صحافت :آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد
معروف صحافی و تجزیہ نگار انیل چمڑیا سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت
دعوت دلّی بیورو
1947 سے پہلے ملک میں جو بڑے میڈیا گھرانے تھے، خاص طور پر انگریزی اخبارات کے مالک، ان کا وہی کردار تھا جو آج ہے یعنی اقتدار کے ساتھ گٹھ جوڑ۔ اور دوسری طرف بہت سارے قسم کے لوگ تھے، جو کسی نہ کسی سطح پر آزاد ی اور جمہوریت کی بات کرتے تھے۔ جو چھوٹے اخبارات تھے ان کی اپنی دلچسپیاں تھیں۔ خواتین نے بہت سارے رسائل نکالے۔ اپنی آزادی و خودمختاری کو منوانے کے لیے انہوں نے یہ کام کیا ۔آج بھی جو لوگ جمہوری اقدار کا تحفظ چاہتے ہیں ان کے لیے میدان موجود ہے وہ اپنی کوشش سے سماج کو بہتر متبادلات دے سکتے ہیں۔
یہ بات سینئر صحافی وتجزیہ نگار انیل چمڑیا نے ہفت روزہ دعوت سے ایک خاص بات چیت میں کہی ہے۔
چمڑیا، جن میڈیا اور ماس میڈیا کے ایڈیٹر ہیں۔ متعدد روزناموں، رسائل و جرائد کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ میڈیا، معیشت اور سماج ان کے خاص موضوعات ہیں۔ وہ اپنے گہرے تجزیوں اور ناقدانہ تبصروں کے لیے جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے آزادی سے پہلے کی صحافت اور آزادی کے بعد کی صحافت کا تقابل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے نمایاں ذرائع ابلاغ اور آج کےنمایاں ذرائع ابلاغ میں ایک چیز جو مشترک تھی وہ ہے اپنے مفاد کی خاطراقتدار وقت کی آواز میں آواز ملانا۔ لیکن دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے کم تر وسائل کے باوجود آزادی اور جمہوریت کی چاہت میں تعمیری صحافت کی ہے۔ اس دور میں تقریباً تمام ہی ہندوستانی زبانوں میں صحافت کی گئی تھی۔
انیل چمڑیا کہتے ہیں’’ آزادی کے پہلے کی صحافت کےلیے دو الفاظ۔ جمہوریت اور مساوات۔ اہم تھے۔ سماج و معاشرے میں برابری ہونی چاہئے۔ اور برابری کے ساتھ جمہوریت ہونی چاہئے۔ یہ صحافت کی چاہت تھی۔ اسی لیے لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارے یہاں جو صحافت ہے وہ ایک معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اس وقت کے زیادہ تر رسائل و اخبار معاشرتی اصلاحات کے بارے میں بات کرتے تھے مثلاً جہیز، خواتین کی ہراسانی اور چھواچھوت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کی تمام باتیں آزادی سے پہلے کی صحافت کا حصہ تھیں۔ لیکن بعد میں یہ ہوا کہ جو لوگ بازار میں اپنی بالادستی رکھتے تھے۔ یعنی جو میڈیا گھرانے تھے انہوں نے جتنی جگہ ہمارے ذریعہ بنائی گئی تھی، وہ سب ختم کردی۔ یہاں ہمارےسے مراد ہندوستان کے مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خواتین نے، مردوں نے، دلتوں نے، قبائلیوں نے، اونچی ذات کے لوگوں نے اپنی اپنی کوششوں سے جو اسپیس معاشرے کے مختلف حصوں میں پیدا کی تھی، اس ساری اسپیس کو بڑے میڈیا گھرانے کھا گئے۔ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ مختلف سطحوں پر جو اخبارات نکلا کرتے تھے۔ وہ 1947 کے بعد آہستہ آہستہ بڑی کمپنیوں میں ضم ہوگئے۔جمہوریت اور مساوات کے شعور کے لیے یہ سب سے بڑا خطرہ ہے جو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔
خواتین کے گوناگوں مسائل کے حوالے سے انیل چمڑیا کہتے ہیں’’ ماقبل آزادی خواتین کے لیے سیکڑوں رسائل نکلتے تھے۔ لیکن آج خواتین کے لیے خاص رسالوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے اور گنتی کے یہ چند رسالے بھی وہ ہیں جنہیں کھیتیوں میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں، گھروں میں نوکری کرنے والی عورتوں اور عام خواتین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔آج ٹی وی چینلوں کے موضوعات کیا ہیں؟ کیا وہ عام خواتین کے بارے میں بات کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں.ان کی دلچسپی صرف زیورات میں سے لدی پھندی عورتوں اور مہنگے ملبوسات زیب تن کرنےوالی خواتین میں ہوتی ہے۔ آج میڈیا نے تمام خواتین کی تصویر ہی غلط بنا کر رکھ دی ہے۔ جب آپ ان چیزوں پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پوری صحافت اور میڈیا کا کاروبار مخالف سمت میں چلا گیا ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا ایک کاروبار ہے۔ میڈیا کے ذریعہ چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ پہلے میڈیا لوگوں کے لیے تھا۔ آج لوگوں کے لیے کوئی میڈیا نہیں ہے۔ لوگ میڈیا کے لیے ہیں۔ آزادی کے بعد کی اور آج کی صحافت کے درمیان یہ سب سے بڑا فرق ہے۔ میڈیا اب جیسا چاہتا ہے، اس طرح سے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنی دھن پر رقص کراسکتا ہے۔ کتنا ہنسنا ہے، کیا پہننا ہے، کیا کھانا ہے، کیسے رہنا ہے، آپ کو کتنا ہندو بننا ہے، کتنا مسلمان رہنا ہے،کتنا سکھ بننا ہےاور کتنا سیکولر بننا ہے، آج یہ سب کچھ میڈیاطے کرتا ہے۔ 24 گھنٹے ہم اس کی نگرانی میں رہتے ہیں۔ اس کے پاس ہمارے 24 گھنٹوں کا ایک مکمل شیڈول رہتا ہے۔ اور ہم اس کے ساتھ ساتھ اور اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔
آزادی کے بعد والے آج کے دور میں آپ کو شاید ہی کوئی ٹی وی چینل یا اخبار ملے گا، جو ملک کے شہریوں کے لیے نکلتا ہو۔ یعنی ہندوستانی آئین کے شہریوں کے لیے۔ آج جو بھی چینل یا اخبار نکلتے ہیں، وہ اپنے اپنے قارئین اورسامعین کے لیے چلتے ہیں۔ مان لیجئے کہ اگر ہمارے قارئین ٹھیکیدار ہوں، تو ہم ٹھیکیدار کے مزاج کا اخبار نکالیں گے۔ ہمارا نیوز چینل اگر فرقہ پرست لوگ دیکھتے ہوں تو پھر ہم ان کی ذہنیت کے مطابق ہی بات کریں گے۔ ہم تو کہیں گے کہ ہمارے لوگوں کو یہی پسند ہے۔ اس لیے ہم یہی دکھائیں گے۔ میڈیا میں آج ایک بنیادی تبدیلی آگئی ہے۔ لوگ چاہیں تو اس تبدیلی کی اصلاح کرسکتے ہیں۔اور لوگوں کو ہی یہ کام کرنا ہے۔ اوراس کا آسان اور عمدہ طریقہ یہی ہے کہ جیسے ہی آپ نے اپنے ذہن میں سوچا کہ ہمیں دس لوگوں میں باہمی رابطے کے لیے ایک ویب سائٹ یا ایک اخبار شروع کرنا ہے، چینل شروع کرنا ہے۔ تو ہمیں اتنے ہی لوگوں کے لیے ہی کام شروع کردینا چاہیئے۔ ہم اس بات کا انتظار نہیں کریں گے کہ 100-500 لوگ جمع ہوں گے، تب ہم بات شروع کریں گے۔ آپ بس شروع کر دیجئے۔ ورنہ، ہر وقت آپ کہیں گے کہ اتنی بڑی سلطنت پھیل گئی ہے اور ہماری اس چھوٹی سی کوشش سے کیا ہوگا۔ تو آپ سوچئے کہ آپ جتنی دیر کریں گے، وہ سلطنت اتنی ہی پھیلتی جائے گی۔ آپ اپنی خود کی کوششوں سے جو اسپیس بنائیں گے، وہ اسپیس کم از کم اس کے پاس نہیں جائے گی۔ آپ کو جب بھی ایسا موقع ملتا ہے، آپ جمہوریت اور آئین کے شہریوں کے لیے اخبار، چینل یا ویب سائٹ شروع کریں۔ اپنے قارئین و سامعین کے لیے نہیں بلکہ آئین کے لیے اور ملک کے شہریوں کے لیے اس کام کو کریں اور ہمارے سامنے آج کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔
آج لوگوں کے لیے کوئی میڈیا نہیں ہے۔ لوگ میڈیا کے لیے ہیں۔ آزادی کے بعد کی اور آج کی صحافت کے درمیان یہ سب سے بڑا فرق ہے۔میڈیا اب جیسا چاہتا ہے، اس طرح سے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنی دھن پر رقص کراسکتا ہے۔ کتنا ہنسنا ہے، کیا پہننا ہے،کیا کھانا ہے، کیسے رہنا ہے، آپ کو کتنا ہندو بننا ہے، کتنا مسلمان رہنا ہے،کتنا سکھ بننا ہےاور کتنا سیکولر بننا ہے، آج یہ سب کچھ میڈیاطے کرتا ہے۔ 24 گھنٹے ہم اس کی نگرانی میں رہتے ہیں۔ اس کے پاس ہمارے 24 گھنٹوں کا ایک مکمل شیڈول رہتا ہے۔ اور ہم اس کے ساتھ ساتھ اور اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔