عائشہ ۔۔! الوداع

ملّت کی بیٹیو! آپ کے لیے شریعت بہترین پناہ گاہ ہے

انتظار نعیم ، دلی

 

سانحے، حادثے اور واقعے دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن 25 فروری 2021 کو احمد آباد (گجرات) کے سابرمتی کے پل پر سے 23 سالہ عائشہ کے ندی میں چھلانگ لگا کر خود کو موجوں کے حوالے کر کے اپنی زندگی کے سفر کو لمحوں میں ختم کردینے کے المیے نے انسانوں کی جتنی بڑی تعداد کو رنج و غم اور اضطراب سے ہم کنار کر دیا ہے اتنا شاید بہت کم ہوتا ہو گا۔
عائشہ نے اگر سابرمتی پر پہنچ کر خاموشی سے دریا میں کود کر اپنی زندگی کی مشکلات سے نجات پالی ہوتی تو شاید اس کی موت کی صرف یہ مختصر سی خبر بنتی کہ ایک نوجوان خاتون نے سابرمتی میں کود کر خودکشی کرلی اور بس! لیکن عائشہ نے سابرمتی پر پہنچ کر ایک مختصر سے ویڈیو میں درد و سوز اور اضطراب کا جو سمندر سمودیا وہ کسی بھی انسان کی روح کو تڑپا دینے اور آنکھوں کو اشکبار کر دینے کے لیے کافی ہے۔ عائشہ مہذب و شائستہ مسلم خاتون کی طرح برقع زیب تن کیے ہوئے تھی۔ خوش شکل و خوش گفتار عائشہ موت سے چند لمحے قبل بھی پرسکون تھی اور سادہ مگر پرکشش لہجے میں ویڈیو میں سب سے پہلے اس نے السلام علیکم کہہ کر اس دنیا کو خیر و سلامتی کی دعا دی جس نے اس کو راحت و سکون کو زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیا۔ کم ظرف و تنگ دل لوگوں کے درمیان کتنی عالی ظرف و حوصلہ مند تھی عائشہ! دنیا کو سلام کرنے کے بعد اس سے رخصت ہوگئی، بلکہ رخصت ہونے پر مجبور کردی گئی۔ عائشہ نے انتہائی مہذب انداز میں اپنا نام لے کر اپنا تعارف کرایا اور بڑے ہی شائستہ انداز میں اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لے کر دنیا کو بتایا کہ اس سے رشتہ و تعلق منقطع کرنے جا رہی نوجوان خاتون عائشہ عارف خان ہے۔ حیرت ہے کہ عائشہ نے کتنا بڑا دل کیا کہ جس بدقسمت و نامراد شخص نے اس کے بے پناہ جذبات محبت کی کوئی قدر نہیں کی اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو رہی عائشہ نے کوئی شکایت نہیں کی۔ یہ اس کے صبر و ضبط کی انتہا تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ خوش ہے کہ شاید اس کی زندگی اتنی ہی تھی۔ وہ خوش تھی کہ وہ اپنے اللہ سے ملنے جا رہی ہے۔ اس نے پھر دنیا سے (اس کی ستم رانیوں کے لیے معاف سا کرتے ہوئے) کہا کہ وہ جو کچھ کرنے جارہی ہے وہ کسی کے جبر و دباو میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے کرنے جا رہی ہے۔ عائشہ نے اپنے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڈ! چھوڑیے سارے بکھیڑے، یعنی میرے لیے (میری موت کے ذمہ داروں سے) لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کہتے ہوئے اس نے اپنی پشت پر نظر آرہی سابر متری ندی کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے ندی تو مجھ کو اپنے اندر سمو لے۔ اس نے جنت کو بھی یاد کیا اور ایک شخص نے اس کے ساتھ جو رویہ اپنایا ہوگا اس نے عائشہ کو انسانوں سے ہی بیزار کر دیا تھا لہٰذا اس نے کہا کہ میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے!
شاید اس ویڈیو کی تیاری سے پہلے عائشہ نے عارف سے ایک گھنٹے طویل گفتگو کی تھی اور اس کے سلوک سے تنگ آکر اور زندگی سے مایوس ہوکر وہ زندگی کا ہی خاتمہ کرنے جارہی تھی۔ عائشہ کے اس انتہائی اقدام کی اطلاع پر چونک جانے، پریشان ہو جانے اور اس کو ہر ممکن طریقے پر اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کرنے اور آئندہ خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کا وعدہ کرنے کے بجائے غالباً عارف نے اس کو موت کی طرف مزید دھکیلا اور اس سے کہا کہ مرنے سے پہلے (موت سے ہمکنار ہونے کا) ویڈیو بنا کر بھیج دینا۔ چناں چہ عائشہ نے اس کی یہ خواہش بھی پوری کرتے ہوئے اپنا درد انگیز ویڈیو اس کو بھیج دیا عائشہ نے آخری لمحات میں موت کی طرف جانے کے اپنے فیصلے سے موبائل کے ذریعہ اپنے والد لیاقت علی خاں کو آگاہ کیا۔ ماں باپ پر جو قیامت گزر گئی اس کا اندازہ عائشہ اور اس کے والدین کے درمیان ریکارڈ ہوئی گفتگو سے کیا جا سکتا ہے۔ ماں باپ نے پیاری بیٹی کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی، اس کو حضرت عائشہ، ام المومنینؓ کے نام اور قرآن کریم کی قسمیں دیں، باپ نے اپنا کلیجہ نکال کر دکھایا لیکن عائشہ بالکل ٹوٹ چکی تھی، تاہم باپ کے بہت سمجھانے پر اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں گھر آتی ہوں۔ لیکن دنیا سے بیزار بد دل عائشہ نے ہچکیوں اور آنسووں کے ساتھ سابرمتی میں چھلانگ لگا دی اور شوہر کے گھر میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے اور اذیتیں جھیلنے کے بجائے اپنے ابدی گھر کی طرف رخصت ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
عائشہ کی موت کے بعد دریا سے اس کی لاش برآمد ہو گئی۔ اس کے والد لیاقت علی خاں نے پریس کانفرنس میں سسرال میں عائشہ پر گزرتی ہوئی کیفیات کا ذکر کیا، جہیز کے نام پر عائشہ کو دی جانے والی جسمانی و ذہنی اذیتوں کا تذکرہ کیا، عائشہ سے بار بار طلب کی جانے والی رقوم کی داستان بیان کی اور یہ بڑی بات کہی کہ میری بیٹی عائشہ تو اب واپس نہیں آسکتی لیکن کوشش کی جائے کہ ملک کی دوسری بیٹیاں عائشہ کے انجام سے دوچار نہ ہوں۔
عارف نے عائشہ سے موت کا ویڈیو مانگ لیا تھا لیکن جب واقعی وہ ویڈیو اس کو مل گیا تو عائشہ کے سفاک اور ظالم شوہر کو اپنا عبرت ناک انجام دکھائی دینے لگا ہو گا، لہذا وہ خاندان کے ساتھ کسی شادی میں شرکت کے بہانے جالور (راجستھان) اپنے گھر سے فرار ہو گیا لیکن گجرات پولیس نے تلاش کر کے اس کو گرفتار کر لیا۔ امید ہے عدالت میں عائشہ کیس میں انصاف کیا جائے گا اور حقائق کی روشنی میں مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔یہ تو بہرحال ہوگا اور ہونا چاہیے لیکن عائشہ کا بہت مختصر سا ڈھائی منٹ کا ویڈیو بہت سے سوالات کھڑا کر رہا ہے جس کا جواب پورے ہندوستان کو بالخصوص امت مسلمہ ہند کو دینا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم یافتہ باصلاحیت اور آئی اے ایس بننے کا حوصلہ رکھنے والی عائشہ 2018 میں جالور کے عارف سے شادی کے ایک سال بعد سے ہی جسمانی اور روحانی تکلیفیں پہنچائی جانے کی مستحق تھی؟
سوال یہ ہے کہ عارف کو یہ حق کس نے دیا تھا کہ وہ عائشہ سے بار بار روپیے طلب کرے اور بار بار اس کو احمد آباد اس کے والدین کے پاس پہنچا کر اس سے روپیے لانے کا مطالبہ کرے ؟
سوال یہ ہے کہ عارف کے غیر شریفانہ بلکہ شیطانی طرز عمل پر اس کے والدین اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے یا انہوں نے کبھی اس کو عائشہ کے ساتھ شریفانہ و منصفانہ سلوک کرنے کی تلقین کی؟
سوال یہ ہے کہ عائشہ کے والدین کی طرح لوگ اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو ایک ہی جہنم کدے میں بار بار جھونکنے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟ کیوں وہ عائشہ کی سی کیفیت سے اس کو خلع کے ذریعے نکالنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے؟
کیا سماج نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ خلع شدہ لڑکی کا دوسرا نکاح آسانی سے ہونا ناممکن ہے؟
سوال یہ ہے کہ عائشہ کے والد لیاقت علی خاں کی اس آرزو کو ملک کے کتنے مسلم نوجوان (اور ان کے خاندان) پوری کرنے کا عہد کرتے ہیں اور اس کو نبھانے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں کہ اب ملک کی کوئی بھی لڑکی عائشہ نہیں بنے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہت ضروری ہے کہ کچھ حضرات اس گفتگو و بحث میں لازماً شریک ہوں کہ عائشہ کس اخروی انجام سے دوچار ہو گی؟ کیا ایسا کرنا عائشہ کے افسردہ غم زدہ والدین اور دیگر اعزہ کو مزید اذیت نہیں پہنچائے گا؟
سوالات تو اور بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن ہر سال کے بعد شاید یہ بڑا سوال باقی رہے گا کہ جب اسلامی شریعت میں خودکشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو عارف جیسے لوگ ایسا ماحول کیوں بناتے ہیں کہ عائشہ جیسی تعلیم یافتہ لڑکی بھی شریعت کی روشنی میں اپنے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے بجائے خود کشی جیسی نا پسندیدہ، نا مطلوب اور غلط راہ اختیار کرکے سمجھتی ہے کہ اس طرح اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
اس بڑے سوال کا جواب ملت اسلامیہ ہند کو اپنے کردار و عمل سے ایک بار اور دینا ہو گا تاکہ ملک پر یہ واضح ہو سکے کہ جہیز سے اسلام کا کوئی رشتہ و تعلق نہیں ہے اور اس کا مطالبہ کرنا اسلامی شریعت کی روح کے منافی ہے۔ امت مسلمہ کا ایک ایک خاندان یہ طے کرے کہ جس طرح اس سے کسی دوسرے کے ذریعہ جہیز کے مطالبے کو وہ بوجھ اور بے جا دباو سمجھتا ہے اسی طرح وہ خود بھی کسی دوسرے خاندان سے جہیز کے مطالبے کی روش سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہو جائے تاکہ دو مسلم خاندانوں کے مابین قائم ہونے والا رشتہ سماج کے لیے رحمت بن سکے نہ کہ ناسور!
شہر سے لے کر گاوں تک میں تمام ممکنہ ذرائع سے مسلم نوجوانوں تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ وہ شادی کے وقت بھی اور شادی کے بعد بھی ایسی کوئی روش اختیار نہ کریں جو خود ان کی زندگی کو اجیرن کرنے والی اور اللہ کی ناراضی کا سبب بن کر اس کے غضب کو دعوت دینے والی ہو۔
نوجوانوں کو یہ بات بھی بتائی جائے کہ ان کو اپنے خاندان کو جنت کا نمونہ بنانا چاہیے، بیوی کے حقوق کی پاسداری اور اس کی ادائیگی کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ زندگی میں طلاق و خلع کی صورت ہی کبھی پیدا نہ ہو۔ اور اگر تمام کوششوں کے باوجود کبھی بیوی سے علیحدگی ناگزیر ہی ہو جائے تو جیسے آپ نے نکاح کے لیے شریعت کا طریقہ اختیار کیا تھا ویسے ہی علیحدگی کے لیے بھی شریعت کا مقرر کردہ طریقہ ہی اختیار کیجیے، نیز کسی صورت میں بھی کسی لڑکی کی زندگی کو تباہ نہ کیجیے کہ یہ بہت بڑا جرم ہے جس کی سزا ملکی قانون بھی دے گا اور اللہ تعالیٰ بھی۔
ملت کی بیٹیوں کی بھی ممکنہ ذرائع سے تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ امت کی عظیم خواتین فاطمہؓ اور عائشہؓ کی جانشین ہیں، لہذا شادی کے بعد اپنے دل نواز اخلاق و کردار سے اپنے گھروں کو راحت و و سکون کا گہوارہ اور مثالی گھر بنائیں لیکن اگر کبھی اصلاحی کوششوں اور تدبیروں کے باوجود شوہر سے نباہ ممکن نہ ہوتو شریعت نے آپ کو خلع حاصل کرنے کا حق و اختیار بھی دیا ہے، لہذا کہیں اور اپنے مسلے کا حل تلاش کرنے کے بجائے شریعت ہی کی پناہ میں آئیے۔ شریعت کی راہ بہترین راہ ہے۔ اللہ پر بھروسہ بہترین بھروسہ ہے!
***

نوجوانوں کو یہ بات بھی بتائی جائے کہ ان کو اپنے خاندان کو جنت کا نمونہ بنانا چاہیے، بیوی کے حقوق کی پاسداری اور اس کی ادائیگی کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ زندگی میں طلاق و خلع کی صورت ہی کبھی پیدا نہ ہو۔ اور اگر تمام کوششوں کے باوجود کبھی بیوی سے علیحدگی ناگزیر ہی ہو جائے تو جیسے آپ نے نکاح کے لیے شریعت کا طریقہ اختیار کیا تھا ویسے ہی علیحدگی کے لیے بھی شریعت کا مقرر کردہ طریقہ ہی اختیار کیجیے، نیز کسی صورت میں بھی کسی لڑکی کی زندگی کو تباہ نہ کیجیے کہ یہ بہت بڑا جرم ہے جس کی سزا ملکی قانون بھی دے گا اور اللہ تعالیٰ بھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021