عقیدے کے باب میں مولانا مودودیؒ کا کارنامہ

محی الدین غازی

مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے عقیدے کے باب میں دو بڑے تجدیدی کارنامے انجام دیے۔

پہلا کارنامہ

توحید ورسالت کا عقیدہ جو کلامی بحثوں کی دھند میں چھپ سا گیا تھا، اور ملوکیت کےصدیوں کے استبداد نے جسے لاغر وناتواں کرکے رکھ دیا تھا، اسے پوری آب وتاب اور قوت وسطوت کے ساتھ امت کے سامنے پیش کردیا۔ وہ عقیدہ جس کا استعمال امت کے درمیان ایک دوسرے کو کافر اورگمراہ قرار دینے تک محدود ہوکر رہ گیا تھا،اسے اس کے حقیقی مقام پر لوٹادیا، اوروہ اپنی اصل شکل میں پوری زندگی اور نظام زندگی کو بدلنے والی،شرک وکفر کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرنے اور باطل نظریات اور نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والی قوت بن کر سامنے آیا۔

مولانا مودودیؒ نے اسلامی عقیدے کو قوت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے اپنی طرف سے کوئی رنگ آمیزی نہیں کی، بلکہ قرآن مجید اپنی واضح اورصریح آیتوں کے ذریعہ جو عقیدہ پیش کرتا ہے، بس اسی کو من وعن پیش کیا، اور اسی قوت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔

اسلامی عقیدہ کو بے آمیزخالص صورت اور اصلی قوت کے ساتھ پیش کرنے سے، دین کے تمام تصورات پراس طاقت کا ظہورہوا۔ ایمان، اسلام، تقوی اور احسان جیسی دین کی کلیدی اصطلاحیں بھی پوری آب وتاب کے ساتھ سامنے آنے لگیں۔

ایمان کے بارے میں تصور پیش کیا کہ اسے وسیع ترین اور مستحکم ترین ہونا چاہیے:

فی الواقع ایک مکمل اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایمان اپنی تفصیلات میں پوری طرح وسیع اور اپنی گہرائی میں اچھی طرح مستحکم ہو۔ ایمان کی تفصیلات میں سے، جو شعبہ بھی چھوٹ جائے گا، اسلامی زندگی کا وہی شعبہ تعمیر ہونے سے رہ جائے گا اور اس کی گہرائی میں جہاں بھی کسر رہ جائے گی اسلامی زندگی کی عمارت اسی مقام پر بودی ثابت ہوگی۔

توحید کے اقرار کو اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ زندگی میں ہمہ گیر انقلاب برپا کرنے والا ہو:

ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اسی اقرارِ توحید پر اٹھ سکتی ہے، جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو، جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی ملک سمجھے۔ اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطاع اور صاحب امر و نہی تسلیم کرے۔ اسی کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہوجائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، یا اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور جس رنگ میں بھی ہے سراسر ضلالت ہے۔ پھر اس عمارت میں اگر استحکام پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اسی وقت جب کہ آدمی پورے شعور اور پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیار پسند و ناپسند کو ختم کرکے اللہ کی پسند و ناپسند کے تابع کردے۔ اپنی خود سری کو مٹاکر اپنے نظریات و خیالات، خواہشات، جذبات اور اندازِ فکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے، جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی تمام اُن وفاداریوں کو دریا برد کردے، جو خدا کی وفاداری کے تابع نہ ہوں بلکہ اس کے مدمقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خداکی محبت کو بٹھائے، اور ہر اس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے نہاں خانۂ دل سے نکال پھینکے، جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی محبت اور نفرت، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی رغبت اور کراہیت، اپنی صلح اور جنگ ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے، جو خدا چاہتا ہے اور اس سے بھاگنے لگے، جو خدا کو ناپسند ہے۔ یہ ہے ایمان باللہ کا حقیقی مرتبہ۔

اسلام کو وسیع ترین ایمان کا اتنا ہی وسیع عملی ظہور بتایا گیا:

اسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ جہاں ایمان موجود ہوگا، لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اخلاق میں، برتاؤ میں، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں، مذاق و مزاج کی افتاد میں، سعی و جہد کے راستوں میں، اوقات اور قوتوں اور قابلیتوں کے مصرف میں، غرض مظاہر زندگی کے ہرہر جزو میں ہوکر رہے گا۔ ان میں سے جس پہلو میں بھی اسلام کے بجائے غیر اسلام ظاہر ہو رہا ہو، یقین کرلیجیے کہ اس پہلو میں ایمان موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے اور اگر عملی زندگی ساری کی ساری ہی غیر مسلمانہ شان سے بسر ہو رہی ہو، تو جان لیجیے کہ دل ایمان سے خالی ہے۔ زمین اتنی بنجر ہے کہ ایمان کا بیج برگ و بار نہیں لا رہا ہے۔

تقوی کا تعارف بھی اس طرح کرایا گیا کہ وہ محض کچھ مظاہر ومراسم کے بجائے زندگی کے ہر ہر گوشے کا نگراں بن جائے:

حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خد اکا خوف ہو۔ عبدیت کا شعور ہو۔ خدا کے سامنے اپنی ذمے داری و جواب دہی کا احساس ہو۔ اور اس بات کا زندہ اِدراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اِس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں و قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں، اس سرو سامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں، جو مشیتِ الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے، اور اُن انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں، جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کردی ہے۔

احسان کے بارے میں بتایا گیا کہ اس مقام پر پہونچ کر بندہ مومن اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو اور اپنا سب کچھ پورے طور پر لگادیتا ہے:

احسان دراصل اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ اُس قلبی لگاؤ، اس گہری محبت، اُس سچی وفاداری اور فدویت و جاں نثاری کا نام ہے، جو مسلمان کو فنا فی الاسلام کردے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)

اس طرح آپ مولانا مودودیؒ کی باقی تمام تحریریں اور ان سے متاثر ہونے والے تمام معاصر علماء جیسے مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا علی میاں ندویؒ، مولانا صدر الدین اصلاحیؒ،مولانا سید حامد علیؒ اور بعد میں خرم جاہ مرادؒ وغیرہم کی کتابیں پڑھ لیں، جہاں بھی اسلامی عقیدے پر گفتگو ملے گی، اس میں زندگی کو بدل دینے والی، حق کو پوری قوت سے پیش کرنے والی اور ہمت وبہادری سے باطل کا سامنا کرنے والی وہی قوت وسطوت نظر آئے گی، جو قرآنی عقیدے کا امتیاز ہے۔ ان حضرات نے اسلامی عقیدے کے لیے وہ بیانیہ اختیار نہیں کیا جو متکلمین کے یہاں رائج تھا، بلکہ وہ بیانیہ اختیار کیا جو قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید نے عقیدے کو جس فورس اور قوت کے ساتھ پیش کیا، اسی طرح سے پیش کرنے کی ان حضرات نے کوشش کی۔

دوسرا کارنامہ

وہ باتیں جو عقیدہ تھیں ہی نہیں، مگر مسلمان انھیں عقیدہ کہہ کر سینے سے لگائے ہوئے تھے، اور ان کی بنیاد پر آپس میں ایک دوسرے کو بدعقیدہ کہتے تھے، ایک دوسرے پر ضال، زندیق اور نہ جانے کیا کیا فتوے چسپاں کرتے تھے، مولانا مودودیؒ نے ان کے بارے میں صاف واضح کردیا کہ وہ عقیدے کی باتیں ہی نہیں ہیں۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مسلم امت اسلامی عقیدے کو انسانوں کے سامنے پیش کرتی تھی، اس کا معرکہ راست باطل سے تھا، اس لیے عقیدہ اپنی اصلی حالت اور اصلی قوت میں ان کی دعوت سے ظاہر ہوتا تھا۔ بعد میں عقیدہ کو حق وباطل اور کفر واسلام کی جنگ سے نکال کر مسلم امت کے اندر خانہ جنگی کے تیز دھار ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ عقیدے کے مباحث کا نشانہ کفر وشرک میں مبتلا قوموں کے بجائے مسلم امت کے گروہ بننے لگے۔ عقیدے کی درس گاہوں میں فرقہ ناجیہ اور فرق ضالہ کا چرچا ہونے لگا۔ اجتہادی رایوں کی بنا پر فرقے بنے، اور ہر فرقہ انھی اجتہادی رایوں کی بنا پر خود کو نجات یافتہ فرقہ اور باقی سب کو گم راہ فرقے قرار دینے لگا۔ طرفہ تماشا یہ کہ امت میں ایک دوسرےکو بد عقید ہ بہت سی ان باتوں کی بنا پر کہا جانے لگا جو اصل میں عقیدے کی باتیں تھیں ہی نہیں، وہ الہیات کے سلسلے میں محض اجتہادی رائیں تھیں۔

مولانا مودودیؒ کا عظیم کارنامہ ہے کہ انھوں نے اسلامی عقیدےکو امت کی خانہ جنگی سے نکال کر اسے دوبارہ اس کا شایان شان مقام عطا کرنے کی تحریک برپا کی۔ تاکہ وہ معرکہ حق وباطل میں حق کا عظیم الشان علم بن جائے۔

مولانا مودودیؒ کی اس فکر ودعوت کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جن لوگوں نے مولانا مودودیؒ کی اس دعوت کو قبول کیا وہ امت کے اندر عقیدے کے نام پر جاری خانہ جنگی سے باہر نکل آئے اور باطل کو شکست دینے کے لیے اپنی تمام فکر وتحریراورساری کوشش ومحنت کو مرکوز کردیا۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی ہند کے دستور کی عبارت دیکھیں:

جماعت اسلامی ہند کا بنیادی عقیدہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے، یعنی الہ صرف اللہ ہی ہے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔

تشریح:  اس عقیدے کے پہلےجز یعنی اللہ تعالی کے واحد الہ ہونے اور کسی دوسرے کے الہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی اللہ ہم سب انسانوں کا معبود برحق اور حاکم تشریعی ہے، جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق، پروردگار، مدبر، مالک اور حاکم تکوینی ہے۔ پرستش کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔

اس عقیدے کے دوسرے جز یعنی محمدﷺکے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق اور سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعے قیامت تک کے لیے مستند ہدایت نامہ اور مکمل ضابطہ حیات بھیجا گیا اور جسے اس ہدایت اور ضابطے کے مطابق عمل کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا وہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔

یہ عقیدے کی زبردست تشریح ہے، اسے قبول کرلینے کے جو تقاضے دستور جماعت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، انھیں پڑھیں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس تشریح کےنتیجے میں فکر وعمل میں بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ماننے والا شخص اصل معرکہ حق وباطل میں شامل ہوجاتا ہے۔ فقہ اور کلام کی فروعی باتوں کو وہ اپنی جدوجہد کا موضوع نہیں بناتاہے۔

عقیدے کے اختلاف کی حقیقت

قرآن وسنت میں جس عقیدے کی طرف دعوت دی گئی، اور اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اور پھر ان کے پیروکاروں نے انسانوں کو جس عقیدے کی تعلیم دی، اس عقیدے پر مسلم امت کا اتفاق ہے۔ اور اگر عقیدے کا دائرہ وہیں تک محدود رکھا جاتا تو امت بہت بڑی فرقہ آرائی سے محفوظ رہتی۔ لیکن اس کے بعد جب دوسرے علوم کی طرح عقیدے کی باتوں پر بحثیں آگے بڑھیں تو وہ باتیں بھی زیر بحث آنے لگیں جن کا تعلق عقیدے سے نہیں تھا،اور ان بحثوں میں جب شدت آئی تو انھیں بھی عقائد کا مقام دے دیا گیا۔ ان کی بنیاد پر امت فرقوں میں بٹی اور ایک دوسرے کو گمراہ قرار دینے کا رواج بڑھا۔

امت میں کچھ فرقے تو واقعی گمراہی کی اساس پر وجود میں آئے، اور کچھ عرصے کے بعد یا تو امت سے الگ ہی ہوگئے یا پھرمٹ گئے، وہ فرقے امت میں اپنا کوئی مقام نہیں بناسکے، اور نہ ہی ان کے علماء امت کے علماء میں شمار ہوئے۔ لیکن امت میں عقیدے کے نام پرایک اختلاف وہ ہے جسے حنابلہ وسلفیوں اور اشاعرہ وماتریدیہ کا اختلاف کہتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں ان سبھی کو اہل سنت والجماعت کہا جاتا تھا، کچھ شدت پسند ایک دوسرے کو بدعتی بھی کہتے تھے، لیکن ان کی شدت پسندی انھیں خود قابل ملامت بنادیتی تھی۔ ایک زمانہ دراز تک یہ اختلاف علماء کے درمیان محدود رہا، کیوں کہ یہ ایسے مباحث پر مشتمل تھا جنھیں علماء ہی صحیح طور پر سمجھ سکتے تھے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دور حاضر میں اس اختلاف میں شدت آگئی ہے، اور علماء سے نکال کر اسے عوامی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس اختلاف میں خاص بات یہ ہے کہ یہ امت کے اکابر کے درمیان کا اختلاف ہے، اس اختلاف میں شامل تمام بڑے علماء امت کے بڑے علماء مانے جاتے ہیں، دوسری خاص بات یہ ہے کہ ان تمام علماء کا عقیدے کے تمام اہم مباحث پر اتفاق ہے، اور جن مسئلوں پر اختلاف ہے وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ اس لائق ہی نہیں ہیں کہ انھیں کسی بڑے اختلاف کا سبب بنایا جائے، جیسے یہ تمام لوگ توحید ورسالت پر ایمان رکھتے ہیں، اورقرآن وسنت کو دین کا حقیقی ماخذ مانتے ہیں، یہ تمام لوگ اللہ کی ذات اور اس کے اسمائے حسنی پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمام لوگ اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے جیسا کوئی نہیں ہے، یہ تمام لوگ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ ہر طرح کے نقص اور عیب سے پاک ہے۔ مختصر یہ کہ سورہ اخلاص کے حرف حرف پر ان سب کا پختہ ایمان ہے۔ اختلاف ہے تو اس پر کہ اللہ کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے،تو عرش پر مستوی ہونے کا مطلب کیا ہے؟ یا یہ کہ اس کا مطلب ہم سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ اسی طرح اختلاف اس میں ہے کہ وہ آسمان پر ہے یا ہر مکان سے ماورا ہے۔ اللہ کی قدرت پر سب کا ایمان ہے اختلاف اس میں ہے کہ قرآن میں جو اللہ کے لیے (ید) اور (عین) کا استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ ہے جو ہم بظاہرسمجھتے ہیں یا وہ ہے جو ہمارے ادراک سے باہر ہے۔ اور اس کے لیے قدرت اور نگرانی جیسی تعبیریں استعمال کرنا مناسب ہے۔ اگر کوئی صاف دل کے ساتھ ان مسائل پر نظر ڈالے تو وہ یہی کہے گا کہ یہ تو عقیدے کے مسائل ہیں ہی نہیں، یہ تو دراصل الفاظ کی تفسیر کےمسائل ہیں۔ اصل عقیدے کے مسائل پر تو سب کا اتفاق ہے، یہ تو متفق علیہ عقیدے سے نکلنے والی ایسی بحثیں ہیں جن پر آدمی کی کوئی رائے نہ ہو تب بھی اور کوئی رائے ہو تب بھی اس کے ایمان اورعقیدے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ اللہ کی ذات کا تفصیلی علم عقیدے کا موضوع نہیں ہے، اللہ کو اپنی ذات کا تفصیلی علم بندوں سے مطلوب ہوتا تو جس طرح اس نے اسماء حسنی کو تفصیل کے ساتھ بتایا ہے، اپنی ذات کی تفصیلات بھی ذکر کردیتا، لیکن ایسا تو نہیں ہوا۔

اسی لیے مولانا مودودیؒ نے ان مباحث کے سلسلے میں صاف کہا کہ یہ اختلافات اتنے قدیم ہیں کہ وہ دور نہیں کیے جاسکتے، اور اتنے غیر اہم ہیں کہ ان کو دور کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرناضروری نہیں ہے۔ مولانا فرماتے ہیں:

رہے مختلف مذاہب کے اعتقادی اختلافات، تو وہ نہ دور کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو دور کرنا ضروری ہے۔ صرف اتنی بات کافی ہے کہ ہر گروہ اپنے عقیدے پر قائم رہے اور سب ایک دوسرے کے ساتھ رواداری برتیں۔  ( مولانا مودودیؒ کے انٹرویو، مرتب: ابو طارق ایم۔ اے ص ۲۱۱)

بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ان تعبیرات کی حقیقت کو اللہ کے حوالے کردینا چاہیے، اور ان کے تقاضوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ مولانا مودودیؒ کا واضح موقف ہے کہ قرآن مجید اور احادیث پاک کے اس طرح کے الفاظ کے سلسلے میں تفصیلات طے کرنے کی کوشش فتنے میں مبتلا کرسکتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں:

اس سلسلے میں یہ اصول اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو چیزیں آپ کے محسوسات سے ماورا ہیں ان کے بارے میں مجملا اتنی بات ہی آپ کو جاننی اور ماننی چاہیے جتنی بیان کی گئی ہے۔ اس سے زائد تفصیلات طے کرنے کی جب بھی آپ کوشش کریں گے تو لامحالہ اپنی شامت خود بلائیں گے۔ مثلا قرآن مجید میں فرمایا گیا ید اللہ فوق ایدیھم (بیعت رضوان میں اللہ تعالی کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے) ظاہر بات ہے کہ جب اللہ کے لیے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا گیا تو ایک آدمی یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ پانچ انگلیوں والا اور ایک کلائی میں لگا ہوا ہاتھ ہے جو ایک جسم کا حصہ ہے۔ چناں چہ اگر آدمی اس کھوج میں پڑے اور لفظ ید (ہاتھ) کا تعین شروع کردے تو اس کے لیے فتنے میں مبتلا ہوجانا ایک بدیہی امر ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس اس کے تعین کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جب کہ اللہ تعالی ہمارے حواس سے ماورا ایک ہستی ہے۔ آدمی تو ان ہی چیزوں کے متعلق تصور کرسکتا ہے جو اس کے محسوسات کی گرفت میں آتی ہیں۔ لیکن جو چیزیں محسوسات سے ماورا ہیں ان کا تصور دلانے کے لیے ہم انھی الفاظ کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو انسان کی زبان میں پائے جاتے ہیں اور انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں پایا جاتا جو محسوسات سے ماورا چیزوں کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ انسان کی زبان کا ہر لفظ صرف محسوسات کے لیے رکھا گیا ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ جب ماورائے محسوسات کے لیے انسانی زبان استعمال کی جائے گی تو ان کا لازما اور بعینہ وہ مفہوم نہیں ہوسکتا جو انسانی زبان میں مراد ہوتا ہے۔ انسان قریب ترین جو تصور کرسکتا ہے وہ ان الفاظ سے کرسکتا ہے۔ اسی لیے وہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب وہ شخص اپنے نفس پر بڑا ظلم کرنے والا ہوگا جو ان الفاظ کے معنی متعین کرنے کے لیے بیٹھ جائے۔ اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ جو متشابہات ہیں ان کے معنی متعین کرنے میں وہی لوگ سر کھپاتے ہیں جن کے دلوں میں زیغ (ٹیڑھ) ہے وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے معنی متعین کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جو شخص بھی ایسی کوئی کوشش کرتا ہے وہ حقیقت میں اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے۔ یہ بڑے بڑے گمراہ فرقے اسی وجہ سے پیدا ہوئے کہ لوگ متشابہات کے معنی متعین کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ چناں چہ میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اس سے بچیے اور خود بھی خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ کبھی اس فتنے میں پڑوں۔ (استفسارات مولانا سید ابوالاعلی مودودی،، مرتب اختر حجازی۔ ص ۱۱۸، ۱۱۹)

مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو سامنے رکھنے سے عقائد کے باب میں اعتدال کے بہت اہم اصول سامنے آتے ہیں:

پہلا اصول: عقیدہ وہ ہے جو صاف اور صریح محکمات سے ماخوذ ہو

عقائد کے باب میں ایک بڑی بے اعتدالی امت میں یہ در آئی ہے، اور بہت عام ہوگئی ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بات کو عقیدہ کہہ دیا جاتا ہے، اور اس سے اختلاف رکھنے والے کو اسلام سے یا کم از کم اہل سنت والجماعت سے خارج کردیا جاتا ہے، مولانا مودودیؒ عقائد کے باب میں بہت اہم اصول بیان کرتے ہیں، جس کی رعایت سے امت کے رویے میں اعتدال آسکتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:

یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ عقیدے اور خصوصا عقیدہ توحید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر کفر وایمان اور فلاح وخسران کا مدار ہے۔ اس معاملے میں یہ طرز عمل صحیح نہیں ہے کہ مختلف احتمالات رکھنے والی آیات اور احادیث میں سے ایک مطلب نچوڑ کر کوئی عقیدہ بنالیا جائے اور اسے داخل ایمانیات کردیا جائے۔ عقیدہ تو صاف اور صریح محکمات سے ماخوذ ہونا چاہیے، جن میں اللہ اور اس کے رسول نے ایک بات ماننے کی دعوت دی ہو اور یہ ثابت ہوکہ نبی ﷺ اس کی تبلیغ فرماتے تھے، اور صحابہ کرامؓ وتابعین وتبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اس پر اعتقاد رکھتے تھے۔ (سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۴۲)

دوسرا اصول:وہ عقیدہ نہیں ہے جسے قرآن وسنت میں عقیدہ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا ہو

امت میں بہت بڑی بے اعتدالی یہ پائی گئی کہ جو باتیں عقیدے کی نہیں تھیں انھیں عقیدے کا درجہ دے دیا گیا، اس کے نتیجے میں ایسی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوئی کہ امت میں ایک دوسرے کو بد عقیدہ ان باتوں کی بنیاد پر کہا جاتا ہے جو عقیدے کی باتیں نہیں ہیں۔ اور چوں کہ ایسی باتیں بہت زیادہ ہیں، اور صریح ومحکم دلائل نہ ہونے کی وجہ سے ان میں اختلاف بھی بہت زیادہ ہے، اس لیے ایک دوسرے کو مشرک، کافر اورفاسق کہنے کا موقع خوب ملتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے عقائد کے باب میں اس بڑی بے اعتدالی کے سلسلے میں زبردست مسلک اعتدال اختیار کیا۔

ایک دور ایسا تھا جب اللہ کے رسولﷺ کی زندگی کو لے کر ملت میں مناظروں اور فتوے بازیوں کا بازار گرم تھا، مولانا نے اس بحث سے اوپر اٹھ کر اسے دیکھا، ایک معتدل نقطہ نظر پیش کیا، اور تمام فریقوں کو بے اعتدالی کے رویے سے باہر نکل آنے کا راستہ دکھایا۔ مولانا لکھتے ہیں:

حیات النبی ﷺ کے بارے میں آج کل جس طریق پر علماے کرام کے مابین بحث چل رہی ہے، اس کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ اس کا کچھ حاصل ہی ہے۔ عقیدے کی حد تک ہمارا اس بات پر ایمان کافی ہے کہ آں حضور ﷺ اللہ کے نبی ہیں اور آپ ﷺ کی ہدایت ابد تک کے لیے کامل ہدایت ہے۔ عمل کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ہم آں حضورﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں، جسے معلوم کرنے کی خاطر قرآن وسنت ہمارا مرجع ومنبع ہے۔ اب آخر اس بحث کی حاجت ہی کیا ہے کہ نبی کریم اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کس معنی میں زندہ ہیں۔ ۔ ۔ پھر یہ بحث اس لیے بھی غیر ضروری اور لا طائل ہے کہ ہم اس خاص معاملے میں کوئی متعین عقیدہ رکھنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مکلف ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس مسئلے سے بالکل خالی الذہن ہو یا اس میں راے قائم کیے بغیر مرجائے تو اس کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا، نہ آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تونے حیات نبی کے برزخی وجسمانی ہونے کے بارے میں کیا عقیدہ رکھا تھا۔ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور قطعی ہدایت اس باب میں نہیں دی گئی جو ہمیں ایک خاص عقیدہ رکھنے کا پابند کرتی ہو، نہ یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان زیر بحث تھا، نہ آں حضور ﷺ کے جانشینوں نے کسی کو اس معاملے میں کوئی خاص عقیدہ رکھنے کی کبھی تلقین کی۔ میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حیات النبی کے مسئلے میں حضرات علماء وہی غلطی کررہے ہیں جو خلق قرآن کے مسئلے میں خلیفہ مامون نے کی تھی۔ یعنی جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے اسلام کا ایک عقیدہ اور ایمانیات کا ایک رکن نہیں قرار دیا تھا اور نہ جسے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کی نجات کا مدار رکھا تھا، اور نہ جس پر اعتقاد رکھنے کی خلق کو دعوت دی تھی، اسے خواہ مخواہ عقیدہ اسلام اور رکن ایمان بنایا جارہا ہے، اس کے ماننے یا نہ ماننے کو مدار نجات قرار دیا جارہا ہے، اس پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی جارہی ہے، اور اعتقاد نہ رکھنے والوں کی تکفیر وتفسیق کی جارہی ہے۔ (سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] دوم ص۳۴۳ اور ۳۴۴)

یہ بہت قیمتی اصول ہے کہ جس بات کو اللہ اور اس کے رسول نے عقیدہ قرار نہیں دیا، اسے عقیدہ قرار نہیں دیا جائے۔ اور جس بحث کا اعتقادی یا عملی فائدہ نہ نکلتا ہو اسے طول نہ دیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اس اعتدال پسندانہ نقطہ نظر سے ان تمام موضوعات کو دیکھا جائے، جو زمانہ قدیم سے امت میں شدید نزاع کا باعث بنے ہوئے ہیں، تو بیشتر موضوعات کو بند کردینے اور اکثر نزاعات سے باہر نکل آنے میں دیر نہیں لگے۔

تیسرا اصول: گفتگو میں عقیدہ اور غیر عقیدہ کا فرق ملحوظ رکھا جائے

بسا اوقات ایک ایسی بات کو لے کر جس کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے، لمبی اور تلخ بحثیں اس بات کو عقیدے کا درجہ دلا دیتی ہیں، اس لیے اعتدال کا تقاضا یہ ہے کہ موضوعات پر نگاہ رکھی جائے، کہ کون سا موضوع کتنی بحث کا اہل ہے، اور اس سے کتنا جذباتی لگاؤ رکھنا مناسب ہے۔ مولانا مودودیؒ ایک مسئلے کے حوالے سے اس اہم نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

آدم ؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے، اس کی جائے وقوع کا مسئلہ اسلام میں کوئی بنیادی تو درکنار، فروعی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص محض قرآن کو سمجھنے کی کوشش میں اس کے متعلق کسی خیال کا اظہار کرے تو زیادہ سے زیادہ اس سے اتنا ہی تعرض کیا جاسکتا ہے کہ اس کی رائے کو آپ پسند کریں توقبول کرلیں، نہ پسند کریں تو رد کردیں۔ مگر بدقسمتی سے ہماے ہاں ہر مسئلہ پہلے ردو کد اور بحث ومناظرہ کا موضوع بنتا ہے اور پھر یہی ردوکد اس کو ایک اعتقادی مسئلہ بناکر رکھ دیتی ہے جس پر دو فریق ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہوجاتے ہیں، اور جب تک فریقین کے نکاح نہ ٹوٹ جائیں، معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ (سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۹۸)

یہاں مولانا مودودی ؒ نے اس اہم نکتے سے پردہ اٹھایا ہے کہ دین کا ایک غیر اہم مسئلہ محض بحث ومناظرہ کا موضوع بن کر دیکھتے دیکھتے اعتقادی مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایسے تمام مسائل میں راہ اعتدال یہ ہے کہ مسئلہ کی موجودہ صورت اورشکل سے متاثر ہوجانے کے بجائے، یہ دیکھا جائے کہ حقیقت میں اس مسئلہ کا دین میں کیا مقام ہے۔

چوتھا اصول: شرک وکفر کی اصلاح اور تاویل کی غلطی کی اصلاح کا طریقہ مختلف ہونا چاہیے۔

امت کے بہت سے گروہوں میں گمراہیوں کی مختلف شکلیں عام ہیں، یہ گم راہیاں تاویل کی غلطی سے پیدا ہوئی ہیں، بظاہر وہ گمراہیاں کفر وشرک سے مشابہ نظر آسکتی ہیں، لیکن ان کی حقیقت یہی ہے کہ وہ گم راہی تو ہیں، مگر کفر وشرک نہ ہوکر غلط تاویل کا شاخسانہ ہیں۔ ان کے سلسلے میں اعتدال پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ کفر وشرک کے فتوے چسپاں کرنے، اور ان کے ماننے والوں کاامت سے اخراج کرنے کے بجائے، سنجیدہ گفتگو کا ماحول بنایا جائے، اورحکمت کے ساتھ ان کی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے، مولانا لکھتے ہیں:

آپ نے بعض حضرات کو[اللہ کے رسول کو حاضر وناظر ماننے کی بنا پر] مشرک کہنے یا نہ کہنے کا جو ذکر فرمایا ہے، اس کے بارے میں میری رائے شاید آپ کومعلوم نہیں ہے۔ میں ان مسائل میں ان کے خیالات کو تاویل کی غلطی سمجھتا ہوں اور اسے غلط کہنے میں تامل نہیں کرتا۔ مگر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ انھیں مشرک کہا جائے اور مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے۔ میں ان کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کے قائل ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ توحید ہی کو اصل دین مانتے ہیں اور اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں مشرک کہنا زیادتی ہے۔ البتہ انھوں نے بعض آیات اور احادیث کی تاویل کرنے میں سخت غلطی کی ہے اور میں یہی امید رکھتا ہوں کہ اگر ضد دلانے والی باتیں نہ کی جائیں اور معقول طریقے سے دلیل کے ساتھ سمجھایا جائے تو وہ جان بوجھ کر کسی گمراہی پر اصرار نہ کریں گے۔ (سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۴۴)

اگر اس اصول کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، تو تکفیر وتفسیق کے ہر طرف پھیلے ہوئے رجحا ن پر روک لگائی جاسکتی ہے، اور اصل غلطی کی اصلاح کے لیے کامیاب حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے۔ ضد دلانے والی باتیں نہ کرنے کا اصول امت میں اصلاح کا نہایت قیمتی اصول ہے۔

پانچواں اصول:تمام سلف صالحین کے سلسلے میں حسن ظن رکھا جائے

اگر تمام سلف صالحین کے سلسلے میں حسن ظن ہو، اور دل میں ان کے لیے قدرو احترام ہو، تو ان کے اختلاف آراء کو آدمی حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھتا ہے، ہر ایک کے نقطہ نظر کو بغیر کسی عصبیت یا جانب داری کے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے،ایسی صورت میں اس کی معتدل نقطہ نظر تک رسائی ہوتی ہے، اور وہ دونوں رایوں میں موجود حق کے پہلوؤں کا ادراک کرلیتا ہے۔ ورنہ وہ بھی صدیوں سے چل رہی بانجھ بحثوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ عمل ایمان کا جز ء ہے یا اس سے الگ چیز ہے، اس قدیم بحث کو مولانا مودودیؒ نے ہمہ گیر اورمعتدل نگاہ سے دیکھا۔ وہ لکھتے ہیں:

اعمال کے جزو ایمان ہونے یا نہ ہونے کی بحث کو خواہ مخواہ الجھادیا گیا ہے، ورنہ بات بجائے خود صاف ہے۔ اس میں ایک جہت وہ ہے جو امام ابو حنیفہؒ نے اختیار کی ہے اور وہ بجائے خود حق ہے۔ مگر اعتراض کرنے والوں نے اس جہت کو نظر انداز کرکے دوسری جہت سے اس پر اعتراض کردیا۔ اسی طرح اس مسئلے کی ایک دوسری جہت وہ ہے جو امام بخاریؒ وغیرہم نے اختیار کی اور وہ بھی برحق ہے، مگر رد کرنے والوں نے ایک مختلف جہت سے اس کو رد کرنا شروع کردیا۔ (اس کی تفصیل کے لیے:سید مودودیؒ، رسائل ومسائل،تدوین نو، جلد اول ص۱۰۴)

جس مسئلے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کو اہل سنت سے خارج کرتے آئے، وسعت نظر اور وسعت قلب کی بنا پر اس مسئلے کو کس خوب صورتی سے حل کردیا گیا۔ اس معتدل نقطہ نظر کو اختیار کرنے کے بعد مولانا مودودیؒ کے لیے یہ بھی ممکن ہوا کہ آج کے مسلمانوں کی بے عملی کے سلسلے میں ایک معتدل نقطہ نظر اختیار کریں، وہ لکھتے ہیں:

[ایمان وعمل میں تعلق کے حوالے سے] جن لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا ہے، وہ عجیب قسم کی افراط وتفریط میں مبتلا ہیں۔ کوئی تو بے عمل مسلمانوں کو بے تکلف کافر کہہ بیٹھتا ہے، حالاں کہ بے عملی کے دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں اور انھی کے ہونے کا بالعموم قوی احتمال پایا جاتا ہے۔ اور کوئی تمام بے عمل مسلمانوں کو ایمان ہی کا نہیں بلکہ جنت کا مژدہ سنارہا ہے، حالاں کہ یہ معصیت کی کھلی کھلی ہمت افزائی ہے، جس کی جوا ب دہی سے ہر خدا ترس آدمی کو ڈرنا چاہیے۔ (سید مودودیؒ، رسائل ومسائل ،تدوین نو،جلد اول، ص۱۰۶)

چھٹا اصول: تکفیر نہیں کرنا ہے کفر سے ڈرانا ہے

جس طرح عقیدے اور غیر عقیدے میں فرق کے سلسلے میں بہت سے لوگوںمیں بڑی بے احتیاطی پائی جاتی ہے، اسی طرح کفر وتکفیر کے سلسلے میں بھی امت میں بے اعتدالی پائی جاتی ہے، کچھ لوگ بے محابا دوسروں پر کفر کے فتوے لگاتے پھرتے ہیں، اور کچھ لوگ اسے بھی کفر نہیں کہتے جسے شریعت نے کفر کہا ہے۔ مولانا مودودیؒ ایک طرف تو کفر میں پڑجانےسے اور اس کے انجام سے ڈراتے ہیں، خاص طور سے اللہ کی کھلی نافرمانی اور اس کے قوانین سے عملی بغاوت کے سلسلے میں، اور دوسری طرف تکفیر کے سلسلے میں شدید احتیاط کی راہ دکھاتے ہیں، مولانا لکھتے ہیں:

شریعت نے ایسی تکفیر کو ہر کس وناکس کی رائے کا کھلونا نہیں بنایا ہے۔ جس طرح کسی انسان کے جسمانی قتل کے لیے یہ شرط ہے کہ نظام اسلامی موجود ہو اور با اختیار قاضی تمام شہادتوں اور پوری صورت حال پر غور کرکے پوری تحقیق کے بعد یہ رائے قائم کرے کہ یہ شخص واجب القتل ہے، تب اسے قتل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک شخص کے روحانی قتل، یعنی تکفیر کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ اس کے اوپر جو الزام کفر لگایا گیا ہے، اس کی ایک قاضی شرع پوری تحقیق کرے، اس کا اپنا بیان لے، اس کے اقوال وافعال کو جانچ کردیکھے، شہادتوں پر غور کرے اور اس کے بعد فیصلہ کرے کہ یہ شخص جماعت مسلمین سے کاٹ کر پھینک دینے کے لائق ہے۔ ’’(سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۱۱۲)

غرض یہ کہ مولانا مودودیؒ کے یہاں اصلاح امت کا یہ نہایت زریں اصول ملتا ہے کہ کفر سے ڈرایا جائے، مگر تکفیر سے باز رہا جائے۔

حسن البنا اور ابوالاعلی مودودی: نقطہ نظر دو، رویہ ایک

ہاتھ، آنکھ، چہرہ، قدم وغیرہ کوظاہری معنوں میں اللہ کی صفات مانا جائے یا ان کا مجازی مفہوم مراد لیا جائے، اللہ کی جگہ آسمان میں عرش پر مانی جائے یا اسے کسی جگہ میں ہونے سے منزہ مانا جائے، اس طرح کے اختلافی مباحث کے سلسلے میں ایک راستہ امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ اور دیگر بہت سے بڑے اکابر علماء کا ہے تو دوسرا راستہ امام ابن حجرؒ اور امام نوویؒ اور دوسرے بہت سے اکابر علماء کا ہے۔ امام حسن البنا ؒنے پہلا راستہ اختیار کیا اور مولانا مودودیؒ نے دوسرا راستہ اختیار کیا، تاہم ان اختلافی مسائل کے سلسلے میں دونوں کا رویہ بالکل یکساں تھا۔ دونوں اس بات پر زور دیتے تھے کہ ان مسائل میں اپنی توانائی صرف کرنے کے بجائے انسانوں کے سامنے اس دین کو اس طریقے سے پیش کیا جائے جس طریقے سے اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ وتابعین نے پیش کیا تھا۔ اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجلہ المنار جس کے مدیر علامہ رشید رضا تھے، اور ان کی وفات کے بعد امام حسن البنا کو اس کی ادارت سونپی گئی، دوران ادارت انھیں ایک استفسار موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ دو مجلوں کے درمیان صفات باری کے ان اختلافی مباحث کو لے کر سخت تہمت بازی کا سلسلہ چلا، ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیا گیا، اور عوام کے درمیان اس اختلاف کو خوب اچھالا گیا۔ اس سلسلے میں حسن البنا کا موقف معلوم کیا گیا۔

امام حسن البنا نے اس خط کا طویل جواب دیا جس کا کچھ حصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس عبارت کا ہر جملہ آب زر سے لکھے جانےکے قابل ہے:

آج امت مختلف خیموں میں تقسیم ہے، ہر خیمے کی ایک فکر ہے جس کا وہ داعی اور علم بردار ہے، ایک خیمہ ہے جو ہر چیز میں مغربی افکار اور مظاہر کے پیچھے بھاگنے کی دعوت دے رہا ہے، ایک اور خیمہ ہے جو قومیت کے تنہا جذبے کو دلوں میں بھڑکاتا ہے، اور اسے ترقی کی بنیاد بنانا چاہتا ہے، ایک خیمہ ہے جو لوگوں کو خالص سیاسی مسائل میں الجھانا چاہتا ہے، اس کا مقصد اپنے ملک کے اندر سیاسی استحکام اور باہر باعزت مقام دلانا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، ان کے علاوہ اور بھی خیمے ہیں، اور ان سب کے پیچھے قرآنی محمدی خیمہ ہے، جو ان سب کو آواز دے رہا ہے کہ اسلام تمھارے لیے سعادت اور قوت کا ضامن ہے، تم اس کی طرف تیزی سے آؤ۔

حقیقت میں ہمارے درمیان وہ اختلاف ہے ہی نہیں، جو قدیم زمانے میں فلسفیوں اور سلفیوں کے بیچ تھا، اس لیے اس نے کیا کہا اور اس نے کیا کہا، اسے اب پکڑے رہنے کی کوئی تک نہیں ہے، ہم سب کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہم اس دور کو اور اس میں جو کچھ لکھا گیا اور اس میں جو لوگ رہے، سب کو تاریخ کے حوالے کریں، اور ہم سب اپنے دین کے اس اصلی چشمے کی طرف پلٹیں جو پہلے بھی پاک وصاف تھا اور آئندہ بھی رہے گا، حادثات اسے گدلا نہیں کرتے، زمانہ اسے نقصان نہیں پہونچاتا، اور اختلافات اس کی بنیادیں نہیں ہلاتے، یہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی صحیح سنت ہے۔

آج کی ضرورت یہ ہے کہ ایک متحد طاقت ور ایمانی صف میں شامل ہوکر ہم سب اپنے زمانے کے مسائل کے حل کی طرف بڑھیں، لوگوں کو اس دین کی خوبیوں اور عظمت کی طرف بلائیں، اور اسلام کے علم برداروں کے اپنے اس خیمے کو تمام خیموں سے زیادہ طاقت ور بنادیں، یہاں تک کہ اسے فکری اور عملی نفوذ حاصل ہوجائے۔ اس طرح روح وعمل پر اسلام کی بالادستی پھر سے بحال ہوجائے۔ اس اختلاف کے سلسلے میں یہی میری رائے ہے۔

رہی یہ بات کہ کیا دونوں فریقوں کے لیے یہ جائز ہے کہ عوامی اخباروں میں ایک دوسرے پر تہمتوں کے تیر چلائیں، اور یہ بحثیں عوام میں نشر کی جائیں، تو میں اس کی تائید اور موافقت نہیں کرسکتا۔ نرم بات اور اچھے اسلوب سے بھی تو کام چل سکتا ہے، اور پھر یہ باریک بحثیں ہیں انھیں تو اہل علم کے درمیان ان کے مخصوص حلقوں اور محدود مجلسوں میں رہنا چاہیے، میں دونوں فریقوں کو صحیح بخاری کی روایت یاد دلاؤں گا جو علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے: (لوگوں سے وہ بات کرو جو وہ سمجھ سکیں، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلادیا جائے؟) اور صحیح مسلم کی روایت جو ابن مسعودؓ سے مروی ہے: (جب تم لوگوں سے ایسی بات کہو گے جو ان کی سمجھ میں نہیں آنے والی ہوگی تو کچھ لوگ تو فتنے میں پڑ ہی جائیں گے۔ ) اور اگر ان مباحث میں گفتگو ضروری ہے تو نرم لہجے میں ہو، پرسکون ماحول میں ہو، تاکہ اختلاف اور تہمت بازی کی بیماری خواص سے عوام کو منتقل نہ ہوجائے، اس میں بڑا بگاڑ ہے، جسے ان علاقوں میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں بعض رایوں کو لے کر سخت تعصب پایا جاتا ہے۔

میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہر اصلاح کی اساس تو عقیدہ ہے، اللہ کا دین تو واضح اور روشن ہے اس میں کوئی باریکی نہیں ہے، اور دین کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے سب لوگوں سے چھپانا درست ہو، اور یہ جھگڑا تو حق کی خاطر ہے، اس لیے یہ جائز ہے، اور یہ غصہ تو اللہ کے لیے ہے، یہ تو خوبی ہے، اور یہ تو دین کا دفاع ہے یہ تو واجب ہے۔ اور یہ تو قول وقلم کا جہاد ہے اسے چھوڑ بیٹھنا تو گناہ ہے، جب عقیدہ ہی خراب ہے تو جزوی اصلاح کی بات کرنا کہاں تک درست ہے؟ پھر اللہ کا دین تو سب لوگوں کے لیے ہے تو ہم سے یہ کیوں چاہا جارہا ہے کہ یہ بات خاص لوگوں تک رکھیں؟

جس کے دماغ میں یا زبان پر یا دل میں اس طرح کی بات گھوم رہی ہے اس سے میں کہنا چاہوں گا: میرے بھائی، دیکھو ہوشیار رہنا !الفاظ اور ناموں سے دھوکہ مت کھانا، عقیدہ ایک چیز ہے اور ایسے بعض مسائل میں اختلاف جن کی حقیقت جاننا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے، ایک دوسری چیز ہے، اور دین کے احکام جو تمام لوگوں کے لیے ہیں وہ الگ ایک چیز ہے، اور وہ اسلوب جس کے ساتھ انھیں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور چیز ہے۔ دین کے لیے غصہ ہونا اور جھگڑا کرنا ایک چیز ہے، اور جھگڑے پیدا کرنا اور فتنے بھڑکانا ایک دوسری چیز ہے۔ (مجلۃ المنار)

واقعہ یہ ہے کہ عالم عرب میں امام حسن البنا اور ہندوستان میں مولانا مودودی کی فکری کوششوں کے نتیجے میں پوری دنیا میں برپا ہونے والی اسلامی تحریکات نے اسلامی عقیدے کے سلسلے میں اعتدال پر مبنی موقف اختیار کیا، اوراسلامی عقیدے کو اپنی ہی امت اور اپنے ہی اہل سنت والجماعت کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے اسےاسلام کی تبلیغ واشاعت اور امت کی اصلاح وتربیت کے لیے استعمال کیا۔

یہ اسلامی تحریکات کا امتیاز ہے کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ وکلام کے باب میں مختلف خیالات رکھنے والے اور فقہ کے باب میں مختلف مسلک رکھنے والے ان تحریکوں میں شامل ہوتے ہیں،اقامت دین کے اعلی مقاصد کے لیے بنیان مرصوص بن جاتے ہیں، شانہ بہ شانہ جدوجہد کرتےہیں، اور ایک دوسرے کو غلط نہیں سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہ جس عقیدے کے علم بردار ہوتے ہیں، اس کی آب وتاب کے آگے یہ معمولی اختلافات نظر نہیں آتے۔■