علماء کرام تحریک اسلامی میںمؤثر کردار ادا کریں

تحریکی علمانے مسلکی اختلافات کو اہمیت دینے کے مزاج پر کاری ضرب لگائی ۔ علما جدید علوم پر بھی دسترس حاصل کریں

وسیم احمد ، نئی دلی

نئی دلی میں دو روزہ ورکشاپ ۔ امیر جماعت اسلامی ہند و دیگر ذمہ داران کا دردمندانہ خطاب
’’تحریک اسلامی میں علماء کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔ ان کے سرگرم رول کے بغیر یہ تحریک ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ماضی میں جماعت اسلامی ہند کی صفوں میں بلند پایہ علماء کی ایک کہکشاں رہی ہے۔ اس طرح کے علماء کی آج کمی محسوس کی جارہی ہے۔ ملت اسلامیہ کو آج جس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان حالات میں جلیل القدر علماء کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ الحمد للہ بلند پایہ علماء آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن تحریک کی جتنی وسیع ضرورتیں ہیں یہ محدود تعداد ان کی تکمیل نہیں کر سکتی۔ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اسلامی معاشرہ کی جانب سے مرکز نئی دہلی میں ’علماء ارکان جماعت‘ کے عنوان سے منعقدہ دو رزہ ورک شاپ میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ امیر جماعت نے کہا کہ تحریک اسلامی سے وابستہ علماء کا ہمیشہ ایک مخصوص رول رہا ہے۔ ایسے ہی رول ادا کرنے والے افراد کی آج ضرورت ہے۔ وہ رول کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کی ایک مشہور حدیث اس کو بڑی جامعیت کے ساتھ واضح کرتی ہے۔ اس میں تین فتنوں کا ذکر ہے۔ پہلا فتنہ شدّت پسندی اور غلو و تحریفات کا ہے۔ دوسرا فتنہ باطل پرستوں کی افترا پردازی کا ہے اور تیسرا فتنہ جاہلوں کی تاویلات کا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے علماء کرام کو پُر عزم ہونا پڑے گا۔ جناب سید سعادت اللہ حسینی نے واضح کیا کہ تحریکی علماء نے ان تین مذکورہ فتنوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ ان میں جاہلانہ تاویلات کا فتنہ باطل کی ایک مضبوط حکمت عملی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام باقی رہے لیکن تاویلات کے ذریعہ اس کی روح نکال دی جائے، یعنی اسلام کو محض ذاتی زندگی اور مذہبی رسوم تک محدود کردیا جائے۔ باطل کی حکمت کا ہی ایک حصہ ہے کہ حدیث کو دین کا مرجع ماننے سے انکار کیا جائے اور احادیث کو محض اقوال زریں کی حیثیت دی جائے۔ مثلاً احادیث میں عورت کے حجاب کی جو تفصیل آتی ہے اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اس کی روح مہذب اور شائستہ لباس ہے۔ سماج میں جس لباس کو بھی مہذب اور شائستہ مانا جائے پہن لیا جائے بس یہ کافی ہے۔ سر ڈھانکنا یا جسم کے فلاں فلاں حصوں کو ڈھانکنا ضروری نہیں ہے۔ تاویل کے اس فتنے کا سدّ باب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسرا فتنہ سامنے آجاتا ہے، وہ ہے تحریف الغالین۔ امت میں سب سے بڑا فتنہ مسلکی اختلافات ہے۔ تحریک اسلامی نے اس کے خلاف ذہن بنایا ہے۔ اکابرین تحریک نے مسلکی اختلاف کو اہمیت دینے کے مزاج پر کاری ضرب لگائی ہے۔ لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ عام مسلمان سمیت ہمارے ارکان جماعت میں بھی یہ مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض امور و احکام کو قطعی طور سے بیان کیا ہے۔ یہ امور یا تو قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں، جنہیں منصوص احکام کہا جاتا ہے، یا ان کی ایک سے زیادہ تعبیر کی گنجائش ہوتی ہے۔ کسی ایک تعبیر پر امت کا اجماع ہو تو ہم انہیں متفق علیہ کہتے ہیں۔ تحریک اسلامی نے اول روز سے ہی واضح کیا ہے کہ یہی متفق علیہ تعلیمات دین کی اصل ہیں۔ جن باتوں میں صحابہ کرام ؓ یا ائمہ و محدثین کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے، یا جو باتیں آج کے معتبر علماء کے درمیان مختلف فیہ ہیں وہ فروع ہیں۔ ہر مسلک اور رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہم کسی ایک مسلک یا رائے پر زور نہیں دیتے۔ اس معاملے میں تحریک کے علماء کتنے حساس رہے ہیں اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کو جب امیر جماعت منتخب کیا گیا تو انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں خدا کا واسطہ دے کر ارکان جماعت کو ہدایت کی کہ ’’ان کی کوئی رائے بطور حجت لوگوں کے سامنے پیش نہ کی جائے، ان کی آراء سے اختلاف کا حق باقی رکھیں‘‘۔ جس رائے کو ہم راجح سمجھیں اسے اختیار کریں، لیکن مخالف رائے کا احترام بھی کریں۔ فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ حالات کے حوالے سے بھی غلو کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ملک کے حالات کو دیکھنے کا نقطہ نظر اسلام مخالف طاقتوں کے سلسلے میں عام غیر مسلموں کے سلسلے میں جمہوریت اور جمہوری نظام سے متعلق معاملات میں غلو کے مظاہر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے لٹریچر میں اس حوالے سے معتدل نقطہ نظر اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی موجود ہے۔ اس کے باجود غلو کے اثرات ہماری صفوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ سب مسائل اسی وقت حل ہوں گے جب علماء کرام صحیح اور معتدل نقطۂ نظر عام کریں گے‘‘۔
امیر جماعت نے تحریک اسلامی کی سات خصوصیات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ تحریک اسلامی مکمل دین کی داعی ہے۔ تحریک کے علماء نے ہمیشہ دین کے ان پہلوؤں پر زور دیا ہے جن پر سماج کی توجہ کم ہوتی ہے۔مثلاً وراثت کی شرعی تقسیم، خواتین کے حقوق وغیرہ۔ دوسری خصوصیت نصب العین پر ارتکاز ہے۔ تحریک اسلامی کا نصب العین اقامت دین ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم وہ سارے کام کریں جو ہماری پالیسی و پروگرام میں درج ہیں۔ ہم اس ملک کے تمام انسانوں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں اور مسلم امت کی اصلاح و تربیت کریں۔ تیسری خصوصیت فقہی و کلامی مسائل میں وسعت نظری، اعتدال اور اس کے ساتھ عملی مظاہرہ ہے۔ علماء میں اختلاف ہو تو سب کی آراء کا احترام کیا جائے اور اپنی باتوں کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ چوتھی خصوصیت عصری آگہی ہے۔ دنیا کے حالات سے باخبر ہونا تحریکی وابستگان کی لازمی ضرورت ہے۔ باخبر ہونے سے مراد ملک کی سیاست، معیشت، قانون، تہذیب، ماس میڈیا، فیشن و ٹرینڈس، ٹکنالوجی اور علم و تحقیق سے مکمل واقفیت ہے۔ پانچویں خصوصیت باطل افکار سے آگہی ہے۔ ہمارے علماء صرف اردو جاننے والے نہ ہوں بلکہ انہیں عربی پر بھی اچھا عبور حاصل ہو۔ اس کے ساتھ انگریزی سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اس وقت ترکی زبان کی خاص اہمیت ابھر رہی ہے۔ کچھ علماء کو اس میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہندوستانی سماج میں کام کرنے کے لیے یہاں کی زبانوں جیسے سنسکرت پر عبور حاصل ہو۔ چھٹی چیز ٹکنالوجی ہے۔ ٹکنالوجی نے چیزوں کو بہت آسان کر دیا ہے۔ اس کے استعمال پر قدرت ہو تو علم کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ آج علم کے متعدد خزانے ٹکنالوجی کی صلاحیت سے محروم آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ ہمارے علماء کے لیے علم و ابلاغ کی خاطر ٹکنالوجی کی لامحدود قوت کو موثر طریقے پر استعمال کرنا ضروری ہے۔ساتویں چیز ہے اعتدال پر مبنی نقطہ نظر ہے۔ اس وقت حالات کے نتیجے میں جو انتہا پسند خیالات ہمارے مقررین، صحافی، قائدین، سوشل میڈیا اور ہر جگہ عام کر رہے ہیں وہ نہایت خطرناک صورت حال ہے۔ اس کے نتیجے میں خوف و مایوسی کی نفسیات پیدا ہوتی ہیں۔ پروپیگنڈہ کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ ہی نہ سکیں۔ اس پروپیگنڈے کے خلاف کام کرنے کے لیے اعلیٰ اقدار کا ہونا لازمی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان سات خصوصیات کی حامل ایک ٹیم آئندہ چند برسوں میں ملک کے افق پر نمایاں ہو۔ کم سے کم بیس پچیس ایسے علماء ہماری صفوں میں تیار ہوں جو اپنی تحریکی جدوجہد اور معتدل نقطۂ نظر سے پورے ملک کی توجہ حاصل کر سکیں اور یہاں کے عوام پر اثر انداز ہو سکیں۔
دو رزہ ورک شاپ میں استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے مولانا محمد رضی الاسلام ندوی سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ نے کہا کہ ’’جماعت اسلامی ہند کی تاسیس سے لے کر اب تک علماء کرام کی خاصی تعداد اس سے وابستہ رہی ہے۔ اس کا پہلا تشکیلی اجتماع دارالاسلام پٹھان کوٹ میں ہوا تھا جس میں ملک کے نامور علماء کرام شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد 1948 میں جب الٰہ آباد میں جماعت اسلامی ہند کی تشکیل ہوئی تو اس میں بھی علماء کرام شامل تھے۔ بعد کے ایام میں بھی جماعت کی قیادت میں علماء کا کردار قابل ذکر رہا ہے۔اِس وقت ان کی تعداد مجموعی اراکین کے تناسب میں تقریباً پانچ فیصد ہے، جو مطلوبہ تعداد سے بہت کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت کے ارکان علماء سماج کے عام مسلمانوں میں ایسا کردار ادا کریں جن کی انہیں ضرورت رہتی ہے جیسے مساجد کی امامت، جمعہ کے خطبات، وعظ و ارشاد کی مجلسیں، خطباتِ نکاح، دروس قرآن، تذکیر حدیث، خاندانی تنازعات کو رفع کرنے کی کوشش، فقہ و افتاء اور قضا کے معاملات وغیرہ۔ یہ وہ میدان ہیں جو علماء کے ساتھ خاص ہیں، لیکن جماعت کے بیشتر علماء ان میدانوں سے یا تو غائب ہیں، یا ان کا اثر بہت معمولی ہے۔ جماعت نے علماء کے درمیان اپنی فکر کو عام کرنے اور اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے کئی میدانوں میں کوششیں کی ہیں مثلاً اس نے منصوبہ بنایا ہے کہ دیگر مکاتب فکر کے نوجوان علماء کو مرکز میں بلا کر انہیں ہفتہ، عشرہ مرکز میں رکھ کر عصری موضوعات پر ان سے گفتگو کی جائے اور حلقہ جاتی سطح پر علماء فورم، تنظیم علماء، مجلس العلماء، وفاق العلماء، علماء کونسل جیسے مختلف ناموں سے انجمنیں قائم کی جائیں۔
مولانا ندوی نے اعدادو شمار پیش کیے کہ اس وقت مختلف ریاستوں میں ارکان جماعت کے مقابلے میں ارکان علماء کا تناسب کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ’’مہاراشٹر میں 1051 ارکان میں سے 99 علماء ہیں۔ اتر پردیش مشرق میں 756 ارکان میں 79 علماء ہیں۔ یہ مجموعی تعداد کا 10 فیصد ہے۔ اتر پردیش مغرب میں 32 علماء ارکان جماعت ہیں۔ مغربی بنگال میں 859 ارکان میں 72 علماء ہیں، جن کا تناسب 8 فیصد ہے۔ کرناٹک میں 35 علماء کرام ارکان جماعت ہیں۔ کچھ فوکسڈ زون ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے حلقے آتے ہیں، جیسےہریانہ، اڑیسہ، انڈومان، اتراکھنڈ وغیرہ، ان میں مجموعی طور پر 179 اراکین ہیں جن میں علماء کی تعداد 24 ہے جو کہ 13 فیصد ہوتی ہے۔ آسام جنوب میں ارکان کی تعداد 41 ہے جن میں علماء کی تعداد 5 ہے۔ ان کا تناسب 12 فیصد ہوتا ہے۔ بہار میں 336 ارکان میں علماء کی تعداد 36 ہے ان کا تناسب 10 فیصد ہے۔ ان حلقہ جات میں کچھ کا تناسب مایوس کن ہے مثلاً تلنگانہ میں ارکان کی کل تعداد 1637 ہے لیکن علماء صرف 24 ہیں اس طرح ان کا تناسب 1.4 فیصد ہوتا ہے۔ کرناٹک میں 902 ارکان ہیں ان میں علماء کی تعداد محض 35 ہے، اس طرح ان کا تناسب 3.8 فیصد ہوتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں 381 ارکان میں علماء 13 ہیں اس کا اوسط 3.4 فیصد ہے۔ چھتیس گڑھ میں 75 ارکان ہیں، مگر یہاں ایک بھی عالم نہیں ہیں۔ پنجاب میں 31 ارکان ہیں لیکن یہاں بھی کوئی عالم نہیں ہے۔ یہ اعدادو شمار 2019 کے مطابق ہیں۔ ممکن ہے اب اس میں کچھ اضافہ ہوا ہو۔
شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’معرفت الٰہی علماء کا امتیاز ہے جس کے ذریعہ وہ امت کو راستہ دکھانے کا کام کرتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات سے باخبر رہیں اور امت کی رہ نمائی کا کام کریں‘‘۔ اس موقع پر’’ تحریکی علماء مطلوبہ رول کے لیے شخصیت سازی‘‘ کے عنوان پر نائب امیر جماعت جناب ایس امین الحسن نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے پروجیکٹر کے ذریعہ سامعین کو بتایا کہ علماء کرام کو دینی علوم کے ساتھ جدید علوم کا بھی ماہر ہونا چاہیے۔ انہیں جذبات و اشتعال اور کسی کی اندھی تقلید اور عدم تحمل سے بچتے ہوئے مکمل معلومات کی بنیاد پر دلائل کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ اجلاس میں سکریٹری تصنیفی اکیڈمی ڈاکٹر محی الدین غازی نے ’تحریکی علماء کی علمی صلاحیتوں کا ارتقاء کیسے؟‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ ان کے علاوہ مولانا انعام اللہ فلاحی اور ڈاکٹر حسن رضا نے بھی مخاطب کیا۔ سکریٹری شعبہ تنظیم جماعت اسلامی ہند جناب شبیر عالم کی زیر نگرانی ذمہ داران حلقہ جات نے اپنے اپنے حلقوں میں تنظیم علماء کی کارکردگی پیش کی۔ سکریٹری شعبۂ دعوت جناب محمد اقبال ملا، سکریٹری شعبہ ملکی امور جناب محمد احمد، سکریٹری تصنیفی اکیڈمی ڈاکٹر محی الدین غازی اور سکریٹری شعبہ خواتین رحمۃ النساء صاحبہ نے اپنے شعبوں کے حوالے سے ارکان علماء سے مطلوب تعاون کی وضاحت کی۔ نظامت کے فرائض معاون شعبہ اسلامی معاشرہ جناب اسعد فلاحی نے بحسن و خوبی انجام دیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022