شاہین باغ مظاہرین: سپریم کورٹ 4 ہفتے بعد فیصلہ دے یا 40 ہفتوں بعد، جب تک سی اے اے رد نہیں ہوتا ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے

نئی دہلی، جنوری 22— سپریم کورٹ کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون پر عبوری روک لگانے سے انکار اور سی اے اے مخالف درخواستوں پر جواب داخل کرنے کے لیے مرکز کو چار ہفتوں کا وقت دینا شاہین باغ مظاہرین کے عزم کو کمزور کرنے میں ناکام رہا ہے۔

خواتین مظاہرین، جو ایک عارضی ترپال کے خیمے کے نیچے سڑک پر ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے دھرنے پر بیٹھی ہیں، انھوں نے زور دے کر کہا کہ جب تک ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا اور سی اے اے رد نہیں کیا جاتا تب تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گی۔

خواتین مظاہرین نے انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے کہا ’’جب تک مودی حکومت سی اے اے واپس نہیں لیتی ہم سڑک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ ہمارا پختہ عزم ہے۔ حکومت میں اور حکومت سے باہر کے ہر ادارے کو یہ بتا دیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف مزید چار ہفتوں بلکہ اگلے چار ماہ تک بھی اپنا احتجاج جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بینچ نے سی اے اے مخالف درخواستوں کی سماعت کے دوران بدھ کے روز کہا کہ اس کی سماعت پانچ ججوں کے آئینی بنچ کے ذریعہ کی جائے گی اور مرکز کا جواب سنے بغیر اس پر روک نہیں لگائی جا سکتی۔

شاہین باغ مظاہرین کا کہنا ہے کہ چاہے عدالت چار یا چالیس ہفتوں کے بعد اپنا فیصلہ دے، ہم اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک حکومت اس قانون کو منسوخ نہیں کرتی ہے۔ حکومت ہمارے عزم کو توڑنا چاہتی ہے لیکن ہم حکومت سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے مطالبات تسلیم ہونے کے بعد ہی ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔

پچھلے 30 دن سے دھرنے پر بیٹھی ایک بزرگ خاتون نے کہا ’’یوپی میں خواتین اور بچے مظاہرین پر مظالم کو یاد کرتے ہوئے ہماری آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ یوپی میں ہمارے بہت سے رشتہ داروں کے گھروں پر پولیس مظالم برطانوی بربریت کی یاد دلاتے ہیں۔ کیا عدالت نے پرامن مظاہرین پر پولیس بربریت کو نہیں دیکھا؟ ہم کسی بھی حالت میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘

ایک اور بوڑھی خاتون مسلمہ ملک نے کہا ’’جب ہم احتجاج میں شامل ہوئے تو ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنے مطالبات پورے ہونے کے بعد ہی دھرنا مقام سے واپس جائیں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے درخواستوں پر عدالتی نوٹسز کا جواب داخل کرنے کے لیے مرکز کو مزید چار ہفتوں کا وقت دینے کے بعد بھی ہمارا موقف ویسا ہی ہے۔‘‘

پچھلے 22 دنوں سے اپنے 2 بچوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھی 45 سالہ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ’’آئین کے تحفظ کے لیے 22 کے قریب افراد شہادت پا چکے ہیں کیونکہ سی اے اے آئین مخالف ہے۔ اگر ہم اپنا دھرنا ترک کردیں تو یہ شہدا کی قربانیوں کی بے حرمتی ہوگی۔ پوری قوم سی اے اے کے خلاف سڑک پر ہے اور عدالت کو اس کا نوٹس لینا پڑے گا۔‘‘

صبا کی نام کی ایک اور خاتون نے کہا ’’جب ہم اپنا حق مانگنے کے لیے گھروں سے نکل آئے ہیں تو اب چاہے اس میں چار ہفتے لگیں یا 40 ہفتے یا چار سال لگیں۔ واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم انصاف کا انتظار کریں گے۔ جب تک اس حکومت کو ختم نہیں کیا جاتا ہے ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔‘‘

واضح رہے کہ یوپی کے بہت سے قصبوں میں پرامن مظاہرین پر پولیس نے بڑے پیمانے پر مظالم کیے تھے اور صرف یوپی میں پولیس کی فائرنگ سے مجموعی طور پر 23 مظاہرین کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔