نام کتاب : شعرائے جنوبی مگدھ
مصنف و ناشر : ڈاکٹر آفتاب عالم
سال اشاعت : 2021ء
ضخامت : 292 صفحات
قیمت : 300 روپے
تبصرہ نگار : ڈاکٹر داؤد احمد
ملنے کا پتا : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،کوچہ پنڈت،لال کنواں،دہلی۔6
کتاب میں خاص خطے کے شعراء کی فنی و فکری بصیرت کا احاطہ
زیر تبصرہ کتاب ’’شعرائے جنوبی مگدھ‘‘ اردو کے معروف ادیب و ناقد ڈاکٹر آفتاب عالم کی تازہ ترین کتاب ہے جس میں انہوں نے جنوبی مگدھ بالخصوص ’گیا‘ کے شعراء کا مکمل تعارف اور ان کے کلام کو یکجا کر کتابی شکل دی ہے ۔موصوف کی اس سے قبل دو کتابیں’’ اردو شاعری کے ارتقاء میں شعرائے گیا کا حصہ ‘‘ اور’’ بہار کے معاصر افسانہ نگار‘‘ شائع ہوچکی ہیں جو اردو ادب کے سرمائے میں یقینا اہمیت کی حامل ہیں۔ ’’شعرائے جنوبی مگدھ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مصنف نے اس کتاب کے ذریعے مگدھ کی ادبی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موجودہ دور کے قلم کار شعراء پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔جنوبی مگدھ کے شعرا و ادباء نے ابتدا ہی سے ادب کی تقریباً ہر صنف پر طبع آزمائی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مصنف کی اس کتاب کے مطالعہ کے بعد جنوبی مگدھ کی موجودہ ادبی صورت حال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
کتاب ’’شعرائے جنوبی مگدھ‘‘ کی وجہ تصنیف کا ذکر کرتے ہوئے کتاب کے ابتدا میں مقدمہ کے حوالے سے ڈاکٹر آفتاب عالم رقمطراز ہیں:
’’ ابھی تک گیاکے شعراء کا مکمل تعارف کسی کتاب میں نہیں ملتا، اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ ’’شعرائے مگدھ‘‘ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی جائے جس میں موجودہ شاعروں کا نہ صرف تعارف پیش کیا جائے بلکہ ان کے کلام سے بھی قارئین کو متعارف کرایا جا سکے‘‘۔ (صفحہ۔10 )
’’ شعرائے جنوبی مگدھ‘‘ ڈاکٹر آفتاب عالم کی ادبی ،شعری ،علمی اور تحقیقی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔اس کتاب میں مصنف نے جنوبی مگدھ ’گیا‘ کے اہل قلم حضرات کے شعری کارناموں کو موضوع بنا کر ایک خاص خطے کے شعراء کی فنی و فکری بصیرت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہندوستان کی علمی،تہذیبی،سیاسی اور ادبی تاریخ میں ابتدا ہی سے علاقہ مگدھ کی ایک خاص حیثیت اور اہمیت رہی ہے۔اردو زبان مگدھ کی ہواؤں ،فضاؤں اور عوام کے دلوں میں رچی بسی ہے۔مگدھ کے خانقاہوں اور وہاں کے مدارس میں خصوصی طور پر اردو زبان پلتی، بڑھتی، سجتی، سنورتی اور نکھرتی رہی۔فضل حق آزاد، امداد امام اثر، شفق عماد پوری، عشرت گیاوی، عرش گیاوی، مولانا ریاست علی ندوی اور انجم مانپوری جیسے مشاہیر زمانہ اہل قلم کا رشتہ علاقہ مگدھ سے ہی تھا۔ ان کے علاوہ سریر کابری، عطا کاکوی، بسمل سنسہاروی، شمس گیاوی، فرحت قادری اور دوسرے متعدد شعراء نے یہاں کی شعری و ادبی محفلوں کو زینت بخشی اور باوقار بنایا۔
صوبہ بہار میں ’گیا‘ کی سرزمین علمی و ادبی ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے مردم خیز ہے ۔علماء ،ادباء ،شعراء، محققین اور دانشوروں کی کثیر تعداد نے اس کی عظمت کے آفاق کو روشن کیا ہے اور ہر چہار دانگ عالم میں اسکی شہرت کی کرنوں کو پھیلایا ہے۔ ’گیا‘ سے ہی بعض ایسی شخصیات کا تعلق ہے جن کے افکار سے اردو ادب کا منظرنامہ روشن ہے۔ عبد الصمد، کلام حیدری، حسین الحق اور وہاب اشرفی سے پوری دنیا واقف ہے جن کے بغیر ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔۔’ گیا‘ اردو کا ایک بڑا مرکز رہا ہے وہاں منتشر شعراء کو ایک جلد میں سمیٹ کر موصوف نے کار خیر انجام دیا ہے ۔ یہ واحد کتاب ہے جو ہمیں مشاہیر شعراء سے متعارف کراتی ہے ان میں سے چند نام درج کیے جاتے ہیں: ناوک ؔ حمزہ پوری، عین تابشؔ، مرغوب اثر فاطمیؔ، رونق شہری، شاہد اختر، فردوس گیاوی، اشہد کریم الفتؔ، ندیم جعفریؔ، کرشن چندر چودھری کمل، اعجاز مانپوری، ڈاکٹر مسعود جامی، کلیم اختر، چونچ گیاوی، ڈاکٹر شرافت علی شرافت، نجم عثمانی، ڈاکٹر عبد المنان انصاری، ایم اے کریمی اور خورشید انور وغیرہ۔
ڈاکٹر آفتاب عالم نے زیر نظر کتاب میں جنوبی مگدھ کے 56 شعراء کو شامل کیا ہے جس میں 12 غیر مسلم شعرا بھی ہیں، جن کے کلام کو یکجا کیا گیا ہے، جس میں حمد، نعت، مناجات، قطعات، غزل، نظم اور آزاد سائنسی نظم وغیرہ شامل ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ جنوبی مگدھ ’گیا ‘ کے تمام شعراء کے شعری کارنامے عوام کے سامنے آجائیں۔ شعراء سے متعلق تمام بنیادی اور ضروری باتوں کو بڑی خوبصورتی سے ترتیب دیا ہے۔ شعراء کے نام،تاریخ ولادت و وفات، تخلص، ولدیت، تلمذ، تعلیم، سکونت، مشغلہ، مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کے نام شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں مصنف نے کتابیات اور اخبار و رسائل کی فہرست درج کی ہے۔
پروفیسر شہزاد انجم نے زیر نظر کتاب میں’حرفے چند‘ کے تحت ڈاکٹر آفتاب عالم کے علمی و تحقیقی کاوش پراپنی رائے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ ڈاکٹر آفتاب عالم نے علاقہ جنوبی مگدھ کے قدیم و جدید شعراء کے کلام پر مفصل گفتگو کی ہے۔ علاقہ مگدھ میں اردو شاعری کی روایت اب تک پائیدار اور مستحکم ہے ،عہد حاضر کے شعراء کے یہاں کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ نیا رنگ و آہنگ بھی پایا جاتا ہے۔ میں ڈاکٹر آفتاب عالم کے ذوق و شوق اور علمی شغف و انہماک کی ستائش کرتا ہوں‘‘۔(صفحہ۔43)
کتاب کے حوالے سے جنوبی مگدھ’گیا‘ شعراء کے کلام کے کچھ نمونے مثال کے طور پر پیش ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
یہ بار گراں لے کے اثرؔ جاؤں کہاں میں
احساں ہے بہت سر پہ مرے اہل گیا کا
( امداد امام اثرؔ)
س ع مقیت نے کورونا وبا پر ’تالا بندی‘ کے عنوان سے نظم لکھی ہے، اس کے دو شعر ملاحظہ کریں ؎
ہے اثر کورونا کا ،زندگی کمرے میں بند
مسجدوں میں تالے ہیں ،بندگی کمرے میں بند
جب نہیں تھا لاک ڈاؤن جم رہی تھی محفلیں
حال اب یہ ہو گیا ہے دوستی کمرے میں بند
یہ کیسا خوف ہے رقص ہنر خاموش رہتا ہے
پرندے چہچہاتے ہیں شجر خاموش رہتا ہے
(مناظر حسن شاہینؔ)
آپ ناراض ہیں اور ہم بھی تو شرمندہ ہیں
دونوں دن رات تڑپتے ہیں مگر زندہ ہیں
(اشہد کریم الفتؔ)
زمیں پہ خون انساں کا بہانے ہم نہیں دینگے
کسی کو آگ بستی میں لگانے ہم نہیں دینگے
(کرشن چندر چودھری کمل)
ایک ستم اور کیا اس نے وفا سے پہلے
ہاتھ کٹوا دیے ظالم نے دعا سے پہلے
(شاہد نظامی)
کہہ سکا ان سے دم آخر نہ انجمؔ حال دل
چشم حسرت سے فقط آنسو نکل کر رہ گیا
(انجمؔ مانپوری)
مگدھ کی سر زمین میں اردو شعر و ادب کے حوالے سے ڈاکٹر آفتاب عالم کے ذریعہ جو کام ہو رہا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے دنیا کے سامنے لایا جائے ۔موصوف نے خاصی محنت کے بعد یہ کتاب تصنیف کی ہے ۔ اس کتاب میں زیادہ تر ایسے شعراء ہیں جو ابھی بقید حیات ہیں اور علمی ،ادبی وشعری سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کتاب میں بعض ایسے شعراء ضرور سامنے آئے ہیں جنہیں لوگ کم جانتے ہیں ،حالانکہ اپنے شعری کارناموں کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں جانا اور پہچانا جائے۔
کتاب میں موجود مصنف کے اس فرو گزاشت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ’جلد اول میں صرف گیا کے شاعروں کو ہی شامل کیا جا رہا ہے‘ مگر کتاب پر جلد اول کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔اردو ادب بالخصوص جنوبی مگدھ کے اردو ادب کے سرمایے میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مجموعی طور پر یہ کتاب معیاری ہے ۔ڈاکٹر آفتاب عالم قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے شعرائے جنوبی مگدھ کے شعری خدمات کو کتابی شکل میں یکجا کر دیا ہے تاکہ قارئین اس سے استفادہ کر سکیں۔آج کے عہد میں علاقائی تذکروں کی ضرورت کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے اور اس تعلق سے کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں۔ یہ کتاب بھی اسی ضرورت کی تکمیل کرتی ہے۔مصنف کی محنت قابل ستائش ہے۔ امید ہے کہ ادبی حلقوں میں یہ کتاب قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔
(تبصرہ نگار ،فخر الدین علی احمدگورنمنٹ پی جی کالج، محمودآباد، سیتاپور یو پی میں شعبۂ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسرہیں)
Email: [email protected]
***
***
ہندوستان کی علمی،تہذیبی،سیاسی اور ادبی تاریخ میں ابتدا ہی سے علاقہ مگدھ کی ایک خاص حیثیت اور اہمیت رہی ہے۔اردو زبان مگدھ کی ہواؤں ،فضاؤں اور عوام کے دلوں میں رچی بسی ہے۔مگدھ کے خانقاہوں اور وہاں کے مدارس میں خصوصی طور پر اردو زبان پلتی، بڑھتی، سجتی، سنورتی اور نکھرتی رہی۔مصنف نے اس کتاب کے ذریعے مگدھ کی ادبی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موجودہ دور کے قلم کار شعراء پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔جنوبی مگدھ کے شعرا و ادباء نے ابتدا ہی سے ادب کی تقریباً ہر صنف پر طبع آزمائی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مصنف کی اس کتاب کے مطالعہ کے بعد جنوبی مگدھ کی موجودہ ادبی صورت حال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022