عوام بھگوا فریب کو سمجھنے لگے

کرناٹک میں بی جے پی ایم پی کا نفرت کا داؤ نہیں چلا

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

کاروباریوں پر آئی ٹی چھاپے۔ عطر کی خوشبو میں سیاست کی بدبو
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بن جانے سے بی جے پی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مختلف جلد باز طبیعت کے حامل آرزو مند لوگوں کو تیزی کے ساتھ ترقی حاصل کرنے کا ایک چور دروازہ مل گیا۔ اس کی ایک مثال تو آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما ہے۔ اس شخص نے یوگی والا گیروا چولا تو نہیں اوڑھا مگر بدکلامی سیکھ لی ۔ وہ جب بھی منہ کھولتا ہے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ امت مسلمہ کے خلاف اوٹ پٹانگ الزامات لگانا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ان پر ہونے والےمظالم کو وہ جائز قرار دیتا ہے اور دلآزاری پر ناز کرتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر اپنی بدعنوانی کی پردہ پوشی اس کاآزمودہ حربہ ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیےہمنتا بسوا سرما ان پر دراندازی کرکے سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا جھوٹا الزام لگاتاہے ۔ اس نے پورے صوبے میں برسوں سے اپنی زمین پر زراعت کرنے والے بنگالی مسلمانوں کو بے گھر کرکے مقبولیت بڑھانے کی مہم چھیڑ رکھی ہےلیکن اس کی آڑ میں خود سرکاری زمینوں کو نگل بیٹھا ہے۔
بسوا کا دعویٰ ہے کہ کسی کو بھی غیر قانونی طریقے سےسرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا اختیارنہیں ہے لیکن دی وائر کی تفتیش کے مطابق اس نے اپنی بیوی رینیکی بھویاں شرما اور بیٹے نندیل بسوا شرماکے ساتھ مل کر18 ایکڑسرکاری زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔اس زمین کا ایک تہائی حصہ ضلع کامروپ میں گوہاٹی ہوائی اڈے اور ٹیک سٹی سے ملحق ہے اور اس کی قیمت تقریباً سو کروڑ روپے ہے۔ اس خطہ اراضی کوبے زمین لوگوں اور اداروں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا مگر سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرکے وزیر اعلیٰ اس پر قابض ہوگئے۔سُرما کی کمپنی آر بی ایس ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈنےپہلی بار 2006-2007 میں اور دوسری بار 2009 میں یہ زمین خریدی ۔ اس وقت وہ کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کی سرکار میں ایک بااثر وزیر تھے۔انہیں امید تھی کہ آگے چل کر جب وہ وزیر اعلیٰ بنیں گے تو ساری بدعنوانی چھپ جائے گی مگر جب ترون گگوئی نے اپنے بیٹے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ وہاں پانچ سال انتظار کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ بن گئے اور مسلم دشمنی میں یوگی سے مسابقت کرنے لگے۔
اس فہرست میں بسوا سرما اکیلے نہیں ہے بلکہ دہلی میں عام آدمی پارٹی سے بی جے پی میں شامل ہونے والے کپل مشرا بھی شامل ہیں ۔ وہ بیچارے اسمبلی کا ایک انتخاب نہیں جیت سکے مگر دہلی کا فساد برپا کرنے میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔ فساد کے بعد ہندووں کے نام پر اور پھر رنکو شرما کے بہانے کروڑوں کا چندہ جمع کیا اور اس کا کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ اس مجرم پیشہ شخص کو پولیس کا ایسا تحفظ حاصل کہ اس کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی بلکہ جو جج اس پر اصرار کرتا ہے اس کا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال انوراگ ٹھاکر کا ہے جو کھلے عام ’دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔ ‘کا نعرہ بلند کرکے عوام کو تشدد پر ابھارتا ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی دلی میں منہ کی کھاتی ہے مگر اسے انعام کے طور پر مرکزی وزارت سے نواز دیا جاتا ہے۔ بی جے پی اعلیٰ کمان کے ذریعہ بدزبانوں کی حوصلہ افزائی کے سبب ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
شمال اور مشرقی بھارت کی یہ بیماری اب جنوبی ریاست کرناٹک میں بھی پہنچ گئی ہے۔ وہاں بھی یوگی ادتیہ ناتھ کے نقش قدم پرتیجسوی سوریا رواں دواں ہے۔ اس نے 25؍ دسمبر کو ضلع اُڈپی کے کرشنا مٹھ میں ایک تقریب کے شرکاء کو خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ’ہم نے اس ملک میں رام مندر تعمیر کر دیا ہے، جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے اور اب ہمیں پاکستان کے مسلمانوں کو ہندو بنانا چاہیے، ہمیں گھر واپسی کو ترجیح دینی ہوگی کیونکہ اکھنڈ بھارت کے تصور میں پاکستان شامل ہے۔‘ سوریانے اپنی مہم میں مٹھوں اور مندروں کو شامل کرتے ہوئے قیادت کرنےکی ترغیب دی اور ہر مندر اور مٹھ کو اس کے لیے سالانہ ہدف مقرر کرنےکا مشورہ دیا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب تیجسوی نے تفرقہ انگیز بیان دیا ہو لیکن جب اس متنازعہ تبصرے پر سوشل میڈیا میں تنقید شروع ہوگئی تو بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور سنگھ کر رہنماوں کو اس کی کڑی سرزنش پر مجبور ہونا پڑا۔
ہری دوار اور رائے پور کی دھرم سنسد کے برعکس جب اپنے ہی پریوار کے لوگوں سے پھٹکار پڑی تو 27؍ دسمبر کوسوریا نے یہ کہتے ہوئے اپنا بیان واپس لے لیا کہ ’دو دن قبل اُڈپی کےسری کرشنا مٹھ میں منعقدہ ایک پروگرام کے اندر میں نے ’بھارت میں ہندو مذہب کی بحالی‘ کے موضوع پر بات کی تھی۔ میری تقریر کے بعض بیانات نے ایک افسوسناک تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے میں غیر مشروط طور پر وہ بیانات واپس لیتا ہوں۔‘ یہ اس کی پرانی عادت ہے۔ اس نے عرب خواتین سے متعلق 2015 میں ایک نہایت رکیک اور نازیبا تبصرہ کیا تھا اور جب اس کے خلاف عرب صحافیوں اور خواتین کی جانب سے تنقید ہونے لگی تو ڈر کر اسے ٹوئٹر سے ہٹا دیا۔ سوریا کے حلقہ انتخاب جنوبی بنگلورو میں کووڈ وار روم قائم کیا گیا تھا ۔ اس میں بدعنوانی ہوئی یعنی اونچی قیمت پر بستر بلیک مارکیٹ میں فروخت کیے گئے۔ اس میں لازماً تیجسوی سوریا کا کمیشن شامل رہا ہوگا لیکن اسے چھپانے کے لیے سوریا نے وار روم کا دورہ کرکے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔
اس کووڈ وار روم میں جملہ 206 لوگ کام کررہے تھے مگر اس نے بلا تحقیق صرف 17 لوگوں پر سارا الزام دھر دیا اور وہ سب مسلمان تھے۔ اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں اس کی فرقہ پرستی موضوع بحث بن گئی اور اصل بدعنوانی پر پردہ پڑ گیا ۔ سوریا نے جن لوگوں کا نام لیا تھا ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ ایک نجی کمپنی کے لیے نچلی سطح پر کام کرتا ہے اسے صرف بارہ ہزار تنخواہ ملتی ہے اور وہ کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ڈاکٹر حضرات جس مریض کو جو بستر دینے کے لیے کہتے ہیں وہ دے دیتا ہے ۔آگے چل کر بنگلورو پولیس نے چار لوگوں نیتراوتی، روہت کمار ،ریحان اور ستیش کو گرفتار کرلیا۔ ان میں تین ہندو اور ایک مسلمان نکلا۔ وہ مسلمان بھی سوریا کی پیش کردہ فہرست سے نہیں تھا یعنی اس نے بلا تفریق مذیب و ملت اپنی گینگ کے مسلمان کو بھی بچانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی زہر افشانی کا یہ زاویہ بھی قابلِ توجہ ہے ۔
تیجسوی سوریا کوئی بہت قابل سیاستداں نہیں ہے۔ آر ایس ایس کی شاکھا (شاخ) میں اپنا بچپن گزارنے والے اس رکن پارلیمان کی عمر30سال ہے۔ جنوبی بنگلورو 1991سے بی جے پی کا گڑھ رہا ہے ۔ سابق مرکزی وزیر اننت کمار وہاں سے کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔ ان کے انتقال کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اننت کمار کی بیوہ، تیجسونی کو ٹکٹ دیا جائے گا لیکن 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی نے تیجسوی سوریا کو امیدوار بنادیا ۔ اس طرح بغیر کسی محنت کے اننت کمار کی سیاسی وراثت اس کے حصے میں آگئی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلیٰ کمان کی چاپلوسی میں اس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’اگر آپ مودی کے ساتھ ہیں تو بھارت کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ مودی کے حامی نہیں تو بھارت مخالف قوتوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔‘ اس طرح مودی کے تلوے چاٹ کر وہ ترقی کرتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کے دفتر کا افتتاح کرنےکے لیے امیت شاہ خود بنگلورو آئےاور اس کے دماغ کو آسمان پر پہنچا دیا۔
اس طرح کی اشتعال انگیز بیان بازی کا ایک سیاسی زاویہ بھی ہوتا ہے جیسے ہیمنتا بسوا سرما مسلمانوں کے خلاف اقدام کرکے ضمنی انتخاب جیتنا چاہتا تھا اوراس مقصد میں اسے کامیابی ملی ۔ اپنے حلیف کے ساتھ مل کر اس نے تمام پانچ نشستیں جیت لیں۔ اسی طرح کپل مشرا دہلی میں فساد بھڑکا کر نہ صرف خود انتخاب جیتنا چاہتا تھا بلکہ بی جے پی کے اندر اپنا قد اونچا کرنا چاہتا تھا ۔ ان دونوں مقاصد میں وہ ناکام رہا ۔ تیجسوی سوریا نے بھی اپنا حالیہ بیان کرناٹک میں ہونے والے بلدیاتی انتخاب سے عین پہلے دیا تھا ۔ اس کو امید رہی ہوگی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی گھر واپسی ہو نہ ہو ہندو تو کم از کم گھر کے اندر جمع رہیں گے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ ہندو رائے دہندگان اس پرفریب جال کو سمجھ گئے اور انہوں نے بی جے پی سمیت سوریا کو دھول چٹا دی ۔ کرناٹک میں بی جے پی کی یہ مسلسل دوسری شکست ہے ۔ ماہِ ستمبر کے ضمنی انتخاب میں بھی اسے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ۔
کرناٹک کے میونسپل انتخاب میں جملہ 1184 نشستوں پر الیکشن ہوا۔ ان میں سے کانگریس نے 501 سیٹیں جیت کر اپنی برتری ثابت کی جبکہ بی جے پی کو صر ف 431 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ دیوے گوڑا کی جنتا دل (ایس) جو آج کل کرناٹک میں بی جے پی کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے تیسرے نمبر پر کھسک گئی۔ اس سے چار گنا زیادہ 207 آزاد امیدوار جیت گئے۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ ٹاون پنچایت کی 557 نشستوں میں سے کانگریس کو 236 اور بی جے پی کو 194 سیٹیں ملیں جبکہ جنتا دل ایس 12 پر فتح درج کراسکی ۔ میونسپلٹی کی 441 میں سے کانگریس کو 201 اور بی جے پی کو 176 پر کامیابی ملی۔ جنتا دل کے حصے میں 21 نشستیں آئیں۔ شہری میونسپل کونسل کی کل 166میں بی جے پی کو کانگریس پر برتری حاصل ہوئی یعنی 61 کانگریسیوں کے مقابلے 67 بی جے پی کے امیدوار جیت گئے۔ جنتا دل نے یہاں بھی 12نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس انتخاب میں کانگریس کو جہاں 42.06 فیصد ووٹ ملے وہیں بی جے پی 36.9 فیصد پر سمٹ گئی ۔ یہ پانچ فیصد کا فرق معمولی نہیں ہے۔جنتا دل ایس کو 3.8 فیصد ووٹ ملے جبکہ آزاد امیدواروں کے کھاتے میں 17.24 فیصد ووٹ گئے۔یہ نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب تیجسوی سوریا جیسے لوگوں کے لیے عوام کو بیوقوف بنانا مشکل ہورہا ہے۔
ملک میں تین طرح کی ریاستیں ہیں ۔ ان میں سے ایک تو جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے اور دوسرے جہاں کانگریس کا راج ہے۔ اس کے علاوہ کئی صوبوں میں علاقائی جماعتوں کی بھی حکومت ہے۔پچھلے چند دنوں میں ان تینوں قسم کی ریاستوں میں میونسپل الیکشن ہوئے ۔ سب سے پہلے تریپورہ کو لیں جہاں بی جے پی نے بنگلہ دیش کے بہانے فرقہ وارانہ فساد بھڑکا کر334 میں سے 329 نشستوں پر جیت حاصل کرلی۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اس کامیابی پر وزیر اعلیٰ بپلب داس کو مبارکباد بھی دی۔ ان لوگوں نے سوچا یہ اچھا نسخہ کیمیا ہے اور اسی کی بنیاد پر کولکاتہ بھی جیت لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ وہاں بی جے پی پانچ سال قبل کے 7 اور 5 ماہ پہلے کے 11 سے اتر کر 3 پر آگئی ۔ اس کے ووٹ کا تناسب کمیونسٹ محاذ سے بھی نیچے اتر گیا اور ٹی ایم سی نے 144 میں 134 حلقوں میں جیت درج کرادی ۔ اس طرح گویا تریپورہ کا حساب بغیر کسی دنگا فساد کےمغربی بنگال میں برابر ہوگیا اور بی جے پی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ممتا بنرجی نے فرہاد حکیم کو میئر بنادیا۔
اس کے بعد چندی گڑھ میں میونسپل کارپوریشن کے انتخاب ہوئے جہاں بی جے پی پانچ سال قبل 81 فیصد نشستوں پر قابض تھی مگر اس بار وہ 34 فیصد پر آگئی۔ 2016 میں اسے 77 فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اسے صرف 29فیصد ووٹ ملے یعنی 48 فیصد کی کمی واقع ہوگئی۔ اس کے تینوں سابق میئر ہار گئے اور بی جے پی کو پچھاڑ کر عام آدمی پارٹی پہلے نمبر پر آگئی ۔ کانگریس کے ووٹ کا تناسب اس سے زیادہ ہوگیا جبکہ وزیر اعظم نے اپنے بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کے تئیں سکھوں میں نفرت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ ناکام رہے اور ان دونوں انتخابات کے نتائج پر شاہ اور مودی نے خاموشی اختیار کر لی۔ کرناٹک میں سوریا نے بپلب داس کی نقل کرنے کی کوشش کی مگر صوبائی حکومت کے باوجود شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تریپوہ جیسی ریاست کے رائے دہندگان جو ابھی بی جے پی سے پوری طرح واقف نہیں ہوئے ہیں فریب کھا سکتے ہیں لیکن بنگال سے لے کر چندی گڑھ اور کرناٹک تک کے لوگ اس کے چال چرتر اور چہرہ دیکھ چکے ہیں اس لیے جھانسے میں نہیں آرہے ہیں ۔
بپلب،بسوا سُرما اور سوریا کے آئیڈیل یوگی کی بھی حالت فی الحال ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنے وجود کی جنگ میں مصروف ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی ویڈیوز گردش کررہی ہیں جن میں یوگی کے مائک پر آتے ہی عوام کا چل چلاو شروع ہوجاتا ہے۔ مسئلہ صرف عوام کا نہیں بلکہ خواص کا بھی ہے۔ یوگی کی اپنی تشکیل کردہ ہندو یوا واہنی کے 90 فیصد ارکان سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں ۔ یوگی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد2017میں آرایس ایس نے حکم دیا تھا کہ اس تنظیم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس کے بعد وہ خوداپنی ہی تنظیم کے دشمن بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 15سالوں تک ہندو واہنی کا پرچم تھام کر چلنے والے سنیل کمار، سوربھ وشوکرما اور چندن وشوکرما اکھلیش یادو کی پناہ میں آگئے۔ ان لوگوں نے جب یوگی سے اختلاف کیا تو ہندو یوا واہنی کے سابق صدر پر یو اے پی اے لگا کر اسے یوگی انتظامیہ نے جیل بھیج دیا اور ایک کے بعد ایک اکائیوں کو تحلیل کرتے چلے گئے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کی احسان فراموشی کایہ عالم ہے کہ یوا واہنی کے قیام سے قبل 1998 میں وہ صرف 26 ہزار اور 1999 میں ہونے والے انتخاب میں ان کی جیت کا فرق محض 7ہزار تھا لیکن پھر ہندو یوا واہنی کی بدولت 2004 میں 1.42 لاکھ ووٹ کے فرق سے وہ کامیاب ہوگئے۔2009 اور 2014 کے قومی انتخاب میں یہ فرق 3 لاکھ سے زیادہ ہوگیا لیکن پھر اپنی کرسی بچانےکے لیے یوگی نے اپنے وفاداروں کا بھوگ چڑھا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انتخاب لڑنے کی ہمت نہیں جٹا سکے اور قانون ساز کونسل کے چور دروازے سے حکومت کرتے رہے۔ اب جبکہ انتخاب سر پر آگیا تو مودی کو ساڑھے چار سال پرانی غلطی کا احساس ہوا ۔ اس لیے بار بار اتر پردیش کے دورے کرنے لگے ۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو شاہ کو دورے پر روانہ کردیا ۔ وہ بھی رائے دہندگان کو متاثر کرنے میں ناکام رہے تو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ اکھلیش پر ہلہ بول دیا ۔
اس وقت اتر پردیش میں بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ مرکزی حکومت کے اشارے پر محکمہ انکم ٹیکس نے سماج وادی پارٹی کے رکنِ قانون ساز کونسل پشپراج جین عرف ’پمپی‘ کے گھر پر چھاپہ مارنے کے بجائے اپنی ہی پارٹی کے پیوش جین کو دھر دبوچا۔ وہ لوگ عطر کے تاجر پمپی جین کو ’سماج وادی پرفیوم‘ تیار کرنے کی سزا دینا چاہتے تھے اور دوسرے حامیوں کو ڈرانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر الٹا ہوگیا۔ بی جے پی کے حامی پیوش جین کا مکان قنوج کی اسی گلی میں ہے جہاں پشپراج رہتے ہیں دونوں کا خاندانی نام اور پہلا حرف پی بھی یکساں ہے اس لیے غلطی سے کمل والا جین پھنس گیا ۔ اترپردیش میں چونکہ ڈبل انجن سرکار ہے اس لیے اس کا حامی تو خوب مالدار نکلا۔ پیوش کے گھر سے تقریباً 200 کروڑ روپے کی نقدی کے ساتھ 75 کلوسونا اور چاندی برآمد ہوا۔محکمہ انکم ٹیکس کی یہ اب تک کی سب سے بڑی ضبطی تھی۔ کسی کے ستارے گردش میں آجائیں تو اس کے ساتھ وہی سب ہونے لگتا ہے جو یوگی کے سنگ ہورہا ہے۔ مودی جی کے کمل والے گلستان پر تو فی الحال یہ مشہور شعر (معمولی ترمیم کے بعد) صادق آتا ہے؎
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی یوگی کافی تھا
ہر شاخ پہ بھوگی بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا
***

 

***

 بپلب،بسوا سُرما اور سوریا کے آئیڈیل یوگی کی بھی حالت فی الحال ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنے وجود کی جنگ میں مصروف ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی ویڈیوز گردش کررہی ہیں جن میں یوگی کے مائک پر آتے ہی عوام کا چل چلاو شروع ہوجاتا ہے۔ مسئلہ صرف عوام کا نہیں بلکہ خواص کا بھی ہے۔ یوگی کی اپنی تشکیل کردہ ہندو یوا واہنی کے 90 فیصد ارکان سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022