غیر معتدل معاشی ترقی۔ مہنگائی اور بے قابومالیاتی خسارہ

کمپنیوں کی جانب سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ۔ عوام کی جیب پر مزید بوجھ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

قیمتوں کا دباو معیشت پر بوجھ بن گیا ہے۔ گزشتہ دنوں نیشنل اسٹیٹسٹکل آفس (این ایس او) کے ایک ڈیٹا کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) نے نشاندہی کی ہے کہ خوردہ مالی خسارہ محض 3 ماہ میں اکتوبر میں 4.48فیصد سے بڑھ کر 4.9فیصد ہوگیا ہے۔ مالی خسارہ میں اچھال ایندھن کی قیمت پر ٹیکس میں کٹوتی کے باوجود سامنے آیا ہے جس سے وسیع تر معیشت پر اشیا کی قیمتوں کا دباو ظاہرہوتا ہے۔ مالی خسارہ چند ماہ میں اور بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے جو باعث تشویش ہے۔ مرکزی بینک کی پالیسی بھی اس ضمن میں غیر متبدل رکھی جارہی ہے۔ غیر غذائی اشیا کے ساتھ غدائی اشیا کی قیمتوں میں بھی کافی اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ اکتوبر میں 0.81فیصد اور نومبر میں 1.87فیصد فوڈ پرائس انڈیکس میں بالترتیب اضافہ درج کیا گیا ہے۔ مثلاً اناج، گوشت، مچھلی ،انڈا، دودھ اور پھلوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔ اصل مالی خسارہ کا گراف بھی اوپر کی طرف ہی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر ضروری برتنے کے سامان، کپڑے، جوتے اور گھریلو ضروریات زندگی بھی مہنگی ہوئی ہیں۔ اس طرح مہنگائی نے عام لوگوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ وہیں حکومت کی طرف سے آئی ایک رپورٹ میں تھوک قیمت اشاریہ (Whole Price Index) نومبر میں 30دہائی کی سب سے اونچی سطح 4.3فیصد پر پہنچ چکی ہے جس کی خاص وجہ خام تیل، دھات اور قدرتی گیس کی قیمت میں اضافہ ہے۔ اپریل سے شروع ہونے کے بعد لگاتار 8ماہ سے ہول سیل پرائس انڈیکس کی بنیاد پر مالی خسارہ دہرے ہندسے میں ہی ہوا ہے۔ امسال اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 12.54فیصد ہے جبکہ نومبر 2020میں 2.29فیصد تھا۔ وزارت صنعت وتجارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نومبر 2021میں مالیاتی خسارہ کی اونچی شرح گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں قدرتی تیل، دھات، خام پٹرولیم، قدرتی گیس کیمیکلس، کیمیاوی پیداوار، غذائی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ہے۔ نومبر میں پاور باسکٹ اور ایندھن میں مالیاتی خسارہ بڑھ کر 39.81فیصد ہوگیا جبکہ اکتوبر میں یہ محض 37.18فیصد تھا ۔ غذائی اشاریہ (Food Index) گزشتہ ماہ کے 3.06فیصد سے دوگنا سے زائد 6.70فیصد ہوگیا ہے۔
سنٹر فار اکنامک پالیسی اینڈ فائنانس (CEPPF) کے ماہر معاشیات ڈاکٹر سدھانشو کمار نے بتایا کہ بھارت میں بڑھتی مہنگائی کے لیے طلب اور سپلائی کا عدم توازن ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ خام تیل کے ساتھ دیگر اسباب بھی بازار میں دباو بڑھا رہے ہیں۔ اس لیے اب آر بی آئی کو شرح سود فوری بڑھانے کی ضرورت ہوگی ورنہ مہنگائی طے شدہ ہدف کے دائرہ سے پار ہوجائے گی۔ ایک اور ماہر معاشیات انیتا رنگن بھی ڈاکٹر ہمانشو کی ہم خیال ہیں ان کا کہنا ہے کہ آر بی آئی کے اے کمیوڈیٹیو اسٹانس، کے لیے مہنگائی ایک بڑا خطرہ ہے اگرچہ خوردہ مہنگائی بہت زیادہ نہیں بڑھی ہے مگر اشیائے خورد ونوش کا حصہ چونکہ زیادہ ہوتا ہےاس لیے فی الحال اسی پر تھوک مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اثرات دیکھے جارہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال مارچ یا اپریل میں مہنگائی چھ فیصد کے پار نکل جائے۔ یہ صورتحال مالیاتی سال 2022-23تک برقرار رہنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے کمپنیاں مصنوعات کی قیمتیں بڑھادیں گی اور اس کا واضح اثر عام لوگوں کے جیب پر پڑے گا۔ واضح رہے کہ خوردہ مہنگائی میں تقریباً 46فیصد کی حصہ داری اشیائے خورد ونوش کی ہوتی ہے۔ کپڑا، جوتے چپل، ایندھن، پان، تمباکو اور بجلی وغیرہ کی حصہ داری صرف 15فیصد رہتی ہے۔ اگر طویل عرصہ تک ان پٹ لاگت بڑھتی رہی تو اس کا اثر خوردہ مہنگائی پر بھی پڑ سکتا ہے۔ مزید حالت خراب نہ ہوں اس کے لیے حکومت نے ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے 7زرعی پیداوار کی پیشگی تجارت (فیوچرٹریڈنگ) پر پابندی لگادی ہے۔ شیئر اور کمیوڈیٹی بازار میں خریدار اندازہ اور امکانات سے متعین ہونے والی قیمتوں پر اشیاء کی پیشگی خریدی کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسے اچھے نفع کے ساتھ بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ فطری طور پر مہنگائی کی حالت میں قیمتوں میں اضافہ کا اندیشہ ہی رہتا ہے کیونکہ تاجروں کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ شیئر بازار کی تنظیم سیبی نے چاول، گیہوں، چنا، سرسوں، سویا بین، خام پام تیل اور مونگ پھلی کی پیشگی کاروبار پر روک لگادی ہے۔ آئندہ قیمت کے اشاریے کو دیکھتے ہوئے پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ سب اشیاء ایسی ہیں جس کا استعمال ہر شخص کرتا ہے۔ ان پر مہنگائی کی ضرب پڑنے سے سب سے زیادہ متاثر غربا اور کم آمدنی والے لوگ ہوتے ہیں۔ ۔ آر بی آئی کا کہنا ہے کہ قیمت کے اشاریے اوپر کی طرف ہوں تو صنعتکار اور کارخانہ دار اضافی قیمتوں کا دباو خریداروں پر ڈال دیتے ہیں ۔ ٹیلی کام ٹیرف میں اضافہ، کپڑوں اور فٹ ویر پر جی ایس ٹی بڑھانے سے مہنگائی کا دباو زیادہ ہو جائے گا۔ فی الحال کپڑے پر جی ایس ٹی کے اضافہ کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ ویسے مہنگائی کی زیادتی سے بازار میں طلب کم ہوسکتی ہے جس سے معیشت کی بحالی پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ ایک امید کی کرن ضرور ہے کہ بازار میں نئی پیداوار کے آنے سے خریداروں کو راحت مل سکتی ہے اور زرعی پیداوار کی بہتری سے طلب بڑھے گی تب ہی تھوک اور خوردہ قیمتوں کے اشاریے میں گراوٹ آئے گی۔ حکومت نے آر بی آئی کو مالیاتی خسارہ کو 4 فیصد (+/-2%) پر رکھنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔ اکرا کی چیف اکونومسٹ آدیتی نیر کا کہنا ہے کہ نومبر 2021میں ہول سیل پرائس انڈیکس کی رو سے مالیاتی خسارہ کی 14.2فیصد کی نئی اونچی سطح پر چھلانگ ایک جھٹکے کی شکل میں آئی ہے جوخاص طور پر غیر خصوصی درجوں میں مالیاتی خسارہ کی شرح کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔
سال 2021-22کی دوسری سہ ماہی کے لیے سی ایس او کے تینوں تخمینوں نے مرکزی حکومت کو معیشت کی بہتری کے سلسلے میں مژدہ ضرور سنایا ہے۔ اس مدت میں جی ڈی پی میں 8.4فیصد تک کی ترقی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ گزشتہ سال اس مدت میں یہ منفی 7.4 فیصد تھی جبکہ سال 202122کی پہلی سہ ماہی کی جی ڈی پی کے مقابلے میں یہ کم ہے۔ اس لیے کہ ٹیکس کی وصولی، ریلوے، مال برداری، بجلی کی کھپت، ای وے بلس اور یو پی آئی میں اضافہ کی وجہ سے بہتری آئی ہے مگر غیر منظم شعبہ جس پر عوام کے روزگار کا انحصار ہے وہ تقریباً بند پڑے ہیں جس کا ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں ہے۔ نجی اور غیر منظم شعبہ میں زیادہ ہی پژمردگی ہے۔ پٹرول، ڈیزل، ٹماٹر پیاز اور پکوان گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سی ایس او کی نشاندہی سے پتہ چلتا ہے کہ عوام نے خریداری اور استعمال میں تخفیف کردی ہے۔ نجی خریداری سے جی ڈی پی میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا ہے۔ عوام کے پاس پیسے نہیں ہیں۔سی ایم آئی ای کی حالیہ رپورٹ کے مطابق معاشی قوت کے ارتکاز میں اضافہ ہونے سے روزگار کی حالت خستہ ہوگئی ہے۔ نتیجتاً بازار میں محنت کشوں کی شراکت کم سے کم تر ہوگئی اب تو بہت سارے لوگوں نے روزگار تلاش کرنا ہی بند کردیا ہے۔ اس لیےمعیشت میں بحالی غیر معتدل اور غیر مستحکم ہے۔
***

 

***

 ایک امید کی کرن ضرور ہے کہ بازار میں نئی پیداور کے آنے سے خریداروں کو راحت مل سکتی ہے اور زرعی پیداوار کی بہتری سے طلب بڑھے گی ۔ تب ہی تھوک ور خوردہ قیمتوں کے اشاریے میں گراوٹ آئے گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022