’’عدالتوں کے ناقابل فہم فیصلوں پر مایوس نہ ہوں ‘‘ :مولانا رابع حسنی ندوی

معین دین خالد

 

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند کا ایک نمائندہ ادارہ ہے جس کا قیام بنیادی طور پر شریعت اسلامی کے تحفظ کے لیے 7؍ اپریل 1973 کو عمل میں لایا گیا ہے۔ بورڈ اپنے قیام کے پہلے ہی دن سے شریعت میں مداخلت کی کوششوں کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑا رہا ہے اور اس دوران جب بھی مسائل ابھر کر سامنے آئے مسلمانان ہند نے رہنمائی کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ ہی کی طرف دیکھا ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے بابری مسجد انہدام کی سازش کے کیس میں سی بی آئی عدالت کے غیر منصفانہ فیصلے کے بعد ملک کے انصاف پسند حلقوں میں بالعموم اور مسلمانوں میں بالخصوص، پائی جانے والی بے چینی کے مد نظر کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی سے خاص بات چیت کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
سوال: بابری مسجد کی شہادت کو روکنے کے لیے کی گئی کوششوں میں کیا اور کہاں کمی رہ گئی تھی؟
جواب: بابری مسجد کا مسئلہ شروع میں ایک معمولی مسئلہ کے طور پر سامنے آیاتھا، لوگ بھی اس مسئلہ سے زیادہ واقف نہیں تھے، مرکزی حکومت کے بعض ذمہ داروں کے بیانات بھی معمولی انداز کے ہوا کرتے تھے لیکن، جب بابری مسجد کا قفل کھولا گیا تو یہ مسئلہ ایک دم سے گرم ہوگیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ مسئلہ اولاً بظاہر وقف بورڈ اور عدالتی دائرہ تک کا تھا لیکن کچھ مدت تاخیر ہوئی اس کو سیاسی انداز سے گرم کیا گیا، ہندو عوام کے ذہن میں اولاً یہ معمولی مسئلہ تھا، گرم بیانات سے اس کو اہمیت ملی اور یہ ایک عوامی مسئلہ بن کر سڑک پر آیا۔ اس طرح وہ دونوں طرف گرم ہوگیا، بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے شروع میں اپنا اندازِ عمل اختیار کیا پھر دیگر قائدین و قانون داں شریکِ کار ہوئے لیکن ان حضرات کی کوششوں کا وہ فائدہ سامنے نہیں آیا جن کی توقع کی جاتی تھی۔
سوال: ابتدا سے لے کر کس کس کے ساتھ اور اب اس حکومت کی سری سری روی شنکر تک، باہمی گفت و شنید سے قضیہ کو سلجھانے کی کب کب کوششیں ہوئیں جو عوام کے سامنے آئیں اور جو منظر عام پر نہیں آسکیں؟ ان کوششوں میں پرسنل لاء بورڈ کا کتنا رول رہا؟
جواب: شری شری روی شنکر اور ان کے ہم خیال لوگوں نے مسئلے کا حل یہ پیش کیا کہ مسلمان مندر کے لیے مسجد دینے پر راضی ہوجائیں لیکن یہ حل بالکل یکطرفہ تھا جو مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول تھا البتہ مولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ اور اس وقت کے بہار کے گورنر یونس سلیم اور آندھرا پردیش کے گورنر شری کانت نے دیگر ہندو مؤثر شخصیتوں سے ملاقات کی۔ ان میں سب سے اہم نام کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا تھا انہوں نے یہ حل پیش کیا کہ جیسے حیدرآباد کی مسجد کا معاملہ ہے کہ اس کا متولی ہندو ہے اس مسجد کی کمیٹی کا متولی بھی ان کو بنا دیا جائے وہ اس کو مسجد باقی رکھتے ہوئے ذمہ داری انجام دیں گے اس میں فوراً نماز تو شروع نہیں کی جا سکتی لیکن جلد ہی قریب میں مندر بنا کر مورتیاں وہاں منتقل کر دی جائیں گی تو وہ مسجد ہو جائے گی۔ یہ فارمولہ لے کر وہ حضرات دہلی آئے اور اس کو تحریک کی قیادت کرنے والوں کے سامنے رکھنا چاہا لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی، وہ قائدین اپنی کوششوں کو کافی سمجھتے تھے کہ انہوں نے ملاقات مسترد کردی بلکہ بعض نے کہا کہ علی میاں ہندو ہوتے جارہے ہیں۔ گرم بیانات اور جوشیلی تقریروں سے یہ معاملہ چلتا رہا، شروع میں پرسنل لا بورڈ اس میں شریک نہ تھا بعد میں شریک ہوا۔
سوال: بابری مسجد قضیہ کے دوران کن کن مراحل میں سیاسی مداخلت ہوئی اور کیا کیا مشکلات پیدا ہوئیں یا ملی دباؤ اور کوئی اور مداخلت ہوئی جس سے عدالت کے اندر یا باہرحل نکالنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی؟
جواب: بابری مسجد کا قفل کھلوانا، مورتیاں رکھوانا، نماز پڑھنے پر پابندی لگانا، درشن کے لیے اجازت دینا، شیلا نیاس کرانا، لاکھوں کی تعداد میں وہاں لوگوں کو اکٹھا ہونے دینا، اس وقت تک کوئی کارروائی نہ کرنا جب تک کہ وہ مسجد شہید نہ ہوگئی ہو، پھر شیڈ ڈال کر عارضی مندر بنادینا، مسجد ماننے کے باوجود رام مندر کے حق میں فیصلہ کرالینا، وزیر اعظم کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھوانا، پھر جرم کا اعتراف بلکہ اس جرم پر فخر کرنے والوں کو عدالت سے بری کیا جانا کیا یہ سب سیاسی مداخلت کا نتیجہ نہیں ہے؟ عدالت کے باہر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش بہت ہوئی، گفتگو کا سلسلہ بھی کئی بار چلا لیکن اکثریتی فرقہ خاص مسجد کی جگہ لینے پر مصر تھا اور چونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ لے سکتا ہے، اس لیے وہ اسی پر اڑا ہوا تھا، ایسی صورت میں جبکہ رویہ بالکل اڑیل ہو کیسے یہ مسئلہ عدالت کے باہر حل ہوسکتا تھا؟عدالت کے باہر کوئی مسئلہ اس وقت حل ہو سکتا ہے جب دونوں فریق مصالحت کے ارادہ سے بیٹھیں نہ کہ ایک فریق صرف لینے کے لیے بیٹھے؟
سوال: اب جب کہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا چاہتا ہے اور بھارت کے مسلمانوں نے عدالتی فیصلے کو تسلیم بھی کرلیا ہے تو ہماری اگلی نسلوں کو اس نوعیت کے مسائل سے دوچار نہ ہونا پڑے اس کے لیے آپ اور دیگر علما کی نظر میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟
جواب: دنیا کے ایسے ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے دینی حلقوں کی پامالی کی مثالیں سامنے ہیں اور مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ ان کے دائرہ عمل واختیار میں جو کچھ ہو وہ تو ان کو کرنا ہے، اس کے بعد جو بھی اللہ کو منظور ہوگا اس کو قبول کرنا ہے اور جن کا قابل عمل حل علمائے دین اور ماہرینِ قانون دیں ان کے مشوروں اور رہنمائی سے کام لینا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید رکھنا ہے جو حالات کو بدلتا ہے اور مشکلات کو حل کرتا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت سیکولر حکومت ہونے اور عدالتی نظام کے باوجود جو خلاف ورزی ہوئی ہے اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اللہ کی مدد کی امید رکھنی چاہیے اور حسب موقع غلط کو درست بنانے کا ارادہ قائم رکھنا چاہیے کہ بابری مسجد کے علاوہ دیگر جگہوں کی سن 1947 کے وقت جو پوزیشن تھی وہی برقرار رہے گی یہ فیصلہ عدالت نے دیا ہے اور یہ فیصلہ ہمارے لیے اچھی دلیل فراہم کرتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے ہم اتنی ہی کوشش کے مکلف ہیں جو ہم کرسکتے ہیں لیکن خود ہی مساجد سے دستبردار ہوجانا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔
سوال: ایودھیا کی ان کی بظاہر بڑی کامیابی کےبعد اب گیان واپی مسجد پر قانونی اور میڈیا کی یلغار شروع ہو چکی ہے۔ ہمیں کیا ان معاملات کا کوئی نوٹس ابتدائی مرحلے میں لینا چاہیے یا نظر انداز کر دینا مناسب ہے اور اگر کچھ کرنا ہے تو حفظ ما تقدم کے طور پر کیا جا سکتا ہے؟
جواب: ملک کی عدالت کی طرف سے جو ناقابل فہم فیصلے آئے ہیں ان سے بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک یہاں سیکولرزم ہے عدالت کا نظام ہے اور اس کے دستور کی بالادستی ہے ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے لیکن جمہوری طریقہ اور حکیمانہ انداز سے کام سود مند رہے گا، عدالت کا حالیہ فیصلہ جو دوسری متنازعہ مساجد کے سلسلہ میں آیا ہے کہ ان کی وہی پوزیشن برقرار رکھی جائے گی جو 1947 میں تھی بہت اہم ہے اور دوسری گیان واپی جیسی مساجد کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور لگتا ہے کہ حکومت اب دوسری مساجد کو نہیں چھوئے گی۔
سوال: بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور وکلاء کی ٹیم پر ایودھیا زمین کے مقدمے میں شکست کے لیے مقدمے کی پیروی میں کہیں کوتاہی کا الزام لگایا گیا تھا آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور وکلا کی ٹیم نے ایودھیا زمین کے مقدمہ میں جس طرح کی کارگزاری دکھائی اس کے متعلق ہمارے مخلص قانون داں حضرات ہی اظہار رائے کر سکتے ہیں۔ حفظ ماتقدم کے طور پر اس کا جائزہ لے کر آگے کی پالیسی بنانی چاہیے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ایک لمبی مدت بعد اس مسئلہ میں داخل ہوا ورنہ اصلاً اس مسئلہ کو بابری مسجد ایکشن کمیٹی دیکھ رہی تھی۔
سوال: سمجھا جاتا ہے کہ مولانا علی میاں مرحوم نے ظفریاب جیلانی کو 2000 روپے دیے تھے اور ایودھیا سے مسجد معاملے کی فائل بنا کر لانے کو کہا تھا۔ آپ اس سلسلے میں کوئی نئی بات عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیں گے؟
جواب:قفل کھولنے کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب مسجد کا قفل کھولا گیا تھا تب رات کے اندھیرے میں ایک چھوٹی عدالت لگا کر فیصلہ کیا گیا۔ میں نے خود یہ دیکھا کہ صبح کے وقت جب میں ندوہ میں دارالعلوم کی دوسری منزل پر گیا تو سامنے پولیس کو گومتی کے پشتے پر دیکھا تو مجھے تعجب ہوا کہ پولیس یہاں کیوں ہے مگر جلدی معلوم ہوگیا کہ رات میں لیے گئے فیصلے پر طلبہ کے ردعمل کے اندیشہ سے احتیاطاً پولیس لگائی گئی ہے۔ دن میں مسلم قائدین کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا تو مجھے احساس ہوا کہ مسلمان اہل قانون وسیاست اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں لہٰذا میں نے شہر کے بعض افراد کو متوجہ کیا ان حضرات کی ایک میٹنگ شام کو ہوئی جس میں قانونی طریقہ اختیار کرنا طئے کیا گیا، وہ یہ کہ وقف بورڈ سے کاغذات نکلوائے جائیں اس کے لیے رقم کا مسئلہ تھا تو وہ رقم ندوہ سے مہیا کرائی گئی، اس کے بعد ایک مدت گزر گئی مگر یہ کام انجام نہیں پایا گیا حتیٰ کہ یہ مسئلہ سیاسی رنگ اختیار کرگیا۔ اس وقت تک ہندوؤں میں بھی مسئلے سے زیادہ واقفیت نہیں تھی لیکن سیاسی انداز میں دونوں طرف گرمی پیدا کردی گئی اور تقریریں اور احتجاجات شروع ہوگئے۔
سوال: بابری مسجد اور کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ دونوں سے ندوہ کا نام جڑ گیا ہے۔ ادارہ ندوہ کو ان مراحل میں کیا فائدہ ہوا یا اس عظیم الشان تعلیمی ادارہ کے وقار کو کوئی ٹھیس پہنچی؟
جواب: اس مسئلہ میں مولانا علی میاں صاحب نے جو کوشش کی تھی وہ ایک مسلمان رہنما کی حیثیت سے کی تھی ندوہ نے اسے اپنا موضوع نہیں بنایا لیکن اپنے سربراہ مولانا علی میاں کا موئید رہا۔ اس لیے دونوں کو جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی جو تائید کی حد تک اہم ہے۔ تعلیمی کام سیاسی انداز سے الگ ہونا بہتر ہوتا ہے۔
سوال: مرحوم علی میاں کی اس سلسلے میں جو کوششیں رہی ہیں، ان کے بارے میں آپ کو آج اطمینان ہوتا ہے یا آپ ان کے کسی اقدام پر کسی دوسرے زاویہ سے کوئی بیان دینا چاہیں گے؟
جواب: مولانا علی میاں اور پاریکھ صاحب وغیرہ نے جو کوشش کی تھی وہ مسلمان دانشوروں کی نظر میں مفید تھی لیکن افسوس اس پر غور نہیں کیا گیا۔
***

ہندوستان میں اس وقت سیکولر حکومت ہونے اور عدالتی نظام کے باوجود جو خلاف ورزی ہوئی ہے اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اللہ کی مدد کی امید رکھنی چاہیے اور حسب موقع غلط کو درست بنانے کا ارادہ قائم رکھنا چاہیے کہ بابری مسجد کے علاوہ دیگر جگہوں کی سن 1947 کے وقت جو پوزیشن تھی وہی برقرار رہے گی یہ فیصلہ عدالت نے دیا ہے اور یہ فیصلہ ہمارے لیے اچھی دلیل فراہم کرتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے ہم اتنی ہی کوشش کے مکلف ہیں جو ہم کرسکتے ہیں لیکن خود ہی مساجد سے دستبردار ہوجانا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020