شاہین باغ: خواتین مظاہرین نے سپریم کورٹ کے مقرر کردہ ثالثی پینل سے کہا ’’ہمیں مار ڈالیں لیکن ہم سے احتجاج کا ہمارا حق نہ چھینیں‘‘

نئی دہلی، فروری 19: شاہین باغ کی خواتین مظاہرین نے بدھ کے روز واضح طور پر سپریم کورٹ کے مقرر کردہ ثالثی پینل کے ممبروں سے کہا کہ ان کے عوامی مقام پر احتجاج کے حقوق چھیننے سے بہتر ہے کہ انھیں مار دیا جائے۔

ثالثی پینل کے دو اراکین، سدھنا رام چندرن اور سنجے ہیگڈے کی طرف سے سوالات کے جواب میں دو برقعہ پوش خواتین مظاہرین نے کہا "ہمیں مار ڈالیں لیکن ہم سے ہمارے حقوق نہ چھینیں”۔ پینل کے تیسرے ممبر ریٹائرڈ بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ، رام چندرن اور ہیگڈے کے پنڈال سے رخصت ہونے کے فوراً بعد وہاں پہنچے اور مظاہرین سے کہا کہ وہ کل دوبارہ آئیں گے اور اتوار تک روزانہ ان سے بات کرنے آئیں گے کیونکہ انھیں پیر کو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے۔

دونوں فریقین کے مابین سینکڑوں خواتین مظاہرین کی موجودگی میں بات چیت ہوئی لیکن میڈیا کی غیر موجودگی میں، خاص طور پر الیکٹرانک میڈی ، اگرچہ سوال و جوابات مائک کے ذریعے کیے گئے تاکہ وہاں موجود سب لوگ انھیں سن سکیں۔ پولیس نے پینل ممبروں کے احکامات پر میڈیا کے اہلکاروں کو احتجاج کی جگہ سے ہٹا دیا تھا جو میڈیا کے ذریعہ کارروائی ریکارڈ نہیں کروانا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ مظاہرین سے کہا گیا کہ وہ موبائل فون پر واقعہ کی ویڈیوز بھی ریکارڈ کرنہ کریں۔

جب وکیل سنجے ہیگڈے نے ایک سوال اٹھایا کہ سڑک کو روکنا مسافروں کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے تو 82 سالہ بلقیس، جنھیں مظاہرین دادی کہتے ہیں، نے کہا کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ اور آئین کے دفاع کے لیے دو طرفہ سڑک کے صرف ایک طرف کے 150 میٹر کو روک رہے ہیں لیکن پولیس نے دہلی-نوئیڈا ٹریفک کی نقل و حرکت کو روکنے والی باقی سڑک کو روک دیا تھا۔ دادی نے پوچھا "اگر عارضی طور پر سڑک کی ناکہ بندی کی وجہ سے مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو کیا لوگ شہریت (ترمیمی) قانون کی منظوری کے سبب پریشانی کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟”

انھوں نے کہا کہ اگر سی اے اے کو واپس لے لیا گیا تو مظاہرین آدھے گھنٹے میں سڑک خالی کردیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب تک مخالف قانون واپس نہ لیا جاتا ہے اور حکومت کی جانب سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک کسی بھی حالت میں سڑک کو خالی نہیں کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے مقرر کردہ ثالثی پینل نے مظاہرین سے بچوں کو اپنے ساتھ لانے کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے جس کے نتیجے میں شدید سردی کے باعث 20 دن کے بچے کی موت ہوگئی تھی، تو ایک برقعہ پوش خاتون نے جواب دیا ’’جب سی اے اے پوری مسلم آبادی کو پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن بنا دے گا تو ہمارے بچے بڑے ہو کر ہم سے پوچھیں گے کہ ہم نے یہ قانون روکنے کے لیے کیا کیا تھا؟ تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہم اپنے بچوں کو مظاہرے کے لیے لائیں گے تو ہم ان سے کہہ سکتے ہیں یہ شاہین، ہمارے بچے ہم نے تمھیں گود میں لے کر اس قانون کی مخالفت کی تھی۔“