عروس البلاد ممبئی: خلافت تحریک سے کسان مورچہ تک

ڈاکٹر سلیم خان

 

انگریز سامراج ہندوستان میں مشرق کی جانب سے داخل ہوا۔ ایک عرصہ تک اس نے کولکاتہ سے حکمرانی کی اور پھر دہلی کو اپنا دارالخلافہ بنایا لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کی واپسی ممبئی سے ہوئی۔ عروس البلاد میں واقع تاریخی عمارت ’گیٹ وے آف انڈیا‘ کو ویسے تو بادشاہ جارج پنجم اور ملکہ میری کے آمد پر استقبال کے لیے بنایا گیا لیکن بچپن میں جب ہم لوگ وہاں پکنک منانے جاتے تو ہمیں بتایا جاتا کہ یہیں سے انگریزوں کو ٹاٹا بائی بائی کیا گیا تھا۔ اس شہر کی ایک خوبی یہ ضرور ہے کہ گاندھی جی نے یہاں سے 8 اگست 1942ء کو ترک موالات (سول نافرمانی) کی تحریک کا آغاز کیا اور انگریزی سرکار کے خلاف ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کے ساتھ ’کرو یا مرو‘ کا انقلابی نعرہ بلند کیا لیکن ان کے کانگریس کا صدر بننے سے دو سال قبل 5 جولائی 1919ء کو ممبئی کے مسلمانوں نے خلافت کے مسئلے پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کی خاطر آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی۔ اس کے پہلے صدر سیٹھ چھوٹانی اور سکریٹری حاجی صدیق کھتری منتخب ہوئے۔ خلافت تحریک کی پکار پر برصغیر کے طول وعرض یعنی شہروں اور قصبوں تک میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے، جلسے منظم کیے گئے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں پیش کی گئیں۔ ان میں بیشتر مسلمان تھے۔ ان مظاہروں سے انگریزی سامراج گھبراہٹ کا شکار ہوگیا اور اس نے تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا۔ اس کے باوجود اپنی آب و تاب کے ساتھ تحریک جاری و ساری رہی۔
ممبئی کسان الائنس کے جلوس کی کامیابی کے موقع پر خلافت تحریک کو اس لیے یاد کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کی جانب سے کی جانے والی ایک پیش قدمی ہے۔ خلافت تحریک نے اول روز سے غیر مسلمین کو اپنے کام میں شامل کرنے کی کوشش تھی اور اس بار بھی یہی ہوا ہے اور انہیں ساتھ لے کر یہ تحریک چلائی جارہی ہے۔ ملک کے حالات اور سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو سو سال بعد بھی ان میں بلا کی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً اس وقت ایک طرف انگریزی سامراج تھا اور اس کے پیش نظر ایسٹ انڈیا کمپنی کا مفاد تھا۔ فی الحال ایک جانب مودی کا سامراج ہے جو امبانی اور اڈانی کے مفادات کا محافظ بنا ہوا ہے۔ ہندوستان کے عوام سرکاری جبر واستبداد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے آج بھی کسان تحریک نے یہی صورتحال پیدا کردی ہے۔ خلافت کمیٹی نے نومبر 1919 کے اندر دہلی میں منعقدہ اپنے پہلے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ غیر مسلمین کو ساتھ لے کر مسلمان انگریز وں کی پہلی جنگ عظیم کے جشن فتح میں شریک نہیں ہوں گے۔ آج کل یوم جمہوریہ کے حوالے سے یہی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ کسانوں نے سرکاری تقریب میں شریک ہونے کے بجائے الگ سے اپنا ٹریکٹر پر ترنگا یاترا نکالنے
کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کانگریس سے پہلے حکومت سے عدم تعاون کرنے کا فیصلہ تحریک خلافت نے کیا تھا۔ گاندھی جی کو اس مہم کا رہنما مقرر کیا گیا تھا۔ اس تحریک کے تحت وہی سب کیا گیا تھا جو اب کیا جارہا ہے مثلاً حکومت کے خطابات واپس کیے گئے۔ کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دیا گیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کر گئی اور تعلیمی اداروں نے سرکاری امداد لینا بند کر دیا۔ مقدمات کو سرکاری عدالتوں میں لے کر جانے کے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کرنا شروع کیا گیا اور انگریزی مال کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ کسان تحریک کے رہنما بھی فی الحال عدالت میں نہیں جا رہے ہیں اور نہ اس کی تشکیل شدہ کمیٹی سے رجوع کر رہے ہیں بلکہ اس کمیٹی کے ایک رہنما نے استعفیٰ دے کر اس سے کنارہ کش اختیار کرلی ہے۔ انگریزوں کی طرح امبانی کے جیو اور مال و پٹرول پمپ کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ اس یکسانیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کا جبر واستحصال پہلے ہو رہا تھا وہی سب اب بھی ہو رہا ہے اور ملک کے عوام کو پھر ایک بار غلامی کی طوق میں جکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیے نیوٹن کا تیسرا قانون حرکت میں آگیا ہے یعنی جیسا عمل اس کا یکساں اور مخالف رد عمل۔ ہاتھوں کے بدل جانے سے زنجیر کا رنگ نہیں بدلتا۔ ایسے میں فیض احمد فیض کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
ممبئی کے اندر جب سی اے اے اور این آر سی مخالف وفاق (الائنس) کے ذمہ داران کسان تحریک کے بعد رونما ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے یکجا ہوئے تو گرمجوشی کا فقدان عیاں تھا۔ یہ خیال ستا رہا تھا کہ کورونا کا بہانہ بنا کر ریاستی حکومت جلوس کی اجازت نہیں دے گی۔ اس مشکل کو مرکزی اور ریاستی حکومت کی مخاصمت نے آسان کر دیا۔ شیوسینا کے رہنما سنجے راوت کی اہلیہ سے این آئی اے کی تفتیش نے مرکزی حکومت کے خلاف ریاستی حکومت کے غم و غصے میں بجا طور پر اضافہ کیا اور ممکن ہے اس سے بھی اس کا دل نرم ہوا ہو۔ اس طرح اجازت کا امکان روشن ہو گیا۔
اجازت سے بڑا مسئلہ مسلم عوام کے اندر کسانوں کی تحریک کے تئیں عدم دلچسپی کا تھا۔ سی اے اے، این آر سی کو لے کر جس قدر غم و غصہ اور بے چینی پائی جاتی تھی اس طرح کی کیفیت نہیں تھی۔ مہاراشٹر میں مسلمان کاشتکاری کے بجائے صنعت و تجارت کے شعبے میں زیادہ ہیں اس لیے ان کے نزدیک یہ مسئلہ غیروں کا تھا۔ ممبئی میں چونکہ کھیتی نہیں ہوتی اس لیے غیر مسلمین کو بھی اس کام کے لیے تیار کرنا مشکل تھا۔
اس تحریک کی بیداری مہم میں سب سے پہلے یہ بات بتائی گئی کہ اس کا تعلق اناج کھانے والے ہر فرد سے ہے۔ شہر کے رہنے والے لوگ بھی شکم پروری کے لیے جو اناج کھاتے ہیں وہ نہ دفتر میں اگتا ہے اور نہ فیکٹری میں بنتا ہے بلکہ کھیتوں سے آتا ہے۔ کسان اپنے گھر کی ضرورت کا اناج گھر پر رکھ کر باقی ماندہ حصہ بازار میں فروخت کرنے کے لیے لاتا ہے اور جسے دیگر شہری خریدتے ہیں۔ جمع خوری پر لگائی گئی پابندی کو چونکہ ہٹا دیا گیا ہے اس لیے اگر سرمایہ دار اسے اپنے گوداموں میں رکھ کر مصنوعی تنگی پیدا کر دیں تو کا قیمتیں آسمان پر پہنچ جائے گا اور اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے گا یعنی مہنگائی کی مار شہریوں پر پڑے گی۔ یہ قانون جہاں کسانوں کو سستا اناج بیچنے پر مجبور کرے گا وہیں شہریوں پر مہنگا خریدنے کی مجبوری مسلط کر دے گا۔ اس ظلم کی چکی میں ساہوکاروں کے علاوہ ہر کوئی پسے گا۔ عام آدمی دانے دانے کا محتاج ہو جائے گا۔ یہ منطق سے شہر کے رہنے والے ہندو مسلم دونوں متاثر ہورہے تھے اور عوام کو سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔
مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے کمر بستہ کرنا قدرے آسان کام تھا۔ ان کو جب قرآن حکیم کی روشنی میں یہ بتایا جاتا کہ تم بہترین امت تو ہو لیکن تمہیں لوگوں کے لیے یعنی ان کی فلاح و بہبود کے لیے برپا کیا گیا ہے تو سنجیدہ ہو جاتے۔ بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی بات کسان بل پر براہِ راست چسپاں ہوجاتی تھی کیونکہ ہر فرد جانتا ہے کہ عوام کو استحصال سے بچانا بھلائی ہے اور حکومت کو اس برائی سے روکنا کارِ خیر ہے۔ مسلمانوں کے اندر ایک رکاوٹ یہ احساس تھا کہ ہم پہلے ہی بے شمار مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ایسے میں یہ نیا جھمیلا کیوں پالیں؟ جب اپنے سارے مسائل حل ہو جائیں گے تو اس کے بعد اس سے نمٹیں گے لیکن جب انہیں بتایا جاتا کہ رب کائنات نے اپنی کتاب میں امت کو عدل و انصاف علمبردار بن کر اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس بابت ہم سب عنداللہ مسئول ہیں اور اس کا اجر بھی دیگر عبادات جیسا ہے تو انہیں اطمینان ہوتا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت میں انصاف دلانے کے واقعات ملتے سننے کے بعد ان کے اندر ازخود آمادگی پیدا ہو جاتی۔ عصر حاضر میں ہر کس و ناکس بشمول ملت خود غرضی کے خول میں بند ہے لیکن اس حکمت عملی نے اسے مذکورہ چنگل سے نکال کر قائدانہ منصب پر فائز کر دیا۔
سنیچر ۱۶ دسمبر کو کسان الائنس مورچہ کے زیر اہتمام جلسہ میں ممبئی کا مشہور زمانہ آزاد میدان "جئے جوان جئے کسان” کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس احتجاج کی خاطر ہزاروں مظاہرین ممبئی کے اسلام جمخانہ میں جمع ہوئے اور وہاں سے جلوس کی شکل میں آزاد میدان تک پہنچے۔ اس احتجاجی مظاہرے میں شریک بیشتر مقررین نے مرکزی حکومت کو سرمایہ داروں کا دلال قرار دیا۔ الائنس کے صدر نشین جسٹس کولسے پاٹل نے مودی اور شاہ کو دنیا کا جھوٹا ترین انسان کہہ کر مخاطب کیا۔ زرعی قانون پر مودی سرکار پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کھیت سمیت کسانوں کو اڈانی اور امبانی کے سپرد کرنے کی سازش کرنے کا سنگین الزام لگایا۔ اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر انہوں نے اڈانی کو اناج کی ذخیرہ اندوزی کے لئے گودام بنانے کی سرکاری اجازت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ سابق جسٹس نے اس کشمکش کے لیے ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ کا نعرہ دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اب مودی-شاہ کو اقتدار سے بے دخل کیے بغیر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
اس مظاہرے میں شریک خواتین شرکا کی کثیر تعداد نے بھی سیاہ قانون واپس لینے کا پرزور مطالبہ کیا۔ برقع پوش خواتین کا اس جلوس میں شریک ہونا اخباری نامہ نگاروں کے لیے حیرت کا سبب تھا۔ کسان الائنس مورچہ کے اسٹیج سے بھی خواتین نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔ ان میں معروف سماجی جہد کار تیستا سیتلواد نے اپنے خطاب کے دوران اس کالے قانون کے مضر اثرات اور مودی کی چال کو تفصیل سے سمجھانے کے بعد آخر دم تک لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی سر زمین نے جنگ آزادی کے لئے بھگت سنگھ اور اس کے کنبہ نے اس لیے قربانیاں دیں کہ وہ جانتے تھے کہ نجکاری غلامی کی جانب پہلا قدم ہے۔ تیستا کے علاوہ دو خواتین ارکان اسمبلی بھی وہاں موجود تھیں۔ ممبئی کی جھگی جھونپڑی میں فلاح و بہبود کا کام کرنے والی ایم ایل اے ورشا ولاس نے کہا کہ مہاراشٹر میں یوگی کا راج نہیں اس لیے پولیس کا خیال کیے بغیر جلسہ کی کارروائی جاری رکھی جائے۔
جلگاوں سے ۴۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کرکے آنے والی کسان رہنما پرتبھا شندے نے مودی کو دھوکہ باز قرار دیا ہے کیونکہ وہ صرف جملہ بازی کرتے ہیں۔ انہوں مہاراشٹر سے دہلی جا کر احتجاج میں شامل ہونے والے کسانوں کی تفصیل پیش کی۔ معروف سماجی جہد کار میدھا پاٹکر نے آزاد میدان میں جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ موجودہ سرکار کا سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ان تینوں قوانین کو جبراً منظور کروانا انتہائی تشویشناک فعل ہے۔ انہوں نے دہلی کی سرکار اور ممبئی کے امبانی دونوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا۔ جماعت اسلامی ہند ممبئی کی تنویر خانم نے کسانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑنے کی ضرورت پر زور دیا اور لال بہادر شاستری کے سبز انقلاب کے اعادہ کی تلقین کی۔
اس مورچے میں شریک ہونے کے لیے معروف کسان رہنما راجیو شیٹی نے ستارہ سے ممبئی کا سفر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ تنہا تو نہیں پڑ گئے لیکن آج اطمینان ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔ ملک کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ شیٹی نے امید ظاہر کی کہ ممبئی کے بعد ملک کے ہر بڑے شہر میں مظاہرے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کسان کے لیے پھانسی کوئی نہیں بات نہیں ہے پچھلے چند سالوں میں ہزاروں کسانوں نے خود کشی کی ہے لیکن وہ پھانسی دینا بھی جانتے ہیں۔ دہلی سے اس مظاہرے میں شرکت کے لیے آنے والے رہنما امر جیت سنگھ نے کہا کہ تحریک پورے ملک کا تحریک ہے یہ کسی ایک مخصوص طبقہ کی تحریک نہیں بلکہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ ممبئی کی سر زمین پر اس احتجاج سے اسے تقویت ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس احتجاج میں اب تک ۱۲۲ لوگ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں یہ حکومت آخر کتنی قربانی چاہتی ہے؟ امر جیت سنگھ نے ’ لڑیں گے اور جیتیں گے ‘ کے فلک شگاف نعرے پر اپنی بات ختم کی۔
ممبئی میں سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ اس ملک میں صرف اڈانی اور امبانی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان دلالوں کے لیے ہمارا یہ پیغام ہے کہ اب عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ وہ اس حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیں گے اور ایک اچھی سرکار لائیں گے۔ حکومت کا تکبر چکنا چور کرنے کے لیے عوام اور کسان متحد ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ملک کو نئی راہ دکھانے کے لیے کسانوں کا شکریہ ادا کیا اور سرکار کو ہوش کے ناخن لے کر سیاہ قانون واپس لینے کا مشورہ دیا کیونکہ یہ بل کورونا کے دوران غیر دستوری طریقے سے منظور کروایا گیا ہے۔ معروف فلمی اداکار ششانت سنگھ نے سرکار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس نے پہلے این آر سی اور سی اے اے کا قانون بنا کر بہت سارے لوگوں کو متحد کیا اور اب کسانوں کو بھی ان سے جوڑ دیا ہے۔ اب ہم مل کر تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ اس موقع پر کانگریس کے نوجوان رکن اسمبلی ذیشان صدیقی نے بھی شرکا کو مبارکباد دی اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔
سو سے زائد تنظیموں کے منعقدہ احتجاجی مظاہرے کو کامیاب بنانے میں ممبئی امن کمیٹی کے سربراہ فرید شیخ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ ہانڈی والی مسجد کے شعلہ بیان امام مولانا اعجاز کشمیری اور جماعت اسلامی ہند کے سنجیدہ رہنما عبدالحسیب بھاٹکر پیش پیش تھے۔ ڈاکٹر عظیم الدین اور سرفراز آرزو صاحب نیز مولانا عبدالجلیل سلفی نے بھی علماء کونسل کے سکریٹری مولانا محمود دریابادی اور مدرسہ محمدیہ کے مہتمم حافظ اطہر کی سرپرستی میں بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ ونجارہ سماج کے رہنما ایڈووکیٹ راکیش راٹھور اور سمبھاجی بریگیڈ کے سچن کامبلے نے ہر قدم پر تعاون کیا۔ ہم بھارت کے لوگ سے تعلق رکھنے والے فیروز میٹھی بور والا، امول مڈامے اور ورشا تائی نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو بخیر و خوبی ادا کیا۔ آزاد میدان پر افتتاحی خطاب میں حافظ سید اطہر علی نے احتجاج کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسان مخالف سیاہ قانون نافذ ہو گیا تو اناج مہنگا ہو جائے گا۔ یہ سیاہ قانون ختم نہیں کیا گیا تو بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ یہ قانون ملک کی بربادی کا قانون ہے یہ مظاہرہ صرف کسانوں کے خلاف نہیں بلکہ ہر عام و خاص کے خلاف ہے۔ اس کے خلاف ڈٹے رہنے سے بالآخر کسانوں کی فتح ہو گی۔ کسان کی فتح ہم سب کی فتح ہے۔ کسان الائنس مورچہ اور تحریک خلافت کی مماثلت یہ ہے کہ جب انگریزی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا تھا تو گاندھی جی سمیت بیشتر غیر مسلم قومی رہنما اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ الائنس کو کسان تحریک کی حمایت کرنے والے ہر سماجی و سیاسی تنظیم اور مذہبی رہنما کا تعاون ملا۔ اس طرح گویا ایک صدی بعد اہلیان ممبئی نے ایک بھولا ہوا سبق یاد کیا۔ ورنہ یہ ہوتا تھا کہ یا تو ملت صرف مسلمانوں کے مسائل میں الجھی رہتی یا دیگر مسائل میں پیش قدمی کرنے کے بجائے دوسروں کے ساتھ علامتی شرکت پر اکتفا کرتی۔ یہ دونوں باتیں امت مسلمہ کے شایان شان نہیں ہیں۔ جس امت کو اس دنیا میں قیادت کے لیے بھیجا گیا ہے اس کی ساری توجہات کا اپنے آپ تک محدود ہو کر رہ جانا اسے زیب نہیں دیتا۔ خیر کے کاموں تعاون کرنا درست ہے لیکن آگے بڑھ کر قیادت کرنے کے لیے پیش قدمی کرنا لازم ہے۔ الہامی ہدایت کی حامل امت کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کے بجائے آگے بڑھ کر فرض منصبی نبھانا چاہیے ورنہ علامہ اقبال کا یہ شعر عار دلاتا رہے گا ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
***

اس مظاہرے میں شریک خواتین شرکا کی کثیر تعداد نے بھی سیاہ قانون واپس لینے کا پرزور مطالبہ کیا۔ برقع پوش خواتین کا اس جلوس میں شریک ہونا اخباری نامہ نگاروں کے لیے حیرت کا سبب تھا۔ کسان الائنس مورچہ کے اسٹیج سے بھی خواتین نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021