سی اے اے مخالف ڈرامے پر بغاوت کا مقدمہ: ایک ہفتے کے اندر پولیس نے بچوں سے چار بار کی تفتیش
بیدر، کرناٹک، فروری 04— کرناٹک میں بیدر ڈسٹرکٹ پولیس نے شاہین اردو پرائمری اسکول کے 9 سے 12 سال کی عمر کے بچوں سے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی-این پی آر مخالف تنقیدی ڈرامے میں ملوث ہونے کے الزام میں گذشتہ ایک ہفتے میں چار بار پوچھ گچھ کی ہے۔ اس ڈرامے پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے بعد پولیس نے پہلے ہی اسکول کی صدر مدرس اور نو سالہ بچی کی طالبہ کی والدہ کو جیل بھیج دیا ہے۔
اس ڈرامے کو 21 جنوری کو اسکول کے سالانہ پروگرام میں پیش کیا گیا تھا۔ 26 جنوری کو اس پروگرام کی ایک سوشل میڈیا ویڈیو کی بنیاد پر ایک ”سماجی کارکن” نیلیش رکشال کی جانب سے اس کے خلاف شکایت درج کی گئی تھی۔
بچوں سے ایک ہفتے میں چار بار تفتیش کی گئی
پولیس نے یہ مقدمہ سی آر پی سی کی مختلف شقوں کے تحت درج کیا جس میں ملک سے بغاوت کے قانون شامل تھے اور کچھ طلبا، ان کے والدین اور اساتذہ کو 30 جنوری کو پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا اور گھنٹوں تفتیش کی گئی تھی۔ پوچھ گچھ کے بعد ہیڈمسٹریس فریدہ بیگم اور پانچویں کلاس کی طالبہ کی والدہ نجم النسا کو گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔
پولیس اسٹیشن کے اندر بچوں کی تصویر اور پولیس اہلکاروں کے ذریعہ وردی میں بچوں سے پوچھ گچھ کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر پولیس کی تفتیشی ٹیم نے اسکول کا دورہ کیا اور طلبا اور اساتذہ سے 31 جنوری کو تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔ پولیس ٹیم نے 1 فروری کو ایک بار پھر اسکول کا دورہ کیا اور 60-70 طلبا سے تقریبا ایک گھنٹے تک پوچھ گچھ کی اور پھر 3 فروری کو ایک گھنٹے تک مزید پوچھ گچھ کی۔ پولیس نے اسکول کے سی سی ٹی وی اور دیگر ریکارڈ بھی ضبط کرلیے۔
پانچویں کلاس کی بچی کی والدہ نجم النسا اکیلی سرپرست ہیں۔ اس کے شوہر جو کہ ایک کسان تھے، سات سال قبل فوت ہوگئے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو اچھے اسکول میں تعلیم دلانے کے لیے شہر بیدر منتقل ہوئی تھی۔ 30 جنوری کو اس کی گرفتاری اور اسے جیل بھیجے جانے کے بعد سے مکان مالک اس کی کم عمر بچی کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
ڈرامے میں کیا تھا؟
اسکول کا ڈرامہ CAA-NRC-NPR کی تنقید پر مبنی تھا۔ ڈرامے کے کچھ مکالموں میں بچوں نے کہا کہ اگر کوئی ان کی شہریت کی تصدیق کے لیے آئے گا تو وہ افسروں کو دستاویزات نہیں دکھائیں گے اور ایک کردار نے یہ بھی کہا کہ افسر کو چپل سے مارا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے چپلوں کو بطور "ثبوت” ضبط کر لیا ہے۔ پولیس نے مبینہ طور پر الزام لگایا ہے کہ اس ڈرامے نے سی اے اے کے بارے میں ”غلط خبر” پھیلائی ہے اور ڈرامے کے کچھ کرداروں نے مبینہ طور پر وزیر اعظم کی "توہین” کی تھی۔ پولیس نے ہیڈ مسٹریس پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کیا کہ وہ اسکرپٹ سے واقف تھی اور لڑکی کی والدہ کو ڈرامہ تیار کرنے اور اسکرپٹ تیار کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
اسکول کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) توصیف میڈیکیری نے میڈیا کو بتایا "ایک لڑکی نے اس ڈرامے کے مکالمے کے ایک حصے کے طور پر کسی بھی ایسے شخص کو چپل سے مارنے کی بات کی تھی جو کبھی بھی اس سے دستاویزات مانگنے کی ہمت کرے گا۔ یہ لائن عمومی تھی اور کسی کو نشانہ بنانے کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اس کی غلط ترجمانی کی گئی ہے۔”
طلبا سے پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھاتے ہوئے اسکول کے ایک عہدیدار نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ”وہ اس ڈرامے میں حصہ لینے والے تمام طلبا کو اور جنھوں نے یہ دیکھا ان سب کو ایک طرف لے جا رہے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی استاد یا انتظامیہ کے اہلکار کو وہاں حاضر نہیں رہنے دیتے ہیں۔ طلبا خوفزدہ ہیں۔”