادی کے موقع پر ملک کے سوچنے سمجھنے والوں کے سامنے آزادی کی نیلم پری ایک مجسم سوال بن کر کھڑی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ حزب اختلاف کے سب سے اہم رہنما کا ٹوئٹر اکاونٹ بند کروا کر اس کو اظہار رائے کی آزادی سے محروم کردیا جائے۔ سماج کے بااثر لوگوں کے موبائل فون میں پیگاسس نامی سافٹ ویئر ڈال کر ان کی جاسوسی کی جائے۔ اس سنگین مسئلہ پر ایوان پارلیمنٹ میں مباحثے کے مطالبہ کو غیر سنجیدہ اور غیر ضروری قرار دے کر مسترد کردیا جائے۔ ایوان کے اندر ارکان ایک دوسرے کے ساتھ قوم کے سلگتے ہوئے مسائل پر تبادلۂ خیال کرنے کی بجائے باہم دست و گریباں ہوں ۔ کسانوں کےاحتجاج کو سات ماہ گزر جائیں لیکن حکومت اس کی جانب توجہ دینا ضروری نہ سمجھے اور اپنی من مانی کرتی رہے۔ اسٹین سوامی جیسا بزرگ اور بے لوث سماجی جہد کار عدالتی حراست میں دم توڑ دے مگر اربابِ اقتدار کی کان پر جوں نہ رینگے ۔ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کوفساد برپاکرنے کے جھوٹے الزام میں پابندسلاسل کردیا جائے اور یلغار پریشد کی آڑ میں ملک کے بہترین دانشور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیئے جائیں تو یوم آزادی کی تعطیل اور اس کی صبح لال قلعہ کی بے جان تقریب محض ایک رسم بن جاتی ہے۔
اظہار رائے یا اختلافِ رائے کی آزادی کے بغیر حریت کا تصور ناقص ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یوم آزادی کے دن کو ئی اعلان کردے کہ قوم یہ 75 واں یوم آزادی وزیر اعظم کی بدولت منارہی ہے۔ وہ اگر نہ ہوتے تو آزادی کی نبض 70 سے قبل رک جاتی اور قوم اس دن سالگرہ کی بجائے برسی مناتی ۔ وزیر اعظم کی مانند ہر کسی کو اپنے من کی بات عوام کے سامنے پیش کرنے کا حق ہے لیکن یہ خودساختہ آقا اور اس کے احمق غلام کسی اور کے دل کا دکھ درد سننے کے قائل نہیں ہیں۔ ویسے یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ کسی کی نہیں سنتے ۔ یہ ان سے کیے جانے والے مطالبات کی ان سنی تو کردیتے ہیں لیکن چھپ چھپ کر جاسوسی کے ذریعہ نجی باتیں سن لیتے ہیں ۔ عام لوگوں کی نہ سہی لیکن جن سے انہیں کوئی اندیشہ لاحق ہو ان کی ذاتی گفتگو بھی گرہ سے باندھ لیتے ہیں تاکہ انہیں ڈرا ، دھمکا اور بلیک میل کرکے اپنا کام نکالا جاسکے ۔ اسی لیے غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بھی جاسوسی کی جاتی ہے تا کہ ان پر لگام لگا کر قابو میں رکھا جا سکے اور جو نہ آئے اس پر سی بی آئی اور ای ڈی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں آزادی کیسی؟
عوام کے من کی بات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاتا کہ وزیر اعظم کو اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت کا احساس نہیں ہے بلکہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہماری جمہوریت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کو یقینی نہ بنائیں ۔ جس شخص کو اس بات کا علم ہو اور پھر بھی وہ عوام کا گلا گھونٹے تو یہی مطلب ہوگا کہ اسے جمہوریت کی بقاء میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ اظہار کی آزادی انسانی حقوق کی بنیاد ، انسانی فطرت کی جڑ اور سچائی کی ماں ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اگرکسی کے تمام انسانی حقوق کو سلب کرنا ہو تو اس سے اظہار آزادی چھین لی جائے اس لیے کہ ایسا کرنے سے بنیاد ہی ڈھے جائے گی ۔ اظہار رائے پر قدغن لگانے سے اگر انسانی فطرت کی بیخ کنی ہوگی تو کون جانے کہ پھر اس کی جگہ حیوانی فطرت لے یا شیطانی فطرت نمودار ہوجائے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا تھاکہ اس کا قتل انسانی حقوق کی توہین ، فطرت کو کچلنا اور سچائی کو دبانا ہے۔ اتنی اونچی باتیں کرنے والا اگر خوداس پر عمل نہ کرے تو یہی مطلب ہے کہ اس نے اسے سمجھا ہی نہیں اورا ن کا مقصد صرف تالیاں بجواناتھا ۔ ان کا عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فرینک لا رئیو اقوام متحدہ کے روداد نویس اور معروف دانشورہیں ۔ ان کے مطابق اظہار رائے کی آزادی نہ صرف ایک بنیادی حق ہے بلکہ دیگر حقوق بشمول معاشی ، معاشرتی اور تہذیبی حقوق کی حصولیابی میں معاون بھی ہے۔ ان کے تحت تعلیم کا حق، اور ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت کا حق اور سائنسی ترقی سے استفادہ کا حق بھی شامل ہے ۔ اسی کے ساتھ سماجی وسیاسی حقوق مثلاً تنظیم بنانے کی آزادی اور اجتماعات کے انعقادکے حق کا بھی شمار ہوتاہے۔اس جامع تعریف کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک حق کو سلب کرلینے سے باقی حقوق کی حصولیابی کا دروازہ ازخود بند ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں اختلافِ رائے کی آزادی اور حریت فکرو عمل کے درمیان چولی دامن کا ساتھ نظر آتا ہے۔ یعنی جہاں آزادی نہ ہو وہاں اختلاف کی گنجائش ازخود ختم ہوجاتی ہے اور جہاں لوگ کوئی اختلاف نہ کریں اور ہر بات کو آنکھ موند کر تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آزادی کو رہن رکھ دیا ہے۔ مختلف افراد کے درمیان اتفاق و اختلاف چونکہ فطری شئے ہے اس لیےبندوں کے درمیان ایسا تعلق اندھی تقلید کہلاتا ہے ۔
اختلاف رائے کی آزادی یعنی (Dissent) کے مفہوم کی بابت عام طور پر انتہا پسندی پائی جاتی ہے ۔ کچھ لوگ اس کومعمولی اختلاف سمجھ کر اہمیت نہیں دیتے اور کچھ لوگ اسے غداری کے زمرے میں ڈال کر قابلِ گردن زدنی جرم بنادیتے ہیں جبکہ یہ ایک درمیان کی چیز ہے۔ لغت کے اندر اس کے معنیٰ یہ بیان کیے گئے ہیں کہ کسی موضوع پر اختلاف رائے میں شدید اختلاف ۔ خاص طور پر کوئی سرکاری ہدایت یا منصوبہ یا معروف عقیدے سے شدت کے ساتھ ناراضی یا بیزاری ۔ اس میں سرکار دربار سے اختلاف میں شدت کے عناصر اہم ہیں۔ اس کا ہم معنی لفظ عدم اتفاق ہے اور اس کی ضد رضامندی ہے یعنی کسی خیال ، منصوبے یا گزارش کی سرکاری تائید و حمایت۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بغاوت و غداری تو نہیں ہے لیکن ایسا اختلاف ہے کہ جسے کسی صورت برداشت کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ یہی وہ صورتحال ہے جس میں فرد یا اجتماعیت احتجاج کرنے کی خاطر سڑکوں پر اترتی ہے۔
ویسے تو یہ ایک فطری چیز مگر اس کے باوجود اس پر فکری اور عملی میدان میں پہلے اعتراض ہوتا ہے اور پھر دھونس ، دھمکی بلکہ تعذیب تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس بابت پہلا سوال ہےکہ ایسا کون کرتا ہے اور دوسرا سوال یہ کہ کیوں کرتا ہے؟ یہ اعتراض دراصل حکمراں طبقہ کو ہوتاہے ۔وہ اس کو برداشت نہیں کرپاتا اور اسے کچلنے کی خاطر مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتاہے۔ اس بابت دوسرے سوال کا جواب زیادہ ہمہ پہلو ہے کہ آخر وہ ایسا کیوں کرتاہے ؟ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اول تو اقتدار کے سبب ان کے اندر ایک تفاخر یا گھمنڈ گھر کرلیتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنےسے حقیر سمجھتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں ان کی ہر بات کو بلا چوں و چرا تسلیم کرلیا جائے گا۔ یہ چیز ان کے اندر عدم برداشت کا مزاج پیدا کرتی ہے۔ وہ اپنے اوپر ہونے والے اعتراض کو اپنی توہین سمجھ کر معترض سے انتقام لینا چاہتے ہیں یا اس کو سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ کسی فردِ خاص یا قوم کے تئیں ان کے دل میں پنپنے والی نفرت و کینہ پروری بھی رعونت پسند مغرور حکمراں کو اس فعل پر آمادہ کرتی ہے۔ سیاسی مفاد بھی ان سے یہ سب کرواتا ہے ۔ کسی مخصوص قوم کو بدنام کرکے یا دشمن قرار دے کر اس کو سزادینا اور اپنے حامیوں کی خوشنودی حاصل کرلینا بھی اس کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ جمہوریت اور انتہا پسند قوم پرستی کا ایک اشتعال انگیز مرکب فسطائیت ہے جس میں اپنی قوم کے خلاف ایک کمزور اقلیت کو نہایت خطرناک دشمن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کو بدنام کرنے کی خاطر من گھڑت کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ ماضی کے حوالے سے اس کی ایک ظالمانہ شبیہ بنائی جاتی ہے۔ سارے قومی مسائل کو اس سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کی بابت یہ جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ ان کے آباو اجداد نے سومنات کے مندر کو لوٹا اور رام مندر کو توڑ کر وہاں بابری مسجد تعمیر کردی ۔ انتقام کی آگ بھڑکا کر مسجد کو شہید کردیا جاتا ہے اور اس کو احسان عظیم کے طور پر پیش کرکے اپنے ہمنواوں سے اس کے عوض ووٹ مانگ کر حکومت سازی کی جاتی ہے۔
گائے کو بے وجہ کا تقدس عطا کرنے کے بعد مسلمانوں کو گئو کشی کا مجرم بناکر پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح ہجومی تشدد کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔ گئو رکشا کی آڑ میں ایک طرف تو گائے کی تجارت کرنے والوں سے غیر قانونی خراج وصول کیا جاتا ہے اور دوسری طرف گئو شالہ کے نام پرسرکاری زمینوں پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ دودھ نہ دینے والی گایوں کی دیکھ بھال کے لیے سرکار سے روپیہ لے کر اپنا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ کبھی گھر واپسی کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ اس میں ناکامی ہوتی ہے زبردستی تبدیلیٔ مذہب کا الزام لگا کر مولانا عمر گوتم جیسے لوگوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ لو جہاد کا واویلا مچا کر ہندووں کے دل میں مسلمانوں کا ڈر پیدا کیا جاتا ہے اور خود کو ان کا محافظ یا نجات دہندہ بناکر پیش کیا جاتا ہے تاکہ انتخابی سیاست چمکائی جائے ۔
جمہوری نظام میں چونکہ حکمراں کو بار بار انتخاب جیتنا پڑتا ہے اس لیےایسا کرکےحکومت اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ۲۰۰۱ میں گجرات کے اندر کیشو بھائی پٹیل کی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی تھی ۔ بھوج کے زلزلے سے پیدا ہونے مسائل نے اس کو غیر مقبول کردیا تھا ۔ اسی لیے نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ۔ سابرمتی ایکسپریس کے ڈبوں میں آگ لگی اور ایودھیا سے آنے والے رام بھکت اس میں ہلاک ہوگئے تو اس کی آڑ میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکا کر وزیر اعلیٰ سرکاری ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹا نے میں کامیاب ہوگئے اور انتخاب جیت لیا۔ پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعہ رافیل کی بدعنوانی کو ڈھانپ دیا گیا۔گجرات میں جس طرح سہراب اور عشرت جہاں انکاونٹر کا فائدہ اٹھایا گیا اسی طرح یلغار پریشد کو وزیر اعظم کی جان کا دشمن بناکر مخالف نظریات کے حامل دانشوروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔ کورونا کے زمانے میں مہاجر مزدوروں کی جانب سے دھیان ہٹانے کی خاطر تبلیغی جماعت کا ہواّ کھڑا کرکے عوام کو گمراہ کیا گیا۔
جابرومغرور حکمرانوں کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگوں کی نافرمانی کے آگے سپر ڈال دی جائے تو یہ ایک عام بغاوت کی شکل اختیار کرلے گی ۔عوام کے اندران کیی شخصیت کا بھرم ٹوٹ جائے گا اور قیادت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں الیکشن کے اندر شکست فاش سے دوچار ہونا پڑ ے گا ۔ کسان تحریک کے ساتھ یہی ہورہا ہے ۔حکومت نے غلطی کا احساس کرلینے کے باوجود اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ کسان تحریک کے اختلاف رائے کو پہلے تو بزور قوت دبانے کی کوشش کی گئی ۔ اس سے بات نہیں بنی تو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس میں بھی ناکام ہوگئے تو اب تھکاکر بھگانے کی سازش رچی گئی ہے۔ اختلاف رائے کو بے اثر کرنے کا یہ بھی ایک حربہ ہے۔ ویسے ان لوگوں کے خواب و خیال میں یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ یوم جمہوریہ سے پہلے شروع ہونے والا مظاہرہ یوم آزادی سے آگے بڑھ جائے گا۔ اس وقت جب کسان رہنما کہتے تھے کہ ہم مہینوں کی تیاری سے آئے ہیں تولوگوں کو عجیب لگتا تھا مگر انہوں نے اپنے عزم و استقلال سے ثابت کردیا ہے کہ یہ کوئی ’انتخابی جملہ‘ نہیں تھا جس کو کہہ کر بھلا دیا جاتا۔
بدعنوان اور ظالم حکمرانوں کو اور بھی کئی مسائل لاحق ہوتے ہیں۔مثلاً اقتدار میں آنے کے بعد وہ سرکاری خرچ پر عیش و عشرت کے عادی ہوجاتے ہیں۔ جو وزیر اعظم تنہا اپنے خدمتگاروں کے ساتھ پورے جہاز میں سفر کرتا ہو اسے عام جہاز میں دیگر مسافروں کے ساتھ بیٹھنا کیسا لگے گا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ ان کو بے حد خاص مراعات کے چھن جا نے کا اندیشہ ہر صورت میں کرسی سے چپکے رہنے پر مجبور کرتا ہے اور مخالفین کو کچلنے پر اکساتا ہے۔ وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ جب وہ کسی خطاب عام میں شرکت کے لیے جاتے ہیں تو دس ہزار لوگ ان کی حفاظت پر تعینات ہوتے ہیں کل اگر یہ تعداد گھٹ کر دس پر پہنچ جائے تو وہ اپنے آپ کو کتنا غیر محفوظ محسوس کریں گے اس کا تصور کرکے دیکھیں تو ان کی مجبوری سمجھ میں آجائے گی ۔ اقتدار کے دوران یہ لوگ جن پر مظالم کرتے ہیں ان کے حکومت میں آجانے پر انتقام کا اندیشہ بھی پریشان کرتا ہے۔ وزیر اعظم کی شاندار کوٹھی کے بعد جیل کی کال کوٹھری میں جانے کا تصور بھی روح فرساہوتا ہے ۔ رافیل کی بدعنوانی میں ملوث لوگوں کے لیے اس کا قوی امکان پیدا ہوجاتاہے۔ اس لیے معقول ترین اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ آہنی ہتھوڑے سے کچل دیا جاتا ہے۔
حکمرانوں کی دو اقسام ہیں ایک تو وہ کہ جو کسی نہ کسی نظریہ کے حامل ہوتے ہیں اور علمی اعتراض کا جواب دینے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ فکری اختلافات سے پریشان نہیں ہوتے بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ اس صلاحیت سے محروم لوگوں کا ہوتا ہے ۔ وہ لوگ ہر وقت گالی گلوچ اور مارپیٹ پر آمادہ رہتے ہیں ۔ سنگھ پریوار ویسے تو ایک نظریاتی تحریک ہے لیکن اس کا نظریہ کتابوں کی حد تک ہی ٹھیک ہے کیونکہ انہیں ایک خاص طبقہ پڑھتا ہے اور اس کا گرویدہ بھی ہوجاتا ہے ۔ عمل کی دنیا میں سنگھ کے نظریات کی بنیاد پر کوئی جماعت انتخاب نہیں جیت سکتی اس لیے وہ جذباتی مسائل اٹھا کر نفرت و عناد کی سیاست کرتا ہے ۔ اس سے متعلق سنجیدگی سے پانچ منٹ بھی گفتگو نہیں کرپاتے ۔ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں اگر اقتدار ہوتو وہ اس کے ذریعہ جبرو استبداد کا بازار گرم کردیتے ہیں ۔ دولت پاس ہوتو ذرائع ابلاغ کو خرید کر جعلی ماحول سازی کی جاتی ہے۔ دونوں یکجا ہوجائیں توجو طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہےاس کا نظارہ آئے دن ہورہا ہے ۔
آزادی کے ۷۴ سال بعد یہ سوال بہتوں کو پریشان کرتا ہوگا کہ آخر وہ خواب کیا ہوئے کہ جن کی خاطر یہ جنگ لڑی گئی تھی اور بے شمار قربانیاں پیش کی گئی تھیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے ۔اس لیے ایک معروضی خود احتسابی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ کے دن انگریز ی سامراج سے تو نجات مل گئی لیکن اس کے باوجود مغربی نظریات کی غلامی ختم نہیں ہوئی ۔ یعنی ہاتھ بدل گئے مگر نظام نہیں بدلا اس لیے شدت میں کمی کے باوجود استحصال اپنے نئے انداز میں جاری رہا ۔ عالمی سطح پر وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ ساری دنیا کے ممالک دائیں اور بائیں بازو والوں میں منقسم تھی۔ نہرو ، ناصر اور ٹیٹو نے غیر جانبدار ممالک کا درمیانی الحاق بنایا لیکن اس کا بھی واضح جھکاو دائیں جانب تھا۔ وطن عزیز میں ساری سیاسی جماعتیں مغربی نظریات کی حامی تھیں ۔ کوئی اشتراکیت کا دیوانہ تو کوئی سرمایہ داری کا دلدادہ تھا۔ مغرب کی نظریاتی مخالفت کا دم بھرنے والے سنگھ پریوار نے مغرب کی فسطائیت کو اپنے لیے نمونہ بنارکھا تھا۔
پنڈت نہرو کا جھکاو سوشلزم کی جانب تھا اور اس سے ابتدا میں غریب عوام کا کسی قدر فائدہ ہوا مگر فطرت سے ٹکراو کے سبب وہ نظریہ عالمی پیمانے پر ناکام ہوگیا۔ اس کے بعد نرسمھا راو نے سرمایہ داری کو درآمد کیا ۔ اٹل جی نے اس کو پروان چڑھایا ۔ منموہن تو خیر اسی کے پروردہ تھے مگر مودی نے اس کو کرونی یعنی غالی سرمایہ داری میں بدل دیا۔ اس نظام کے اندر سرمایہ دار اور سرکار کے درمیان ایک یارانہ ہوجاتا ہے اور دونوں مل کر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں تو کسی حد تک حکومت عوام کو سرمایہ دار کے استحصال سے بچاتی ہے مگر یہاں بازی الٹ جاتی ہے۔ عوام کو نعروں سے بہلایا جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔ کسان بل اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے جو نظریات مغربی ممالک سے تفریق و امتیاز اور عوام کا استحصال ختم نہیں کرسکے وہ ہندوستان میں یہ کام کیسے کرسکیں گے؟ ان سارے نظریات میں خدا بیزاری اور انسانوں کی غلامی مشترک ہے۔ جمہوریت میں کہنے کو حکمراں عوام کا غلام ہوتا ہے مگر حقیقت میں عوام حکمرانوں کے غلام ہوتے ہیں۔ انسان جب تک اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں نہیں آجاتا اس وقت تک حقیقی آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوگا اورفیض کو کہنا پڑے گا؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
***
***
حکمرانوں کی دو اقسام ہیں ایک تو وہ کہ جو کسی نہ کسی نظریہ کے حامل ہوتے ہیں اور علمی اعتراض کا جواب دینے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ فکری اختلافات سے پریشان نہیں ہوتے بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ اس صلاحیت سے محروم لوگوں کا ہوتا ہے ۔ وہ لوگ ہر وقت گالی گلوچ اور مارپیٹ پر آمادہ رہتے ہیں ۔ سنگھ پریوار ویسے تو ایک نظریاتی تحریک ہے لیکن اس کا نظریہ کتابوں کی حد تک ہی ٹھیک ہے کیونکہ انہیں ایک خاص طبقہ پڑھتا ہے اور اس کا گرویدہ بھی ہوجاتا ہے ۔ عمل کی دنیا میں سنگھ کے نظریات کی بنیاد پر کوئی جماعت انتخاب نہیں جیت سکتی اس لیے وہ جذباتی مسائل اٹھا کر نفرت و عناد کی سیاست کرتا ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021