سی اے اے پر اداکاررجنی کانت کاموقف تبدیل!

مسلم وفد کی ملاقات نے کیا قائل۔مرکز تک بات پہنچانے کی یقین دہانی

تمل ناڈو کی العلماء سبائی جماعت کے ایک وفد نے تمل اداکار و سیاست دان رجنی کانت سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات رجنی کانت کے اس بیان کے بعد ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ این آر سی اور این پی آر پر عمل آوری سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ہے۔ ان کا یہ بیان ٹھیک اس وقت سامنے آیا جب ڈی ایم کے ودیگر جماعتوں کے ممبرانِ پارلیمنٹ اور سیکولر پروگریسو الائینس کے قائدین نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دو کروڑ دستخطوں پر مشتمل ایک میمورنڈم صدر جمہوریہ ہند کے حوالے کیا۔ اس دستخطی مہم کے دوران سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ سے متعلق خدشات سے تمل عوام میں آگہی اور زیادہ بڑھنے لگی۔ ایسے وقت میں رجنی کانت کی طرف سے دیے گئے اس بیان کی ہر طرف سے مذمت کی گئی یہاں تک کہ ڈی ایم کے نے ان کے بیان کو سرے سے خارج کر دیا۔ جماعت العلماء کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر انور باشا علوی نے بھی رجنی کانت کے اس دعوے کی تردید کی کہ مسلمانوں کو سی اے اے اور این آر سی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ رجنی کانت کے بیان کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے اس متنازعہ قانون کی کوتاہیوں کی وضاحت کی اور کہا کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سی اے اے کے مضر اثرات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ اور وہ اس سے بھی نا بلد ہیں کہ کیوں ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اس تحریک سے افراد وابستہ ہوئے ہیں اور اس اقدام کے پس پردہ محرکات کے کیا ہیں۔ اور کہا کہ اگر ضرورت ہو تو ہم رجنی کانت سے ذاتی ملاقات کے ذریعے اس کی وضاحت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب یہ پیغام رجنی کانت تک پہنچا تو انہوں نے ملاقات کی دعوت دے دی۔تمل ناڈو جماعت العلماء سبائی کے صدر پی کے خواجہ محی الدین باقوی اپنے وفد کے ارکان ڈاکٹر انور باشا علوی، ایس مجیب الرحمٰن مصلحی، الیاس ریاضی اور عبدالعزیز باقوی کے ساتھ رجنی کانت سے ان کے پوژ گارڈن ریسڈنسی میں ملاقات کی۔ قریب سوا گھنٹہ تک چلی اس ملاقات کے دوران وفد نے انھیں سارا معاملہ سمجھایا. محی الدین باقوی نے بتایا کہ رجنی کانت نے نہ صرف اس مسئلے کو پوری طرح سمجھا بلکہ امن اور اعتماد کی فضاء کو برقرار رکھنے میں ہر ممکن تعاون کرنے کا تیقن دیا۔ 69 سالہ اداکار نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا "میں بھی ان (مسلم تنظیم قائدین) کی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ کسی ملک کا بنیادی مقصد محبت، اتحاد اور امن ہونا چاہیے۔” رجنی کانت نے تمل ناڈو جماعت العلماء کو اس بات کا بھی تیقن دیا کہ وہ ریاستی عوام کی سی اے اے آراء کو مرکزی حکومت تک ضرور پہنچائیں گے۔ دہلی میں ہونے والے تشدد پر مرکز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رجنی کانت نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ فسادات سے "آہنی شکنجے” سے نمٹا جانا چاہیے تھا۔ بی جے پی کی زیرِ قیادت مرکز پر بھر پور حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر وہ تشدد کو کچل نہیں سکتے تو وہ استعفی دیں اور چلے جائیں۔ انہوں نے اروند کیجریوال کی سربراہی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کو دارالحکومت میں صورت حال کی مزید ابتری کے لیے یکساں ذمہ دار ٹھہرایا۔ جماعت العلماء نے اس ملاقات کو مجموعی طور پر اطمینان بخش بتایا۔ لیکن وفد میں شامل کچھ ارکان کو رجنی کانت کا مرکز تک بات پہنچانے کا تیقن سرسری محسوس ہوا اور ان کی آہنی شکنجہ والی بات بھی لفظوں کا الٹ پھیر دکھائی دی کیونکہ ان کے سابقہ بیانات کے مطابق وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہر طرح کے مظاہروں کے سخت مخالف نظر آئے۔ آہنی شکنجہ سے ان کا مطلب مظاہروں کا جبراً خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جئے للیتا اور کروناندھی کے بعد تمل ناڈو کے خالی سیاسی پس منظر میں رجنی کانت کو متبادل چہرے کی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔