شمیم افسر، ناگپور
بدھن میاں تھے تو سیدھے سادے لیکن طبعیت کچھ ایسی پائی تھی کہ اپنی ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ پست قد، چھوٹا سا منہ رنگ گورا، قدرے چپٹی ناک، تنگ پیشانی، سر فارغ البال، کان ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بڑے، آواز باریک، گردن لمبی، ہاتھ کمزور، انگلیاں باریک اور لمبی غرض لوگوں کے لیے تفننن طبع کا سامان تھے۔ کھانے کے بڑے شوقین تھے۔ بریانی پر تو جیسے جان دیا کرتے تھے۔ ضیافتوں میں ان کی بلا ناغہ حاضری اور اس شوقِ کام و دہن نے اس راز کو عام کر دیا تھا۔ سارا گاوں جانتا تھا کہ بدھن میاں ایسی دعوت کو کسی بھی قیمت پر چھوڑنے والے نہیں ہیں جہاں بریانی کی خوشبو فضا میں پھیل رہی ہو۔ لوگوں سے تعلقات بھی ایسے بنا رکھے تھے کہ کوئی انہیں اس قسم کی ضیافت میں کبھی نظر انداز نہ کرتا۔
شہر کی ایک مصروف سڑک پر ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے، وراثت میں صرف وہی ایک مکان ملا تھا گزر بسر کا کچھ اور سامان نہ تھا اس لیے اسی کے ایک کمرے میں چھوٹی سی دوکان کھول رکھی تھی جس میں بچوں کی پسندیدہ چیزیں مثلاً راجگرے کے لڈو، گولی بسکٹ، چاکلیٹ اور بچوں کو للچانے والی دیگر اشیاء موجود تھیں۔ ان چیزوں کو بیچتے اور اس سے اپنا گھر خرچ چلاتے۔ نکاح کر کے کبھی گھر بسایا نہیں۔ لوگ آ آ کر سلام کرتے اور کہتے "بدھن بھائی! بس ہاں کہہ دو لڑکیوں کی لائن لگا دیں گے شادی کر لو پھر روز گھر کی بریانی کے مزے لیتے رہنا……”یہ سنتے ہی وہ غصے میں بڑبڑاتے ہوئے چھڑی کی طرف ہاتھ بڑھاتے….. ان کے ہاتھ چھڑی تک پہنچنے بھی نہ پاتے کہ ستانے والے یہ جا… وہ جا اور بیچارے بدھن میاں غصے کے گھونٹ پی کر رہ جاتے۔ بدھن میاں کے پاس ایک سفید شیروانی، چوڑی دار پاجامہ اور مخملیں ٹوپی تھی جسے وہ ہر جمعہ کو بڑے اہتمام سے زیب تن کر کے ہاتھ میں چھڑی لے کر نماز کے لیے نکلتے۔ اس شیروانی سے انہیں بڑی عقیدت تھی کیونکہ یہ خطیب شہر میاں انور حسین کی طرف سے تحفے میں ملی تھی۔ دراصل خطیب صاحب کے پاس ایک پرانی شیروانی پڑی ہوئی تھی انہوں نے اسے فولڈ کر کے پیک کیا اور بدھن میاں سے کہا آج سے ہم آپ کے پیر اور آپ ہمارے مرید اور یہ کہہ کر انہیں پیالہ پلایا اور مرید بنا کر شیروانی بطور تحفہ پیش کر دی۔ بدھن میاں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے بڑی عقیدت سے پیر صاحب کے مبارک ہاتھوں کو کمال عقیدت سے چومتے ہوئے شیروانی قبول کر لی۔ اس پذیرائی سے ان کے معمولات میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ اس کے بعد بدھن میاں ہر جمعہ کو غسل کرتے پھر بڑے فخر سے پیر صاحب کی عطا کردہ شیروانی پہنتے، سرمہ لگاتے، عطر ملتے، ٹوپی پہنتے اور ہاتھ میں چھڑی لے کر نکل پڑتے۔ پیر صاحب کی مسجد میں پہنچ کر صف اول میں جگہ حاصل کرتے اور عصر کی نماز تک وہیں ڈٹے رہتے۔ نماز سے فارغ ہو کر پیر صاحب کے ہاتھ چومتے اور اجازت لے کر گھر لوٹتے۔ مہینوں یہی معمول رہا اس میں کبھی فرق نہ آ یا۔
ایک دن سنیچر کو حسب معمول فجر کی نماز کے بعد سیر کرتے ہوئے باغ کی طرف نکل پڑے۔اتفاق سے ان کا ایک پرانا دوست مل گیا۔ اس نے دور سے ان کی چال کی لڑکھڑاہٹ سے انہیں پہچان لیا۔ قریب آ کر سلام کیا اور خیریت دریافت کی۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں اچانک کہنے لگا۔ "اماں بدھن بھائی! کل آپ پیر صاحب کی دعوت میں نظر نہیں آئے؟‘‘
کیسی دعوت؟ بدھن میاں نے حیرت سے پوچھا۔ارے بھئی! آپ کے پیر صاحب کے پوتے کی بسم اللہ خوانی جو تھی، میں اس میں شریک تھا، آپ کو بہت تلاش کیا مگر حضور کا تو دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ آپ آتے تو یقینا بڑا لطف آتا! بریانی بہت خوب بنی تھی۔
اتنا سننا تھا کہ بدھن میاں سیدھے اپنے گھر پہنچے، الماری سے شجرہ نکالا اور تن تن کرتے ہوئے سیدھے پیر صاحب کے گھر جا دھمکے، دروازہ کھٹکھٹایا جیسے ہی پیر صاحب برآمد ہوئے تو غصے میں شجرہ ان کے منہ پر دے مارا اور بولے: حد ہو گئی شرافت کی جب دنیا میں آپ اپنے مریدوں کو بھول سکتے ہیں تو بھلا میدانِ حشر میں کیا یاد رکھیں گے جہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوگا۔ آج کے بعد نہ میں آپ کا مرید نہ آپ میرے پیر! سب کو بریانی کی دعوت اور ہم ہی سے عداوت!!!” اور غصے میں بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے اپنے گھر کی طرف چل دیے۔
***
حد ہو گئی شرافت کی جب دنیا میں آپ اپنے مریدوں کو بھول سکتے ہیں تو بھلا میدانِ حشر میں کیا یاد رکھیں گے جہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوگا۔ آج کے بعد نہ میں آپ کا مرید نہ آپ میرے پیر! سب کو بریانی کی دعوت اور ہم ہی سے عداوت!!!
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021