شجاعت و استقامت کی ایمان افروز داستان کا ایک درخشاں کردار
یتیمی میں حضورؐ کی پرورش کا اعزاز۔قدیم الاسلام ہونے اور اور دو ہجرتوں کا شرف
جناب رسالت مآب ﷺ رحمۃ للعالمین تھے۔ آپؐ عرب کی اسلامی مملکت کے سربراہ بھی تھے اور خیر الخلائق بھی۔ حضورؐ کا سحاب جود و کرم خلق خدا پر مسلسل برستا رہتا تھا۔ کوئی سائل آپ کے درپر آئے اور خالی ہاتھ پلٹ جائے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ بے کس اور نادار آتے تھے اور بے احتیاج ہوکر لوٹتے تھے۔ ایک دن گہرے سانولے رنگ کی ایک خاتون، جن کے چہرے پر کچھ عجیب قسم کا جلال اور رونق تھی، بڑے وقار کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں۔ انہیں دیکھتے ہی حضور ؐ ’’امی امی‘‘ فرماتے ہوئے تعظیماً کھڑے ہوگئے اور بڑی عزت اور احترام کے ساتھ انہیں بٹھایا، پھر آپؐ نے ان سے پوچھا ’’امی آج کیسے تکلیف فرمائی‘‘۔
خاتون: یا رسول اللہ، آج کل ہمارے ہاں سواری کا کوئی جانور نہیں ہے۔ نہ گدھا نہ اونٹ، کبھی دور کا سفر پیش آجائے تو بڑی دشواری ہوتی ہے۔
رسول اکرمؐ : (متبسم ہوکر) اچھا تو اونٹ کا ایک بچہ حاضر کیے دیتا ہوں۔
خاتون: اے ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اونٹ کے بچے کو میں کیا کروں گی، مجھے تو اونٹ چاہیے اونٹ۔
رسول اکرمؐ : میں تو آپ کو اونٹ کا بچہ ہی دوں گا۔
خاتون: اونٹ کا بچہ بھلا میرے کس کام کا ہوگا؟ وہ تو میرا بوجھ بھی نہیں سہار سکے گا۔ مجھے تو اونٹ عطا فرمائیے۔
رسول اکرمؐ : ’’آپ کو اونٹ کا بچہ ہی ملے گا اور میں اسی پر آپ کو سوار کراوں گا‘‘
یہ فرماکر حضورؐ نے ایک خادم کو اشارہ فرمایا۔ وہ تھوڑی دیر میں ایک جوان فربہ اونٹ لے آئے اور اس کی مہار سائل خاتون کو تھمادی۔
حضورؐ نے فرمایا، ’’امی ذرا دیکھیے تو، یہ اونٹ ہی کا بچہ ہے یا کچھ اور‘‘
اب وہ خاتون حضورؐ کے لطیف مزاح کی تہہ تک پہنچیں، بے اختیار ہنس پڑیں اور دعائیں دینے لگیں۔ حاضرین مجلس بھی شگفتہ ہوگئے۔ یہ خاتون جن کی حضورؐ اس قدر تعظیم فرماتے تھے اور کبھی کبھار ان سے اس قسم کا پاکیزہ مزاح بھی فرمالیتے تھے۔ حضرت امن ایمنؓ تھیں۔
حضرت ام ایمنؓ کا نام برکتہ تھا اور عرف ام الظبا۔ والد کا نام ثعلبہ بن عمرو تھا جو حبش کے رہنے والے تھے۔ وہ مکے میں کب اور کیسے پہنچیں مورخین نے اس کے بارے میں تصریح نہیں کی، البتہ یہ بات ثابت ہے کہ وہ رسول اکرمﷺ کی ولادت سے پہلے سن شعور کو پہنچ چکی تھیں اور بچپن سے حضورؐ کے والد ماجد حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کے پاس کنیز کے طور پر رہتی تھیں۔ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائی تو وہ حضورؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی خدمت کرنے لگیں۔ سرور عالمؐ کی ولادت با سعادت کے وقت حضرت آمنہ کی خبر گیری اور خدمت پر وہی مامور تھیں۔ حضورؐ نے پانچ یا چھ برس تک حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے ہاں پرورش پائی۔ اس کے بعد حضرت حلیمہؓ نے آپ کو اپنی والدہ ماجد کے سپرد کردیا۔ کچھ عرصے بعد حضرت آمنہ حضورؐ اور حضرت ام ایمنؓ کے ہم راہ یثرب (مدینہ منورہ) تشریف لے گئیں۔ گویا سرزمین یثرب آقائے دو جہاںؐ کے قدوم میمنت لزوم سے پہلی مرتبہ اس وقت مشرف ہوئی جب آپؐ کی عمر صرف چھ برس کی تھی۔ یثرب میں حضرت آمنہ خاندان بن نجار کے ہاں مقیم ہوئیں، جو حضورؐ کے دادا کا ننہیال تھا۔ انہوں نے یثرب میں کم و بیش ایک مہینہ قیام کیا اور پھر ننھے حضورؐ اور ام ایمنؓ کے ساتھ مکہ معظمہ کو مراجعت کی۔ جب ابوا کے مقام پر جو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے، پہنچیں تو یک بیک علیل ہوکر پیک اجل کو لبیک کہا۔ دشت غربت میں حضرت آمنہؓ کی اچانک موت سے ننھے حضورؐ اور ام ایمنؓ کو انتہائی صدمہ ہوا۔ لیکن ام ایمنؓ نے بڑے ضبط اور حوصلے سے کام لیا۔ انہوں نے کمر ہمت باندھ کر حضرت آمنہ کو وہیں سپرد خاک کیا اور حضورؐ کو انتہائی شفقت کے ساتھ اپنے ہمراہ لے کر بادیدہ گریاں مکہ مکرمہ پہنچیں جہاں عبدالمطلب نے آمنہ کے در یتیمؐ کو اپنی کفالت میں لے لیا اور ام ایمن ؓ کو حضورؐ کی پرورش اور پرداخت پر مامور کردیا۔سرور عالمﷺ جوان ہوئے تو ام ایمنؓ وراثتاً (بہ طور کنیز) حضورؐ کے حصے میں آئیں لیکن آپؐ نے انہیں آزاد کردیا۔
حضرت امن ایمنؓ کا پہلا نکاح عبید بن زید سے ہوا۔ مولانا سعید انصاری نے ’’سیر الصحابیات‘‘ میں لکھا ہے کہ عبید یثرب کے خاندان حارث بن خزرج سے تعلق رکھتے تھے لیکن ابن سعد اور ابن مندہ نے ان کا نسب نامہ اس طرح لکھا ہے:عبید بن زید بن عمر و بن بلال بن ابی الحربا بن قیس بن مالک بن سالم بن غنیم بن عوف بن خزرج۔
اس نسب نامہ کی رو سے وہ خاندان عوف بن خزرج کے فرد ٹھہرتی ہیں۔ اسے خاندانی حبلی بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حبلی سالم بن غنم کا لقب تھا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس کا پیٹ بہت بڑا تھا۔ یثرب میں یہ خاندان بہت معزز مانا جاتا تھا۔ مشہور منافق عبداللہ بن ابی اسی خاندان سے تھا۔
عبید زمانہ جاہلیت میں یثرب سے مکہ آکر مقیم ہوگئے تھے یہیں ان کا نکاح ام ایمنؓ سے ہوا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کی بعثت کے بعد وہ حضرت ام ایمنؓ کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے کیوں کہ بعض روایتوں میں ان کو صحابی اور انصاری بھی لکھا گیا ہے۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد عبید ام ایمنؓ کو ساتھ لے کر یثرب چلے گئے۔ وہیں ان کے صلب سے مشہور صحابی حضرت ایمن ؓ پیدا ہوئے۔ عبید بیٹے کی ولادت کے بعد زیادہ عرصے زندہ نہ رہے اور انہوں نے ہجرت نبوی سے کئی سال قبل یثرب میں ہی وفات پائی۔عبید کی وفات کے بعد حضورؓ نے حضرت ام ایمن کی دلجوئی فرمائی اور ایک مرتبہ مجمع میں ارشاد فرمایا ’’اگر کوئی شخص جنت کی عورت سے عقد کرنا چاہے تو وہ ام ایمنؓ سے نکاح کرے‘‘۔
حضورؐ کا ارشاد سن کر آپ کے محبوب خاص حضرت زید بن حارثہؓ نے حضرت ام ایمنؓ سے نکاح کرلیا۔ ۷ بعثت میں حضرت ام ایمن کے بطن سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے۔
سرور عالم ؐ کی بعثت کے بعد جن خوش نصیبوں کو قبول اسلام میں تقدم کی سعادت نصیب ہوئی، حضرت ام ایمنؓ بھی ان میں شامل تھیں۔ سابقین اولین کی اس مقدس جماعت کو جن زہرہ گداز مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا یہ تاریخ کا ایک اندوہناک باب بھی ہے اور عزم و استقامت کی ایک ایمان افروز داستان بھی۔ حضرت ام ایمنؓ اسی داستان کا ایک کردار تھیں۔ کفار کی ایذا رسانیوں سے وہ بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو حضورؐ نے ۵ نبوت میں مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی۔ اس سال گیارہ مردوں اور چار خواتین نے ہجرت کی۔ پھر ۶ نبوت میں ۸۳ مردوں اور ۱۸ خواتین کی ایک جماعت نے حبشہ کی غریب الوطنی اختیار کی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے مسلمان اکا دکا ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ حضرت ام ایمنؓ ایسے ہی مہاجرین میں شامل تھیں۔
سرور عالمؐ کے ایما اور اپنے شوہر (حضرت زید بن حارثہؓ) کی اجازت سے وہ بھی حبش چلی گئیں۔ اہل سیر نے ان کی ہجرت حبشہ کے زمانے کی تصریح نہیں کی لیکن قیاس غالب یہی ہے کہ وہ ۶ بعثت کے بعد حبشہ گئیں اور کئی سال تک وہیں مقیم رہیں یہاں تک کہ ہادی اکرمﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ حضرت ام ایمنؓ کو حضورؐ کی ہجرت کی اطلاع ملی تو وہ حبشہ سے مدینہ منورہ آگئیں گویا اس طرح انہیں دو ہجرتوں کا شرف حاصل ہوگیا۔ جس زمانے میں وہ مدینہ پہنچیں غزوہ بدر گزر چکا تھا۔ غزوہ احد (۳ھ) کے وقت اگرچہ وہ کافی معمر تھیں لیکن ان کے دل نے گوارا نہ کیا کہ گھر میں بیٹھی رہیں۔ چناں چہ وہ ان خواتین میں شامل ہوگئیں، جو مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں اور مریضوں کی تیمار داری کرتی تھیں۔ احد کے بعد وہ غزوہ خیبر میں شریک ہوئیں اور یہی خدمت انجام دی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے صاحبزادے ایمنؓ بھی اس جنگ میں ان کے ساتھ شریک ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑکر شہید ہوگئے۔ لیکن اکثر کتب سیر میں شہدائے خیبر کی فہرست میں حضرت ام ایمنؓ کا نام نہیں ملتا۔ البتہ ابن اسحاق نے انہیں شہدائے حنین میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ ان آٹھ صحابہ میں تھے، جو غزوہ حنین میں شروع سے اخیر تک حضورؐ کے ساتھ میدان جنگ میں جمے رہے۔ ان آٹھ میں سے صرف ایمنؓ رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ حضرت ام ایمنؓ نے ان کی شہادت پر بڑے صبر و ضبط سے کام لیا۔ اورایمنؓ کے فرزند حجاج کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ حجاج بڑے ہوکر فضلائے مدینہ میں شمار ہوئے۔ چند احادیث بھی ان سے مروی ہے۔
جنگ موتہ میں ام ایمن کے شوہر حضرت زید بن حارثہؓ نے شہادت پائی تو انہیں بہت صدمہ ہوا تاہم رحمت عالم ؐ کی سرپرستی اور دلداری نے ان کے غم کو بری حد تک ہلکا کردیا۔ ان کے فرزند حضرت اسامہ بن زیدؓ سے سرور عالم ﷺ بڑی محبت فرماتے تھے اور وہ ’’حب رسول اللہ‘‘ سے مشہور تھے۔ حضورؐ کو اپنے متعلقین میں حضرت حسن ؓ اور حسینؓ سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی ‘ لیکن آپ بعض دفعہ اس محبت میں حضرات اسامہؓ کو بھی شریک فرمالیتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضورؐ یک زانو پر حسنؓ اور دوسرے پر اسامہؓ کو بٹھاتے اور پھر فرماتے:
خدایا میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اس لیے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘
حضرت اسامہؓ سے حضورؐ کی غیر معمولی محبت دیکھ کر بعض لوگ ان سے حسد کرنے لگے اور انہوں نے مشہور کردیا کہ اسامہ زیدؓ کے صلب ہی سے نہیں (یہ جنگ موتہ سے پہلے کا واقعہ ہے) حاسدوں کی اس شر انگیزی کی زد حضرت ام ایمنؓ پر بھی پڑتی تھی۔ حضورؐ کے سمع اقدس تک یہ بات پہنچی تو آپ سخت آزردہ خاطر ہوئے۔ اسی زمانے میں اتفاق سے ایک دن عرب کا مشہور قیافہ شناس مجرز مدلجی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت اسامہ ؓ اپنے والد زیدؓ کے ساتھ سر سے پاوں تک ایک چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے۔ باپ اور بیٹے دونوں کے صرف پاوں چادر سے باہر تھے۔ حضورؐ نے مجرز سے فرمایا: ذرا بتاو تو ان پاوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟‘‘ مجرز نے پاوں پر نظر ڈالی اور عرض کی ’’یہ باپ اور بیٹا ہیں‘‘ اس کا جواب سن کر حضورؐ کو بڑی مسرت ہوئی اور حاسدین کی زبان ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی۔
۱۱ھ میں حضورؐ نے جنگ موتہ کا بدلہ لینے کے لیے ایک لشکر تیار فرمایا ، جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زیدؓ اور کئی دوسرے جلیل القدر صحابہ شامل تھے لیکن ذات رسالت مآب ﷺ نے اس لشکر کی قیادت پر نوجوان اسامہ بن زیدؓ کو مقرر فرمایا۔ اس وقت حضورؐ کی علالت کا آغاز ہوچکا تھا تاہم آپؐ نے اس لشکر کو کوچ کا حکم دیا اس نے مدینہ سے چل کر جرف کے مقام پر پڑاو ڈالا۔ اسی دوران میں حضورؐ کی علالت شدید سے شدید تر ہوگئی۔ حضرت ام ایمنؓ خاندان ہاشمی کے بہت سے مرد اور عورتوں کا وقت آخر دیکھ چکی تھیں۔ حضورؐ کی بیماری میں کچھ ایسی علامات پائیں کہ انہیں یقین ہوگیا کہ اب حضورؐ اس دارفانی سے رخصت ہورہے ہیں۔فوراً حضرت اسامہ کے پیچھے آدمی دوڑایا کہ حضور ؐ ہمیں داغ مفارقت دے رہے ہیں فوراً مدینہ آو، چناں چہ حضرت اسامہؓ بعض دوسرے صحابہ کرام ؓ کے ہم راہ فوراً جرف سے مدینہ واپس آگئے اور حضورؐ کے وصال کے بعد آپ ؐ کی تجہیز و تکفین میں شریک ہوئے۔
حضرت ام ایمنؓ کو حضورؐ کی رحلت سے سخت صدمہ پہنچا۔ فرط الم سے نڈھال ہوگئیں ان کا رونا تھمتا ہی نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کو معلوم ہوا تو ان کے پاس تشریف لے گئے اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا: رسول اکرمؐ کے لیے خدا کے پاس بہتر چیز موجود ہے‘‘ ۔ حضرت ام ایمنؓ نے جواب دیا ’’یہ تو مجھے معلوم ہے۔ روتی میں اس لیے ہوں کہ اب وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہوگیا‘‘۔ یہ سن کر حضرت صدیقؓ اور حضرت فاروق ؓ پر رقت طاری ہوگئی اور دونوں رونے لگے۔
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ لوگوں نے حضرت ام ایمنؓ کو سمجھایا تو کہنے لگیں ۔ ’’یہ تو میں جانتی تھی کہ رسول اللہؐ سے مفارقت ہوگی لیکن رونا مجھے اس بات پر آتا ہے کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا‘‘۔
حضرت ام ایمنؓ نے نہ صرف حضورؐ کو گودوں میں کھلایا تھا اور آپؐ کی پرورش کی تھی بلکہ آپؐ کے والد، والدہ ، دادا اور دوسرے بزرگوں کی آنکھیں بھی دیکھی تھیں، اس لیے حضور ؐ ان کی بے حد تعظیم فرمایا کرتے تھے اور کثر ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے ’’میری والدہ کے بعد ام ایمن میری ماں ہیں۔ ‘‘ چناں چہ حضورؐ انہیں ’’امی‘‘ کہہ کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپؐ ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے ’’حضرت ام ایمنؓ کو بھی حضور ؐ پر بڑا ناز تھا۔ ایک دفعہ آپ ؐ ان کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے آپؐ کی خدمت میں شربت پیش کیا۔ حضورؐ نے اس کے پینے میں (کسی وجہ سے) عذر کیا (غالباً آپؐ روزہ سے تھے جس کا اظہار نہ فرمایا) اس پر امن ایمنؓ نے خفگی کا اظہار کیا ۔ تاہم حضورؐ نے انکی باتوں کا مطلق برا نہ مانا۔ حضورؐ کے پاس انصار کے دیے ہوئے بہت سے نخلستان تھے۔ جب بنو قریظہ اور بنو نضیر پر غلبہ حاصل ہوا تو حضورؐ نے انصار کو ان کے نخلستان واپس کرنا شروع کیے ان میں سے کچھ نخلستان حضرت انس بن مالکؓ کے بھی تھے، جو حضورؐ نے امن ایمنؓ کو عطا کردیے تھے۔ جب حضوؐ نے یہ نخلستان حضرت انسؓ کو واپس لوٹائے اور وہ ان کا قبضہ لینے گئے تو حضرت ام ایمنؓ ان کے واپس دینے میں متردد ہوئیں۔ حضورؐ کو اطلاع ملی تو آپؐ نے ان باغات سے دس گنا زیادہ عطا فرماکر ام ایمنؓ کو راضی کردیا۔علامہ ابن اثیرؒ نے اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ حضرت ام ایمنؓ نے رسول اکرمﷺ کی رحلت کے پانچ چھ ماہ بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی لیکن دوسری مستند روایتوں سے اس روایت کی تائید نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ ۲۴ھ حضرت عمر فاروقؓ نے شہادت پائی تو ام ایمنؓ کو بہت صدمہ ہوا۔ روتی تھیں اور کہتی تھیں ’’آج اسلام کمزور پڑگیا‘‘۔
حضرت امن ایمنؓ، حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک زندہ تھیں۔ انہوں نے بڑی طویل عمر کے بعد وفات پائی، ان سے چند حدیثیں بھی مروی ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022