شمال مشرقی دلّی فسادات: وہی قاتل وہی مقتول وہی مجرم ہیں

اے رحمان

دلّی پولیس کی کرائم برانچ نے شمال مشرقی د لّی میں واقع ہوئے فسادات کے سلسلے میں چاند باغ تشدد پردرج اہم ترین مقدمے کی فرد جرم (charge sheet ) داخل کی ہے جسے جرم کو مجرم سے ہٹا کر معصوم پر منتقل کرنے کی پرانی روایت کا اعلیٰ نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ چارج شیٹ محض جھوٹ کا پلندہ ہے جسے کوئی بھی اچھا وکیل دفاع عدالت میں جھوٹ کا پلندہ ثابت کر بھی دے گا۔ عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین کو اس فرد میں ایک ایسی سازش کا سرغنہ قرار دیا گیا ہے جس کے تحت شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں شامل بعض لوگوں کو پیسہ دے کر چاند باغ میں فساد، لوٹ مار، قتل، ڈکیتی اور آگ زنی کرائی گئی۔ الزام ہے کہ اس مقصدکے لیے طاہر حسین نے ایک فرضی کمپنی قائم کر کے اپنی تین مختلف کمپنیوں سے تقریباً سوا سوکروڑ روپیہ اس میں منتقل کیا جسے مذکورہ مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ طاہر حسین پر ’’انسداد غیر قانونی سرگرمیاں قانون‘‘ (UAPA ) کی دفعات بھی تھوپ دی گئی ہیں اور اسے آئی بی افسر انکت شرما کے قتل میں بھی ملوّث قرار دیا گیا ہے۔ ( یاد رہے کہ گودی میڈیا نے تو انھی دنوں طاہر حسین کو انکت شرما کا قاتل ٹھہرا دیا تھا) یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جیسے ہی طاہر حسین پر پولیس نے ذرا سے شبہے کا اظہار کیا تو اس کو تقویت دینے کے لیے اسی وقت اس کے مقفّل گھر کی چھت پر کسی چینل کی ایک خاتون اینکر نے کسی طرح پہنچ کر کچھ پتھّر، اینٹیں اور چند ٹوٹی پھوٹی بوتلیں اٹھا اٹھا کر کیمرے کو دکھائیں اور الزام لگایا کہ یہ سامان فساد کے لیے جمع کیا گیا تھا۔ کئی مقامی تھانوں میں درج چند ایسے مقدمات جن میں قتل شامل نہیں تھا ان کی چارج شیٹس بھی فائل ہوئی ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ فسادات پھوٹ پڑنے اور جاری رہنے کے دوران پولیس یا کسی دوسری سرکاری ایجنسی نے فسادات روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ مقامی پولیس کے ذریعے فسادیوں کی مدد کیے جانے کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔ فسادات کے بعد پولیس نے حرکت میں آ کر تقریباً ساڑھے سات سو مقدمے قائم کر کے تقریباً چار ہزار گرفتاریاں کیں جن کی تفاصیل ابھی تک منظرِ عام پر نہیں لائی گئیں۔ لیکن کھلّم کھلّا عوام کی جانب سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ گرفتار شدہ لوگوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہی نہیں گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے، وہ بھی اس طور کہ عدالتیں بند ہونے کے سبب نہ کوئی داد ہے نہ فریاد۔ جن معمولی معاملات میں فوری طور پر ضمانت ممکن ہے وہ بھی اس واسطے نہیں ہو پا رہی کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے ملزمان کو پولیس یا عدالتی ریمانڈ میں بھیجنا ہی اپنا فرضِ منصبی تصوّر کیا ہوا ہے۔ مارچ میں دلّی کے پولیس کمشنر نے ایک پریس کانفرنس کر کے پولیس کی ’’کارکردگی‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا تھا کہ فسادات سے متعلّق بیش تر مقدمے سی سی ٹی وی فوٹیج، نیوز چینلوں کی خبروں، سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور وہاٹس ایپ وغیرہ پر لوگوں کے ذریعے ڈالے گئے ویڈیو کلپ اور دیگر پیغامات کی بنیاد پر درج کیے گئے ہیں۔ اگر مروجّہ قوانین اور سپریم کورٹ کے بعض نظائر کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے تو اس طریقے اور بنا پر مقدمہ درج کرنا غیر قانونی ہے۔ اُس وقت مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک آواز ہو کر کہا تھا کہ حملہ آور مقامی نہیں تھے کہیں اور سے آئے تھے۔ انگریزی اخبارات میں بھی اسی بات کی تصدیق کرتے ہوئے خبریں اور رپورٹس شائع ہوئی تھیں اور اندازہ یہ لگایا گیا تھا کہ ایک ہزار سے پندرہ سو کے درمیان بلوائی باہر سے آئے اور کافی مقدار میں پتھّر، دھار دار ہتھیار، بندوق، پستول وغیرہ بھی لائے گئے۔  ان فسادات کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی نے حال ہی میں ایک رپورٹ حکومت کو سونپی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان تمام فسادات کا ماسٹر مائنڈ راجدھانی پبلک اسکول کا مالک فیصل فاروق ہے۔ یہ فسادات ایک بہت بڑی سازش کے تحت عمل میں لائے گئے اور جھگڑوں کی ابتدا سے پہلے فیصل فاروق پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے لیڈروں، پنجرہ توڑ گروپ، نظام الدین مرکز، جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی اور دیو بند کے کچھ مذہبی رہنماؤں کے رابطے میں تھا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں ان اداروں اور تنظیموں سے متعلّق لوگوں کی گرفتاریوں کا راستہ صاف ہو گیا ہے اور وہ گرفتاریاں شروع بھی کی جا چکی ہیں۔ ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ دلّی فسادات، جیسا کہ الزام لگایا گیا، اگر شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں ہوئی حکومت کی سُبکی کے انتقام کے طور پر کیے یا کرائے گئے تو بعد میں اندراج مقدمات، فردِ جرم اور گرفتاریاں وغیرہ ایک عبرت ناک عمل کے طور پر کی جا رہی ہیں تا کہ آئندہ اس قسم کے احتجاج کا کوئی امکان وجود میں نہ آ سکے۔ یہ تو دنیا جانتی ہے کہ شہریت قانون کے خلاف شاہین باغ میں خواتین کا احتجاج آج بھی حکومت کے لیے ایک بھیانک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ پولیس کو چھوٹ دی جا چکی ہے کہ کسی بھی مسلمان کو دلّی فسادات کا نام لے کر گرفتار کر لیا جائے اور لاک ڈاؤن میں پولیس نے بے محابا ایسا ہی کیا۔

یہ بڑی نازک اور سنگین صورتِ حال ہے۔ فساد تو سازش کے تحت ہی ہوئے۔ لیکن سازش کس نے کی اور کس کے خلاف کی، اس سے کس مقصد یا مقاصد کی حصولیابی مطلوب تھی یہ ایک اہم سوال ہے۔ چند موقّر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے فسادات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے صاف طور پر دکھایا اور کہا کہ فسادات کا نشانہ مسلمانوں کو بنایا گیا اور جانی و مالی نقصان بھی مسلمانوں کا ہی ہوا۔ دوسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ پولیس کو بروقت سازش کا پتہ کیو ں نہیں چلا اور اچانک فساد پھوٹ بھی پڑا تو اس کو روکنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں مساجد کی توڑ پھوڑ، بے حرمتی اور وہاں آگ زنی کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے کاروبار کی تباہی کا حساب کتاب طے کیا گیا گیا ہے۔ مجروحین کو قاتل اور مظلومین کو ظالم کہہ کر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ طاہر حسین، اس کے بھائی شاہ عالم، فیصل فاروقی اور ان جیسے چند دیگر لوگوں پر جو خطرناک مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان کی سماعت کے دوران ان لوگوں کو ضمانت ملنا ناممکن ہے۔ اس قسم کے مقدمات کافی طول کھینچتے ہیں اور پندرہ بیس سال بعد اگر عدالت ان کو بے قصور قرار دے کر بری کر بھی دیتی ہے تو ایسا کوئی قانون یا میکینزم موجود نہیں جو ان لوگوں کی قیدو بند میں ضائع ہوئی عمر اور نقصانات کا ازالہ کر دے۔ اس وقت سیکڑوں مسلمان محض کسی ایف آئی آر کے حوالے سے زیرِ حراست ہیں اور انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان پر آخرش کس قانون کے تحت کون سا مقدمہ بنا دیا جائے گا۔ اگست سے پیش تر تو عدالتوں کے کھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس کے بعد بھی پچھلے ملتوی شدہ مقدموں سے زیرِ بار جج صاحبان کے پاس مشکل سے ہی اتنا وقت ہو گا کہ وہ تازہ لیکن سنگین مقدموں پر سنجیدگی سے غور کر کے ضمانت وغیرہ یا مقدموں کے سلسلے میں پولیس کے ذریعے کی گئی غیر قانونی کاروائیوں پر فیصلے صادر کر سکیں۔ ان مقدمات کے سیاسی پہلوؤں کو بھی در پردہ زیرِ غور رکھا جائے گا۔

سنگینیِ حالات اس بات کی متقاضی ہے کہ کچھ انصاف پسند قانون داں حضرات ایک آزاد اور غیر جانبدار گروپ یا کمیٹی بنا کر ابتدا سے تمام حالات کی تفتیش کریں اور ایک مفصّل رپورٹ بنا کر مع شواہد حکومت کے سامنے رکھیں ( یہ واقعاتی رپورٹ عدالت میں بھی کام آئے گی) نیز ملزمان کی نہ صرف جلد برأت بلکہ ان کے خلاف دائر مقدمات کو عدالت میں جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کریں جو مشکل تو ہے، لیکن ناممکن نہیں۔

مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔