عتیق احمد شفیق اصلاحی، بریلی
تعلیم و تعلم کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس کے تین بنیادی ستون ہیں: ۱- نصاب ٢- معلم ٣- متعلم
١. نصاب:۔ نصاب سے مراد طلبا کو پڑھایا جانے والا مواد ہے اسکول کا تحریری کورس اور کتب ہیں۔ نصابِ تعلیم کی اہمیت عملی تعلیم میں قلب کی ہے۔ اسکول میں جو بھی سرگرمیاں و امور انجام دیے جاتے ہیں ان سب کا مقصد نصاب کی تعلیم کو موثر بنانا ہے۔ اس کے ذریعہ اساتذہ کو تدریسی عمل انجام دینے اور طلبہ کو سیکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
٢.معلم:۔ تدریسی عمل میں معلم کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ نصاب اور تدریسی منصوبوں کو روبعمل لانے، ان سرگرمیوں کی جانچ اور طلبہ کو تدریسی عمل میں مصروف رکھنے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔
۳. متعلم:۔ تعلیم و تدریس کے عمل میں متعلم کا رول نہایت اہم ہوتا ہے بلکہ بنیادی بات یہ ہے کہ ساری سرگرمیاں بچوں ہی کے لیے کی جاتی ہے۔طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کے اندر چھپے ہنر و گُر کا اجاگر کرنا اور ان کو تعمیری رخ دینا ہوتا ہے۔
تدریس کے دو طریقے ہیں ایک معلم مرکوز دوسرا طفل مرکوز
معلم مرکوز طریقہ تعلیم:۔ وہ طریقہ ہے جس میں معلم کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور تدریسی عمل میں اس کی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں اور تعلیمی وتدریسی نظام اس کے اختیار میں رہتا ہے۔
طفل مرکوز طریقہ تعلیم:۔ وہ طریقہ تعلیم جس میں بچوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ طفل مرکوز تعلیم میں تدریسی سرگرمیوں اور تعلیم نظام کا مرکز و محور طلبہ ہوتے ہیں اور معلم کی حیثیت اکتساب کے عمل میں معاون و منتظم اور رہنما کی ہوتی ہے۔ اس طریقہ تعلیم میں طلبہ کی انفرادی صلاحیت، استعداد اور اہلیت کو سامنے رکھتے ہوئے معلم تدریسی خدمات انجام دیتا ہے تاکہ ہر طالب علم تک بات منتقل ہوسکے اور ہر طالب علم اپنی اہلیت کے مطابق سیکھ سکے۔
طفل مرکوز تعلیم کا تصور:۔ ہر بچہ ایک اکائی ہے۔ ہر طالب علم اپنے اندر ایک الگ صلاحیت و خوبی رکھتا ہے۔ ہر طالب علم کا میلان و ذوق الگ ہوتا ہے اس کے اکتساب کی سطح الگ ہوتی ہے۔ ہر طالب علم کی ضرورت دوسرے طالب علم سے جدا ہوتی ہے لہٰذا تدریسی نظام میں اس بات کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ یہیں سے اس تصور نے جنم لیا کہ تدریسی عمل میں اس کا خیال رکھا جائے۔ معلم مرکوز والے نظام میں معلم درجے میں ایک خاص سطح سے معلومات کو طلبہ میں منتقل کرتا تھا جس میں تمام طلبہ کے ذوق و صلاحیت کا خیال عموما معلم نہیں رکھ پاتا تھا۔ ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی یا طفل مرکوز طریقہ فروغ پایا۔ ہر بچہ دوسرے بچے سے الگ ہوتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بچے کو الگ الگ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ لہٰذا بچے کو وہی کرنے دینا چاہیے جس میں اس کی دلچسپی و رجحان ہو۔ اس کے نزدیک علم کا جمع کرنا یا اطلاع دینا تعلیم نہیں ہے۔ تعلیم وہی ہے جسے بچہ خود دلچسپی کے ساتھ سیکھے اور کرے تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ بچے کی خدادا د صلاحیتوں کو بھر پور نشو نما ملے۔
ہندوستان کی تعلیمی پالیسی میں اس کو اہمیت دی گئی۔ ’’انسانی ذات ایک قیمتی اثاثہ ہے جو ایک بہت قیمتی قومی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنا اور اس کو نشو ونما دینا ہوگا ایسا کرتے ہوئے احتیاط اور نرمی ضروری ہے۔ (این پی ای ص۸۶ حصہ دوم) مزید اس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ ہر فرد پیدائش سے لے کر موت تک عمر کے مختلف مراحل میں مختلف قسم کے مسائل اور ضروریات کی نشان دہی کرتی ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہر فرد کی انفرادیت اور وقار کی قدر کی جائے اور اس کی ضرورتوں، خواہشات، دلچسپیوں اور اس کی قابلیتوں کو تعلیمی نظام میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔( این پی ای ص ۸۶ حصہ دوم) اس پالیسی میں ایک ایسے تدریسی و تعلیمی نظام کے قیام کی سفارش کی گئی ہے جس میں مرکزی کردار طلبہ کا رہے۔ تدریسی عمل اس طرح انجام پائے کہ ہر طالب علم آئندہ کی زندگی خوش گوار گزار پانے کا اہل ہو سکے۔
طفل مرکوز نصاب:۔ اس طریقہ تعلیم میں نصاب مرتب کرتے وقت طلبہ کی انفرادی دلچسپیوں، رجحانات، میلانات، جذبات اور ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے تاکہ ہر بچہ اپنی ضرورت کے مطابق تعلیم حاصل کر سکے اور اپنی استعداد کے مطابق علم سیکھ سکے اور بچے کی جسمانی، دماغی، روحانی مختلف پہلوؤں سے صلاحیتوں میں نشوو نما ہو سکے۔
طفل مرکوز طریقہ میں معلم کا رول:۔ طفل مرکوز تدریس میں معلم کارول ایک رہنما، معاون، منتظم کا ہوتا ہے۔ معلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو دورانِ تدریس درجے میں ایسا ماحول فراہم کرے کہ طلبہ اپنی استعداد کے مطابق اپنے آپ سیکھنے کے لیے آمادہ ہو سکیں۔ ان کے اندر مشاہدات و معلومات کو اکٹھا کرنے اور ان سے نتیجہ اخذ کرنے کی لیاقت پیدا ہو سکے۔ مثلاً درجہ سوم کے طلبہ کو پودے کے اعضا سے واقفیت کرانی ہو تو معلم ان کو پودے فراہم کرے تاکہ طلبہ پودے کو دیکھ کر خود پودے کے مختلف حصوں کو جان اور سمجھ سکیں۔ اس طریقہ سے طلبہ کے اندر مشاہدہ کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نشو و نما پاتی ہے، طلبہ کے اندر تجسس، سوچنے کی مہارت پیدا ہوتی ہے۔
طفل مرکوز تعلیم کی خصوصیات :۔
١- تدریس کے بجائے اکتساب اور سیکھنے پر توجہ مرکوزکی جاتی ہے۔
٢- ہر طالب علم کی انفرادی صلاحیت و ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔
٣- ہر طالب علم کی تدریسی عمل میں فعال شرکت پر توجہ دی جاتی ہے۔
٤- ہر طالب علم کی دلچسپی ورجحان اور ذوق کا خیال رکھتے ہوئے تدریسی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔
٥- اس طریقہ میں ہر طالب علم کے فیڈ بیک، جائزہ اور تعین قدر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
فوائد
١- اس طریقہ تعلیم و تدریس میں طلبہ کے سیکھنے کا عمل بہت بہتر ہو جاتا ہے۔
٢- اس طریقہ تدریس میں طلبہ کے اندر خود اعتمادی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
٣- یہ طریقہ تدریس دلچسپ، موثر، متحرک اور مفید تر ہوتا ہے۔
٤- اس طریقہ تعلیم سے طلبہ کے اندر نظم و ضبط کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
٥- اس طریقہ تعلیم سے طلبہ کے اندر زندگی کے مختلف مراحل میں مسائل کا مقابلہ کرنے کی اہلیت وصلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
طلبہ کی سطح استعداد:۔
ایک درجے میں مختلف استعداد و لیاقت کے طلبہ ہوتے ہیں عموماً طلبہ کو تین سطحوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
١- دھیرے دھیرے سیکھنے والے طلبہ
٢- اوسط رفتار سے سیکھنے والے طلبہ
٣- تیز رفتای سے سیکھنے والے طلبہ (ایسے طلبہ کو الگ سے مزید کام دیا جائے)
طفل مرکوز طریقہ تدریس میں معلم ہر طالب علم کے پاس جا کر اس کی استعداد کے مطابق کام دیتا ہے یا دیا جانا چاہیے۔
ایک طالب علم کو تدریس میں تبھی مزا آتا ہے جب کہ تدریس طفل مرکوز طریقہ سے ہو رہی ہو۔
یعنی ہر درجے کو طفل مرکوز (چائلڈ سنٹر) بنا دیا گیا ہو۔
ہر طالب علم کو متحرک رہنے کا موقع دیا جا رہا ہو۔
ہر طالب علم کو گفتگو، بات چیت، سوالات کرنے اور تنقید کا موقع دیا جا رہا ہو۔
ہر طالب علم کو بے باکانہ انداز میں ہمہ جہتی و ہمہ رخی آزادانہ ماحول میں ترقی کا موقع مل رہا ہو۔
طلبہ کو کتاب کے علاوہ بھی دیگر سرگرمیاں کرائی جا رہی ہوں۔
معلم متعلمین کے سیکھنے و اکتساب پر دھیان میں رکھ کر تدریسی فرائض انجام دے رہا ہو۔
درجے کا ماحول جمہوری ہو۔
متعلمین کو اپنے مسائل اور مشکلات و الجھن کو معلم کے سامنے رکھنے و پیش کرنے کا موقع دیا جا رہا ہو۔ اس طرز پر تدریسی فرائض انجام دینے سے طلبہ کو سیکھنے اور پڑھنے میں مزا آتا ہے اور ان کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔
ذیل میں ہم ایک چارٹ تحریر کر رہے ہیں جو معلم مرکوز اور طفل مرکوز تعلیم کے طریقے کے فرق کو واضح کرتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020