حضرت عائشہ صدیقہؓ کا زمانہ طفولیت صدیق اکبرؓ جیسے جلیل القدر باپ کے زیر سایہ بسر ہوا۔ وہ بچپن ہی سے بے حد ذہین اور ہوش مند تھیں اور اپنے بچپن کی تمام باتیں انہیں یاد تھیں۔
بچپن میں ایک دفعہ حضرت عائشہؓ گڑیوں سے کھیل رہی تھیں کہ سرور عالمؐ پاس سے گزرے۔ تبھی عائشہؓ کی گڑیوں میں ایک پردار گھوڑا بھی تھا۔ حضورؐ نے پوچھا:’’عائشہ یہ کیا ہے؟‘‘ جواب دیا ۔ ’’گھوڑا ہے‘‘۔ حضورؐ فرمایا گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے۔ انہوں نے بے ساختہ کہا ’’کیوں یا رسول اللہ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔‘‘ حضورؐ نے یہ جواب سن کر تبسم فرمایا۔
امام بخاریؒ کا بیان ہے کہ جب آیت
بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ
(القمر:۴۶) مکہ میں نازل ہوئی تو اس وقت حضرت عائشہؓ کھیل کود میں مشغول تھیں۔
حضورؐ سے پہلے حضرت عائشہؓ کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے ہوئی مگر جبیر نے اپنی ماں کے ایمان پر یہ نسبت اس لیے فسخ کردی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کے اہل خاندان مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیمؓ کی تحریک پر حضورؐنے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضرت عائشہؓ کے لیے پیغام بھیجا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ رسول کریمﷺ کے منہ بولے بھائی تھے۔ تعجب سے پوچھا: ’’کیا بھائی کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے؟‘‘ خولہؓ نے حضورؐ سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا :ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور ایسے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے‘‘۔ جناب صدیق اکبرؓ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی کون سی بات تھی کہ ان کی بیٹی رحمۃ للعٰلمین کے نکاح میں آئے۔ فوراً راضی ہوگئے۔ چناں چہ چھ سال کی عمر میں حضرت عائشہؓ ہجرت سے تین سال قبل ماہ شوال میں رسول کریمؐ کے حبالہ نکاح میں آگئیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خود نکاح پڑھایا۔ پانچ صد درہم حق مہر مقرر ہوا۔
حضرت عائشہؓ سے نکاح کی بشارت حضورؐ کو خواب میں ہوچکی تھی۔ آپؐ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ریشم میں لپٹی ہوئی کوئی چیز آپ کو دکھا رہا ہے اور کہتا ہے ’’یہ آپ کی ہے‘‘۔ آپؐ نے کھولا تو حضرت عائشہ تھیں۔
۳ھ میں غزوہ احد پیش آیا۔ جب ایک اتفاقی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور حضورؐ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو مدینہ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت صفیہؓ، سیدۃ النسا فاطمہ الزہراؓ اور دوسری خواتین اسلام دیوانہ وار میدان جنگ کی طرف لپکیں۔ وہاں پہنچ کر حضورؐ کو سلامت دیکھا تو سجدہ شکر بجالائیں۔ ان سب نے مل کر حضورؐ کے زخموں کو دھویا اور پھر مشکیزے سنبھال کر زخمیوں کو پانی پلانا شروع کیا۔ جب دوسرے صحابہ کرامؓ جو ادھر ادھر منتشر تھے حضورؐ کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے تو مدینہ واپس تشریف لائیں۔
امام احمد بن حنبلؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ غزوہ خندق میں بھی قلعہ سے باہر نکل کر نقشہ جنگ دیکھا کرتی تھیں۔ حضورؐ نے دوسری لڑائیوں میں بھی شریک ہونے کی اجازت چاہی تھی لیکن نہ ملی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ وہ راتوں کو اٹھ کر قبرستان چلی جاتی تھیں۔ ان روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین فطری طور پر نہایت دلیراور نڈر تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حیات مبارکہ کے چار واقعات بے حد اہم ہیں۔ افک، ایلا، تحریک اور تخبیر۔
(۱) افک کا واقعہ یوں پیش آیا کہ غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں حضرت عائشہؓ حضور کے ہم راہ تھیں۔ راستے میں ایک جگہ رات کے قافلے نے قیام کیا۔ حضرت عائشہؓ رفع حاجت کے لیے پڑاو سے دور نکل گئیں، وہاں ان کے گلے کا ہار جو وہ اپنی بہن حضرت اسماؓ سے مانگ کر لائی تھیں، بے خبری کے عالم میں گرگیا۔ واپسی پر پتہ چلا تو بہت مضطرب ہوئیں، پھر اسی سمت واپس لوٹیں ۔ خیال کیا کہ قافلے کے چلنے سے پہلے ہار ڈھونڈ کر واپس پہنچ جائیں گی ۔ جب ہار ڈھونڈ کر واپس پہنچیں تو قافلہ روانہ ہوچکا تھا، بہت گھبرائیں، ناتجربہ کاری کی عمر تھی۔ چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئیں۔ حضرت صفوان بن معطلؓ کسی انتظامی ضرورت کے سلسلے میں قافلے سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو پہچان لیا کیوں کہ بچپن میں (یا نزول حجاب سے پہلے ) انہیں دیکھا ہوا تھا، ان سے پیچھے رہ جانے کا سبب پوچھا۔ جب واقعہ معلوم ہوا تو بہت ہم دردی کی پھر ام المومنین کو اونٹ پر بٹھا کر عجلت سے قافلے کی طرف روانہ ہوئے اور دوپہر کے وقت قافلے میں جاملے۔ مشہور منافق عبداللہ بن ابی کو جب اس واقعہ کا پتہ چلا تو اس نے حضرت صدیقہؓ کے متعلق مشہور کردیا کہ وہ اب با عصمت نہیں رہیں۔ چند سادہ لوح مسلمان بھی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ جناب رسالت مآبؐ کو بھی قدرتاً تشویش پیدا ہوئی اور حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی نا حق کی بدنامی کے صدمے سے بیمار ہوگئیں۔ اس وقت غیرت الٰہی جوش میں آئی اور آیت برات نازل ہوئی۔
لَّوْلَآ اِذْ سَـمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُـوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنْفُسِهِـمْ خَيْـرًا وَّقَالُوْا هٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ (12)
جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور عورتوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح تہمت ہے‘‘۔
آیت برات کے نزول سے دشمنوں کے منہ سیاہ ہوگئے اور سادہ لوح مسلمان جو غلط فہمی کا شکار تھے سخت شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے نہایت عاجزی سے اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے معافی مانگی۔ حضرت عائشہؓ اور ان کے والدین کو قدرتاً بے حد مسرت ہوئی، عائشہ صدیقہؓ کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا میں صرف اپنے اللہ کی شکر گزاروں ہور اور کسی کی ممنون نہیں۔
جب حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ازدواجی زندگی کے نو برس گزر گئے تو آقائے دو جہاںؐ رض وفات میں مبتلا ہوئے۔ حضورؐ تیرہ دن علیل رہے۔ ان تیرہ دنوں میں پانچ دن دیگر ازواج کے ہاں قیام فرمایا اور آٹھ دن حضرت عائشہؓ کے ہاں رہے۔ شدت مرض کی کم زوری کی وجہ سے حضورؓ اپنی مسواک حضرت عائشہؓ کو دیتے وہ اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کرتیں اور پھر حضورؐ استعمال فرماتے۔
۹ یا ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ کو سرور کونین ﷺ کی روح اطہر نے عالم قدس کی طرف پرواز کی۔ اس وقت حضورؐ ا سر مبارک حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سینے پر رکھا ہوا تھا۔ اور پھر انہیں کے حجرہ مبارک کو حضورؐ کی ابدی آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔
رحلت نبی اکرمﷺ کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر ۱۸ سال کی تھی۔ ۴۸ برس انہوں نے عالم بیوگی میں بسر کی۔ اس تمام عرصے میں وہ تمام عالم اسلام کے لیے رشد و ہدایت ، علم و فضل اور خیر و برکت کا ایک عظیم مرکز بنی رہیں۔ ان سے ۲۲۱۰ (دو ہزار دو دس) حدیثیں مروی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھا حصہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ہر قسم کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو کوئی مشکل ایسی پیش نہ آئی۔ جس کا علم حضرت عائشہؓ کے پاس نہ ہو۔ یعنی ہر مسئلے کے متعلق انہیں سرور کائنات ﷺ کا اسوہ معلوم تھا۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے کہ میں نے قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ اور علم الانساب میں ام المومنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ احنف نب قیسؓ اور موسیٰ بن طلحہؓ کا قول ہے کہ حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔
بقیہ سلسلہ ——-
حضرت معاویہؓ کا قول ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے زیادہ بلیغ ، زیادہ فصحیح اور زیادہ تیز فہم کوئی خطیب نہیں دیکھا۔
کتب سیر میں متعدد روایتیں ملتی ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو دینی علوم کے علاوہ طب ، تاریخ اور شعر و ادب میں بھی دست گاہ حاصل تھی۔
فی الحقیقت حضرت عائشہ صدیقہؓ کا پایہ علم و فضل اتنا بلند تھا کہ اس کو بیان کرنے کے لیے سیکڑوں صفحات درکار ہیں۔ یہاں ہم اسی قدر لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ بہت سے اہل سیر کے نزدیک علمی کمالات، دینی خدمات اور سرور عالم ﷺ کی تعلیمات و ارشادات کے نشرو اشاعت کے اعتبار سے صدیقہ کبریؓ کا کوئی حریف نہیں ہوسکتا۔ اگر انہیں ’’محسنہ امت‘‘ کہا جائے تو اس میں مطلق کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
بعض مخصوص فضائل میں حضرت عائشہ صدیقہؓ ، تمام صحابہؓ و صحابیاتؓ میں امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ بہ روایت قاسم بن محمدؒ حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ دس اوصاف مجھ میں ایسے ہیں، جن میں دوسری ازواج مطہراتؓ میں سے کوئی میری شریک نہیں۔
(۱) صرف میں ہی کنوارپن میں حضورؐ کے نکاح میں آئی۔
(۲) جبریل امینؑ میری شکل میں حضورؐ سے ملے اور کہا کہ عائشہ سے شادی کرلیجیے۔
(۳) اللہ تعالیٰ نے میرے لیے آیت برات نازل فرمائی۔
(۴) میرے ماں باپ دونوں مہاجر ہیں۔
(۵) میں حضورؐ کے سامنے ہوتی اور حضورؐ نماز میں مصروف ہوتے تھے۔
(۶) میں اور رسولؐ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔
(۷) نزول وحی کے وقت صرف میں آپؐ کے پاس ہوتی تھی
(۸) جس دن میری باری تھی اسی دن رسولؐ نے رحلت فرمائی۔
(۹) جب سرور کائناتؐ کی روح پاک نے عالم قدس کی طرف پرواز کی تو حضورؓ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔
(۱۰) میرے ہی حجرہ کو رحمۃ للعالمینؐ کا مدفن بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حافظ ابن عبدالبر ؒ نے ’’استیعاب‘‘ میں حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:
’’عائشہ کو عورتوں پر ایسی فضیلت ہے، جیسے شوربے میں ملی ہوئی روٹی کو عام کھانوں پر‘‘۔
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021