عوامی شعبے کے اداروں کی نِج کاری‘ نقصان کا سودا
منافع بخش کمپنی سی ای ایل کو بیچنے کا راز کیا ہے؟
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
مودی حکومت کا یہ بھی امتیاز رہا ہے کہ اس نے عوامی شعبے کے اداروں کو اور وہ بھی ایسے اداروں کو جو منافع بخش تھے، سستے داموں میں نجی اداروں کو فروخت کر دیا ہے، چاہے وہ ایئر انڈیا ہو یا ایل آئی سی ہو یا پھر کوئی اور ادارہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے تو بس اپنے آقاؤں کو خوش کرنا مطلوب ہے عوام سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کچھ دن قبل اس نے ایک اور عوامی شعبے کے ادارے کو خانگی کمپنی کو فروخت کردیا ہے۔ عوامی شعبے کے اداروں کو خانگیانا چاہیے یا نہیں، اسے مکمل طور پر فروخت کردینا چاہیے یا نہیں یہ ایک اصولی بحث ہے، ماہرین الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ کوئی اس کی مخالفت میں ہے تو کوئی موافقت میں ہے۔ موافقت کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ جن اداروں سے فائدہ نہیں ہے ان کو رکھنا نقصان کا باعث ہوتا ہے وہی ادارہ اگر خانگی شعبے کو دے دیا جائے تو اس کی فعالیت میں اضافہ ہو گا، جو ادارہ فائدہ نہیں پہنچا رہا ہو اس کو فروخت کرنے یا اسے کسی خانگی ادارے کو سونپنے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایسے ادارے جو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا رہے ہیں اور انہیں فائدہ بخش نہیں بنایا جاسکتا ہو تو ان کو فروخت کرنے میں ہی عقل مندی ہے۔ یہ دلیل کسی حد تک مانی جا سکتی ہے، لیکن ایسے ادارے جو منافع بخش ہیں ان کو فروخت کرنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ وہ عوامی شعبے جو فائدہ پہنچا رہے ہیں مودی حکومت انہیں نقصان میں کیوں بیچ رہے ہیں؟ اس کی ایک مثال غازی آباد میں واقع سنٹرل الکٹرانکس لمیٹڈ (سی ای ایل) کی فروخت ہے۔ اتر پردیش جہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور کٹر ہندؤوں کے بقول جہاں رام راج قائم ہے وہاں قائم اس ادارے کو خانگی کمپنی کو فروخت کر دیا گیا ہے جو ملک کے دفاعی شعبے کو بہت ہی اہم سائنسی آلات فراہم کرتا تھا۔ سنٹرل الکٹرانکس لمیٹڈ کا قیام 1974ء میں غازی آباد میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مرکزی تجزیہ گاہ لیبارٹریز اور مرکزی تحقیقاتی اداروں کی جانب سے جتنی بھی تحقیقات ہوتی ہیں انہیں عملی جامہ پہناتے ہوئے سائنسی آلات کو بنایا جائے اور ان آلات کو کمرشل یعنی تجارتی سطح پر بنا کر عوام کی دسترس میں لایا جائے۔ بنیادی طور پر یہ ادارہ شمسی توانائی، ریلویز کے لیے سگنلز، دفاعی الکٹرانکس اور ہمہ گیر تحفظ و نگرانی کرنے والے آلات تیار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کمپنی کے بنائے گئے آلات ہمارے ملک میں بنائے جانے والے میزائل ٹکنالوجی میں بھی استعمال ہوتے ہیں، مثال کے طور پر پی سی ایم یعنی پیس کنٹرول ماڈیول جیسے آلات یہی ادارہ بناتا ہے۔ سنٹرل الیکٹرانکس لمیٹڈ ہندوستان میں سولر فوٹوولٹکس، فیرائٹس اور پیزو سیرامکس کے شعبوں میں ایک سرکردہ نام ہے۔ یہ دنیا بھر میں سنگل کرسٹل لائن سلکان سولر سیلز بنانے والی سرفہرست کمپنیوں میں شامل ہے۔ اس کمپنی نے ریلوے میں ایکسل کاؤنٹر متعارف کروائے جو بلاک اور ٹریک پر ٹرینوں کی آمد ورفت کا پتہ لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سنٹرل الیکٹرانکس لمیٹڈ (سی ای ایل) سولر فوٹو وولٹک (ایس پی وی) سیلز بنانے والی کمپنیوں میں سے ایک سرفہرست کمپنی ہے۔ حفاظتی خدمات، سیکورٹی سروسز میں بہترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آلات بنائے ہیں۔ سی ای ایل دنیا بھر میں ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جو اپنے ملک کے لیے مقامی طور پر فیرائٹ فیز شفٹر تیار کرتی ہے۔ یہاں ان ساری تفصیلات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قدر فعال ادارہ جس کے بنائے ہوئے آلات ہمارے ملک کا دفاعی شعبہ بھی استعمال کر رہا ہے اور دیگر شعبے بھی استعمال کر رہے ہیں ایسے ادارے کو فروخت کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
اگر حکومت نے یہ طے کر ہی لیا ہے کہ وہ اس کو کسی صورت میں فروخت کردے گی تو اسے چاہیے کہ وہ اس کمپنی کی قدر وقیمت کا صحیح اندازہ لگائے نہ کہ کوڑیوں کے دام بیچ دے؟ بیچنا یا نہ بیچنا یہ ایک اصولی بحث ہو سکتی ہے لیکن جب بیچنا ہو تو اس کی صحیح قدرو قیمت لگانی چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت جب بھی کوئی ادارہ فروخت کرتی ہے تو جانے یا انجانے میں اس کی قدر وقیمت کم کر دیتی ہے۔ ایئر انڈیا کی فروخت پر یہی معاملہ دیکھا گیا ہے اور وشاکھا اسٹیل کمپنی کی فروختگی کے موقع پر بھی یہی معاملہ دیکھا گیا ہے اور اب اس ادارے کی فروختگی پر یہی معاملہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت اس ادارے کے اثاثوں کی قدر تقریباً نو سو ستاون کروڑ روپے ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، اس کے علاوہ جیسا کہ ہر ادارے کی اپنی ذاتی زمین بھی ہوتی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس ادارے کی بھی تقریباً چھ سو اسی کروڑ روپے مالیت کی زمین موجود ہے وہ بھی سرکاری قیمت کے حساب سے، اگر بازار کی قیمت لگائی جائے تو یہ رقم اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگر ان دونوں چیزوں کو ملایا جائے تو اس کی کل رقم تقریباً ساڑھے سولہ کروڑ روپے ہو گی، لیکن اس نا اہل مودی حکومت نے اسے محض دو سو دس کروڑ روپے میں ایک خانگی کمپنی نندال فینانس اینڈ لیزنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کو فروخت کردیا۔ کتنی تعجب کی بات ہے ایک ایسا ادارہ جو ملک کے انتہائی حساس شعبوں کو بہترین آلات فراہم کرتا ہے اور وہ نقصان میں بھی نہیں ہے، گزشتہ آٹھ سالوں سے یہ مسلسل فائدہ ہی دے رہا ہے، یہاں تک کہ کوویڈ کے دوران بھی اس نے تیئس کروڑ روپے کا فائدہ دیا ہے، اور تو اور رواں سال بھی اسے پندرہ سو کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر ملے ہوئے ہیں، پھر بھی اسے کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا اور ملک کا سارا باشعور طبقہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔
ایک ایسی کمپنی جس کے اثاثوں کی مالیت سرکاری طور پر سولہ سو کروڑ روپے ہے، غیر سرکاری طور پر تو اس کہیں زیادہ ہے اسے محض دو سو دس کروڑ روپے میں فروخت کردیا گیا۔ آخر اتنی کم قیمت پر کیوں اسے فروخت کیا گیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیوں کہ دو کمپنیوں نے بولی لگائی ایک کی بولی ایک سو نوے کروڑ تھی اور دوسرے کی بولی اس سے زیادہ یعنی دو سو دس کروڑ تھی تو حکومت نے زیادہ بولی والے کے حق میں فیصلہ کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی کم بولی کیوں لگائی گئی؟ کیوں حکومت نے اس کے اثاثوں کے حساب سے قیمت کا تعین نہیں کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان دو کمپنیوں نے آپسی ملی بھگت سے اس کام کو انجام دیا ہو؟ یقینی طور پر یہ فروخت مودی حکومت کی نااہلی کو ثابت کرتی ہے۔ وہ لوگ جو مودی کے گن گاتے ہیں ان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ دیش بھکتی کے نام پر عوام کو کس طرح اور کس درجہ بے وقوف بنایا جارہا ہے اور ٹھگا جا رہا ہے اور عوام ہیں کہ مذہبی منافرت کے نشہ میں چور ہیں۔ انہیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہندوتو کے نام پر ملک کے قیمتی اثاثوں کو بیچا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہی حکومت عوام کو بھی کسی کارپوریٹ کمپنی کے ہاتھوں فروخت کردے گی اور اس وقت کفِ افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
***
***
ایک ایسی کمپنی جس کے اثاثوں کی مالیت سرکاری طور پر سولہ سو کروڑ روپے ہے، غیر سرکاری طور پر تو اس کہیں زیادہ ہے اسے محض دو سو دس کروڑ روپے میں فروخت کردیا گیا۔ آخر اتنی کم قیمت پر کیوں اسے فروخت کیا گیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیوں کہ دو کمپنیوں نے بولی لگائی ایک کی بولی ایک سو نوے کروڑ تھی اور دوسرے کی بولی اس سے زیادہ یعنی دو سو دس کروڑ تھی تو حکومت نے زیادہ بولی والے کے حق میں فیصلہ کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی کم بولی کیوں لگائی گئی؟ کیوں حکومت نے اس کے اثاثوں کے حساب سے قیمت کا تعین نہیں کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان دو کمپنیوں نے آپسی ملی بھگت سے اس کام کو انجام دیا ہو؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 تا 25 دسمبر 2021