فاقہ کشوں کے ملک میں غذاکا زیاں!

بھارت خوراک ضائع کرنے والے ممالک میں سب سے آگے

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ہمارا ملک کھانے پینے کے اشیا اتنی مقدار میں ضائع کرتا اس سے پوری برطانیہ کی آبادی کو خوراک پہنچائی جا سکتی ہے۔ تقریبات جیسے شادی بیاہ، کینٹینوں، ہوٹلوں، سماجی و خاندانی تقریبات اور گھروں میں کھانے کا اتنا ضیاع ہوتا ہے کہ اس سے کسی ملک کی عوام کی بھوک مٹ سکتی ہے۔ جب بھارت اناج کی پیداوار میں بھی آگے ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس اناج کو ضائع کرنے میں بھی آگے ہے تو وہیں عالمی ہنگر انڈکس میں اپنی درجہ بندی مزید خراب کرتا جا رہا ہے۔ اناج پیدا کرنے والے کسان کئی دن سے احتجاج کر رہے ہیں اور بھارت عالمی ہنگر انڈکس (جی ایچ آئی) میں اپنی درجہ بندی کو مزید ابتر کرتا جا رہا ہے۔
سی ایس آر جریدے کی ایک رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اس جریدے نے انکشاف کیا کہ "بھارت اتنا کھانا ضائع کرتا ہے جتنا کہ پورا برطانیہ کھاتا ہے”۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں لاکھوں لوگ آج بھی کھانا نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں کے کنارے، جھگی جھونپڑیوں میں بھوکے ہی سوجاتے ہیں وہاں اس طرح اناج کا ضائع ہونا انتہائی افسوس کی بات ہے۔ جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں تیار شدہ غذا کا تقریباً 40 فیصد کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ گیہوں (گندم) کی پیداوار میں سے تقریباً 21 ملین ٹن ضائع ہو جاتا ہے جب پوری دنیا میں اندازے کے مطابق تقریباً 50 فیصد کھانوں کی یہی صورت حال ہے۔ یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے کہ ایک طرف ملک میں کھانا ضرورت مندوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا وہاں اس قدر اناج کا ضائع ہونا عوامی بے حسی اور حکومت کی نااہلی آشکار کرتا ہے۔ وزارت زراعت کے مطابق ملک میں ہر سال پچاس ہزار کروڑ روپے کی تیار شدہ غذا ضائع ہوتی ہے۔
عالمی ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 88 ممالک میں سے بھارت کا نمبر 63 واں ہے۔ خوراک کی بربادی نہ صرف بھکمری میں اضافہ کرتی ہے بلکہ افراط زر کی وجہ سے معیشت میں بھی بہت ساری خرابیاں پیدا کرتی ہے اور معاشی ابتری پیدا کرتی ہے۔ اس خوارک کی بربادی میں حکومتی پالیسیاں ذمہ دار ہیں لیکن اس معاملے میں صرف حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھیرایا نہیں جا سکتا عوام بھی اس میں برابر کی شریک ہیں۔ بڑی بڑی شادیوں، بڑی بڑی پارٹیوں میں جتنی غذا ضائع ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
ایسے ملک میں جہاں لاکھوں افراد کو پینے کے لیے صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے وہاں کھانا تیار کرنے کے لیے یعنی پکوان میں تقریباً پچیس فیصد تازہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ آپ کو یہ بات جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ کھانا تیار کرنے کے لیے جو پانی کا ضیاع ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پانی کا حساب تقریباً ایک مکعب میٹر ہوتا ہے یعنی ملک میں بہنے والے اوسط دریا کے برابر ہے یا اس سے تھوڑا زیادہ ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق دنیا میں اناج کی پیداوار اتنی ہوتی ہے کہ دنیا کی کل آبادی کو دو مرتبہ کھانا فراہم کیا جا سکتا ہے یعنی موجودہ آبادی سے دوگنا اناج پیدا کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا اناج پیدا ہونے کے باوجود کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں 65 ملین لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تعداد کسی بھی ترقی یافتہ ملک (جیسے فرانس) کی آبادی کے برابر ہے۔ ملک میں اناج اگانے کے لیے لاکھوں ایکڑ جنگل کو صاف کر دیا گیا تقریباً 45 فیصد جنگلات کاٹ دیے گئے جس کی وجہ سے ملک میں ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہو گیا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح میں بھی تشویش ناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔زراعت کے لیے غیر معیاری، غیر فطری طریقہ کار اختیار کر کے زمین کی قوت کو کم کر دیا گیا ہے۔ اگر چہ ملک نے جنگلات کاٹنے پر، زراعت کے غیر فطری طریقہ کار پر روک لگائی ہے اور تقریباً 14 ہزار ہیکٹر رقبہ جھاڑ جھنکاڑ لگائے گئے ہیں جہاں پھر سے جنگل اگ آیا ہے۔ ہندوستان دنیا میں تیسرا بڑا ملک ہے جو خوردنی تیل درآمد کرتا ہے ان درآمدات میں سے تقریباً تین سو بلین بیرل خوردنی تیل کا استعمال ہوتا ہے جو بالآخر ضائع ہو جاتا ہے۔
خوردنی اشیأ کی بربادی کی وجہ سے ملک کی معیشت بھی کمزور ہوتی جاتی ہے اگر غذا کا ضیاع ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پیداوار کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت پڑی تھی وہ ساری ضائع ہو گئیں، کسانوں کی محنت سے لے کر بجلی، پانی اور اس اناج کو کھانے کے قابل بنانے والی صنعتیں ان میں کام کرنے والے افراد کی محنت وہ سب ضائع ہو گئیں۔ اگر ان تمام کا تخمینہ لگایا جائے تو نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں ہر سال 58 ہزار کروڑ سے 96 ہزار کروڑ روپے مالیت کی غذا ضائع ہو جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ کاشتکار چاول کی فصل اُگاتے ہیں لیکن اس کو محفوظ کرنے کے صحیح اقدامات نہیں کرتےتو فصل خراب ہو جائے گی اس میں کیڑے پڑ جائیں گے جس کے نتیجہ میں کسانوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ اس چاول کو بازار میں کوئی خریدنے والا نہیں ہوگا اس طرح وہ چاول ضائع ہوگا۔ اسی طرح ڈائری مالک نے کسی آئس کریم بنانے والے کو اچھا دودھ مہیا نہیں کیا یا اس نے آئس کریم بنانے کے دوران اس کو خراب کر دیا تو ان دونوں کو نقصان تو ہو گا ہی ساتھ ہی وہ دودھ بھی ضائع ہوگا یقینی طور پر ان سارے نقصانات کا معیشت پر اثر پڑے گا۔
اسی طرح جو لوگ کھانا استعمال کیے بغیر پھینک دیتے ہیں یا کچھ استعمال کیا کچھ پھینک دیا تو وہ نہ صرف کھانا ضائع کرتے ہیں بلکہ اس سے وابستہ سارے لوگوں کی محنتوں کو بھی ضائع کرتے ہیں جنہوں نے اس غذا کو استعمال کے قابل بنایا اور اس طرح سے وہ اپنی کمائی کو بھی ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر لوگ اپنے گھروں میں، ہوٹلوں میں، شادیوں میں یا دیگر تقریبات میں کھانے ضائع کرنا چھوڑ دیں تو وہ نہ صرف اپنے پیسے کی بچت کریں گے بلکہ اس سے وابستہ افراد کی محنتوں کی بھی قدر دانی کرنے والے ہوں گے۔ در حقیقت اگر کم کھانا ضائع ہو گا تو اناج بھی بچے گا اور دوسرے لوگوں کو وہ میسر بھی ہوگا۔
ایف سی آئی جو ملک میں اناج کو محفوظ کرنے کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے جس کے اپنے غذائی محفوظ گاہیں ہیں اس کے ذرائع نے انڈیا ٹو ڈے کو بتایا کہ ضائع ہونے والے اناج کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایف سی آئی نے انڈیا زرعی تحقیقاتی کونسل (آئی سی اے آر) سے کہا ہے کہ وہ اناج کے ضیاع کو کم کرنے اور اس کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کرے۔
حکومت سماجی تنظیمیں اور کارپوریٹس اپنی سماجی ذمہ داری کے تحت عوام میں شعور بیدار کریں اور ایسے عملی اقدامات اٹھائیں جس سے اناج کا ضیاع نہ ہو سکے۔ اناج کو محفوظ کرنے اور اس کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کے اقدامات کرے۔ حکومتی سطح پر اناج کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کسانوں کو بنیادی ڈھانچہ فراہم کرے ذرائع حمل و نقل کو اچھا کرے تاکہ اس دوران اناج ضائع نہ ہو۔ اگرچہ کہ ہم پیداوار کے دوران اناج کے ضیاع کو روک نہیں سکتے لیکن ہم یقینی طور پر اپنی ذاتی سطح پر کھانے کے ضیاع کو تو روک سکتے ہیں۔ خوراک کی پیداوار کا کچھ حصہ کھیتوں میں یا خوارک کی ترسیل کے وقت ضائع ہوجاتا ہے اور جو صنعت کھانے پینے کی اشیا کو صارف تک سپلائی کرتی ہے وہ بھی بڑی حد تک اس ضیاع میں حصہ دار ہے۔ ایک طرف کروڑوں افراد بھوکے ہوں اور دوسری طرف اس سنگدلی سے خوراک ضائع کی جا رہی ہو یہ ایک المیہ نہیں تو کیا ہے؟
اس موقع پر ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ ہم ایک نبی کے امتی ہیں جس نے ہمیں کھانے آداب سکھائے جس نے تاکید کی کہ رزق کو ضائع نہ کرو۔ سرورعالم ﷺ کے کھانے کے آداب یہ تھے کہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ گھر میں تشریف لائے تو روٹی کا ٹکڑا پڑا دیکھا۔ آپ نے اسے اُٹھایا صاف کیا اور کھا لیا۔ اور فرمایا کہ اے عائشہ! عزت والی چیز کو عزت دو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رزق جب کسی قوم سے چلا گیا تو اس کی طرف لوٹ کر نہیں آتا” (ابن ماجہ)
رزق کی قدر کرنے کے بارے میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو ایوبؓ کے گھر پر کھانا تناول فرمایا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپ نے فرمایا "روٹی، گوشت اور خشک اور تر کھجوریں،،، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں سوال ہو گا۔”
اس مسئلہ پر دنیا بھر میں تحقیق کی جا رہی ہے کہ خوراک کے اس ضیاع پر کس طرح قابو پایا جائے؟ سب سے پہلے تو کھیتوں میں اناج کے ضیاع پر قابو پانا اور ترسیل کے دوران اور معیار برقرار رکھنے کے نام پر خوراک ضائع ہونے کو روکنا ضروری ہے۔ اس بات کی احتیاط کرنا ضروری ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا نہ پکایا جائے جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ دو افراد کا کھانا تین کے لیے اور تین کا چار کے لیے کافی ہوتا ہے۔(بخاری)
یقینی طور ہم سب یہ مثبت قدم تو اُٹھا سکتے ہیں کہ اپنے برتنوں میں ضرورت سے زائد کھانا ڈال کرضائع نہ کریں۔ اب مختلف مقامات پر اس بات کے انتظامات کیے جا رہے ہیں کہ گھروں میں یا شادیوں کے موقعوں پر یا ہوٹلوں میں جو کھانا بچ جائے اور قابل استعمال ہو وہ فوری طور پر مستحقین تک پہنچایا جائے اور جو کھانا پھر بھی بچ جائے اس کو کم از کم کھاد بنا کر مفید بنا دیا جائے۔
***

ہم اپنے برتنوں میں ضرورت سے زائد کھانا ڈال کرضائع نہ کریں۔ اب مختلف مقامات پر اس بات کے انتظامات کیے جا رہے ہیں کہ گھروں میں یا شادیوں کے موقعوں پر یا ہوٹلوں میں جو کھانا بچ جائے اور قابل استعمال ہو وہ فوری طور پر مستحقین تک پہنچایا جائے اور جو کھانا پھر بھی بچ جائے اس کو کم از کم کھاد بنا کر مفید بنا دیا جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021