سی اے اے، درد مشترک’ ملک کا اجتماعی مسئلہ
نتن گڈکری کی ناگپور کے مسلم دانشوروں سے ملاقات کی ایک روداد
برادران وطن کو ساتھ لينے کی کوششوں ميں مزيد سُرعت کی ضرورت
ایڈووکیٹ فردوس مرزا اور جناب رضون الرحمن خان سے بات چیت
بی جے پی کے سينئر ليڈر و مرکزی وزير نتن گڈکری عوامی رابطہ اور افہام و تفہيم کے ذريعے مسائل کے حل کے حامی ہيں۔ وہ پارٹی ميں واحد ايسے شخص ہيں جنہوں نے ايک سے زائد مرتبہ اپنی ايک الگ رائے دے کر سياسی حلقوں ميں ہلچل مچائی تھی۔ گزشتہ دنوں اپنے حلقہ ناگپور ميں سی اے اے اور اين آر سی کی پر زور مخالفت کے بيچ وہ مسلم دانشوروں سے بات چيت کے ليے آئے تھے تو ايک ہلکی سی اميد بندھی تھی کہ گڈکری مظاہرين اور حکومت کے درميان ايک پُل کا کام کرسکتے ہيں اور کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔ ۵ جنوری کو منعقدہ اس اجلاس ميں ناگپور کے معروف ايڈووکيٹ جناب فردوس مرزا بھی موجود تھے۔ انہوں نے سی اے اے پر مسلمانوں کی برہمی و احتجاج کی وجوہات پيش کيں۔ ابتدا ميں گڈکری نے يہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس قانون کی مخالفت غير ضروری ہے اور جو انديشے ہيں وہ بے بنياد ہيں ليکن جب مسلم دانشوروں نے دلائل کے ساتھ بات رکھی اور ايک ڈاکيومنٹ پيش کيا جو ايڈووکيٹ فردوس مرزا کا تيار کيا ہوا تھا تو نتن گڈکری اس پر غور کرنے کی بات کہہ کر چلتے بنے۔ اس اجلاس کو آج ديڑھ ماہ ہو رہے ہيں ليکن ابھی تک ان سے کوئی جواب بن نہيں پڑا ہے۔ اس تعلق سے نمائندہ دعوت نے ايڈووکيٹ فردوس مرزا اور جناب رضوان الرحمن خان امير حلقہ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹرا سے بات چيت کی تو دونوں رہنماؤں نے کہا کہ بی جے پی کے ديگر ليڈروں کے مقابلے ميں گڈکری جی نسبتاً لچکدار نظر آتے ہيں ليکن وہ بھی آخر سنگھ کے پروردہ اور ميدان سياست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہيں۔ ويسے بھی مودی۔شاہ سے الگ کوئی موقف اختيار کرنے کے ليے غير معمولی جرات و حوصلہ چاہيے۔
ايڈووکيٹ فردوس مرزا نے کہا کہ سی اے اے کے خلاف ملک ميں ہر طرف شور ہے ليکن پھر بھی يہ ناکافی ہے۔ ابھی تک غير مسلمين کو جس طرح ان احتجاجوں کا حصہ بننا چاہيے تھا وہ نہيں ہوسکا ہے۔ البتہ مہاراشٹرا کو بعض بالغ النظر قائدين کی بدولت اس معاملے ميں استثنيٰ حاصل ہے جہاں برادرانِ وطن کے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہيں۔ رواں احتجاج کو صحيح رخ پر رکھنے کے ليے ضروری ہے کہ اس عام تاثر کو ختم کيا جائے کہ سی اے اے کی تان صرف مسلمانوں پر ٹوٹے گی۔ برادرانِ وطن، بالخصوص کمزور و پسماندہ طبقات کو يہ بتانا ہوگا کہ شہريت ثابت کرنے کے ليے انہيں بھی لائن لگانی پڑے گی اور وہ اپنے اس اہم ترين حق کے ليے حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ ايڈووکيٹ فردوس مرزا نے مزيد کہا ’’چونکہ لڑائی فی الحال سيکولر آئين کے تحفظ کے ليے ہے اس ليے مسلمانوں کو بھی سيکولر کردار کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر احتجاج ميں صرف مسلمان ہی پيش پيش رہيں گے تو کالا قانون لانے والوں پر اس کا کوئی اثر نہيں پڑے گا کيونکہ وہ چاہتے بھی يہی ہيں کہ صرف مسلمان پريشان ہوں اور اس سے ان کے ووٹ بينک کو تسکين بھی حاصل ہوگی۔
جناب رضوان الرحمن خان امير حلقہ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹرا نے نمائندہ دعوت کو بتايا کہ ’’آزادی کے بعد يہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مسلمان اس قدر عزم و استقلال کے ساتھ اپنے حق کی لڑائی لڑنے کے ليے کمر بستہ ہوئے ہيں۔ پے درپے مسائل اور طويل ترين خاموشی کے بعد سازشی عناصر کی ريشہ دوانيوں کا شکار ہوئے بغير جس انداز سے شاہين باغ کی خواتين اور کالج اور يونيورسٹيوں کے طلبہ محاذ پر ڈٹے ہوئے ہيں اسے ديکھ کر تعجب بھی ہوتا ہے اور اميد بھی بندھتی ہے کہ يہ جدوجہد صبح نو کی نقيب بنے گی۔ اللہ پاک سے پوری اميد ہے کہ وہ يقيناً ايک بہتر سبيل نکالے گا۔‘‘
برادرانِ وطن کے ساتھ گھل مل کر مظاہروں کے دوران اسلامی شناخت پر سمجھوتہ کرنے سے متعلق ايک سوال کے جواب ميں انہوں نے بتايا کہ يہ بہت ہی نازک معاملہ ہے۔ مسلمان اسلامی شناخت سے دست کش ہوجائيں تو اس سے بڑا کوئی خسارہ نہيں ہوسکتا۔ اصل ميں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ درپيش مسئلہ سارے ملک کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کے پيچھے کی سياست يہ ہے کہ اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ بنا ديا جائے اس ليے جال ميں پھنسنے سے بچنے کے ليے ضروری ہے کہ احتجاج کا اپروچ اجتماعی ہو اور اس ميں يکسانيت ہو۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ اسلامی شناخت پر سمجھوتہ کيا جائے يا برادرانِ وطن کے مذہبی رنگ ڈھنگ يا مراسم کو اختيار کيا جائے۔ اس ضمن ميں مسلمانوں کی درست و بروقت رہنمائی کی ضرورت ہے۔ نتن گڈکری کو جو دستاويز ديا گيا تھا وہ 14 سوالات و جوابات پر مبنی تھا۔ اس ميں ان تمام خدشات و وجوہات کا احاطہ کيا گيا جن کے سبب مسلمان برسرِ احتجاج ہيں۔ ان کی افاديت کے پيش نظر يہاں ان کا خلاصہ پيش کيا جا رہا ہے:
کيا سی اے اے صرف مسلمانوں کے خلاف ہے؟
جواب: نہيں! يہ قانون سارے ملک کے خلاف ہے۔ شہريت ترميمی قانون کی دفعات پر عمل آوری قومی سلامتی کو ايک بڑے خطرے ميں ڈالتی ہے۔ سی اے اے، ہندو، سکھ، بودھ، جين، پارسی يا عيسائی طبقہ سے تعلق رکھنے والے غير قانونی مہاجروں کو جو افغانستان، بنگلہ ديش يا پاکستان سے 31 دسمبر 2014 کو يا اس سے قبل ہندوستان ميں داخل ہوئے ہوں کسی تنقيح کے بغير شہريت عطا کرتا ہے۔ لہذا غير مطلوب عناصر کے داخلے سے قومی سلامتی کو لاحق خطرے کے پہلو کو مسترد نہيں کيا جاسکتا۔
سی اے اے پر مسلمان کيوں احتجاج کر رہے ہيں؟
جواب: مسلمان ہندوستان کے نہايت پابندِ قانون شہری ہيں۔ انہوں نے ہميشہ عدالتوں کے فیصلوں کو مانا ہے اور عمل کيا ہے۔ مثال کے طور پر طلاق ثلاثہ پر پابندی اور اسے ايک فوجداری قانون بناتے ہوئے عقيدہ کی آزادی سے متعلق دفعہ 25 کے تحت حاصل اپنے حقوق کو پانے ميں ناکامی کے باوجود مسلمانوں نے کبھی بھی سڑکوں پر احتجاج نہيں کيا اور نہ ہی عام زندگی ميں خلل پيدا کيا ہے۔ مہاراشٹرا ميں تعليمی تحفظات کو ہائی کورٹ کی جانب سے دستوری طور پر جائز قرار ديا گيا ليکن بی جے پی حکومت نے اسے ختم کر ديا۔ اس کے باوجود ہريانہ ميں جاٹوں اور مہاراشٹرا ميں مراٹھوں کی جانب سے کيے گئے احتجاج کی طرح مسلمانوں نے احتجاج نہيں کيا۔ اسی طرح بابری مسجد مقدمہ ميں فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آيا ليکن انہوں نے سپريم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی احتجاج نہيں کيا جيسا کہ سبری ملا کے کيس ميں ہوا ہے۔ دستورِ ہند کی روح بھائی چارگی، مساوات اور انصاف ہے۔ مذہب کی صراحت اور اسے شہريت سے جوڑ دينے کی وجہ سے يہ روح مجروح ہوتی ہے۔ مسلم طبقہ اسے ملک کے دستوری ڈھانچہ پر راست حملے کے طور پر ديکھ رہا ہے جس کے دُور رس اثرات پڑسکتے ہيں۔ فی الحال يہ قانون آسام اين آر سی ميں شامل ہونے سے رہ جانے والے 5 لاکھ مسلمانوں کے خلاف مذہب کی بنياد پر امتياز کا سبب بن رہا ہے۔ وزير داخلہ نے کرونالوجی کی وضاحت کی ہے کہ پہلے سی اے اے آئے گا اور اس کے بعد اين آر سی۔ اگر اسے ہونے ديا جائے تو تمام کمزور و پسماندہ طبقات سب سے زيادہ متاثر ہوں گے اور يہ ايس ٹی، وی جے، اين ٹی، ايس سی اور او بی سی اور اقليتوں کے ليے ہراسانی کا باعث ہوگا نيز ہر ايک کو اين آر سی ميں اپنا رجسٹريشن کرانا ہوگا اور يہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اسی پر ہوگی کہ وہ غير ملکی نہيں ہے۔ يہ عمل ايک زبردست انسانی بحران کا سبب بنے گا۔ اسی ليے مسلمان دستور کے تحفظ کے ليے سی اے اے کی مخالفت کر رہے ہيں۔
سی اے اے صرف شہريت ديتا ہے اور کسی سے شہريت ليتا نہيں ہے تو پھر اس قدر شور و ہنگامہ کيوں ہے؟
جواب:سی اے اے ايک آزاد دفعہ نہيں ہے بلکہ يہ موجودہ قانون شہريت ميں ايک ترميم ہے۔ يہی قانون اين آر سی کے ليے دفعات پر مشتمل ہے، وزير داخلہ نے پارليمنٹ ميں بيان ديا ہے کہ کرونولوجی يہ ہے کہ پہلے سی اے اے آئے گا اور پھر اين آر سی آئے گا۔ اگران کی بات پر يقين کيا جائے تو سی اے اے مخصوص مذہب کے غير قانونی مہاجروں کو کسی دستاويز کے بغير شہريت دے گا اور باقی ہندوستانی شہريوں کو جو نسل در نسل ہندوستان ميں رہتے آئے ہيں اپنی شہريت ثابت کرنے کی غرض سے دستاويزات دکھانے کے ليے قطاروں ميں ٹھہرنے پر مجبور کيا جائے گا۔ آسام کے 14 لاکھ غير قانونی مہاجروں کو صرف مذہب کی بنياد پر اس بات کو ملحوظ رکھے بغير شہريت دی جائے گی کہ اس اقدام کے قومی سلامتی پر کيا اثرات مرتب ہوں گے۔ نيز يہ قانون 2004 تا 2014 کے درميان اور اس کے بعد ان مہاجروں کے ہاں پيدا ہونے والے بچوں کے ساتھ مذہب کی بنياد پر امتياز کرے گا۔
چونکہ سی اے اے ستم رسيدہ اقليتوں کو انصاف دينے کے ليے لايا گيا ہے تو کيا ہندوستانی اقليتوں کے ليے اس کی مخالفت کرنا غير اخلاقی ہے؟
جواب:سی اے اے ميں کہيں بھی لفظ ’’ستم رسيدہ‘‘ ( Persecution) کا مطلب نہيں بيان کيا گيا ہے نہ ہی کوئی ڈاٹا دستياب ہے اور نہ ہی مذکورہ ممالک ميں اقليتوں پر مظالم کے تعلق سے بين الاقوامی عدالت ميں کوئی مقدمات درج ہيں۔ سری لنکا ميں ٹامل ہندوؤں اور ميانمار ميں روہنگيا ہندوؤں پر مظالم ثابت شدہ ہيں ليکن مشکوک طور پر کسی وجہ کے بغير انہيں باہر رکھا گيا ہے۔ اسی طرح احمديہ طبقہ اور ہندوستانی نژاد شيعوں کو بھی اس سے باہر رکھا گيا ہے جو پاکستان ميں سب سے زيادہ ستائی جانے والی اقليت ہيں۔