ششی تھرور کی سربراہی والی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی فیس بک سے بی جے پی سے منسلک نفرت انگیز پوسٹوں پر ’’کارروائی نہ کرنے‘‘ پر وضاحت طلب کرے گی
نئی دہلی، اگست 17: پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹکنالوجی نے وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کاروباری وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان میں فیس بک کی اعلی عوامی پالیسی کی ایگزیکیٹو نے بی جے پی سے منسلک چار افراد اور گروپوں پر ’’نفرت انگیز بیانات سے متعلق ضوابط‘‘ کا اطلاق نہیں کیا۔
کمیٹی کے چیئرمین ششی تھرور نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’میں یقینی طور پر اس مسئلے پر غور کروں گا اور کمیٹی اس معاملے میں فیس بک سے جواب طلب کرے گی۔‘‘
ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی سیکریٹریٹ آج فیس بک سے وضاحت کا مطالبہ کرے گا اور اس کا بھی امکان ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی کو بھی طلب کیا جائے۔
واضح رہے کہ ڈبلیو ایس جے نے اطلاع دی ہے کہ فیس بک انڈیا کی پبلک پالیسی کی ڈائریکٹر انکھی داس نے عملے کے ممبروں کو کہا کہ بی جے پی کے سیاستدانوں کے ذریعے ’’خلاف ورزیوں پر انھیں سزا دینے سے ملک میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچے گا، جو صارفین کی تعداد کے حساب سے فیس بک کی سب سے بڑی عالمی منڈی ہے۔‘‘
ڈبلیو ایس جے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اتوار کو کانگریس نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان اجے ماکن نے کہا تھا ’’ہم بی جے پی سے پوچھنا چاہتے ہیں… ہمیں یہ بتایا جانا چاہیے کہ اے بی وی پی کے جے این یو یونٹ کی سابق صدر رشمی داس کا فیس بک انڈیا کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر انکھی داس سے کیا تعلق ہے؟‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’’رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کے کاروباری مفادات کی وجہ سے کارروائی نہیں کی گئی، ہم یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ وہ کون سے کاروباری مفادات ہیں جو فیس بک اور واٹس ایپ کو روک رہے ہیں۔ کیا ایسا کوئی معاہدہ ہے جس سے آپ ہندوستان کے ماحول کو خراب کرتے رہیں… ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کریں، جو بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے… اور اس کے بدلے میں ہم آپ کو ہندوستان کی منڈی میں فائدہ اٹھانے میں مدد کریں گے؟‘‘