علامہ شبلیؒ بحیثیت استاد و شاگرد

سیرت النبیؐ پر کتاب اہم علمی کارنامہ

محمد جاوید اقبال،نئی دہلی

علامہ شبلیؒ مشہور و معروف مصنف، مقرر، مؤرخ اور استاذ الاساتذ تھے۔ 1957ء میں بندول ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر مولانا محمد فاروق چڑیاکوٹی سے علم دین سیکھا اس کے بعد معلوم ہوا کہ لاہور میں مولانا فیض الحسن عربی ادب کے استاد ہیں جن کی شہرت پورے برصغیر میں تھی۔ شبلی جب ان کی عمر صرف پندرہ سال تھی لاہور چلے گئے اور مولانا سے درخواست کی کہ وہ انہیں پڑھادیا کریں۔ مولانا نے کہا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے البتہ وہ صبح پالکی میں بیٹھ کر کالج جاتے ہیں، اگر وہ راستہ میں کچھ پوچھنا چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں۔ شبلی اس کے لیے بھی تیار ہو گئے اور روز صبح پالکی کے ساتھ دوڑتے دوڑتے عربی زبان کی مشکلات مولانا فیص الحسن مرحوم سے حل کر لیتے۔ شبلی کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر مولانا فیض الحسن بہت متاثر ہوئے اور ان کو الگ سے وقت دینا شروع کر دیا۔ ایک عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سالانہ چھٹیوں میں مولانا فیض الحسن، شبلی کو اپنے ساتھ سہارن پور لے آئے اور وہاں رہنمائی کرتے رہے۔
سہارن پور میں ہی ایک اور مشہور عالم دین مولانا احمد علیؒ حدیث کے جید عالم تھے۔ شبلی نے ان سے بھی رہنمائی حاصل کی۔علامہ شبلی کے استادوں میں مولانا ارشاد حسین رامپوری کا نام بھی ملتا ہے۔
سرسید احمد خاں کو شبلی کے بارے میں معلوم ہوا تو اپنے یہاں Mohammadan Oriental College میں عربی کے پروفیسر کی حیثیت سے مقرر کر لیا۔ شبلی مطالعہ کے دل دادہ تھے چنانچہ سرسید احمد خاں کی نجی لائبریری اپنے ذہن میں اتار لی۔ شبلی کی قابلیت سے ادارے کے اساتذہ اور طلبہ دونوں بہت متاثر تھے۔ علی گڑھ میں رہ کر شبلی نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔
اُسی زمانے میں علی گڑھ کالج میں ڈاکٹر آرنلڈ بھی فلسفہ پڑھاتے تھے۔ یہ وہی پروفیسر تھے جو بعد میں علامہ اقبالؔ کے استاد بنے۔
پروفیسر آرنلڈ نے علامہ شبلی سے درخواست کی کہ وہ انہیں عربی زبان پڑھا دیا کریں۔ شبلی تیار ہو گئے، چناں چہ آرنلڈ مقررہ وقت پر شبلی کی رہائش گاہ پر جانے لگے۔ آرنلڈ وقت کے پابند تھے۔ ٹھیک وقت پر شبلی کے یہاں جاتے، ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ بعد۔ ایک دن کسی وجہ سے پروفیسر آرنلڈ کو دیر ہو گئی۔ انہوں نے شبلی سے معذرت کی علامہ شبلی نے کہا کوئی بات نہیں۔ آرنلڈ نے کہا بات کیوں نہیں بات بہت بڑی ہے، ہمارے یہاں وقت کی بہت اہمیت ہے۔ اسی وجہ سے ہی ہم نے ترقی کی ہے۔
علامہ شبلی نے ایک دن آرنلڈ سے کہا کہ ہندوستان میں اساتذہ کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ یہ چیز مغرب میں ناپید ہے۔ آرنلڈ نے جواب دیا کہ ہمارے یہاں شاگرد محنت کر کے استاد سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ اب کہاں تک استاد کا احترام کیا جائے۔ علامہ شبلی کہتے ہیں کہ بہت جلد ہی آرنلڈ نے عربی سیکھ لی، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ گھر پر بہت محنت کرتے تھے۔
علامہ شبلی نے ندوۃ العلماء میں بھی ناظم ادارہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ جانتے تھے کہ ندوہ میں طلبہ انگریزی زبان اور سنسکرت بھی پڑھیں۔ انہوں نے طلبہ کی ایک انجمن بنائی۔ ہفتہ میں ایک دن چند طلبہ گروپ کی شکل میں دیہاتوں میں جاتے اور علم دین سے عوام و خواص کو آراستہ کرتے۔
ایک روز علامہ شبلی بحیثیت ناظم ادارہ میں گھوم رہے تھے تاکہ دیکھیں کہ اساتذہ کیسے پڑھا رہے ہیں۔ اس درمیان میں علامہ شبلی مولانا محمد فاروق چڑیاکوٹی کے کلاس سے گزرے۔ مولانا چڑیاکوٹی شبلی کے استاد رہ چکے تھے۔ انہوں نے آواز دے کر شبلی کو بلایا اور کہا کہ شبلی دیکھو میرے پیر میں تکلیف ہے ذرا دبا دو۔ علامہ فوراً اپنے استاد کے دیر تک پیر دباتے رہے۔ اس واقعہ کا چرچا پورے ادارے میں ہوا۔ کیسے تھے استاد اور کس پائے کے تھے شاگرد۔علامہ شبلی کے شاگردوں میں مولانا حمیدالدین فراہی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالباری ندوی، مولانا مسعود علی ندوی شبلی متکلم جیسے لوگ شامل ہیں۔
علامہ شبلی کے شاگردوں میں نمایاں مولانا سید سلیمان ندویؒ اور عبدالسلام ندویؒ بھی تھے۔ ایک بار ندوۃ العلماء میں ایک بڑا جلسہ تھا جس میں باہری ملکوں سے بھی علماء آئے ہوئے تھے۔ سید سلیمان ندوی نے اس جلسے میں تقریر کی۔ تقریر اتنی عمدہ تھی کہ سامعین اور اساتذہ بہت متاثر ہوئے۔علامہ شبلی اپنے شاگرد کی تقریر سے اتنے متاثر اور خوش ہوئے کہ جلسے میں ہی اپنا عمامہ اتار کر سید سلیمان ندوی کے سر پر رکھ دیا۔
یہ واقعہ پورے ہندوستان میں مشہور ہوا۔ عربی مدارس کی تاریخ میں اس انداز کا یہ پہلا واقعہ تھا۔
علامہ شبلی میں ایک بہترین شاگرد اور ایک عظیم مربی استاد کا مقام حاصل تھا۔ علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی نے جو کام سیرت النبیؐ پر کیا ہے وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

 

***

 شبلی مطالعہ کے دل دادہ تھے چنانچہ سرسید احمد خاں کی نجی لائبریری اپنے ذہن میں اتار لی۔ شبلی کی قابلیت سے ادارے کے اساتذہ اور طلبہ دونوں بہت متاثر تھے۔ علی گڑھ میں رہ کر شبلی نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022