شورائیت: اسلامی معاشرت و سیاست کی اہم ترین بنیاد
ذوالقرنین حیدر
شوری اسلام کی اہم اور بنیادی قدروں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت قدر ہے جس کا تعلق انسان کی زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو سے بہت گہرا ہے، چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا عائلی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی۔ شورائیت دراصل ایک انسانی اور فطری قدر بھی ہے، چناں چہ اس کا وجود ہر ثقافت، ہر قوم اور ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ لیکن اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے شورائیت کو ایک دینی فریضہ بنا کر پیش کیا ہے۔ گویا اب یہ محض ایک صوابدید کا مسئلہ نہ ہوکے ایک ضروری فریضہ ہوگئی۔
یوں تو قرآن مجید میں شورائیت کے حوالے سے تین آیتیں ایسی ہیں جن میں باقاعدہ شورائیت کا لفظ مختلف صیغوں میں وارد ہوا ہے اور انھی آیتوں کو شوری کی اصل کے طور پر عموما پیش بھی کیا جاتا ہے۔ پہلی آیت سورہ شوری کی آیت نمبر ۳۸ ہے جس میں ہے: اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ دوسری آیت سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۹ ہے جس میں ہے: اور معاملات میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ اور تیسری سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ ہے جس میں ہے: اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ ان تنیوں آیتوں میں شورائیت کو مختلف پہلوؤں سے پیش کیا گیا ہے اور بہت معنی خیز انداز اور اسلوب میں پیش کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اشارے آگے کی گفتگو میں آئیں گے۔ البتہ موجودہ دور کے معروف اسلامی مفکر احمد ریسونی مشہور مفسر ابن عاشور کے ایک تفسیری نکتے کو مزید نکھارتے ہوئے کہتے ہیں کہ شوری کی سب سے پہلی اور سب سے اہم قرآنی آیت سورہ بقرہ کے آغاز میں مذکور حضرت آدم کی تخلیق کا قصہ ہے جس میں اللہ تعالی فرشتوں سے آدم کی تخلیق کے حوالے سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس کا اہم سبق یہ ہے کہ تخلیق آدم کی ابتدا ہی ایک مشورہ سے کی جاتی ہے تاکہ یہی بنی آدم کی اصل بنے اور نوع انسانی کے تمام مسائل اسی شورائیت کے اصول پر حل کیے جائیں اور طے پائیں۔
اس کے علاوہ بھی قرآن میں بہت سے قصوں کو شورائیت کے عملی لباس سے آراستہ کرکے پیش کیا گیا ہے جو شورائیت کی دلیل بھی ہیں اور شورائیت کی عملی تصویر اور اعلی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے درمیان ہونے والے مشورے اور گفتگو کا ذکر، حضرت موسیؑ کے قصے میں مدین کے بزرگ اور ان کی بیٹیوں کی شورائیت پر مبنی گفتگو کا ذکر وغیرہ اس حوالے سے دیکھے جاسکتے ہیں۔
سنت نبوی میں شورائیت پر غیر معمولی تاکید نظر آتی ہے۔ حضرت ابو ہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ مشورہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے اپنے صحابہؓ کی شورائیت کے حوالے سے ایسی تربیت کردی تھی کہ وہ بلا جھجھک آپ سے پوچھ بھی لیا کرتے تھے کہ اگر یہ حکم وحی کے ذریعے نہ آیا ہو تو ایک رائے یہ بھی ہوسکتی ہے اور اللہ کے رسولﷺ اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور بیشتر اوقات پیش کردہ رائے کو قبول کرتے۔ بڑے معاملات ہوں یا چھوٹے آپ مشورے کا اہتمام ضرور کرتے۔ نماز کے لیے لوگوں کو بلانے کا مناسب طریقہ طے کرنا ہو یا پھر ہجرت اور جنگ وصلح کے مسائل طے کرنے ہوں مشورے کی بہترین مثالیں ہر طرف نظر آتی ہیں۔ خلفاء راشدین کا زمانہ بھی شورائیت کے حوالے سے ایک مثالی اور قابل تقلید زمانہ ہے۔ اس زمانے کے حوالے سے احمد ریسونی کا تجزیہ یہ ہے کہ گرچہ شورائیت کو باقاعدہ نظام کی صورت میں یا اداروں کی شکل میں قائم تو نہیں کیا گیا لیکن عمومی طور سے شورائیت عام کلچر کا ایسا حصہ بن چکی تھی کہ ان کا زمانہ ہر پہلو سے شورائیت کا مثالی زمانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ اس زمانے میں سماج اور ریاست کے تمام افراد چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہر کوئی ہر سطح پر برابری اور آزادی کے ساتھ شورائیت کے عمل میں شامل تھا۔
شورائیت:ثقافت سے نظام تک
شورائیت کو دو اہم پہلؤوں سے دیکھنا ضروری ہے۔ شورائیت ایک ثقافت کی صورت میں اور شورائیت ایک نظام کی صورت میں۔ شورائیت جب ایک ثقافت بنتی ہے تو اس کا تعلق لوگوں کی انفرادی زندگی، عائلی اور سماجی زندگی، طرز فکر، علم ومعرفت کی جدوجہد اور اجتہاد اور فہم دین کی کوششوں وغیرہ سے ہوتا ہے۔ گویا شورائیت طرز فکر، طرز عمل بلکہ ایک طرز زندگی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف شورائیت جب ایک نظام کے قالب میں ڈھل جائے تو وہ سیاست کا موضوع بن جاتی ہے۔ البتہ شورائیت کے نظام کے طور سے کامیاب ہونے کے لیے اس کا ثقافت کے طور سے قائم اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔ پہلے شورائیت کے ثقافتی پہلو کی موجودہ معنویت پر مختصر گفتگو کرنے کے بعد شورائیت کے نظام یا سیاسی پہلو پر کچھ گفتگو کی جائے گی۔
شورائیت اور دین
دین میں شورائیت کا مقام کیا ہے؟ دینی احکام اور تعلیمات معلوم کرنے میں شوری کی کیا حیثیت ہے؟ شرعی اجتہاد میں شوری کی اہمیت کیا ہے؟ یوں تو اصولی کتابوں میں باقاعدہ شوری کو اس حوالے سے کوئی اہم مقام نہیں دیا جاتا لیکن دور حاضر میں اصولی عالم اور فقیہ احمد ریسونی اس سلسلے میں بہت دلچسپ رائے پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صحیح معنوں میں دین کے دو مصادر ہیں ایک وحی اور دوسرا شوری۔ تفصیل یہ ہے کہ وحی یعنی قرآن وسنت کے علاوہ دین کے جتنے بھی مصادر ہیں وہ سب دراصل شورائیت کی مختلف قسمیں ہیں جن کو مختلف ناموں سے پیش کیا گیا ہے۔ چناں چہ اگر کسی بھی معاملے میں وحی کی براہ راست رہ نمائی موجود نہ ہو تو اہل علم باہم مشورے کے ذریعے اس کے تعلق سے رہ نمائی فراہم کریں گے۔ ساتھ ہی شورائیت کی اہمیت وحی میں موجود رہ نمائی کے حوالے سے بھی بہت اہم ہوتی ہے کہ ان کی تطبیق اور تنفیذ کی تفصیلات بھی اہل علم کو شورائیت ہی کے ذریعے طے کرنا ہوں گی۔ خلفاء راشدین کے زمانے میں اس سلسلے میں واضح نقوش ملتے ہیں کہ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا صحابہ کرام آپس میں مشورہ کرکے مسئلہ کا حل تلاش کرلیتے۔ اس تناظر میں شورائیت دراصل اجتماعی اجتہاد کا دوسرا نام ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اجتماعی اجتہاد انفرادی تفکیر کا بدل نہیں ہوسکتا بلکہ اجتماعی اجتہاد اسی صورت میں کامیاب اور ثمرآور ثابت ہوگا جب اس کے پیچھے انفرادی تفکیر اور اجتہاد کا پورا مرحلہ کارفرما ہو۔
شورائیت اور عائلی مسائل
گھر یا خاندان کسی بھی سماج کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی کا نام ہے۔ گھر میں قائم ہونے والی ثقافت پورے سماج اور معاشرے کی ثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عائلی یا گھریلو معاملات کو طے کرنے کے حوالے سے اسلام میں شورائیت پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ شورائیت سے متعلق براہ راست گفتگو کرنے والی تین آیات میں سے ایک آیت کا پورا تعلق عائلی معاملات ہی سے ہے۔ (اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں) اس پر گفتگو کرتے ہوئے احمد ریسونی کہتے ہیں کہ رضاعت کی اصل مدت تو دو سال ہے لیکن اگر دونوں یعنی ماں باپ اگر آپسی مشورے سے کچھ کم مدت پر بھی راضی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ایسا نہیں ہوا کہ چوں کہ رضاعت کا پورا معاملہ ماں سے متعلق ہے تو تنہا ماں کو پورا اختیار دے دیا جائے یا چوں کہ نان نفقہ کی پوری ذمہ داری باپ کی ہے تو تنہا اس کو پورا اختیار سونپ دیا جائے بلکہ دونوں کی مشاورت اور باہمی رضامندی پر معاملے کو موقوف کیا گیا، کیوں کہ عائلی معاملات میں اسلام کی اصل تعلیم شورائیت ہے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رضاعت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ بچوں کی تعلیم وتربیت اور صحت وتفریح وغیرہ سے متعلق تمام تر مسائل میں اسلامی تعلیم یہی ہوگی کہ ماں باپ باہمی مشوروں سے معاملات طے کریں۔ عائلی مسائل میں شورائیت کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ شادی میں لڑکی اور لڑکے دونوں کی رائے لی جائے اور اس کا پورا پورا خیال کیا جائے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہؓ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں وہ اللہ کے رسول سے سوال کرتی ہیں کہ اگر کسی لڑکی کے والدین اس کی شادی کر رہے ہوں تو کیا اس لڑکی سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔ آپ نے جواب دیا ہاں ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔ چناں چہ ایک اچھے عائلی نظام کے لیے اسلامی تعلیم یہ ہے کہ وہ شورائیت پر قائم ہو۔ والدین اور اولاد میں شورائیت کی ثقافت کی بہترین مثال حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ہیں جن کے قصے میں سیکھنے کا بہت سامان ہے۔
شورائیت اور سماجی معاملات
شوری کے موضوع سے متعلق قرآن کی سب سے اہم آیت جس میں کہا گیا ہے کہ وامرھم شوری بینھم اس نکتے کے حوالے سے بہت اہم ہوجاتی ہے۔ وہ یوں کہ یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی۔ گویا اس میں یہ نکتہ موجود ہے کہ شورائیت ایک سیاسی نظام اور حکومت کے طور پر قائم کی جائے، اس سے پہلے ضروری ہے کہ ثقافتی اور سماجی سطح پر اس کی بہترین تربیت ہوجائے۔ سماجی ادارے جن میں خاندان جو کہ سب سے اہم اور بنیادی ہے، تعلیمی ادارے، مذہبی ادارے اور جماعتیں، سماجی ڈھانچہ یا سماجی تعلقات ان تمام ہی سطحوں پر شورائیت کا مزاج اور رویہ قائم کرنا ناگزیر ہے۔ قرآن میں مومنوں کی جو سب سے اہم صفت بیان کی گئی ہے وہ بھی دراصل شورائیت ہی کے مزاج کو پروان چڑھانے والی اور شورائیت کو قائم کرنے والی صفت ہے بلکہ شورائیت ہی کی شکل یا تعبیر ہے۔ سورہ عصر میں مومنوں کے درمیان باہمی تعلق کی نوعیت کو ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو بھلائی کی تلقین کرتے ہیں اور صبر کا مشورہ دیتے ہیں۔ گویا مومنوں کے درمیان اسلام ایسی کسی بھی تقسیم کا قائل نہیں ہے جس میں ایک گروہ کا کام مشورہ دینا اور نصیحتیں کرنا ہو اور دوسرے گروہ کا کام مشورے لینا اور ان پر عمل کرنا ہو۔ اس کے برعکس ہر مومن اور مسلم ایک دوسرے کو مشورے دے گا اور ایک دوسرے کے مشورے لے گا۔ دونوں کے پیش نظر اپنی اور پورے سماج کی اصلاح اور بہتری مقصود ہوگی۔
اللہ کے رسول ﷺنے نبی ہونے کے باوجود لوگوں کو یہ تربیت دی تھی کہ وہ آپس میں بھی اور اللہ کے رسول کے ساتھ بھی اپنے مشورے آزادی کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ اور ان کے اندر سے جھجھک ختم کرنے کے لیے واضح لفظوں میں اعلان بھی کردیا کہ تم لوگ دنیا کی بہت سی چیزیں زیادہ جانتے ہو۔ شورائیت کی معنویت دراصل اسی احساس میں پوشیدہ ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہوجائے وہ کبھی بھی معلومات اور علم میں سب کچھ کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ چناں چہ سب لوگ جب آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں تو بہت سی معلومات اور بہت سا علم ایک ساتھ اکٹھا ہوکر زیادہ مفید اور کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
شورائیت اور نظام سیاست
شورائیت اسلام کے سیاسی نظام کی سب سے اہم بنیاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں شورائیت ہی وہ ایک سیاسی قدر ہے جو کسی سیاسی نظام کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے کی فائنل اور حتمی حد فارق بن سکتی ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو خلافت راشدہ کو غیر خلافت راشدہ یا ملوکیت سے واضح طور سے جدا کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شورائیت پر مبنی سیاست کا مثالی ماڈل اور اعلی ترین نمونہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ خلافت (راشدہ) ہے۔ مختار شنقیطی کا یہ تجزیہ دلچسپ اور اہم ہے کہ حکومت کی تشکیل کے پہلو سے شورائیت ہی کسی سیاسی نظام کو اسلامی نظام کہلانے کی مستحق بناتی ہے جس طرح کارحکومت کی انجام دہی کے لحاظ سے اسلام کا دستوری مرجع وماخذ ہونا کسی حکومت کو اسلامی حکومت کا لقب فراہم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے شورائیت کا ایک سیاسی نظام کے طور سے مطالعہ بے حد اہم اور ضروری ہوجاتا ہے۔
اسلام نے جس طرح شورائیت کو زندگی کے ہر شعبے کے لیے ضروری قرار دیا اسی طرح سیاست کے لیے بھی از حد ضروری قرار دیا۔ لیکن بقیہ تعلیمات کی طرح اسلام نے شورائیت کی بھی تعلیم تو ضرور دی لیکن اس کا کوئی ڈھانچہ یا نظام نہیں دیا۔ اور اس کی وجہ اسلام کی آفاقیت اور ابدیت میں پنہاں ہے۔ اسلام نے عدل پر غیر معمولی زور دیا اور اس کو اپنے اہم ترین مقاصد میں شمار کیا تاہم عدل کے قیام کے لیے کوئی منظم سسٹم اور ڈھانچہ نہیں فراہم کیا۔ احمد ریسونی کہتے ہیں کہ یہ اسلام کے اعجاز میں سے ہے کہ اس نے ابدی اور آفاقی تعلیمات اور تاریخی عوامل پر منحصر ڈھانچوں کے درمیان پورا فرق کیا۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ڈھانچہ اور نظام ہمیشہ تاریخی عوامل پر منحصر ہوتا ہے اور اگر کوئی ایک ڈھانچہ اسلام متعین کردیتا تو اس کی ابدیت اور آفاقیت پر سوال کھڑا ہوجاتا۔
یہاں اسلام اور سیاست کے تعلق سے مسلمانوں کے درمیان موجود مختلف نقطہ ہائے نظر کا مختصر ذکر بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ ڈاکٹر سلیم عوا نے اپنی معرکۃ الاراء کتاب فی النظام السیاسی للدولۃ الاسلامیۃ میں اس حوالے سے تین بنیادی موقفوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ایک موقف یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل دین اور شریعت کے حوالے سے اپنے اندر ایک واضح مکمل نظام سیاست بھی رکھتا ہے اور اس کو ماننا اور اس پر ایمان لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اسلام کے دوسرے ارکان پر۔ دوسرا موقف وہ ہے جو مشہور مصری عالم علی عبدالرازق نے پیش کیا تھا کہ اسلام محض عبادات کا ایک مجموعہ ہے اور اس کا سیاست اور معاشرت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل دین اور شریعت ہے جس میں زندگی کے ہر گوشے کے لیے بنیادی تعلیمات اور اصول واضح انداز میں فراہم کردیے گئے ہیں۔ ان کو مرجع مانتے ہوئے مسلمانوں کو اجتہادات کے ذریعے اور عوام کی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اختلاف اور تنوع کی پوری گنجائش کے ساتھ نظام کے خدوخال متعین کرنے ہوں گے۔ اور یہی تیسرا موقف عملی اور قابل اطمینان موقف ہے۔
البتہ راقم کے خیال میں شورائیت کی تعلیم اور اس کے خد وخال اتنے واضح دوٹوک اور صاف ہیں کہ ان کے نظام بننے میں کوئی دشواری نہیں ہوسکتی۔ کیا ہیں وہ خدوخال شورائیت کے جو اسے ایک سیاسی نظام کے طور سے پیش کرسکتے ہیں؟ اب ہم شورائیت کے انھی خد وخال پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکومت عوام کا حق ہے
سیاست کے میدان میں شورائیت کے اصول ’امرھم شوری بینھم‘ کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ حکومت عوام کا حق ہو اور عوام ہی حاکم کا انتخاب کریں۔ حضرت عمرؓ کا اس سلسلے میں ایک قیمتی جملہ نقل کیا جاتا ہے کہ الامارۃ شوری بین المسلمین (یعنی امارت اور حکومت مسلمانوں کے باہمی مشوروں کے ذریعے ہونی چاہیے)۔ اس اصول کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت کا قیام یا حکومت کا انتخاب مکمل طور سے عوام کا حق ہے اور ان کو یہ حق پورے طور سے ملنا چاہیے۔ امرھم شوری بینھم کی ترکیب میں ایک اہم نکتہ یہ بھی موجود ہے اور جسے سیاست میں اسلامی تعلیمات کی ایک اہم خصوصیت بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے سیاسی معاملات کو عوام کا اپنا معاملہ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر حاکم مطیری اور ڈاکٹر شنقیطی کہتے ہیں کہ بنا عوام کے انتخاب کے کسی بھی حکومت کو جواز (legitimacy) حاصل نہیں ہوسکتا۔ خلافت راشدہ میں شورائیت کا یہ مفہوم بہت واضح انداز میں دیکھا جاسکتا ہے (اس کی تفصیل مختار شنقیطی کی کتاب الازمۃ الدستوریۃ اور احمد ریسونی کی کتاب الشوری میں دیکھی جاسکتی ہے)۔ یہاں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ اس انتخاب کی شکل کیا ہوگی؟ کیا اکثریت کے اصول کو تسلیم کیا جائے گا؟ کیا اکثریت کا اصول اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے؟
شورائیت اور اکثریت
اگر حکومت کے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہو اور امت یا عوام کے ذریعے اس کو طے کرنا ہو تو اس کی دو ہی شکلیں ممکن ہوں گی۔ ایک یہ کہ تمام عوام کسی ایک موقف پر متفق ہوجائیں اور پھر اس پر فیصلہ لے لیا جائے جو آئیڈیل کے طور پر تو سب سے بہترین شکل ہے لیکن عملی طور پر یہ شکل انسانوں کے بیچ میں شاذ ونادر ہی پیش آسکتی ہے۔ سیرت کی کتابوں کے حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود حضرت ابوبکرؓ کی خلافت اکثریت کے اصول پر قائم ہوئی تھی کیوں کہ حضرت علیؓ نے ایک مدت کے بعد اس کا اعتراف کیا اور حضرت سعدؓ آخر تک اس پر متفق نہیں ہوسکے۔ اس سلسلے میں عموما قرآن کی کچھ آیات کو پیش کرکے اکثریت کے اصول کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ احمد ریسونی ان تمام آیات اور ان پر مبنی استدلال پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان تمام آیات کو ان کے سیاق اور ان کے دائرے سے کاٹنے کا نتیجہ ہے کہ ہم اکثریت کے اصول کو غلط ٹھہرادیتے ہیں۔ وہ تمام آیات کفر وشرک کے سیاق میں ہیں کہ کفر وشرک ہمیشہ غلط ہی رہے گا گرچہ کہ اس کے ماننے والے اکثریت ہی میں کیوں ہوں۔ دوسری طرف قرآن نے کافر اقوام کے اشرافیہ کی بھی بے انتہا مذمت کی ہے جو اقلیت میں ہی ہوتے ہیں۔ اصل موضوع اکثریت یا اقلیت نہ یہاں ہے نہ وہاں۔
ریسونی نے ایک اور اہم نکتے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ ایسا تاثر عام ہے کہ اکثریت کا اصول مغرب کا وضع کردہ ہے اور شاید اسی وجہ سے ہمارے یہاں اس کی مخالفت زیادہ ہونے لگی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اصول ہمارے لیے نیا نہیں ہے گرچہ ہمارے یہاں سیاست میں اس کا اطلاق نہیں ہوا۔ ہمارے یہاں اکثریت کو ہمیشہ ایک فیصلہ کن عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چناں چہ حدیث میں اگر ترجیح دینا ہو تو اکثر کی روایت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ فقہ میں اگر کئی رایوں کے بیچ ترجیح کی بات آئے تو جس رائے کو ماننے والے زیادہ ہوں اس کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ جمہور اور اجماع اکثریت ہی کے اصول کی مختلف تعبیریں ہیں۔ واضح رہے کہ جو مسئلہ اہل علم سے متعلق ہوگا وہاں اہل علم کی اکثریت اہم ہوگی اور جہاں مسئلہ عوام کی مصلحت سے متعلق ہوگا جو سیاست کا پورا مقصد ہے وہاں عوام کی اکثریت اہم اور قابل اعتبار ہوگی۔ امام قرطبی امام ابن خویزمنداد کا ایک فکر انگیز جملہ نقل کرتے ہیں: حکومت کے لیے واجب ہوگا کہ وہ دین سے متعلق جن چیزوں سے ناواقف ہوں دینی علماء سے اس پر مشورہ کریں، جنگی معاملات میں جن امور سے ناواقف ہوں فوج کے ذمہ داروں اور جنگی معاملات کے ماہرین سے اس پر مشورہ کریں، اور عوام کی مصلحتوں سے متعلق عوام سے مشورہ کریں۔
یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے لیے مشورہ کرنا واجب اور ضروری ہے؟ کیا انتخاب کے بعد بھی عوام کا حکومت سے کوئی لینا دینا ہوگا؟
شورائیت واجب یا اختیاری
یہ سوال اہل علم کے درمیان اختلاف کا موضوع رہا ہے کہ کیا حکومت یا حاکم کا شوری پر عمل کرنا واجب ہے یا اس کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو عمل کرے اور چاہے تو نظر انداز کردے۔ کئی بڑے اہل علم اور موجودہ زمانے کے اکثر علماء ومفکرین اس رائے کے قائل ہیں کہ ایسا کرنا واجب ہوگا۔ قرآن نے شاورھم فی الامر کہہ کر امر کا صیغہ استعمال کیا۔ چناں چہ مشہور مفسر اور فقیہ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی حاکم شوری کو نہ مانے تو اس کو معزول کرنا واجب ہوگا۔
حکومت کے فیصلے عوام کے ذریعے
شورائیت کے سیاسی مفہوم کا تقاضا یہ بھی ہے عوام صرف حکومت کے انتخاب کی مالک نہ ہو بلکہ حکومت کے تمام فیصلے عوام کے ذریعے طے کیے جائیں۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسا اصول ہے جس کی کوئی ایک شکل متعین کرنا کسی بھی ابدی تعلیم کے مزاج کے خلاف ہوگا۔ خلافت راشدہ میں یہ اصول عملی طور پر بہت شان کے ساتھ سیاست کی زینت بنا ہوا تھا۔ ہر شخص جس مسئلے پر چاہے اپنی رائے دیتا تھا، خلیفہ یا اس کے گورنروں کے فیصلوں پر سوال اٹھاتا تھا اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتا تھا۔ بعد میں اس کو باقاعدہ ایک نظام میں ڈھالنے کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے شورائیت کے اکثر سیاسی پہلوؤں کو معطل کردیا گیا۔ حکومت کے فیصلے طے کرنے کے لیے عوام کی مشاورت اور شرکت کی ایک عملی شکل نمائندگی کی ہوسکتی ہے۔ یعنی عوام کے کچھ نمائندے عوام کی طرف سے حکومت کے معاملات طے کرنے کے لیے عوام کے ذریعے منتخب کرلیے جائیں۔
یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ کیا یہ نمائندگی صرف مرد کریں گے یا خواتین بھی اس کا حصہ ہوسکتی ہیں۔ احمد ریسونی اپنے فقیہ استاذ علامہ علال فاسی کے حوالے سے ایک بہت اہم قرآنی نکتہ پیش کرتے ہیں۔ علال فاسی رضاعت کے سلسلے میں مشورہ کرنے والی آیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب قرآن نے عورت کو خاندان کے نصف کے طور پر مکمل اور لازمی طور سے شورائیت کا حقدار بنایا تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک کے نصف عوام جو عورتوں پر مشتمل ہوں انھیں اس شورائیت اور اس کی نمائندگی سے محروم کردیا جائے!
عوام حکومت کو معزول کرنے کا حق رکھتی ہے
امرھم شوری کے سیاسی پہلو کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جس طرح عوام کے پاس یہ حق ہو کہ وہ جن کو چاہیں حکومت کے لیے منتخب کریں اسی طرح ان کے پاس یہ حق بھی ہوگا کہ اگر کسی سے غیر مطمئن ہوں تو اسے حکومت سے معزول کردے۔ شنقیطی ابن خلدون کے حوالے سے شورائیت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ عوام کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ اپنے میں سے جسے چاہیں امیر اور حاکم متعین کریں، پھر مستقل اس حاکم کا محاسبہ اور جائزہ لیتے رہیں اور اگر وہ خیانت کرے یا اچھی حکومت سے قاصر ہوجائے تو اسے معزول کردیں۔ گویا شورائیت کے سیاسی مفہوم میں یہ بات پر زور طریقے سے موجود ہے کہ حکومت کا انتخاب بھی عوام خود کریں، حکومت کے تمام فیصلوں میں شریک بھی رہیں براہ راست یا نمائندگی کے ذریعے، اور حکومت کو بدلنے کا بھی پورا حق رکھیں۔ ان تمام مراحل میں عوام کی اکثریت کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی اگر ان کے درمیان اتفاق ممکن نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ شورائیت کے مذکورہ خدو خال اور اس پر مبنی سیاسی ماڈل میں اور جمہوریت میں کیا تعلق ہے؟ لیکن سیاسی شورائیت اور جمہوریت کے آپسی تعلق پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ جمہوریت کے حوالے سے ایک مختصر گفتگو سامنے آجائے کہ جمہوریت ہے کیا؟
جمہوریت کیا ہے؟
جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے مشہور سیاسی مفکر ایم ایف پلیٹنر (Plattner) کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک نظام حکومت کا نام ہے جہاں اصل فیصلہ کن حیثیت عوام کو حاصل ہو۔ ایک دوسرے مغربی ماہر معاشیات شومپیٹر (Schumpeter) جو جدید سرمایہ داریت (American Capitalism) کا ایک بڑا نام ہے کہتے ہیں کہ جمہوریت محض ایک آلہ حکومت ہے جو مقاصد اور اقدار کے حوالے سے خاموش یا نیوٹرل ہوتی ہے۔ یہ جمہوریت کا بالکل بنیادی اور ابتدائی تعارف ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات کے ذریعے حکومت کی تشکیل ہو اور انتخاب میں اکثریت کے اصول کو پیش نظر رکھا جائے۔ اس کے بعد اس بنیادی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اور مختلف تجربات میں پوشیدہ مختلف نقصانات اور منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے جمہوریت کے نام پر متعدد تجربات کیے گئے اور ابھی بھی جاری ہیں۔ مختلف بنیادوں پر جمہوریت کے تجربات کو مختلف ناموں سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں سب کا احاطہ اور سب پر تفصیلی گفتگو تو ممکن نہیں ہوگی لیکن ایک مختصر جائزہ بھی جمہوریت کے تعلق سے صحیح تصور بنانے کے لیے کافی ہوگا۔
بنیادی طور پر جمہوریت جب اپنے بنیادی معنی میں پیش کی گئی تو اکثریت کی حکومت کے نتیجے میں اقلیت کے خطروں سے دوچار ہونے کا خدشہ سامنے آیا جس کے نتیجے میں جمہوریت کی دو قسمیں ہوگئیں۔ ایک انتخابی جمہوریت یعنی خالص اکثریت پر مبنی جمہوریت اور دوسری دستوری جمہوریت یعنی ایسی جمہوریت جہاں حکومت کو کچھ بنیادی تعلیمات اور اصولوں کا پابند کردیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں پہلے میں حکومتی اختیارات لامحدود تھے اور دوسرے میں حکومت کے اختیارات کو محدود کردیا گیا اور انفرادی آزادی اور اکثریت کی حکومت کے درمیان کسی حد تک توازن بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایک دوسری تقسیم جمہوریت کے انتخابی سسٹم کے حوالے سے دیکھی جاسکتی ہے۔ دو بڑے انتخابی سسٹم موجودہ جمہوریتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک کو پلورل یا تکثیری سسٹم کہتے ہیں اور دوسرے کو پروپوشنل یا تناسبی کہتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے مختلف اداروں کے اختیارات کے لحاظ سے تین بڑے تجربے سامنے آئے۔ ایک کو پارلیمانی جمہوریت کہا گیا، دوسرے کو صدارتی جمہوریت اور تیسرے کو سیمی پارلیمانی کہا گیا۔ یہ ایک ہلکی سی جھلک تھی تجربات کے تنوع کی ورنہ ان سب کی ذیلی اور مزید ذیلی تقسیمیں درجنوں سے زائد ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمہوریت کا اصل مفہوم صرف اتنا ہے کہ حکومت عوام کے ہاتھ میں ہو اور عوام کی مصلحت کے تابع ہو اور اس کو عملی شکل دینے کے لیے انسانوں کے درمیان تجربات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
جمہوریت کی تعریف میں عموما اقتدار عوام کا (sovereignty of people) کی اصطلاح رائج رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں جمہوریت سے ایک قسم کی دوری اس وجہ سے پیدا ہوگئی کہ مسلمان اقتدار صرف خدا کا مانتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے جس کی اصل وجہ جمہوریت کے تاریخی احوال اور سیاست کی اصل کشمکش کے حوالے سے موجود کنفیوژن ہے۔ تحریک اسلامی کے بڑے مفکر اور رہ نما راشد غنوشی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے پیش نظر اقتدار کی جنگ کا تناظر عوام بنام خدا تو تھا ہی نہیں۔ وہاں تو عوام بنام ایک مخصوص گروہ، خاندان یا طبقہ تھا۔ کشمکش یہ تھی کہ آیاحکومت کی تشکیل اور قیام کا حق عوام کے ہاتھ میں ہو یا کسی مخصوص گروپ کی اس پر اجارہ داری ہو؟
اس سے پہلے شنقیطی اور شومپیٹر کے حوالے سے یہ بات دوہرانا مفید ہوگا کہ حکومت کے دو بڑے پہلو ہوتے ہیں۔ ایک حکومت کا ڈھانچہ اور دوسرا حکومت کا مرجع۔ جمہوریت کا تعلق محض پہلے پہلو سے ہے۔ دوسرا پہلو وہ ہے جہاں اسلام کا باقاعدہ اپنا مرجع موجود ہے اور اس کے بالمقابل مغرب میں سیکولرزم کے ایک مخصوص ماڈل کو اختیار کیا گیا۔ تو اسلام کی لڑائی سیکولرزم کے اس مخصوص ماڈل سے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ڈھانچے کے معاملے میں تو دونوں کے درمیان کوئی اختلاف یا کشمکش نہیں نظر آتی جیسا کہ شورائیت کے سیاسی پہلوؤں پر گفتگو سے بات سامنے آتی ہے۔ چناں چہ مختار شنقیطی کہتے ہیں اسلامی نظام کی دو الگ الگ بنیادیں ہیں۔ ایک حکومت کی تشکیل، اس میں شورائیت شرط ہے، اور دوسری حکومت کا عمل، اس میں اسلام کا مرجع ہونا شرط ہے۔ اگر یہ دونوں شرطیں پوری ہوجائیں تو وہ اسلامی سیاسی نظام کہلانے کا پوری طرح مستحق ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اسلام نے سیاسی واجتماعی زندگی سے متعلق جو احکام دیے ہیں وہ بھی اسلامی روح کے مطابق لوگوں کو قائل کرکے اور ان کو اس کی اہمیت بتا کر ہی عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ کسی کو یہ اختیار کیوں کر ہوگا کہ وہ اپنے جیسے کسی بندے پر کسی حکم کو زبردستی نافذ کرے صرف اس وجہ سے کہ اس کو یہ لگتا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے؟ طلال اسد کے الفاظ میں یہ تو خود کلمہ لا الہ الا اللہ کے منافی ہے۔ مولانا مودودی بھی ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، جبکہ کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو، اخلاق کم زور ہوں، اور ایسے عناصر کا زور ہو جو ملک میں کے مجموعی مفاد کی بہ نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی، اور گروہی مفاد کو عزیز تر رکھتے ہوں، لیکن ان سب حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کم زوریوں کو دور کرنے اور اسے بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے‘‘۔
جمہوریت اور شورائیت کا باہمی تعلق
مذکورہ گفتگو کے بعد یہ نتیجہ نکالنا بعید از قیاس نہیں ہوگا کہ جمہوریت دراصل شورائیت ہی کی عملی کوشش ہے جو بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہاتھوں کے بجائے مغرب کے ہاتھوں پیش ہوئی۔ اور یہی نتیجہ شاعر اسلام اور مفکر اسلام علامہ اقبال نے بھی اپنی ایک انگریزی تحریر میں دریافت کیا تھا، جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش ہے، وہ لکھتے ہیں:
ایک ایسی قوم کے لیے (مسلم قوم) حکومت کا سب سے بہترین نظام جمہوریت ہی ہوسکتا ہے جس کی مثالی شکل میں ایک شخص کو عملی طور سے ممکنہ حد تک آزادی کے ساتھ پورے امکانات فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنی فطرت میں موجود تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ اسلام میں خلیفہ معصوم نہیں ہوتا ہے، بلکہ بقیہ مسلمانوں کی طرح اسے بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ اس کا انتخاب عوام کے ذریعے ہوتا ہے اور اگر وہ دستور کے خلاف جائے تو اس کو برطرف کرنے کا حق بھی عوام کے پاس ہوتا ہے۔ لہذا جمہوریت اسلام کے سیاسی آئیڈیل کا سب سے اہم پہلو ہے۔ البتہ اس بات کا اعتراف کھل کر کیا جانا چاہیے کہ مکمل آزادی کا تصور رکھنے کے باوجود مسلمان ایشیا کے سیاسی ارتقاء کے حوالے سے کچھ قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ ان کی جمہوریت محض تیس سال تک چل سکی اور پھر مملکت کی توسیع کے ساتھ وہ غائب ہوگئی۔ ۔ ۔ البتہ یہ کارنامہ مغربی اقوام کے سر لکھا تھا کہ وہ ایشیائی ممالک کو سیاسی طور سے زندگی کا تحفہ دیں۔
جدید دور میں جمہوریت برطانیہ کا ایک بہت عظیم مشن رہا ہے اور برطانوی سیاستداں اس اصول کو بہت ہمت اور بہادری کے ساتھ ان ممالک تک لے کرگئے جو صدیوں سے استبداد کے سخت ترین مظالم سے کراہ رہے تھے۔ برطانوی مملکت ایک عظیم سیاسی زندگی کا نام ہے جس کی حیات جمہوریت کے اصول کی تدریجی تطبیق اور عمل آوری کی مرہون منت ہے۔ برطانوی مملکت کی بقا ایک تہذیبی عامل کے طور سے انسانیت کی سیاسی ترقی کے حوالے سے ہماری دلچسپی کے اہم ترین موضوع میں سے ہے۔ اس عظیم مملکت کو ہماری پوری ہمدردی اور عزت حاصل ہے کیوں کہ یہ ہمارے سیاسی منصوبے کا اہم جزء ہے جو دھیرے دھیرے رو بہ عمل آرہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مملکت ہمارے اوپر عائد ایک فریضے کو انجام دے رہی ہے جو نامناسب حالات نے ہم کو انجام دینے سے قاصر رکھا۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد تو نہیں، جسے یہ تحفظ دے، لیکن برطانوی مملکت کی وہ روح ہے جو اسے دنیا کی سب سے عظیم مسلمان مملکت کا درجہ دیتی ہے۔
ایسے میں ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم شورائیت کے مشن کی تکمیل میں جمہوری تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
احمد ریسونی اس سلسلے میں ایک اصولی قاعدے سے متعارف کراتے ہیں اور وہ ہے: الاقتباس من الغیر لما فیہ مصلحۃ وخیر۔ یہ دراصل اس مشہور حدیث کی اصولی ترجمانی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، وہ جہاں بھی ملے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔ اسی طرح قرآن میں مذکور متعدد مقامات جہاں انسان کے غیر انسان سے استفادہ کرنے کی مثالیں ذکر ہوئی ہیں ان کی اصولی ترجمانی ہے۔ اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی تجربہ دوسروں کے یہاں ایسا موجود ہو جس میں مصلحت اور خیر کے پہلو ہوں اور ساتھ ہی شریعت کے کسی اصول سے ٹکراوٗ نہ پایا جائے تو اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
جمہوریت بھی نظام سے پہلے ایک ثقافت
شورائیت پر گفتگو کرتے وقت یہ بات بالکل واضح طور سے سامنے آئی تھی کہ شورائیت کے سیاسی نظام کے طور پر کامیاب ہونے کے لیے شورائیت کی ثقافت کا قائم اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ٹھیک اسی طرح مشہور مسلم مفکر اور سماجیات کے ماہر مالک بن نبی کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے کامیاب ہونے کے لیے انفرادی اور سماجی، شعوری اور معاملات کی سطح پر جمہوری مزاج کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ مولانا مودودی بھی خطبہ مدراس میں جمہوریت کو جامع مفہوم کے ساتھ پروان چڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں جسے وہ سوشل ڈیموکریسی سے تعبیر کرتے ہیں یعنی وہ جمہوریت جو صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ تمدنی ومعاشرتی جمہوریت بھی ہو جو روحانی اور اخلاقی قدروں پر قائم ہو۔
جمہوریت کی خامیوں کا تدارک
جمہوری تجربات خالص انسانی تجربات ہیں لیکن ان تجربات کے پیچھے جو اصول کارفرما ہیں وہ اسلامی اصول ہیں۔ جمہوریت کے مغربی تجربات میں جہاں ایک طرف شورائیت کے حوالے سے عملی طور پر سیکھنے کی بہت سی چیزیں موجود ہیں وہیں اسلام کے عمومی مزاج اور تعلیمات میں ان تجربات سے سامنے آنے والی خامیوں اور نقائص کا تدارک کرنے کی بھی بہت مواقع ہیں۔ جمہوریت کی کئی بڑی خامیاں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے صرف دو کا ذکر اور ان کا اسلامی تدارک پیش کرنے پر اکتفا کیا جائے گا۔ پہلا مسئلہ جمہوریت پر سرمایہ داروں کا شب خوں ہے۔ عالمی سطح پر بڑی بڑی کئی جمہوریتیں سرمایہ داروں کے غلبے سے دوچار ہیں۔ اور اس کی اصل وجہ انتخابات میں میڈیا کا تن تنہا کردار ہے۔ اسلام میں اولا تو دولت کے اس ارتکاز کے مواقع کو روکنے کا زبردست انتظام ہے اور دوسری طرف عوام پر تاثیر کے حوالے سے میڈیا کے ساتھ کئی دوسرے مؤثر اداروں کا انتظام کیا جائے گا جو انتخابی عمل میں توازن پیدا کریں گے۔ دوسرا جمہوریت کا ایک بڑا نقص انتخاب کے لیے دولت کی بے انتہا فضول خرچی ہے۔ انتخاب کے نام پر اس طرح خود نمائی اور فضول خرچی اسلام کے مزاج کے مکمل منافی ہے۔ ہر کسی کو ایمان داری سے اپنا منشور پیش کرنا چاہیے اور عوام کو پورے آزادی کے ساتھ اپنا حق استعمال کرنا چاہیے۔
شورائیت کی بحالی اور اسلامی تحریکوں کی ذمہ داری
شورائیت ہو یا جمہوریت، یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ایک مزاج، رویے اور طرز عمل کا نام ہے۔ جس کا تعلق انفرادی زندگی سے شروع ہوکر اجتماعی زندگی کے ہر ہر گوشے اور زاویے سے ہے۔ اور مسلمان ہونے کے ناطے یہ صرف ایک سماجی ذمہ داری سے بہت آگے بڑھ کر ایک مذہبی فریضے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ شورائیت کی اس ثقافت اور نظام کی بحالی یا ترقی کے سلسلے میں اسلام کی علم بردار جماعتوں اور اداروں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی جماعتوں اور اداروں پر شورائیت کی ثقافت اور روح کو فروغ دینے کے حوالے سے تین بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر مناسب ہے جو حقیقت میں واجب کا درجہ رکھتی ہیں:
عام عوام اور خصوصی طور سے مسلمانوں کے درمیان دعوتی، تقریری وتحریری وسائل کے ذریعے شورائیت کی اہمیت اجاگر کرنا اور اس پر عمل کی دعوت دینا۔
اپنے یہاں کام کرنے والے افراد کے اندر شورائیت کی خصوصی تربیت دینا، ان کے طرز فکر اور طرز عمل میں شورائیت کو خوب بڑھانا۔
تمام اسلامی جماعتوں، تنظیموں، اداروں، اور مدارس ومکاتب پر واجب ہوگا کہ وہ اپنے نظام میں شورائیت کا پورا پورا لحاظ رکھیں۔ ان کا اپنا نظام شورائیت اور جمہوریت کی وہ اعلی مثال بن سکے جس کو وہ ملکی اور عالمی پیمانے پر پیش کرنے کے علم بردار ہیں۔
خلاصہ
شورائیت اسلام کی ایک اہم سماجی اور سیاسی قدر ہے اور اسلامی نظام سیاست کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ سیاسی نظام سے پہلے یہ ایک مزاج، ایک رویہ اور ثقافت کا نام ہے۔ اس کی اہمیت دینی امور یا شرعی اجتہادات میں بھی غیر معمولی ہے، عائلی معاملات کی بھی یہ بنیاد ہے، سماجی معاملات کی بھی یہ اساس ہے اور بالآخر اسلامی سیاست کا یہ ایک خوبصورت اور دلکش نظام ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ ایک اسلامی فریضہ ہے۔ تاریخی طور سے خلافت راشدہ شورائیت کی ثقافت اور سیاست کی دلآمیز مثال اور عملی تصویر ہے۔ اس کے بعد بد قسمتی سے سیاسی سطح پر شورائیت بڑی حد تک اپنا معنی کھو چکی تھی یہاں تک کہ مغرب کے راستے جمہوریت کے پیرہن میں دوبارہ شورائیت کی روح اور تعلیم کو زندگی ملی اور دوبارہ سے شورائیت ایک سیاسی قدر کے طور پر منظر عام پر نمودار ہوئی۔ لیکن شورائیت یا جدید اصطلاح میں جمہوریت اسلام کے ایک بڑے اصلاحی پروجیکٹ کی محض ایک شق ہے۔ اور جب تک یہ پروجیکٹ مکمل طور سے انسانی سماج اور سیاست کا حصہ نہ بنے ایک مثالی سماج اور سیاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت یا شورائیت کو تو مکمل طور سے عمل میں لائیں ہی اور ساتھ ہی مکمل اصلاحی پروجیکٹ کو بھی مضبوطی کے ساتھ پیش کریں تاکہ جمہوریت میں موجود خامیاں کم ہوسکیں اور یہ زمین صحیح معنوں میں ایک خوبصورت انسانی سماج کا گہوارہ بن سکے۔
مصادر ومراجع
۱۔ الشوری فی معرکۃ البناء احمد ریسونی
۲۔ فی النظام السیاسی للدولۃ الاسلامیۃ سلیم عوا
۳۔ الازمۃ الدستوریۃ فی الحضارۃ الاسلامیۃ مختار شنقیطی
۴۔ الدیموقراطیہ وحقوق الانسان فی الاسلام راشد غنوشی
۵۔ الحریۃ والطوفان حاکم مطیری
۶۔ الشوری فریضۃ اسلامیۃ علی صلابی
۷۔ خطبہ مدراس ابوالاعلی مودودی
۸- تفہیمات ابوالاعلی مودودی
9. Liberalism and Democracy M F Plattner
10. Capitalism, Socialism and Democracy J A Schumpeter
11. Islam as an Ethical and a Political Ideal Muhammad Iqbal