’سیکھو اور کماؤ‘ ا سکیم ۔پڑھائی تو ہوئی لیکن کمائینہیں
ٹریننگ حاصل کر چکے کئی نوجوان اب بھی بے روزگار
دعوت دلی بیورو
مرکزی حکومت کی اہم اسکیموں میں ایک ’سیکھو اور کماؤ‘ اسکیم بھی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد اقلیتی نوجوانوں کو تربیت دے کر انہیں روزگار حاصل کرنے کے لائق بنانا تھا، بے روزگار نوجوانوں کو تربیت دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا تھا مگر حقیقت میں نہ تو کسی ایکسپرٹ کے ذریعہ ٹریننگ کا انتظام کیا گیا نہ ہی کوئی مواقع فراہم کیے گئے لیکن سرکاری کاغذوں میں یہ اسکیم کافی بہترین طریقے سے چل رہی ہے۔ اس کے لیے اچھے خاصے بجٹ کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور فنڈس بھی پوری ایمانداری کے ساتھ جاری کیے گیے ہیں۔ اس اسکیم سے وابستہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ حکومت کی یہ اسکیم شاندار طریقہ سے صرف کاغذوں پر چلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کو حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت ملے اہم دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کا رویہ اس اسکیم کے ساتھ اقلیتوں کے لیے چلائی جا رہی اسکیموں سے کافی بہتر رہا ہے۔ کچھ سال تک تو ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ حکومت نے اس اسکیم کے لیے جتنا بجٹ رکھا تھا اس سے کئی گنا زیادہ رقم جاری کی گئی اور شروع کے تین سال ایسا بھی ہوا کہ جتنی رقم اس اسکیم کے لیے جاری کی گئی اس سے بھی زیادہ رقم اس اسکیم پر خرچ بھی ہوئی۔ اس سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس اسکیم کے ذریعہ مرکزی حکومت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو تربیت دے کر انہیں روزگار مہییا کرانے کے لیے کتنی فکرمند رہی۔ یہ جان کر آپ کو حیرانی ہو گی کہ اس بار کے بجٹ میں جہاں تمام اسکیموں کے بجٹ کو کم کیا گیا وہیں یہی ایک ایسی اسکیم ہے جس کے بجٹ میں حکومت نے اضافہ کیا ہے۔
آر ٹی آئی کے دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2020-21 میں’سیکھو اور کماؤ‘ اسکیم کے لیے 250 کروڑ روپے کا بجٹ طے کیا گیا تھا اور 190 کروڑ روپے جاری بھی کیےگیے تھے۔ اگر خرچ کی بات کی جائے تو آر ٹی آئی سے حاصل شدہ دستاویزات کے مطابق 31 دسمبر 2020 تک مرکزی حکومت نے اس اسکیم پر 116کروڑ 83 ہزار روپے خرچ بھی کر دیے ہیں۔
سال 2018-19 میں اس اسکیم کے لیے 250 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا 250 کروڑ روپے جاری کیے گیے اور 175کروڑ 52 ہزار روپے خرچ بھی کیے گئے۔ یہی معاملہ سال 2019-20 کا بھی ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 250 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 250 کروڑ روپے جاری بھی کیےگیے اور 175کروڑ 75 لاکھ روپے خرچ بھی کر دیے گئے۔
2015-16 کا معاملہ قدرے بہتر تھا۔ اس سال اس اسکیم کے لیے محض 64.45 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن جاری 176.96 کروڑ روپے کیے گئے اور خرچ کی باری تو حکومت نے اس اسکیم پر 191.96 کروڑ روپے خرچ کیے۔ واضح رہے کہ سال 2014 میں اقتدار میں آئی نریندر مودی کی حکومت اس اسکیم کو لے کر کافی مہربان نظر آئی۔ اس کے آتے ہی سال 2014-15 میں اس اسکیم کا بجٹ بڑھا کر 35 کروڑ روپے کر دیا گیا اور جب ریلیز کرنے کی باری آئی تو حکومت اور بھی زیادہ مہربان ہوئی اور 46.23 کروڑ روپے ریلیز کیے گئے اور خرچ بھی دل کھول کر کیا گیا۔ اس سال پورے 46.21 کروڑ روپے اس اسکیم پر خرچ ہوئے۔ اس بار یعنی سال 2021-22 کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے بڑھا کر 276 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس اسکیم کا آغاز یو پی اے حکومت نے 23 ستمبر 2013 کو کیا تھا۔ اس اسکیم کا اصل مقصد اقلیتی طبقے سے منسلک موجودہ مزدوروں، ڈراپ اوٹ طلبہ و طالبات میں روزگار قابلیت پیدا کرنے اور ان کے لیے روزگار کو یقینی بنانا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس اسکیم کا مقصد اقلیتی برادریوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر بازار سے رابطہ بنانا ہے۔ یہ اسکیم 14 سے 35 سال تک کے نوجوانوں کے لیے ہے۔ اس اسکیم کے تحت 33 فیصد سیٹیں خاتون امیدوار کے لیے مختص ہے۔
دراصل ’نئی منزل‘ اور دیگر اسکیموں کی طرح یہ اسکیم بھی حکومت ’پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنی‘ کے تربیتی مراکز (ٹریننگ سنٹر) کی مدد سے چلاتی ہے۔ ان پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنیوں کو کم از کم 75 فیصد ٹریننگ حاصل کرنے والوں کو روزگار فراہم کرنے کی ضمانت دینی ہوتی ہے اور یہ روزگار کم از کم 50 فیصد منظم شعبہ میں ہونا چاہیے۔ پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنیوں کو مابعد تقرری ٹریننگ کے لیے ایک سال کی مدت کے لیے مجاز بنایا گیا ہے۔
مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اسکیم کے شروع سے 31 دسمبر 2019 تک 3,40,743 نوجوانوں مستفید ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی سال 2013-14 سے سال 2015-16 تک کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنیوں کی طرف سے 76,437 تربیت یافتہ لوگوں کو مختلف علاقوں میں روزگار دلوایا گیا۔ سال 2015-16 کے بعد روزگار پانے والے نوجوانوں کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
یہ ہے سرکاری دعوؤں اور دستاویزوں کی کہانی۔ لیکن جب ہم اس اسکیم کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو کچھ اور ہی کہانی سامنے آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی صوبوں میں یہ اسکیم آج تک نافذ ہی نہیں ہو پائی ہے۔
ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں ریاست جھارکھنڈ کے شہر رانچی میں رہنے والے اقلیتوں سے متعلق معاملوں کے واقف کار ایس علی کہتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں آج تک یہ ’سیکھو اور کماؤ‘ اسکیم نافذ ہی نہیں ہوئی ہے۔ اب تک یہاں کے نوجوان مرکزی حکومت کی اس اسکیم سے محروم ہیں جبکہ اس اسکیم کی سب سے زیادہ ضرورت جھارکھنڈ کے نوجوانوں کو ہی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس اسکیم کے سلسلے میں ہماری تنظیم ’آل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن‘ وزارت اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی، جھارکھنڈ کے گورنر، یہاں کے سابق وزیر اعلیٰ رگھوبر داس، قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اور سکریٹری کے ساتھ بی جے پی و کانگریس کے متعدد لیڈروں سے ملاقاتیں کر ان کو تحریری طور پر اس معاملے سے واقف کرادیا ہے اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ ایس علی ’آل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن‘ کے مرکزی صدر ہیں۔
اس کے علاوہ اس اسکیم کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جن اقلیتی نوجوانوں نے اس اسکیم کے ساتھ خود کو شامل کیا تھا انہیں نہ تو ایکسپرٹ ٹریننگ نصیب ہو پائی اور نہ ہی روزگار کے موقع ہی حاصل ہوئے۔ ٹریننگ حاصل کیے ہوئے ہزاروں نوجوان آج بھی بے روزگار ہیں۔ ساتھ ہی حکومت سے ان کی نا امیدی میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ یہ حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی اور ان کے ’اچھے دن‘ کم از کم اس حکومت میں تو آنے والے نہیں ہیں… ہفت روزہ دعوت نے ایسے کئی نوجوانوں سے بات چیت کی جنہوں نے اس اسکیم کے تحت ٹریننگ لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکWیم کے تحت ٹریننگ محض ایک خانہ پری تھی۔ ہمیں سکھایا کم گیا تصویریں زیادہ لی گئیں اور ہمیں ملا بھی کچھ نہیں۔
لکھنو کے شمشیر علی کہتے ہیں کہ انہیں ڈرائیونگ پہلے سے آتی تھی پھر بھی انہوں نے 2016 میں اس اسکیم کے تحت تربیت حاصل کی لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ آج تک کوئی نوکری نہیں ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ آج تک حکومت کی جانب سے کہیں کوئی کام نہیں دلایا گیا۔
ایک پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنی میں کام کر رہے ایک صاحب نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس اسکیم کا فائدہ اقلیتی نوجوانوں سے زیادہ دیگر لوگوں کو مل رہا ہے۔ سال 2020-21 میں مارچ سے لے کر اکتوبر تک سب کچھ پوری طرح سے بند رہا، لیکن اس کے باوجود اس سال 116.83 کروڑ روپے خرچ کر دیے گئے۔ ملک میں روزگار کی جو حالت ہے، اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ یہ صاحب جس تنظیم میں کام کرتے ہیں، وہ ملک کے دو صوبوں میں ’نئی منزل‘ اسکیم کی پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجنسی ہے۔
دہلی میں رہنے والے رحمٰن بتاتے ہیں کہ سال 2016 میں اس اسکیم کے تحت دہلی میں چار سنٹرز کھولے گئے تھے جن میں ایک سنٹر کے رحمٰن کوارڈینیٹر تھے، ان سنٹروں میں لڑکیوں کو میک اپ اور لڑکوں کو بال کٹنگ کی تربیت دی جارہی تھی۔ اس تربیت کے بعد انہیں نوکری دلانا تھا، انہیں ٹریننگ تو کسی طرح مل گئی لیکن سرٹیفیکٹ یا نوکری انہیں آج تک نہیں ملی ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021