عارضی ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں
’گِگ ورکرس‘ کا سماجی تحفظ کی فراہمی کا مطالبہ واجبی
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست۔ لاکھوں ملازمین کو عدالت عظمیٰ سے راحت کی امید
گِگ ورکر سے مراد ایسا شخص ہے جو عارضی طور پر اپنی خدمات دیتا ہے یا آزاد ٹھیکیدار یا فری لانسر کی حیثیت سے عارضی طور پر کام کرتا ہے۔ گِگ ورکرز وہ ہیں جو آجر اور ملازم کے رشتے میں بندھے ہوئے نہیں ہوتے، عام طور پر وہ ٹھیکے یا پراجیکٹ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ مختلف ای۔ کامرس پلیٹ فارمز جیسے Amazon یا Flipkart میں یہ کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن یہ ان کے راست ملازم نہیں ہوتے، اس شعبے میں کام تلاش کرنا بالعموم روایتی ملازمتوں کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے۔ ہندوستان میں جیسے جیسے ای کامرس کی معیشت میں روز افزوں ہوتا جارہا ہے اس سے جڑے گِگ ورکرز کے مسائل میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اسی وجہ سے ہندوستانی مقننہ نے لیبر کوڈ بل میں اس کو کوڈ آن سوشل سیکورٹی کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے۔ 2020 کا سوشل سیکورٹی کوڈ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو قانونی طور پر تسلیم کرتا ہے لیکن اس سے متعلق کوئی قانون ابھی تک مدون نہیں کیا گیا۔
اسی دوران مفاد عامہ کی ایک درخواست انڈین فیڈریشن آف ایپ بیسڈ ٹرانسپورٹ ورکرز کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دی گئی، اس درخواست میں ایسے تمام غیر منظم کارکنوں کے لیے سماجی تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ غیر منظم شعبہ میں کام کرنے والوں کو 2008 کے ایکٹ کے تحت جو سماجی تحفظات حاصل ہیں وہی انہیں بھی دیے جائیں۔ عدالت نے اسے سماعت کے لیے قبول کر لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد مرکزی حکومت کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے اس سے متعلق وضاحت طلب کی ہے۔ عدالت عظمیٰ ایسے لوگوں کے سماجی تحفظ سے متعلق صورت حال کا جائزہ لے گی جو مختلف کمپنیوں میں عارضی طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جیسے اؤلا، اوبر، زماٹویا سویگی وغیرہ، اس درخواست کو ایل ناگیشور راؤ اور بی آر گیوائی سماعت کر رہے ہیں۔
اگر اس درخواست پر کوئی قانون سازی ہوجاتی ہے تو یہ ان بے سہارا ملازمین کے لیے بہت خوشی اور مسرت کی بات ہوگی جو مختلف آن لائن اور ایپ بیسڈ کمپنیوں میں عارضی طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ ’’نیو لیبر کوڈ آن سوشیل سکیورٹی‘‘ یعنی ملازمین کے لیے سماجی تحفظ کے نام سے ایک نیا قانون پارلیمنٹ میں متعارف کیا گیا اس طرح کے قانون میں پہلی مرتبہ ایسے ملازمین کو بھی شامل کیا گیا ہے جو اپنی خدمات عارضی طور پر انجام دیتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے یہ قانونی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ اب تک جتنے بھی قوانین موجود ہیں ان میں ان جیسے ملازمین کے حقوق سے متعلق کوئی بات درج نہیں تھی۔ عام طور پر کوئی کمپنی یا صنعت کے مالک اور ملازم کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوتا ہے کہ وہ کتنے گھنٹے کام کرے گا، کتنے دن کام کرے گا، اس کی تنخواہ کتنی ہوگی، وقت پر نہ آنے یا کام ٹھیک سے انجام نہ دینے پر کیا اور کتنا جرمانہ عائد کیا جائے گا، بالفرض ملازم کسی حادثہ کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کو کس قسم کی امداد فراہم کی جائے گی،، یہ اور اسی قسم کے بہت سے معاہدے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ جو آن لائن کمپنیوں میں عارضی طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے اور کمپنی کے مالک کے درمیان نہ کسی قسم کا کوئی معاہدہ طے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا تحفظ فراہم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس کمپنی میں کام تو کرتا ہے لیکن کمپنی کے مالک اور اس کے درمیان آجر اور ملازم کا رشتہ نہیں ہوتا۔
ہم میں سے بہت سوں نے آن لائن اشیاء منگوائی ہوں گی یا آپ نے جو سامان آرڈر کیا تھا اسے جس نوجوان نے گھر تک پہنچایا ہوگا اسے ہم "ڈیلیوری بوائے” کہتے ہیں اور جو آپ کو اپنے منتخب کردہ منزل تک پہنچاتا ہے اسے ڈرائیور۔ ان سب کا تعلق امیزان، فلپ کارٹ، اؤلا، اوبر، زوماٹو، سویگی وغیرہ کمپنیوں سے نہیں ہوتا یہ کام کرنے والے ان کمپنی کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ یہ خود کار ملازم کی طرح اس میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے کام کرنے والوں کو خود روزگار کے زمرے میں بھی شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی بذات خود کوئی کمپنی نہیں ہوتی یا جہاں یہ کام کررہے ہیں وہ بھی ان کی کمپنی نہیں ہوتی۔ کوئی نوجوان اگر اپنی ذاتی دکان لگاتا ہے تو اسے خود روزگار کہا جاسکتا ہے لیکن یہاں ایسی بات نہیں ہے۔ یہ کمپنیاں جب چاہیں اس کا دانہ پانی بند کر سکتی ہیں اور وہ اس بارے میں سوال بھی نہیں کرسکتا۔ الغرض ان دونوں کے درمیان مالک اور نوکر کا معاہدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو دو دو کمپنیوں میں خدمات انجام دیتے ہیں تاکہ ضرورتیں پوری کرنے کے بعد کچھ رقم پس انداز کر سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو کس زمرے رکھا جائے؟ کیا ان کو کسی کمپنی کا ملازم کہا جائے یا خود کار ملازم کہا جائے یا کیا کہا جائے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، اسی وجہ سے انہیں گِگ ورکرز کہا جاتا ہے۔ یہ پوری طرح ادھرنہ پوری طرح ادھر والی ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ اس مخصوص کیفیت کے لیے الگ سے قانون بنایا جائے کیونکہ موجودہ قوانین میں اس زمرے سے متعلق کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
جس وقت ان خدمات دینے والی کمپنیوں کا ظہور ہوا تھا اس وقت ان لوگوں کو حیران کن ترغیبی انعامات سے نوازا گیا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان ترغیبی انعامات کو کم کردیا گیا بلکہ مکمل طور ختم کردیا گیا اور معاوضہ میں بھی کمی کر دی گئی۔ اس طرح کے کام کرنے والوں کو کسی بھی قسم کا سماجی تحفظ نہیں ہے اس لیے ان کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈیلیوری بوائے کو سامان پہنچانے کے دوران اگر کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے تو اس کو کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملتا ہے جبکہ دوسری کسی بھی کمپنی کے ملازم کو معاوضہ دیا جاتا ہے کیوں کہ اس پر ’’ورک من کمپنزیشن ایکٹ‘‘ لاگو ہوتا ہے چاہے وہ اس کمپنی کا مستقل ملازم ہو یا عارضی، لیکن یہ قانون اس ڈیلیوری بوائے یا ڈرائیور پر لاگو نہیں ہوتا چاہے اس کو دوران کارکردگی حادثہ ہی کیوں نہ پیش آجائے۔ ان پلاٹ فارمس کے مالکین یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے ملازم ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو ہمارے شراکت دار ہیں یا ٹھیکہ دار ہیں لہٰذا اس صورت میں ہم پر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ ان بیچاروں کو کوئی سماجی یا معاشی تحفظ نہیں ملا ہوا ہے جبکہ دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہم نے سابق میں دیکھا ہے کہ یہ لوگ وقتاً فوقتاً اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لیے احتجاج منظم کرتے تھے، لیکن انہیں اس کا کوئی حل نہ مل سکا، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ملازمت کا تحفظ کے ساتھ سماجی تحفظ بھی ملے اور وہ تمام حقوق جو ایک ملازم کو قانونی طور پر حاصل ہیں انہیں بھی ملیں۔ یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ جب سے آن لائن خرید وفرخت کا رواج عام ہوا ہے اس میں کام کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی ان کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ اس میں کام کرنے والوں کے لیے کوئی واضح ہدایات یا قوانین موجود نہیں ہیں۔ مثال کے طور جب کیلیفورنیا میں احتجاج ہوا تو ان کے متعلق کہا گیا کہ یہ ملازم نہیں ہیں یہ تو آزاد ٹھیکیدار ہیں وہیں برطانیہ نے اؤبر ڈرائیوروں کے متعلق کہا کہ یہ اس کے ملازم ہیں، یورپی یونین نے کچھ کو گِگ ورکرز کے زمرے میں شامل کیا ہے اور بہت سوں کو چھوڑ دیا، سارے یورپی یونین ممالک میں دو کروڑ اسی لاکھ گِگ ورکرز ہیں لیکن ان میں سے صرف دس فیصد کام کرنے والوں کو ہی گِگ ورکر کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں ان کی کیا حیثیت رہے گی؟ آیا انہیں ان کمپنیوں کا ملازم قرار دیا جائے گا یا ٹھیکیدار کہا جائے گا؟ کیا انہیں ملازم قرار دے جانے کی صورت میں وہ تمام سہولتیں اور مراعات حاصل ہوں گی جو مستقل ملازمین کو حاصل ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں، کیا عدالت عظمیٰ اس میں کوئی واضح رہنمائی کرے گی؟ ایک طرف سرکاری ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں، صنعتیں مالی نقصانات کا شکار ہوتی جارہی ہیں نتیجہ میں ملازمین کو چھانٹ رہی ہیں، دوسری طرف انٹرنیٹ کی تجارت عروج پر ہے جس سے کروڑوں لوگ وابستہ ہیں۔ ان پلاٹ فارمس اور ایپس میں کام کرنے والوں کی نگاہیں عدالت عظمیٰ پر ٹکی ہوئی ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ ان کے حق میں فیصلہ دے گی۔
***
***
ایک طرف سرکاری ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں، صنعتیں مالی نقصانات کا شکار ہوتی جارہی ہیں نتیجہ میں ملازمین کو چھانٹ رہی ہیں، دوسری طرف انٹرنیٹ کی تجارت عروج پر ہے جس سے کروڑوں لوگ وابستہ ہیں۔ ان پلاٹ فارمس اور ایپس میں کام کرنے والوں کی نگاہیں عدالت عظمیٰ پر ٹکی ہوئی ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ ان کے حق میں فیصلہ دے گی۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 09 جنوری تا 15 جنوری 2022