رسول اللہ کی پھوپھی جن کی بہادری نے ایک بڑا خطرہ ٹال دیا تھا
غزوہ احزاب (۵ ہجری) میں سارے عرب کے مشرکین اور یہود نے متحد ہوکر مرکز اسلام پر یلغار کردی تھی اور خاص مدینہ منورہ کے اندر یہود بنو قریظہ غداری کر کے اہل حق کی جانوں کے لاگو ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی لیکن آفریں ہے اللہ کے ان پاک باز بندوں پر کہ کیا مجال کہ ایک لمحے کے لیے ان کے پائے استقامت میں لغزش آئی ہو۔ انہوں نے تو اپنی جانیں اور مال راہ حق میں بیع کردیے تھے اور زندگی کی آخری سانس تک کفر وشرک کے طوفانوں سے ٹکرانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ تاہم عورتوں اور بچوں کو گھر کے دشمنوں، یہود بنو قریظہ کی دست درازی اور شر سے بچانا ضروری تھا۔ چناں چہ رحمت عالمﷺ نے تمام مسلمان خواتین اور بچوں کو بہ نظر احتیاط انصار کے ایک قلعہ میں منتقل کردیا اور حضرت حسان بن ثابتؓ کو ان کی نگرانی پر مامور فرما دیا۔ قلعہ اگرچہ خاصا مضبوط تھا لیکن پھر بھی یہ انتظام خطرے سے یکسر خالی نہ تھا۔ سرور عالمﷺ اپنے تمام جاں نثاروں کے ہم راہ جہاد میں مشغول تھے اور بنو قریظہ کے محلے اور اس قلعے کے درمیان کوئی فوجی دستہ موجود نہ تھا۔ انہی پر آشوب ایام میں ایک دن ایک یہودی اس طرف آنکلا اور قلعے میں موجود لوگوں کی سن گن لینے لگا۔ حسن اتفاق سے ایک بوڑھی لیکن صحت مند خاتو ن نے اس یہودی کو دیکھ لیا، وہ اپنی خدا داد فراست سے سمجھ گئیں کہ یہ شخص جاسوس ہے، اگر اس نے بنو قریظہ کے شریر النفس لوگوں کو جاکر بتا دیا کہ قلعے میں صرف عورتیں اور بچے ہیں تو ہو سکتا ہے وہ میدان خالی دیکھ کر قلعے پر حملہ کر دیں۔ چناں چہ انہوں نے نگران قلعہ حضرت حسانؓ سے کہا کہ باہر نکل کر اس یہودی کو قتل کر دیں۔
حضرت حسانؓ نے عذر کیا۔ اس کا سبب اہل سیر کے نزدیک ان کی جسمانی یا قلبی کم زوری تھی، جو کسی مرض میں مبتلا رہنے کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے اس موقع پر یہ جواب دیا :
’’میں اس یہودی سے لڑنے کے قابل ہوتا تو اس وقت رسول اللہ کے ساتھ نہ ہوتا؟‘‘
وہ خاتون حضرت حسانؓ کا جواب سن کر فوراً اٹھیں، خیمے کی ایک چوپ اکھاڑی قلعے سے باہر آئیں اور اس یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حافظ ابن حجرؓ نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ یہودی قتل کرنے کے بعد انہوں نے خود ہی اس کا سر کاٹ کر قلعے سے نیچے پھینک دیا۔ یہود بن قریظہ کو کٹا ہوا سر دیکھ کر یقین ہوگیا کہ قلعے کے اندر بھی مسلمانوں کی فوج موجود ہے۔ چناں چہ انہیں قلعے پر حملہ کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ علامہ ابن اثیر جرزیؒ کا بیان ہے کہ پھر اس خاتون نے حضرت حسانؓ سے کہا : ’’اب جاکر مقتول یہودی کا سامان اتارلو‘‘۔ وہ بولے: ’’مجھے اس کی خواہش نہیں‘‘۔ ابن اثیر ؒ کہتے ہیں کہ یہ پہلی بہادری تھی، جو ایک مسلمان عورت سے ظاہر ہوئی۔ چناں چہ رسول اکرمﷺ نے انہیں مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔
یہ شیر دل خاتون جن کی شجاعت اور بے خوفی نے ایک بڑا خطرہ ٹال دیا اور تمام مسلمان عورتوں اور بچوں کو یہودیوں کے ست ستم سے بچالیا بنو ہاشم کی چشم و چراغ نبی ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں:
حضرت صفیہ بنت عبدالمطلبؓ کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے ۔ وہ ہالہ بنت وہیب (یا اہیب) بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ کے بطن سے تھیں۔ جو سرور عالمﷺ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب بن عبد مناف کی چچا زاد بہن تھیں۔ اس رشتے سے وہ حضورؐکی خالہ زاد بہن بھی ہوتی تھیں۔ شیر خدا حضرت حمزہؓ شہید احد ان کے حقیقی بھائی تھے۔
سرور عالم ﷺ کے والد ماجد عبداللہ۔ عبدالمطلب کی ایک دوسری بیوی فاطمہ بنت عمرو کے بطن سے تھے، اس رشتے سے حضرت صفیہ حضور کی پھوپھی تھیں، اس لیے انہیں عمۃ النبی کہا جاتا ہے۔ وہ قریب قریب حضورؐکی ہم سن تھیں۔ حضرت صفیہؓ کا پہلا نکاح حارث بن حرب اموی سے ہوا، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، اس کے انتقال کے بعد عوام بن خویلد قرشی الاسدی کے عقد نکاح میں آئیں۔ جو ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے بھائی تھے۔ حواری رسول ؐ حضرت زبیرؓ انہی عوام سے پیدا ہوئے۔ حضرت زبیرؓ ابھی کم سن ہی تھے کے سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔ اس وقت حضرت صفیہؓ بالکل جوان تھیں، لیکن اس کے بعد انہوں نے ساری زندگی بیوگی کے عالم میں کاٹ دی۔ رحمت عالمﷺ مبعوث ہوئے اور لوگوں کو حق کی طرف بلانا شروع کیا تو حضرت صفیہؓ نے بلاتامل اسلام قبول کرلیا۔ ان کے ساتھ ہی ان کے سولہ سالہ فرزند حضرت زبیر بھی حلقہ بہ گوش اسلام ہوگئے۔
حضرت صفیہؓ نے زبیرؓ کی تربیت نہایت عمدہ طریقے سے کی، ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹابڑا ہوکر ایک نڈر اور بہادر سپاہی بنے۔ چناں چہ وہ حضرت زبیرؓ سے سخت محنت و مشقت کا کام لیتیں اور وقتاً فوقتاً زجر و توبیخ اور زدوکوب سے بھی گریز نہ کرتیں۔ حضرت زبیرؓ کے چچا نوفل بن خویلد ایک دن بھتیجے کو ماں کے ہاتھوں پٹتے دیکھ کر بے تاب ہوگئے اور حضرت صفیہؓکو سختی سے ڈانٹا کے اس طرح تو تم بچے کو مار ڈالو گی۔ نوفل نے بنو ہاشم اور اپنے قبیلے کے بعض دوسرے لوگوں سے بھی کہا کہ وہ صفیہ کو بچے پر سختی کرنے سے روکیں۔ جب ان کی سخت گیری کا چرچا عام ہوا تو انہوں نے لوگوں کے سامنے یہ رجز پڑھا
’’جس نے یہ کہا کہ میں اس (زبیرؓ) سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا میں اس کو اس لیے پیٹتی ہوں کہ عقل مند ہو‘‘
اور فوج کو شکست دے اور مال غینمت حاصل کرے‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت زبیرؓ کو لڑکپن میں ایک جوان اور قومی آدمی سے مقابلہ پیش آگیا۔ انہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے حضرت صفیہؓ سے شکایت کی تو انہوں نے معذرت کرنے کی بجائے لوگوں سے سوال کیا: ’’تم نے زبیر کو کیسا پایا بہادر یا بزدل‘‘
غرض ماں کی تربیت کا یہ اثر ہوا کہ حضرت زبیرؓ بڑے ہوکر ایک دلاور صف شکن اور ضیغم شجاعت بنے۔ مبدا فیض نے حضرت زبیرؓ کو یوں بھی فطرت سعید سے نوازا تھا، ماں کی تربیت نے ان کی خوبیوں کو اور بھی چمکادیا اور ان کے دل میں اسلام اور داعی اسلامؐ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ۔ رحمت عالمﷺ سے حضرت زبیرؓ کی والہانہ شیفتگی کا عجیب عالم تھا۔ بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن جب یہ افواہ سنی کہ حضورؐ کو نصیب دشمناں مشرکین نے گرفتار کرلیا ہے یا شہید کردیا ہے تو ایسے بے قرار ہوئے کہ آو دیکھا نہ تاو تلوار سونت کر برق رفتاری سے دربار نبویؐپر پہنچے۔حضورؐکو وہاں بہ خیریت موجود پایا تو جان میں جان آئی اور چہرہ فرط بشاشت سے گلنار ہوگیا ۔ حضورؐنے ان کی شمشیر برہنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’زبیر یہ ہے؟‘‘
عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐمیرے ماں باپ آپؐپر قربان ، میں نے سنا تھا، آپ کودشمنوں نے گرفتار کرلیا ہے یا شاید آپ شہید کردیے گئے ہیں۔‘‘
حضورؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا :’’اگر واقعی ایسا ہوجاتا تو تم کیا کرتے؟‘‘
حضرت زبیرؓ نے بے ساختہ عرض کیا: ’’یارسول اللہ ؐخدا کی قسم میں اہل مکہ سے لڑ مرتا‘‘
۵ بعثت میں حضرت صفیہؓ کو اپنے محبوب لخت جگر کی عارضی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا قبول اسلام کے بعد دوسرے مسلمانوں کی طرح زبیرؓ بھی کفار کے جور وستم کا ہدف بن گئے تھے، بالخصوص ان کا چچا نوفل بن خویلد ان پر بڑا ظلم و ستم ڈھاتا تھا۔ چناں چہ حضورؐ کے ایما پر پندرہ بلا کشان اسلام کا ایک قافلہ رجب ۵ ھ میں حبش کی طرف ہجرت کرگیا، اس میں حضرت زبیرؓ بھی شامل تھے۔ ماں پر ان کی جدائی سخت شاق تھی، لیکن حضورؐکے ایما اور بیٹے کی سلامتی کے خیال سے انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ فرزند عزیز کو کوسوں دور روانہ کردیا۔ ان مہاجرین راہ حق کو حبش میں ابھی تین ہی مہینے گزرے تھے کہ انہوں نے ایک دل خوش کن خبر سنی۔ یہ کہ مشرکین مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے یا (ایک دوسری روایت کے مطابق) یہ کہ رسول اکرمؐاور کفار کے درمیان مصالحت ہوگئی ہے۔ چناں چہ شوال ۵ھ بعد بعثت میں سب (یا ان میں سے اکثر) مہاجرین مکے واپس آگئے۔ ان میں حضرت زبیرؓ بھی تھے۔ جب وہ مکے کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر بالکل غلط تھی، چناں چہ واپس آنے والے سبھی حضرات قریش کے کسی نہ کسی سردار کی پناہ حاصل کرکے مکے میں داخل ہوئے۔ علامہ بلا ذریؓ کا بیان ہے کہ حضرت زبیر بن العوامؓ نے زمعہ بن الاسود کی پناہ حاصل کی۔ حضرت صفیہؓ اپنے لخت جگر سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور ان کے یوں اچانک بہ خیریت واپس آجانے پر سجدہ شکر بجا لائیں۔ مکے میں کچھ عرصے قیام کے بعد حصرت زبیر ؓ نے تجارت کا شغل اختیار کرلیا اور تجارتی قافلوں کے ساتھ شام آنے جانے لگے۔ اسی زمانے میں حضرت صفیہ ؓ نے حضرت زبیر ؓ کی شادی حضرت اسما بنت ابوبکر صدیقؓ سے کردی یوں وہ صدیق اکبرؓ کی سمدھن بن گئیں۔
رحمت عالم ﷺ حضرت صفیہ ؓ کے بھتیجے، خالہ زاد بھائی اور شوہر کے بہنوئی تھے۔ بچپن میں انہوں نے حضورؐکے ساتھ ایک ہی گھر میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے انہیں حضور ؐسے غیر معمولی محبت تھی۔ سرور عالمؐکو بھی ان سے بڑا تعلق خاطر تھا اور آپؐؐان کے فرزند حضرت زبیرؓ کو اکثر ’’ابن صفیہؓ ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ۱۱ ھ میں حضور ؐنے رحلت فرمائی تو حضرت صفیہؓ پر کوہ الم ٹوٹ پڑا۔ اس موقع پر انہوں نے جو دردناک مرثیہ کہا اس کے چند اشعار یہ ہیں:
یا رسول اللہؐآپ ہماری امیدتھے
آپ ہمارے محسن تھے، ظالم نہ تھے
آپ رحیم تھے ، ہدایت کرنے والے اور تعلیم دینے والے تھے
آج ہر رونے والے کو آپؐپر رونا چاہیے
رسول اللہ پر میری ماں، خالہ، چچا اور ماموں قربان ہوں
پھر میں خود اور میرا مال بھی
کاش اللہ ہمارے آقاؐکو ہمارے درمیان رکھتا
تو ہم کیسے خوش قسمت تھے
لیکن حکم الہی اٹل ہے
آپؐ پر اللہ کا سلام ہو اور آپ جنات عدن میں داخل ہوں
ایک اور مرثیہ کا مطلع ہے ؎
’’اے آنکھ رسول اللہ کی وفات پر خوب آنسو بہا‘‘
حضرت صفیہؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۳ برس کی تھی۔ آخری آرام گاہ قبرستان بقیع میں ہے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022