ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی
مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری(پیدائش:۱۲ /جون۱۸۶۸ءوفات:۱۵ /مارچ ۱۹۴۸ء) معروف عالم دین تھے جو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ مولانا غلام رسول قاسمی ، مولانا احمد اللہ امرتسری ، مولانا احمد حسن کانپوری ، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔فن مناظرہ میں مشاق تھے۔ سینکڑوں کامیاب مناظرے کئے ۔ ۱۹۴۷ء میں سرگودھا میں مقیم ہوگئے تھے۔ بعارضہ فالج وفات پائی۔مولانا ثناء اللہ امرتسری ایک بلند پایہ مفسر قرآن، محدث،مورخ،ادیب ،صحافی ،معلم اور متکلم ،فلسفی اور مناظرہ کے امام تھے۔ ادیانِ باطلہ کی تردید میں آپ ممتاز مقام رکھتے تھے۔ بقول مولانا سید سلیمان ندوی :’’مولانا ثناء اللہ امرتسری ہندوستان کے مشاہیر علماء میں تھے ۔ فن مناظرہ کے امام تھے ۔ خوش بیان مقرر تھے ۔ متعدد تصانیف کے مصنف تھے ۔ موجودہ سیاسی تحریکات سے پہلے جب شہروں میں اسلامی انجمنیں قائم تھیں اور مسلمانوں اورختم نبوت کے منکرین اورآریوں عیسائیوں میں مناظرے ہوا کرتے تھے تو آپؒ مسلمانوں کی جانب سے عموماً نمائندہ ہوتے تھے ۔ اور اس حوالہ سے وہ ہمالیہ سے لے کر خلیج بنگال تک رواں دواں رہتے تھے ۔ اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کے حملے کوروکنے کے لئے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کردی ۔ آپؒ اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے ۔ زبان و قلم کے ذریعہ اسلام پر جس نے بھی حملہ کیا اس کی مداخلت میں جو سپاہی آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے‘‘۔(۱)
خطابت، سیاست،صحافت ،مناظرہ وغیرہ میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ مولانا نے مختلف موضوعات پر کم وبیش سو سے زائد اردو عربی دونوں زبانوں میں تالیفات کا ایک یادگار ذخیرہ چھوڑا ہے۔دوسری جانب مولانا مختلف مذہبی وقومی تنظیموں اور تحریکی اداروں کے سربراہ ونمائندہ رہے۔ وہ ندوۃ العلماء کے بنیادی اور دائمی رکن رہے۔ جمیعتہ العلماء ہند کے ابتدائی بانیوں میں سے تھے،جماعت اہل حدیث کے سرخیل تھے ۔
مولانا امرتسری کو جس چیز کے لیے یاد رکھا جائے گا وہ ان کی خدمت قرآن ہے۔ مولانا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی کل پانچ مکمل وجزوی ترجمہ و تفاسیرتالیف کی ہیں۔ مولانا چونکہ مناظر اسلام تھے، ان کا مختلف فرقوں سے ہر وقت واسطہ رہتا تھا۔اسلام کے دفاع میں ان سے چو مکھی لڑائی لڑتے ۔لہٰذا انہوں نے جو تفسیریں اردو وعربی میں لکھیں ان میں اپنے قاری کے لیے قرآن فہمی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی پورا پورا جواب فراہم کردیا ہے کہ وہ مخالفین اسلام کا مدلل ومسکت جواب دے سکیں۔ آئیے مولانا کی ان تفاسیر پر ایک نظر ڈالیں:
۱۔ تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن(عربی):
اس تفسیر کی خصوصیت یہ ہے کہ مولانا نے قرآن کی تفسیر قرآن کی آیات سے کی ہےاس انداز کی تفاسیر بہت کم لکھی گئی ہیں۔ہندوستان میں لکھی جانے والی تفاسیر میں اس لحاظ سے یہ اولین تفسیر ہے۔۴۰۲ صفحات پر مشتمل اس تفسیر کو مولانا نے ۱۳۳۱ھ میں مکمل کیا۔اس شہرہ آفاق تفسیر کے ذریعہ مولانا کوعالمی طور پرشہرت حاصل ہو گئی۔ اس پر عالم اسلام کے نامور علما اور مختلف اسلامی رسائل وجرائد نے اپنے اپنے کالموں میں تبصروں کے ذریعہ اسے بیحد سراہا۔ان میں مصر کے اہم رسائل ’الاہرام‘ ،’المئوید‘،’المنار‘ وغیرہ شامل ہیں۔ المئویدنے ۱۳۳۱ ھ کی ایک اشاعت میں لکھا: ’’یہ ایسی تفسیر ہے جو بلند آسمان میں اس کے ستاروں کی طرح چمک رہی ہے اس کا مطالعہ بصیر سے کم سمجھی اور جہالت کے بادلوں کو منتشر کررہا ہے‘‘۔ (۲)
خود ہندوستان کے معروف علماء اور یہاں کے علمی وادبی رسائل وجرائد نے بھی اس کی تعریف وتوصیف کی ہے؛جن میں بیسیوں علماء شامل ہیں طوالت کے پیش نظرصرف مولاناسید سلیمان ندوی کے تبصرےکو پیش کیا جارہا ہے۔
’’اس تفسیر کی اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں جلالین کی طرح اختصار ملحوظ رکھاگیا ہے، عربی مدرسوں میں اگر جلالین کی جگہ اس تفسیر کو رواج دیا جائے تو آج کل کی ضرورتوں کے لحاظ سے بہت بہتر ہے‘‘۔(۳)
دوسری جانب اس پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ مولانا ثناء اللہ ۴۰ جگہوں پر محدثین کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں ، اس پر کافی مباحثہ ہوئے لیکن مشاہیر علماء کی ایک بڑی تعدا د نے یہ متفقہ فیصلہ دے کر ان اعتراضات کو ختم کردیا۔
۲۔ تفسیر ثنائی(اردو):
یہ مولانا کی دوسری مکمل تفسیر ہے،جو نہایت ہی جامع ہے آٹھ جلدوں میں متعدد بار شائع ہوئی ہے ،اب جدید ایڈیشن کو تین جلدوں میں ضم کردیا گیا ہے۔اس کی پہلی جلد ۱۳۱۳ھ/۱۸۹۵ء میں اور جلد ہشتم ۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۱ء میں مکمل ہوکر شائع ہوئی ہیں۔ اس تفسیر کے لکھنے کی مولانا نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں جن میں نمایاں یہ ہیں:
۱۔ مسلمانوں میں فہم قرآن پیدا کرنا
۲۔ مخالفین اسلام مثلاً آریہ،عیسائی ،اور مرزائی کا مدلل انداز میں جواب دینا۔ مولانا ’التماسِ مصنف‘ میں لکھتے ہیں: ’’میں نے قرآن کریم کو جامع علوم عقلیہ اور نقلیہ بالخصوص علم مناظرہ میں امام پایا۔ دعویٰ پر دلیل ایسے ڈھب کی ادا ہوتی ہے کہ ہر ایک درجہ کا آدمی اس سے فائدہ لے سکے گا‘‘۔(۴)
۳۔ دینی مسائل میں اختلافات کا مثبت انداز میں جواب دینے کی کوشش۔ اس کے علاوہ سرسید کی تفسیر پر بھی منظم انداز میں تنقید کی گئی ہے۔
۴۔ ربط آیا ت اور نظم کلام کی جانب مفسرین توجہ نہیں دیتے۔ اس سے پہلے جو تفاسیر لکھی گئیں وہ قدرے طویل ہیں ۔ اس لیے ایک سہل اور مختصر تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا۔
مختصراً یہ کہ تفسیر ثنائی مولانا کا ایک لاثانی تفسیر ی کارنامہ ہے ، جس میں ادیان باطلہ کےاعتراضات کے مدلل جوابات دیے گئے ہیں۔ دور حاضر میں اسلام کے خلاف جو غلط پروپگنڈے کیے جارہے ہیں ان حالات میں داعیانِ اسلام کے لیے یہ ایک انمول تحفہ ہے۔
۳۔ بیان القرآن علیٰ علم البیان (عربی):
مولانا کی یہ تفسیر صرف سورہ بقرہ تک کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔ ۱۹۳۴ء میں یہ ثنائی پریس، امرتسر میں طبع ہوئی۔ مولانا نے اسے عربی ادب ولغت ،صرف ونحو ،معانی وبیان کے اصول پر لکھی ہے۔اس میں معاصرین کی تفسیروں پر بھی تنقید کی ہے۔
۴۔ تفسیر بالرائے (اردو):
اس تفسیر کو لکھنے کی بنیادی وجہ اپنے عہد کی مروجہ تفاسیر وتراجم ِ قرآن کی اغلاط پیش کرکے ان کی اصلاح کرنا ہے۔ افسوس کہ اس کا بھی ایک ہی حصہ طبع ہوسکا۔ اس کی پہلی اشاعت ۱۹۳۹ء میں امرتسر سے ہوئی ۔ اس میں جن تفاسیر کا جائزہ لیا گیا وہ یہ ہیں:
تفسیر القرآن از سر سید، تفسیر بیان للناس از مولوی احمد الدین امرتسری، عبداللہ چکڑالوی کا ترجمہ، ترجمہ و تفسیر ڈپٹی عبداللہ خاں لاہوری، تفسیر خزینتہ الفرقان از مرزا غلام احمد قادیانی، تفسیر بیان القرآن از محمد علی،تفسیر ایقان از بہااللہ ایرانی،ترجمہ وحواشی از مقبول احمد،علامہ عنایت اللہ مشرقی،عام فہم تفسیر قرآن از خواجہ حسن نظامی، تفسیر کنز الایمان از احمد رضا خان بریلوی وغیرہ۔
مولانا نے ان تفاسیر کا بے لاگ جائزہ لے کر بہت ساری غلط تاویلات کا ابطال کیا ہے۔
۵۔ برہان التفاسیر:
یہ تفسیر مولانا نے پادری سلطان محمد خان پال کی ’سلطان التفاسیر‘ کے جواب میں لکھی تھی۔یہ سورہ بقرہ کے ۱۶ رکوعوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر مولانا کے ہفت روزہ ’اہل حدیث‘ میں ۸۱ قسطوں میں ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۵ء تک شائع ہوتی رہی۔مولانا نے پادری سلطان کی غلط بیانیوں ، تفسیری کج فہمیوں اور اعتراضات کے مدلل انداز میں جوابات دیے ہیں۔ ۲۵۰ صفحات پر مشتمل اس تفسیر کی اشاعت کا اہتمام مولانا عارف جاوید محمدی نے کیا ،جبکہ ادارہ احیاء التراث لجنتہ القارۃ الکویت نے اسے شائع کیا۔(۵)
ان تفاسیر کے علاوہ مولانا نے عیسائیت ،مرزائیت اور سناتن ہندووں کے اعتراضات کے جوابات دینے کے لیے بھی کئی کتابیں لکھیں۔
مولانا ثناء اللہ نے کافی تندہی و استقلال سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ۔ آپؒ نے اسلام کی حقانیت کو ہر موڑ پر ہر حوالے سے ثابت کیا۔ ۱۸۹۱ء میں جب مرزا قادیانی نے دعویٰ مسیحیت کیا‘ آپ اس وقت طالب علم تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں آپؒ نے ردِ قادیانیت کو اختیار کر لیا۔ آپؒ نے پھر قادیانیت کے خلاف اتنا جوش و خروش دکھایا کہ مرزا قادیانی اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ آپ کی زندگی تحفظ اسلام کے لیے مکمل طور پر وقف تھی۔دیگر مفسرین قرآن میں مولانا کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے صرف قرآن مجید کی تفاسیر اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جوابات تفاسیر لکھ کر ،یا اپنی تحریروں سے دیا بلکہ اس کے لیے آپ نے عملی جدوجہد بھی کی۔اسی جدوجہد کی بنا پر آپ کو فاتح قادیان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ آپ کے تفسیری کارناموں پر اتنی زیادہ توجہ نہیں دی گئی جتنے وہ مستحق تھے، آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مولانا نے باطل کا جس انداز میں دندان شکن جواب دیا ہے اور اس کے لیے جو مدلل ذخیرہ تیار کیا ہے اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھا یا جائے۔
حوالے: ۱)سید سلیمان ندوی ،معارف: ، اکتوبر ۱۹۲۹ء جلد ۲۴،ص۔۳۱۵۔ (۲)۔ مبین احمد ندوی ،مولاناثناءاللہ امرتسری کی تفسیری خدمات ، مشمولہ قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برسوں میں ، ص۔۲۰۵خدا بخش اورینٹیل لائبریری، پٹنہ،۱۹۹۵ء۔(۳)۔ سید سلیمان ندوی ،معارف، اکتوبر ۱۹۲۹ء جلد ۲۴،ص۔۳۱۵۔ (۴)۔ مولانا ثناء اللہ،مقدمہ تفسیر ثنائی،جلد،اول،ص۔۳۔(۵) محمد رمضان یوسف سلفی ،مولانا ثناء اللہ امرتسری۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا 20 مارچ 2021