شاہین باغ: مظاہرین نے ’جنتا کرفیو‘ میں شرکت کی، لیکن سی اے اے مخالف احتجاج جاری

نئی دہلی، مارچ 22: مہلک کورونا وائرس کو شکست دینے کے مقصد سے ‘جنتا کرفیو’ کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی اپیل پر شاہین باغ میں سی اے اے مخالف مظاہرین نے لوگوں کو احتجاج کے مقام پر جمع ہونے سے روک کر ‘جنتا کرفیو’ نافذ کیا۔ اگرچہ احتجاج جاری رکھنے کے لیے احتجاج کے مقام پر پانچ خواتین موجود ہیں۔

احتجاجی مقام، جہاں 15 دسمبر کے بعد سے چوبیسوں گھنٹے بھیڑ رہتی تھی، اتوار کو سنسان نظر آیا۔

مسلم اکثریتی علاقے شاہین باغ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، ذاکر نگر، بٹلہ ہاؤس، نور نگر اور جوہری فارم وغیرہ کی تمام سڑکیں اور بازار بھی سنسان نظر آئے۔ ان علاقوں میں کہیں بھی سبزی فروش یا پینے کے پانی کی فراہمی کرنے والے تک نہیں ملے۔ بیرونی لوگوں کے داخلے کو روکنے کے لیے بہت ساری سوسائٹیوں نے اپنے مرکزی دروازوں پر تالے لگا رکھے ہیں۔

شاہین باغ مظاہرے کی جگہ پر موجود پانچوں خواتین، لکڑی کے الگ الگ تختوں پر بیٹھی ہوئی ہیں، انھوں نے ماسک پہنا ہوا ہے اور "نو سی اے اے-این آر سی-این پی آر” کے نعروں کے پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں۔ مرد رضا کاروں نے تمام داخلی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں اور لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ‘جنتا کرفیو’ کی وجہ سے احتجاج کے مقام پر نہ آئیں، جو احتجاج کے مقام پر بھی نافذ ہے۔ باقی 15 لکڑی کے تختوں میں سے ہر ایک پر ان خواتین کی "چپلیں” رکھی ہوئی ہیں، جو روزانہ وہاں بیٹھتی تھیں، لیکن وزیر اعظم کی اپیل کا احترام کرنے کے لیے آج انھوں نے خود کو اس سے باز رکھا۔

رضاکاروں نے صحافیوں کو ان کے شناختی کارڈ کی جانچ کے بعد تصویریں لینے اور موجود خواتین مظاہرین سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔

انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے موجود پانچ خواتین مظاہرین میں سے ایک، کرول باغ کی رہائشی پرکاش دیوی، جو تقریباً روزانہ اس احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں، نے کہا کہ ’جنتا کرفیو‘ جو پنڈال میں صبح 5 بجے شروع ہوا، شام 9 بجے تک جاری رہے گا۔ انھوں نے کہا ’’آج شام 9 بجے کے بعد ہی لوگوں کو یہاں آنے کی اجازت ہوگی۔‘‘

انھوں نے کہا ’’ہم ‘جنتا کرفیو’ میں مکمل تعاون کر رہے ہیں لیکن ہمارا احتجاج بھی جاری رہے گا۔‘‘

پرکاش دیوی نے کہا کہ جب ملک کے باقی حصوں میں لوگ گھروں کی بالکونیوں یا اپنی گلیوں میں تالیاں بجا کر یا اسٹیل کی تھالیاں بجا کر ’جنتا کرفیو’ ختم کر رہے ہوں گے، اس وقت شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی 5 خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے لیے تالیاں یا تھالیاں بجائیں گی۔

دیوی نے مزید بتایا کہ طبی ماہرین کے مشورے کے مطابق پنڈال سمیت پورے احتجاجی مقام کی صفائی ستھرائی کردی گئی ہے۔ اس جگہ پر سینیٹائزر کی بوتلیں بھی رکھی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب سے کورونا وائرس پھیلا ہے، تب سے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں اور احتجاج میں آنے والی تمام خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینیٹائزر سے صاف کر کے اور ماسک پہن کر آئیں۔ ایسی خواتین، جن کے پاس ماسک نہیں تھے، انھیں سائٹ پر ہی ماسک مہیا کیا گیا۔ دیوی نے کہا ’’کسی بھی عورت کو ماسک پہنے بغیر اور اپنے ہاتھوں کو صاف کیے بغیر احتجاج کے مقام میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

شاہین باغ احتجاج مودی سرکار کے ذریعہ لائے گئے غیر آئینی اور امتیازی سلوک پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مزاحمت کی ایک قومی علامت بن گیا ہے۔ شاہین باغ احتجاج نے ملک کے دیگر حصوں کی خواتین کو اس قانون کے خلاف کھڑے ہونے کی تحریک دی ہے، جس کے نتیجے میں اس وقت پورے ملک میں 200 سے زائد مقامات پر سی اے اے کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور سبھی اتفاق رائے کے ساتھ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔