فضیلت رمضان: قرآن وحدیث کی روشنی میں
عادل مجید ندوی
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جس نے ہمیں رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینہ سے نوازا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی آمد کے موقع پر اللہ کے رسول صلہ وسلمل دعائیں مانگا کرتے تھے۔
رمضان المبارک میں آپ صلہ وسلمل کے شب وروز کے معمولات بڑھ جاتے۔ تہجد کا اہتمام خود بھی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مہینہ ابرِ رحمت کی مانند ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے دل سیراب ہوجاتے ہیں اور ان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کی فضیلت وعظمت اور فیوض وبرکات کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی ارشادات منقول ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پا بہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘(بخاری)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو خیر کے تمام اسباب بروئے کار لائے جاتے ہیں اور شر کے اسباب مسدود کر دیے جاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا : تم پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر اِس سے بہترمہینہ اور منافقین پر اس سے بُرا مہینہ کبھی نہیں آیا۔ پھر دوبارہ قسم کھا کر فرمایا: ﷲ تعالیٰ اس مہینے کا ثواب اور اس کی نفلی عبادت اس کی آمد سے پہلے لکھ دیتا ہے اور اس کی بدبختی اور گناہ بھی اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتا ہے، کیونکہ مومن اس میں انفاق کے ذریعے قوت حاصل کر کے عبادت کرنے کی تیاری کرتا ہے اور منافق، مومنوں کی غفلتوں اور ان کے عیب تلاش کرنے کی تیاری کرتا ہے۔‘‘حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگوں کو رمضان کی فیوض وبرکات کا علم ہوتا تو وہ تمنا کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘
ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اور قرآن خود کتاب و ہدایت ہے لہذا رمضان المبارک میں قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرکے مومن اپنے مقصد کو پا لیتا ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا اور یہ قرآن لوگوں کے لیے سرپا ہدایت ہے‘‘ (البقرة 2:185 )
ماہ رمضان کو جن وجوہ کی بنا پر دوسرے مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ان میں سے چند یہ ہے:
(1) تمام مہینوں سے افضل ۔ ماہ مبارک کو حدیث پاک میں سید الشهور شهر الرمضان (تمام مہینوں کا سردار) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے تمام دن تمام لمحے سب سے بہتر اور ایک ایک سیکنڈ بہت قیمتی ہے ۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلہ وسلمل نے شعبان کی آخری تاریخ میں فرمایا۔ اے لوگو! سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اور بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز ٹھیرایا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے وہ اس کے لیے گناہوں کے معافی اور آگ سے نجات کا سبب ہوگا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہوگا مگر روزہ دار کے ثواب میں کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کا پلادے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی یہ ثواب مرحمت فرما دے گا۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔‘‘
(2) آسمانی کتابوں کا نزول ۔اس سلسلے میں حضرت واسلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں کہ حضور صلہ وسلمل نے فرمایا ابراہیمی صحیفہ رمضان المبارک کی پہلی رات کو اترا اور تورات 6 رمضان المبارک میں انجیل 13 رمضان المبارک میں آور قرآن کریم 24 رمضان المبارک میں نازل ہوا دوسری روایت میں ہے حضرت جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ زبور 12رمضان اور انجیل 18 رمضان میں نازل ہوئی۔(مسند احمد )
(3) صیام کا مہینہ ۔ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزوں کی دولت سے نوازا چنانچہ قرآن پاک میں ہے جو شخص تم میں سے اس مہینہ کو پالیتا ہے وہ ضرور روزہ رکھے (البقره ایت185)
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘ (بخاری)
‘رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہمسری نہیں کر سکتے۔ روزہ انسان کو نفسانی خواہشات پر قابو رکھتے ہوئے تقویٰ و پرہیزگاری جیسی لازوال نعمت سے سرفراز کرتا ہے جو انسان پر روحانی کمالات کے لیے بہت ہی مؤثر ہے۔
(4) قیام کا مہینہ۔ اس مہینہ میں آدمی دن میں روزہ رکھ کر رات کو اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑا رہ کر اپنی بندگی کا ثبوت پیش کرتا ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلہ وسلمل نے فرمایا: جس نے رمضان المبارک میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘(بخاری)
(5)قرآن کا مہینہ۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں رسول اللہ صلہ وسلمل کا ایک اہم معمول قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا بھی تھا۔ رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خصوصی نسبت ہے کیوں کہ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے جس طرح دوسری نیکیوں کا اجر اس ماہ میں ستر گنا ہوجاتا ہے اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کا بھی اجر بڑھ جاتا ہے ، اگر عام دنوں میں قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں تو رمضان میں ستر گنا اضافہ کے ساتھ ایک حرف کی تلاوت پر سات سو نیکیاں نامہ اعمال میں درج ہوں گی، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہ صلہ وسلمل نیکی کے کاموں میں لوگوں سے بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے خاص طور سے رمضان المبارک کے مہینہ میں خیر کے کاموں میں بہت اضافہ ہو جاتا۔ رمضان میں جبرئیل امین کی بھی آمد رسول اللہ صلہ وسلمل کی خدمت میں زیادہ ہو جایا کرتی تھی اور جبرئیل جب آتے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا دور فرماتے۔ (بخاری)
(6) شب قدر ۔یہ وہ رات ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے پوری سورت نازل فرمائی اس رات کو افضل ترین کہا گیا یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے وہ مومنون سے مصافحہ کرتے ہیں یہاں تک کہ فجر طلوع ہوتی ہے۔یہ رات سابقہ امتوں کے عبادت گزار بندوں سے سبقت لے جانے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے
رسول اللہ صلہ وسلمل ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے، لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ذکر واذکار اور تسبیحات میں بہت اضافہ ہوجاتا، کثرت ذکر کے ساتھ اس ماہ میں دعائیں بھی خوب کرتے تھے، حدیث پاک میں ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہِ رمضان میں ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘ (طبرانی)
رسول اللہ صلہ وسلمل نے عام مسلمانوں کو اس ماہ میں کثرت سے ذکر اور دعا کرنے کا حکم دیا کہ اس ماہ میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں بالخصوص افطار کے وقت افطار سے پہلے دعاؤں میں مشغول ہونا چاہیے، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے رسول پاک کا ارشاد ہے: تین آدمیوں کی دعائیں رد نہیں ہوتی ہیں، روزہ دار کی افطار کے وقت ، انصاف پرور بادشاہ کی اور مظلوم کی (ترمذی ) اسی طرح سحری کا وقت دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی ہے، سحری کے لیے جب بیدار ہوں تو دعاؤں کا بھی اہتمام کریں بالخصوص سال رواں میں پوری عالم انسانیت عام طور پر اور عالم اسلام خاص طور پر جن سیاسی و اقتصادی نشیب وفراز اور وبائی امراض میں مبتلا ہے ان حالات میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں آہ وزاری اور نادم بن کر اللہ کے حضور سچی اور خالص توبہ کی اشد ضرورت ہے چنانچہ قرآن کریم میں ہے ۔
اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی سچی توبہ کرو، جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی طاعات اور عبادات سے معمور ہوجائے اور وہ گناہوں سے بچتا رہے امید ہے کہ تمہارا رب توبہ قبول فرمانے کے بعد تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اور قیامت کے دن تمہیں ان باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ (التحریم 8) دوسری جگہ الله تعالى فرماتا ہے (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وه میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے)۔ (البقرة رقم 186) اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں دعا اور توبہ و استغفار کی کثرت کریں اور عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات اور اخلاق وکردار کو بھی درست کریں تاکہ الله رب العزت ہمارے اعمال کو شرف قبولیت بخشے۔
سحری کے لیے جب بیدار ہوں تو دعاؤں کا بھی اہتمام کریں بالخصوص سال رواں میں پوری عالم انسانیت عام طور پر اور عالم اسلام خاص طور پر جن سیاسی و اقتصادی نشیب وفراز اور وبائی امراض میں مبتلا ہے ان حالات میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں آہ وزاری اور نادم بن کر اللہ کے حضور سچی اور خالص توبہ کی اشد ضرورت ہے