عالمی سیاست: نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
اسرائیل وامریکہ سے لے کر یوکرین اور جاپان تک پرآشوب حالات
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
سری لنکا کا بحران نااہل وآمرحکم رانوں کے لیے ایک سبق
عالم اسلام کے بجائے آج کل قتل و غارت گری ، جنگ و جدال اور تختہ پلٹ کی خبریں دیگر ممالک سے آرہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں غیر مسلم دنیا سے آنے والی اس قسم کی مختلف خبریں ذرائع ابلاغ پر چھائی رہیں مثلاً امریکہ کے ہائی لینڈ پارک سے فریڈم پریڈ یعنی جشن آزادی کے جلوس پر گولیاں برسانے کا اندوہناک واقعہ منظرِ عام پر آیا۔ اس کے بعد برطانیہ میں اقتدار کی کرسی ہلنے لگی اور بڑی ردو کد کے بعد وزیراعظم بورس جانسن نے بادلِ نخواستہ استعفیٰ دیا۔ اس پر جہاں ایک طرف روس اور یوروپی یونین نے خوشی منائی وہیں یوکرین غم میں ڈوب گیا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے صدر نیفتالی کو بھی اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا اور اب وہاں تین سال کے اندر پانچویں انتخاب کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ برِ صغیر ہندو پاک میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے کے بعد ان کے بڑے بھائی گوٹابایا بھی فرار ہوگئے نیز جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے کو انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ان سانحات کے تناظر میں مسلم دنیا کے اندر امن و امان کا ایک سبب دہشت گردی پھیلانے والے ممالک کا اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہواہونا بھی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ میں یوم آزادی کے دن گولیوں سے ہلاکت کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال یوم آزادی کے آخری ہفتہ میں امریکہ کی تقریباً تمام ہی ریاستوں میں گولی باری کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان میں کم ازکم 220لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور570 لوگ زخمی ہوگئے ۔ اس سال کے پہلے نصف میں امریکہ کے اندر اجتماعی گولی باری کے 315 واقعات درج کیے جاچکے ہیں اور بندوق کے ذریعہ جملہ 22,500 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو مہذب ترین کہنے والے امریکہ میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی 30 کروڑ آبادی کے پاس 40 کروڑ بندوقیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہاں ہر دن 53 لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔2019 میں 23ہزار سے زیادہ لوگوں نے بندوق کے ذریعے سے خودکشی تھی۔ علامہ اقبال کی یہ اشعار امریکہ کے نام نہاد ترقی یافتہ سماج پر لفظ بہ لفظ صادق آتےہیں؎
یہ عیشِ فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت
دل سِینۂ بے نُور میں محرومِ تسلّی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھُویں سے
یہ وادیِ اَیمن نہیں شایانِ تجلّی
ایسی دگرگوں صورتحال اگر کسی مسلم ملک میں ہوتی تو اسے دین اسلام اور قرآن حکیم کی تعلیمات سے جوڑا جاتا اور ہمارے دانشور احکامات الہٰیہ کے الٹے سیدھے مطالب بیان کرنے میں لگ جاتے لیکن جمہوریت تو ایک ایسی مقدس گائے ہے کہ اس پر تنقید کرنے کی جرأت اس کے حامی تو دور مخالفین بھی نہیں کرتے۔ یہ مرعوبیت ہی عصر حاضر کی فکری دہشت گردی ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں امریکہ کے اندر بندوق سے ہونے والی تشدد کی وارداتوں میں 15 لاکھ لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس قدر قتل و غارت گری کے باوجود امریکہ میں بندوق کی خرید و فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگتی ؟ اس تلخ سوال کا میٹھا جواب وہاں رائج جمہوری نظامِ سیاست ہے جس پر ساری دنیا ناز کرتی ہے ۔ جمہوریت نواز لوگوں کا اس پر اعتراض ہوگا لیکن سچائی یہی ہے کہ امریکہ میں برسرِ اقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے 91% ارکان پارلیمان بندوقوں کی تجارت پر سخت قوانین بنانے کے حامی ہیں۔ حزب اختلاف ریپبلکن کے بھی 24% فیصد ارکان کی حمایت انہیں حاصل ہے اس کے باوجود وہاں دستور میں ترمیم نہیں ہوپاتی اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جس سے اس مصیبت سے چھٹکارا مل سکے ۔
دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں اس راہ کا واحد روڑا اندرونِ ملک پائے جانے والے 63ہزاربندوقوں کے تاجر ہیں۔ اس دو فیصدآبادی نے اپنی دولت کے زور پر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ امریکی معیشت کے مقابلے میں ان کا کاروبار بہت معمولی یعنی صرف 83 ہزار کروڑ ہے لیکن یہ لوگ کروڑوں روپیہ عوامی نمائندوں کو رشوت دے کر اپنا ہمنوا بنائے رکھنے پر خرچ کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں بندوق کی حامی لابی نے اپنے کاروبار کا دس فیصد سے بھی کم یعنی تقریباً3.2 کروڑ ڈالر عوامی نمائندوں کو لبھانے پر خرچ کیا۔ اس کے برخلاف بندوقوں پر پابندی لگانے والے صرف 2.2 کروڑ خرچ کرپائے اس طرح نوٹ نے ووٹ کو ہرادیا ۔ امریکہ کے اندر جمہوریت کا یہ تماشا ممکن ہے تو مہاراشٹر میں کیوں نہیں؟
علامہ اقبال نے اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا :’’ ہمارے اپنے زمانے میں فلسفیوں نے معاشرے کے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز پیش کیا ہے‘‘۔ اس کی دوسری مثال برطانیہ میں سامنے آرہی ہے۔ دنیا بھر میں نوآبادیات قائم کرکے اپنا پرچم لہرانے وا لا برطانیہ بہادر اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ بورس جانسن کو اپنی تمام تر کرتب بازیوں کے باوجود استعفیٰ دینا پڑا ہے اور اب ان کے بعد اقتدار کے دعویداروں میں ہندو پاک کے علاوہ عراقی اور نائیجیریائی ارکانِ پارلیمان بھی شامل ہیں۔ ڈھائی سال قبل برطانوی عوام نے بڑے ارمانوں سے بورس جانسن کو اقتدار کی کرسی پر فائز کیا تھا لیکن پچھلے دنوں انہیں رائے دہندگان نہیں بلکہ ان کی کابینہ میں موجود وزرا کے استعفوں اور دقیانوسی سیاسی جماعت کے بہت سارے قانون سازوں کی کھلی بغاوت کے سبب مستعفی ہو نا پڑا۔ اس طرح ابن الوقتی اور دغابازی کا جو کھیل پاکستان میں ہوا وہی برطانیہ میں بھی کھیلا گیا کیونکہ دونوں ممالک میں رائج یکساں سیاسی نظام کے عوامی نمائندگان کی ابن الوقتی اور مالی مفادات سیاسی عدم استحکام کا سبب بن گئے۔
بورس جانسن کے باغی جانشین اب دیانت داری کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اتنی دیر تک ایک نااہل اور بدعنوان وزیراعظم کی حمایت کیوں کی؟ وہ اہم ترین عہدوں پر فائز رہ کر نہ صرف غلط فیصلے کرتے رہے بلکہ ان کے نفاذ میں بھی ہاتھ بٹایا۔ بورس جانسن کے بعد اگر ان کا کوئی مخالف حریف بن کر سامنے آتا تو بات اور تھی مگر فی الحال برطانیہ کے اندر وزیراعظم کی دوڑ میں ان کے دست راست ہندوستانی نژاد رشی سوناک سب سے آگے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ وہ بڑے دانشور یا نہایت ایمان دار ہیں۔ ان پر بھی لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کا جرمانہ عائد کیاجا چکا ہے لیکن چونکہ وہ بہت زیادہ دولتمند ہیں اس لیےانہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ ملکہ الزبیتھ سے بھی زیادہ امیر کبیر بتائے جاتے ہیں۔ اس طرح امریکہ کی مانند برطانوی جمہوریت میں بھی ووٹ پر نوٹ نے سبقت حاصل کر لی ہے۔ علامہ اقبال نے اس فرنگی سیاست کے بارے میں کہا تھا؎
تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ
مگر ہیں اس کے پُجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی اِبلیس آگ سے تُو نے،
بنائے خاک سے اُس نے دو صد ہزار ابلیس
برطانیہ کے اس بحران نے یوکرین زدہ یوروپ کے اندر ایک سیاسی خلفشار پیدا کردیا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے برطانوی وزیراعظم کے استعفےٰ پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف میں ہی نہیں، بلکہ پورا یوکرین آپ کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی رکھتا ہے‘۔ انہوں نے بورس جانسن کی یوکرین کے لیے حمایت اور ’اہم اقدامات‘ پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یوکرین کے وزیرخارجہ دیمیترو کولیبا نے بورس جانسن کے دورے کو یاد کرکے کہا کہ وہ بے خوف آدمی ہیں، جس مقصدپر یقین رکھتے ہیں اس کے لیے خطرات مول لینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے صحافیوں کو بتایا کہ بورس جانسن نے’جو بویا وہ کاٹ رہے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس (انجام) کا سبق یہ ہے کہ ’روس کو تباہ کرنے کی بات مت کرو۔‘
یوکرین کے لیے ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کرنے والے دونیستک اور لوہانسک علاقوں کو شام کے بعد شمالی کوریا نے بھی الگ ملک کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ اس لیے بورس کی وداعی پر یوکرین کا ردعمل حسبِ توقع لیکن جس یوروپی یونین میں وہ شامل ہونا چاہتا ہے اسے جانسن کے جانے پر خوشی ہے۔ برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکالنے کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے والے بورس جانسن کی رخصتی پر یورپی پارلیمان کے سابق کوآرڈینیٹر گائے ورہوفسدت نے کہا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے سے یورپی یونین اور برطانیہ کے تعلقات کو بہت زیادہ نقصان پہنچااور ان کے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ان کا دور بھی ’بے توقیری‘ یعنی رسوائی پر ختم ہوا۔ یورپی یونین کے سابق چیف مذاکرات کار مائیکل بارنیئر نے بورس جانسن کے بعد برطانیہ کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب اورزیادہ تعمیری دور کی امید ظاہر کی اور برطانیہ سے اپنے وعدوں کی پاسداری کی توقع کی ۔
جمہوری سیاست کے اس بحران سے مشرق وسطیٰ کی واحد اور دنیا کی ذہین ترین جمہوریت اسرائیل بھی محفوظ نہیں ہے۔2019کے بعد دوسالوں میں اسرائیل کے اندر چار بار انتخابات ہوئے۔ اس عدم استحکام کی کیفیت پر قابو پانے کے لیے یائر لیپڈ اور بینیٹ نیفتالی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر جون 2021 میں ایک مخلوط حکومت تشکیل دی کیونکہ اس سے قبل بینجمن نیتن یاہو کئی بار حکومت سازی میں ناکام ہو چکے تھے۔ موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ہونے والے سیاسی اتحاد میں شدید نظریاتی اختلافات کی حامل دائیں بازو، لبرل اور عرب مسلم جماعتیں اقتدار کےلیے یکجا ہوگئی تھیں۔ بھان متی کا یہ کنبہ کسی طرح دس ماہ تک ساتھ رہا مگر پھر ان کی سرپھٹول چوراہے پر آگئی ۔ اس کے بعد جب اتحاد کو مستحکم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو وزیراعظم نیفتالی بینیٹ اور یائر لاپیڈ نے پارلیمنٹ تحلیل کروادی۔ اب اسرائیل میں گزشتہ تین برسوں کے اندر پانچویں انتخابات کی تیاری شروع ہو چکی ہے اور اکتوبر یا نومبر میں اس کا انعقاد ہوگا۔ اسرائیل کے قیام سے اب تک وہاں کبھی بھی کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونیت جیسا فسطائی نظریہ بھی یہودیوں کے اندر سیاسی اتحاد قائم کرنے میں ناکام ہے اور جمہوریت سیاسی استحکام نہیں دے پارہی ہے۔
امریکہ کے برعکس جاپان نہایت محفوظ ملک ہے۔ وہاں چونکہ سکیوریٹی بہت نرم ہوتی ہے اس لیے انتخابی مہم کے دوران سیاست دان گلیوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر تقاریر کرتے ہیں اور راہگیروں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ جاپان میں اسلحہ کا حصول خاصا مشکل ہے۔ وہاں مجرمانہ ریکارڈ سے پاک تربیت یافتہ فرد کو نفسیاتی جائزہ لینے اور خاندانی پسِ منظر کی تفصیلی چھان بین کے بعد ہمسائیوں کی معلومات کو پیش نظر رکھ کر لائسنس دیا جاتا ہے۔ اس لیے جاپان میں ہتھیاروں سے اموات کا سالانہ اوسط صرف 10 ہےجبکہ سن 2017 میں تو صرف تین اموات ہوئی تھیں لیکن شنزو آبے کے قاتل نے یوٹیوب پر دیکھ کر ازخود دو پائپ جوڑ کر بندوق بنا لی ۔ جاپان میں سب سے مشہور سیاسی قتل سن 1960 میں ہوا۔ اس وقت سوشلسٹ پارٹی کے رہنما انیجور اسانوما کو ایک دائیں بازو کے شدت پسند نے تلوار سے حملہ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ جاپان میں اب بھی دائیں بازو کے شدت پسند موجود ہیں لیکن سابق وزیراعظم آبے خود پچھلے تین دہائیوں کے سب سے زیادہ مقبول دائیں بازو کے قوم پرست رہنما تھے۔ اس لیے انہیں کسی ایسے گروہ کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے باوجود انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے وزیراعظم کے عہدے پر دوبارہ فائز ہونے سے قبل ان کا قتل یہ بتاتا ہے کہ جمہوریت میں پرامن طور پر اقتدار کی تبدیلی سے قبل جاپان جیسے ملک میں بھی اس طرح کا خون خرابہ سارا کھیل بگاڑ سکتا ہے۔
دنیا بھر سے گھوم کر بر صغیر میں لوٹیں تو یہاں سب سے بڑا سیاسی انقلاب سری لنکا میں رونما ہوا۔ سری لنکا کی عوام نے پہلے وزیراعظم مہندا راجا پکشے کو مار بھگایا اور پھر ان کے بھائی صدر مملکت گوٹا بایا راجا اپکشے کے محل میں گھس گئے۔ سری لنکا کے راجا اپکشے خاندان کا وہاں کی سیاست پر ویسا ہی رسوخ تھا جیسا کہ ہندوستان میں سنگھ پریوار کا ہے۔ ان کے فسطائی نظریات میں بھی کمال کی یکسانیت ہے۔ گوٹابایا نے سنہالی بودھوں کی خوشنودی کے لیے پہلے تو تمل باشندوں کو کچلا اور اس کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کا ڈنکا بجایا۔ اس کو قائم رکھنے کے لیے مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے اور ملت کے خلاف میانمار جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ نفرت کی بنیاد سیاسی دکان چمکانے میں مودی اور شاہ کی طرح مہندا اور گوٹا بایا بھی مشاق تھے۔ انہوں نے میڈیا کو قبضے میں لے کر غیر معمولی انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی جماعت کو ایوان پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی لیکن وہ دونوں بھی نہایت نااہل تھے۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں جذباتی چورن کھلاکر اپنا کام چلاتے تھے لیکن جب لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو ساری عیاری اور مکاری دھری کی دھری رہ گئی ۔ گوٹابایا اور مہندا کے انجام میں دنیا بھر کے کرتب باز نااہل سیاستدانوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔
سری لنکا میں برپا ہونے والا حالیہ انقلاب نہ بیلیٹ کے صندوق سے نکل کر آیا اور نہ بندوق کی بولیٹ کے بدولت برپا ہوا۔ اس عوامی انقلاب کو کسی زاویہ سے جمہوری نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ایک نہایت مثبت اور ضروری تبدیلی تھی۔ اس نے یہ ظاہر کردیا کہ عوام کو بیوقوف بناکر بہلایا پھسلایا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے اور اس کے بعد جھولا اٹھاکر سرنگ کے ذریعہ راہِ فرار اختیار کرنے کی نوبت آن کھڑی ہوتی ہے۔ حکومتِ ہند میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے سری لنکا میں جاری سیاسی بحران پر اپنے بیان میں کہا کہ سری لنکا میں حالیہ پیش رفت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے آگے انہوں نے کہا سری لنکا کے عوام جمہوری طریقوں اور اقدار، قائم شدہ اداروں اور آئینی ڈھانچے کے ذریعے اپنی خوشحالی اور ترقی کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں ہندوستان سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہندوستان کا سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہنا قابلِ ستائش ضرور ہے لیکن کیا جمہوری طریقہ اور اقدار لوگوں کو صدارتی محل میں اس طرح داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا سری لنکا کے آئین میں اس کی اجازت ہے؟ اور قائم شدہ ضابطوں میں یہ بات شامل ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے باوجود سری لنکا کے عوام نے یہ ضروری کارنامہ کر دکھایا اور اس کے لیے وہ قابلِ صد مبارکباد ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ناکامی پر علامہ اقبال کے یہ اشعار عالمِ انسانیت کو دعوت فکر دیتے ہیں؎
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھُوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو
ہوَس کے پنجۂ خُونیں میں تیغِ کارزاری ہے
تدبّر کی فسُوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بِنا سرمایہ داری ہے
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے صدر نیفتالی کو بھی اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا اور اب وہاں تین سال کے اندر پانچویں انتخاب کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ برِ صغیر ہندو پاک میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے کے بعد ان کے بڑے بھائی گوٹابایا بھی فرار ہوگئے نیز جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے کو انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ان سانحات کے تناظر میں مسلم دنیا کے اندر امن و امان کا ایک سبب دہشت گردی پھیلانے والے ممالک کا اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہواہونا بھی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 جولائی تا 30 جولائی 2022