شجاعت، صداقت، عدالت اور امامت!
فساد فی ا لارض کے خلاف مہم
عالم نقوی
اللہ کی زمين کو فساد سے نجات دلانے اور فساد سے محفوظ رکھنے کا طريقہ اس کے سوا اور کچھ نہيں کہ ہم سب، فردا ً فرداً اپنے ’خير اُمت’ ہو نے کا فريضہ ادا کريں۔ہم يہ ثابت کريں کہ ہم سے زيادہ ايماندار، ہم سے زيادہ ذمہ دار، ہم سے زيادہ حق گو اور حق پرست، ہم سے زيادہ باصلاحيت، ہم سے زيادہ انصاف پسند، ہم سے زيادہ روادار، ہم سے زيادہ لائق بھروسہ، ہم سے زيادہ قابل اعتماد، ہم سے زيادہ فرض شناس، ہم سے زيادہ با اخلاق، اور ہم سے زيادہ انسانيت کا درد رکھنے والا اور کوئی نہيں۔ہم حاکم ہوں يا محکوم، افسر ہوں يا کارکن، امير ہوں يا غريب، دولت مند ہوں يا محتاج، رشوت اور ناجائز کمائی کو آگ سے زيادہ خطرناک اور زہر سے زيادہ مہلک سمجھتے ہوں۔خواہ ہميں پيسے کی کتنی ہی ضرورت کيوں نہ ہو، ليکن رشوت ميں ملنے والی رقم کو لينا تو در کنار، اسے ہاتھ لگانا بھی حرام سمجھتے ہوں۔اور رشوت دينے والے سےيہ کہہ سکيں کہ تم نے نہ صرف ميری بلکہ ميری پوری امت، بلکہ پوری انسانيت کی توہين کی ہے۔تمہيں يہ خيال بھی کيسے آيا کہ کوئی مسلمان رشوت بھی لے سکتا ہے؟
ہمارا چہرہ يہ بتائے کہ ہميں رشوت خور بنانے کی کوشش کرنے والے نے ہميں گالی دی ہے۔ہميں بہرحال اپنے کردار سے يہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہميں کوئی فرد، کوئی پارٹی، کوئی حاکم، کوئی افسر کوئی وزير خريد نہيں سکتا۔مطلب يہ کہ ملت کے موجودہ مسائل ’خير ِ اُمت’ بنے بغير اور فرداً فرداً، اپنے عمل و کردار سے خود کو خير امت، اور نتيجتاً ’خير انسانيت’ ثابت کيے بغير، حل نہيں ہو سکتے۔ اس ليے کہ اللہ سبحانہ تعالی کی ناقابل تبديل سنت يہ ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہيں بدلتا جب تک کہ اس کے افراد خود کو نہيں تبديل کر ليتے، ’لا يغير ما بقوم حتی يغيروا ما با نفسھم (الرعد۔۱۱)
دنيا کے انسان ساختہ نظام تو ’بقائے اَصلح’ (سروائول آف دی فٹسٹ )کے قائل ہيں ليکن اسلام ’بقائے اَنفَع’ کا داعی ہے۔ہمارا محض صالح ہونا کافی نہيں دنيا، انسانيت اور اللہ کی مخلوق کے ليے مفید اور نافع ہونا بھی ضروری ہے کہ يہ بھی اللہ جل شانہ کی ناقابل تبديل سنت ہے :’’اس نے آسمان سے پانی برسايا تو واديوں ميں بقدر ظرف بہنے لگا اور سيلاب ميں جوش کھاکر جھاگ آگيا اور اس دھات سے بھی جھاگ پيدا ہوگيا جسے آگ پر زيور يا کوئی دوسری چيز بنانے کے ليے پگھلاتے ہيں۔اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بيان کرتا ہے کہ جھاگ تو خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمين ميں باقی رہ جاتا ہے۔اور اللہ اسی طرح مثاليں بيان کرتا ہے’‘(الرعد۔۱۷)
کفر اور باطل دونوں بجنسہ فساد ہيں اور ان کا غلبہ تو وہ بدترين فساد فی الارض ہے جو آجوطن عزيز سميت کم و بيش پوری دنيا کے مستضعفین فی ا لارض کو اپنے شکنجے ميں ليے ہوئے ہے۔اسلام پانی ہے اور کفر اوپر آجانے والا پھين۔حق دھات ہے اور باطل اوپر جمع ہو جانے والا جھاگ۔يہ جھاگ ہميشہ اوپر رہتا ہے اور غالب نظر آتا ہے۔ ليکن با لآخر فنا ہو جاتا ہے۔پانی اور سونا وغيرہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ نافع ہے، کام آنے والا ہے! اس آيت ميں پانی ’بنيادی ضرورت کی طرف اشارہ ہے اور دھات ديگر ضروريات کی طرف۔اسلام ہی آخر کار کام آنے والا ہے جو حق ہی حق ہے اور کفر و باطل مٹ جانے اور فنا ہو جانے والا ہے کہ باطل کو تو بہر حال و بہر صورت ايک دن پوری طرح فنا ہونا ہی ہونا ہے کہ يہ اس قادر مطلق کا وعدہ ہے جو کبھی وعدہ خلافی نہيں کرتا : ’’اور کہہ ديجيے کہ حق آگيا اور باطل فنا ہو گيا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والا ہے’‘(سورہ اسرا ء (بنی اسرائيل( سورہ نمبر ۱۷ّآيت ۸۱ )
موجودہ حالات ميں تو بالخصوص ہماری يہ ذمہ داری ہے کہ وطن عزيز کو فاشسٹوں فرقہ پرستوں، فرعونوں اور قارونوں کی لائی ہوئی تباہی سے بچانے کے ليے کھڑے ہوں اور اپنی استطاعت بھر ہر وہ کام کريں جو ہمارے بس ميں ہے۔’لا تفسدو ا فی ا لارض بعد اصلاحھا’ کا پيغام زبان کے ساتھ اپنے عمل سے ديتے رہيں۔ بس اللہ سے ڈريں اور اس معبود بر حق کے خوف کے سوا ہر کسی کا خوف اپنے دل سے نکال ديں ، بھروسہ اور توکل صرف اللہ پر کريں کہ اس کا وعدہ ہے کہ ’’جو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا تو اللہ اس کو (پريشانيوں اور تکليفوں سے باہر ) نکال دے گا اور وہاں سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا اور جس نے اللہ پر توکل کيا تو اللہ اس کے ليے کافی ہے۔(الطلاق آيت ۳ و ۴ )
مولانا علی مياں ؒنے ايک جگہ لکھا ہے کہ ’’سلطنت عباسيہ کے پاس چين سے ايک پيغام آيا کہ يہاں کوئی ايسا آدمی نہيں ہے جس پر ہم پوری طرح اطمينان کر سکيں اور وہ ہمارے مقدمات کا بے لاگ فیصلہ کر سکے۔خدا کے ليے آپ وہاں سے کچھ آدمی بھيجيے جو عدالت ميں انصاف کر سکيں۔۔يہ اس وقت کا حال ہے جب يہ ملت ’کنتم خير امۃ اخرجت للناس’پر ايمان کے ساتھ عمل بھی کرتی تھی اور اس کا عقيدہ تھا کہ ہم اپنی برتری، نجی و خاندانی آسودگی اور محض قومی خوشحالی کے ليے پيدا نہيں کيے گئے ہيں بلکہ ہمارا کام پوری دنيائے انسانيت کو نفع پہنچانا ہے۔ ا للہ کو ہمارا پوری انسانيت کے ليے مفید اور نفع بخش ہو نا مطلوب ہے ۔کتنے ہی واقعات تاريخ کے صفحات پر نقش ہيں کہ ’ مسلمان جدھر سے گزر جاتے تھے وہاں کے لوگ آنکھيں بچھاتے تھے کہ يہ فرشتہ رحمت بن کے آئے ہيں، ان کی وجہ سے وبائيں دور ہوں گی، مال اور فصل ميں برکت ہو گی، ہمارے يہاں کے اختلافات ختم ہوں گے، اللہ کی رحمت اور برکت کا نزول ہو گا۔ خلوص، قربانی، ايثار اور بلا تفريق خلقِ خدا کی خدمت ہی وہ صفات ہيں جو فرد اور جماعت کا انسايت کا محبوب بناتی ہيں۔ہمارے نوجوان يہ ثابت کريں کہ وہ سب سے زيادہ با صلاحيت، سب سے زيادہ فرض شناس، سب سے زيادہ انصاف سے کام لينے والے اور سب سے زيادہ ايماندار ہيں۔وہ جھوٹ نہيں بولتے، دوسروں کی طرح کرپٹ نہيں ہيں، وہ رشوت نہيں ليتے۔
سبق پھر پڑھ شجاعت کا صداقت کا عدالت کا
ليا جائے گا تجھ سے کام دنيا کی امامت کا