عرب ۔اسرائیل تعلقات کا نیا دور

قابص صہیونی ملک کے ساتھ مختلف النوع تعلقات میں مسئلہ فلسطین اورفلسطینی عوام نظرانداز !

شمشاد حسین فلاحی، نئی دہلی

عرب۔اسلامی دنیا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔اب عرب۔اسلامی دنیا اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرتی دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی بھی خواہش مند ہے۔ اس طرح وہ ملک جس کو خاص طور پر عرب دنیا اور عام طور پر مسلم دنیا ناقابل قبول مملکت تصور کرتی تھی اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی تھی، اب نہ صرف اسے قبول کر رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات کے قیام کی بھی خواہشمند نظر آتی ہے۔
اسرائیل کے با ضابطہ قیام کو ۷۰ سالوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس مدت میں عرب اسلامی دنیا ہی نہیں باقی دنیا بھی اسرائیل کو سفارتی سطح پر قبول کرنے میں ہچکچا رہی تھی۔ پچھلے ۳۰-۳۵ سالوں میں خلیجی جنگ کے بعد باقی دنیا نے یکے بعد دیگرے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ اس سے سفارتی تعلقات بھی قائم کرنے لگے ہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے اکثر با اثر ممالک کے اسرائیل کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔
پہلے عالم اسلام اور عرب دنیا اسرائیل فلسطین تنازعے کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھی اور اسے اسلام کا مسئلہ تصور کرتی تھی۔ اس کے بعد ایک دور آیا جب اسے عرب دنیا کا ایک تنازعہ تصور کیا جانے لگا اور اب صورت حال یہ ہے کہ خود عرب اور اسلامی دنیا اسرائیل سے ڈھکے چھپے ملنے ملانے کے بجائے نہ صرف کھلے طور پر سفارتی تعلقات رکھتی ہے بلکہ اس کے ساتھ مختلف میدانوں میں باہمی تعاون اور اسٹریٹجک پارٹنر شپ کی بات بھی کرتی نظر آتی ہے۔
اس سلسلے میں سعودی عرب کی جانب سے گزشتہ دنوں کی پیش رفت کافی اہم تصور کی گئی جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یہ کہہ کر دنیا اور عالم اسلام کو چونکا دیا تھا کہ ’’وہ اسرائیل کو ایک دشمن کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک پارٹنر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔‘‘
سعودی ولی عہد کا یہ بیان دور رس سفارتی پالیسی کی غمازی کر رہا تھا اور اندازہ لگایا جارہا تھا کہ کم از کم عرب دنیا کا اسرائیل کے لیے نظریہ اور خارجہ پالیسی دونوں میں بڑی تبدیلی واقع ہونے والی ہے کیونکہ سعودی عرب بہ ہر حال عرب دنیا کا با اثر ملک ہے اور وہ پوری مشرق وسطی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اثر و رسوخ کا مالک ہے۔چنانچہ بات بالکل درست ثابت ہو رہی ہے۔ اس کا اندازہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے تاریخی تجارتی معاہدے سے لگایا جا سکتا ہے جو ۳۱ مئی کو طے پایا اور جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں اس کا حجم سالانہ ۱۰ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اس معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان جامع اقتصادی شراکت داری کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔
اس معاہدے پر اسرائیل کی وزیر اقتصادیات و صنعت اورنا باربیوائی اور متحدہ عرب امارات کے وزیر اقتصادیات عبداللہ بن طوق المری نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بارے میں اماراتی وزیر مملکت برائے خارجہ تجارت ڈاکٹر ثانی بن احمد الزیودی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ:
’’ اسرائیل اور امارات کے درمیان جامع اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ ابراہیمی امن معاہدوں کے ذریعہ قائم کی گئی مضبوط بنیادوں پر مبنی ہے۔ یہ معاہدہ تیل کے علاوہ دیگر شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کا باعث بنے گا اور آئندہ پانچ سالوں کے دوران اس معاہدے کا تجارتی حجم ۱۰ ارب ڈالر سالانہ ہوگا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل مشرق وسطی کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مضبوط بنانے، ترقی کا عمل تیز کرنے اور خطے میں امن اور خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس معاہدے کو دونوں فریقوں کی جانب سے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور حقیقت میں یہ بڑی کامیابی ہے بھی، مگر کس کے لیے زیادہ بڑی ہے یہ سمجھنا دشوار بھی ہے اور آسان بھی۔
اس سلسلے کا تازہ ترین بیان بحرینی وزیر اعظم اور ولی عہد امیر سلمان بن حمد کا ہے جس میں انہوں نے بحرین اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی بات کہی ہے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بہت جلد بحرین بھی ’’امن کی تجارتی‘‘ کوششوں میں شامل ہو جائے گا۔ آگے کون کونسے ممالک اس صف میں شامل ہوں گے یہ کہنا تو دشوار ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس صف میں لبنان بہ ہر حال شامل نہیں ہو گا کیونکہ نہ اسرائیل کو لبنان کے ساتھ امن مطلوب ہے اور نہ ہی لبنان سیاسی سرینڈر کے لیے خود کو تیار کر پایا ہے۔ اس کی داخلی سیاسی و سماجی وجوہات ہو سکتی ہیں اور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان ہمیشہ اسرائیل کی ’’ہٹ لسٹ‘‘ میں رہا ہے۔ جنوبی لبنان پر وہ کئی بار فوجی کارروائی کر چکا ہے اور خود بھی کافی نقصان اٹھا چکا ہے اور لبنان کو بھی کافی نقصان پہنچا چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کتنا تناؤ ہے اس کا اندازہ ایک تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے ۱۵ سالوں میںاسرائیل نے ۲۲ ہزار مرتبہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری بات اسرائیل کے آرمی چیف کی لبنان پر ’’تباہ کن بمباری‘‘ کی وہ دھمکی ہے جو ۱۳ جون کے ذرائع ابلاغ نے شائع کی ہے۔ ذرائع ابلاغ نے لکھا ہے کہ اسرائیلی آرمی چیف (Aviv Kochavi) آویو کوشاوی نے کہا:
’’لبنانیوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ ہم انہیں فوری طور پر اپنے گھر چھوڑنے کی مہلت دیں گے، ہم انہیں چھوڑنے کی وارننگ دیں گے‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ ہونے والی کوئی بھی جنگ طویل ہونے کی توقع ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اسرائیل فوج نے ہزاروں اہداف کو پن پوائنٹ کر رکھا ہے جن کو کسی بھی مستقبل میں ہونے والی جنگ میں نشانہ بنایا جائے گا۔
یہ مشرق وسطی میں ’’امن اور جنگ‘‘ کی حقیقی صورت حال ہے، جس سے امن کی ابراہیمی بنیادوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف عالم اسلام کا اہم ملک ترکی ہے جو مشرق و مغرب کے درمیان جغرافیائی حیثیت سے بھی اور تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و تجارتی اعتبار سے بھی ایک پل کے مانند ہے، اس کا موقف بھی اس معاملے میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس کے پیچھے ممکنہ طور پر ترکی کی تجارتی و معاشی مجبوریاں ہو سکتی ہیں مگر عام مسلم دنیا کو اس کا موقف سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ ایسا اندازہ اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے صدر نے ترکی کا دورہ کیا اور اس کے بعد وہاں کے وزیر خارجہ بھی اسرائیل کے دورے پر گئے، جس کے واضح معانی یہ ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کی خلیج ختم ہو چکی ہے یا پاٹی جا رہی ہے۔
عرب اسلامی دنیا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے اس نئے دور کو دیکھ کر عام طور پر یہی تصور قائم ہونا چاہیے کہ ان کی نوعیت دو طرفہ برابری کی ہو گی۔ دونوں مملکتیں اپنی اپنی سطح پر کچھ دوسرے شریک کی بات مانیں گی اور کچھ دوسرے فریق سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گی، مگر یہاں شاید یہ کیفیت فی الحال نظر نہیں آ رہی ہے، ممکن ہے مستقبل میں نظر آ جائے۔ تاہم ذہن میں اتنا خیال ضرور آتا ہے کہ ابراہیمی امن کی بنیادوں پر قائم ہونے والے معاہدوں میں سے کچھ امن اگر آل ابراہیم کے حصہ میں بھی آجاتا تو فلسطین میں قیام امن کے امکانات روشن ہو جاتے۔ یہ امکانات اس لیے بھی روشن کہے جا سکتے ہیں کہ اندرون فلسطین موجود طاقتیں اس صدی کی ابتداء ہی میں دنیا کو یہ اشارہ دے چکی تھیں کہ فلسطین میں یہودی اور مسلمان عرب بقائے باہم کے اصول پر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور یہ اس وقت ممکن ہو جائے گا جب اسرائیل 1967 کی حدود میں چلا جائے۔ یہ دنیا کے سامنے مشرق وسطی میں امن کی مناسب صورت ہو سکتی تھی اور آج بھی ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
اب جب کہ عالم عرب اور اسلامی دنیا اسرائیل کے ساتھ مختلف النوع تعلقات استوار کر رہی ہے، مگر اس پورے سلسلہ واقعات میں مسئلہ فلسطین اور وہاں کی عوام کہیں بھی نظر نہیں آتے اور یہ اس سلسلے کا سب سے تاریک اور کمزور پہلو ہے جو ایک فریق کی کمزوری اور دوسرے کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔
(مضمون نگار خواتین و طالبات کے معروف رسالے ’’حجاب اسلامی‘‘ کے ایڈیٹر اور الجزیرہ نیٹ کے کالم نگار ہیں)
***

 

***

 ابراہیمی امن کی بنیادوں پر قائم ہونے والے معاہدوں میں سے کچھ امن اگر آل ابراہیم کے حصہ میں بھی آجاتا تو فلسطین میں قیام امن کے امکانات روشن ہو جاتے۔ یہ امکانات اس لیے بھی روشن کہے جا سکتے ہیں کہ اندرون فلسطین موجود طاقتیں اس صدی کی ابتداء ہی میں دنیا کو یہ اشارہ دے چکی تھیں کہ فلسطین میں یہودی اور مسلمان عرب بقائے باہم کے اصول پر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور یہ اس وقت ممکن ہو جائے گا جب اسرائیل 1967 کی حدود میں چلا جائے۔ یہ دنیا کے سامنے مشرق وسطی میں امن کی مناسب صورت ہو سکتی تھی اور آج بھی ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022