رسول اللہؐ کی صاحبزادی جنہوں نے ہر ظلم کا ثابت قدمی سے سامنا کیا
زینب نام تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی صاحب زادی تھیں۔ والدہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ تھیں۔ حضرت زینبؓ کی شادی (بعثت نبوی سے قبل) ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاصؓ (لقیط بن ربیع) سے ہوئی تھی۔
جب رسول اللہ ﷺ منصب رسالت پر فائز ہوئے تو حضرت زینبؓ فوراً ایمان لے آئیں۔ بعثت نبوت کے بعد کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ اور دعوت حق پر لبیک کہنے والوں پر بے پناہ مظالم ڈھانے شروع کر دیے۔ رسول اللہ ﷺ کی دو صاحب زادیاں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ ابو لہب کے دو بیٹوں کے نکاح میں تھیں۔ تاہم رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ ان دونوں نے اپنے باپ کے کہنے پر دونوں صاحب زادیوں کو طلاق دے دی۔ ابو العاص کو بھی کفار نے بہت اکسایا کہ وہ حضرت زینبؓ کو طلاق دے دیں لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور حضرت زینبؓ سے نہایت اچھا سلوک کرتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو العاص کے اس طرز عمل کی ہمیشہ تعریف کی۔ لیکن باوجود اتنی شرافت اور نیک نفسی کے ابو العاص نے اپنا آبائی مذہب ترک نہ کیا حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ حضرت زینبؓ ان دنوں اپنے سسرال میں تھیں۔
رمضان المبارک ۲ ھ میں حق اور باطل کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے میدان میں ہوا اس میں حق غالب رہا اور قریش مکہ کے بہت سے آدمی مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہو گئے۔ ان میں ابو العاص بھی تھے۔ انہیں ایک انصاری حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے قید کیا تھا۔ اہل مکہ نے جب یہ خبر سنی تو قیدیوں کے قرابت داروں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے زرِ فدیہ بھیجا۔ حضرت زینبؓ نے بھی مکہ سے اپنے دیور عمر بن ربیع کے ہاتھ یمنی عقیق کا ایک ہار اپنے شوہر کی رہائی کے لیے بھیجا۔ یہ ہار حضرت زینبؓ کو ان کے والدہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے شادی کے وقت دیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ خدمت میں یہ ہار پیش کیا گیا تو آپ کو حضرت خدیجۃ الکبریؓ یاد آگئیں اور آپؐ آبدیدہ ہو گئے۔
حضور نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار زینب کو واپس بھیج دو۔ یہ اس کی ماں کی نشانی کی ہے۔ ابو العاص کا فدیہ صرف یہ ہے کہ وہ مکہ جا کر زینب کو فوراً مدینہ بھیج دیں‘‘۔ تمام صحابہ نے ارشاد نبوی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ ابو العاص نے بھی یہ شرط قبول کرلی اور رہا ہو کر مکہ پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ہم راہ حضرت زید بن حارثہؓ کو بھیجا کہ وہ بطن یا جج کے مقام پر ٹھہر کر انتظار کریں۔ جب زینبؓ مکہ سے وہاں پہنچیں تو انہیں ساتھ لے کر مدینہ آئیں۔ ابو العاص نے وعدہ کے مطابق اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ہم راہ حضرت زینبؓ کو مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ کر دیا۔ کفار مکہ کو جب یہ خبر پہنچی کہ محمد (ﷺ) کی بیٹی مدینہ جا رہی ہے تو انہوں نے کنانہ بن ربیع اور حضرت زینبؓ کا تعاقب کیا اور مقام ’’ذی طویٰ‘‘ میں انہیں جا گھیرا۔ حضرت زینبؓ اونٹ پر سوار تھیں۔ کفار کی جماعت میں سے ہبار بن اسود نے حضرت زینبؓ کو نیزہ سے زمین پر گرا دیا (یا اونٹ کا منہ پھیرنے کے لیے اپنا نیزہ گھمایا اور حضرت زینبؓ گر پڑیں) وہ حاملہ تھیں سخت چوٹ آئی اور حمل ساقط ہو گیا۔ کنانہ بن ربیع غضب ناک ہو گئے اور اپنے تیر نکال کر للکارا کہ خبردار اب تم میں سے کوئی آگے بڑھا تو اسے چھلنی کردوں گا۔ کفار رک گئے۔ ابو سفیان بھی ان میں شامل تھا۔ اس نے کہا بھتیجے اپنے تیر روک لو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ کنانہ نے پوچھا، کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ ابو سفیان نے ان کے کان میں کہا ۔ ’’محمد (ﷺ) کے ہاتھوں ہمیں جس رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے تم اس سے بخوبی آگاہ ہو۔ اگر تم اس کی بیٹی کو کھلم کھلا ہمارے سامنے لے جاو گے تو ہماری بڑی سبکی ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ تم اس وقت زینب کے ہم راہ مکہ لوٹ چلو اور پھر کسی وقت خفیہ طور پر زینب کو لے جانا۔‘‘ کنانہ نے یہ بات مان لی اور حضرت زینبؓ کو لے کر مکہ واپس آگئے۔ چند دن بعد وہ رات کے وقت چپکے سے حضرت زینبؓ کو ہم راہ لے کر بطن یا جج پہنچے اور انہیں حضرت زید بن حارثہؓ کے سپرد کرکے مکہ واپس چلے گئے۔ حضرت زیدؓ حضرت زینبؓ کو ساتھ لے کر مدینہ پہنچے۔
ابو العاص کو حضرت زینبؓ سے بہت محبت تھی۔ حضرت زینبؓ کے چلے جانے کے بعد وہ بہت بے چین رہنے لگے۔ ایک دفعہ جب وہ شام کی طرف سفر کر رہے تھے تو نہایت پر درد آواز میں یہ شعر پڑھے:
جب میں ارم کے مقام سے گزرا تو زینب کو یاد کیا
اور کہا کہ خدا اس شخص کو شاداب رکھے جو حرم میں مقیم ہے۔
امین کی لڑکی کو خدا جزائے خیر دے اور ہر خاوند اسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے
ابو العاصؓ بڑے شریف النفس اور دیانت دار آدمی تھے۔ لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے، وہ نہایت دیانت کے ساتھ ان کی حفاظت کرتے اور مالکوں کے طلب کرنے پر فوراً واپس کر دیتے تھے۔ مکہ میں ان کی اس قدر ساکھ تھی کہ لوگ اپنا مال تجارت انہیں دے کر فروخت کے لیے دوسرے ملکوں میں بھیجا کرتے تھے۔ ۶ھ میں ابوالعاص ایک تجارتی قافلے کے ہم راہ شام جارہے تھے کہ عیص کے مقام پر مجاہدین اسلام نے قریش کے قافلے پر چھاپہ مارا اور تمام مال واسباب پر قبضہ کر لیا۔ ابوا العاص بھاگ کر مدینہ چلے گئے اور دوسرے مشرکین کو مسلمانوں نے گرفتار کرلیا۔ ابوالعاص نے مدینہ پہنچ کر حضرت زینبؓ کی پناہ لی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سفارش کی کہ ابو العاص کا مال انہیں واپس کردیا جائے۔ چوں کہ ابو العاص نے مکہ میں حضرت زینبؓ کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا اس لیے حضورؐ ان کا لحاظ کرتے تھے۔ صحابہؓ سے فرمایا: ’’اگر تم ابوالعاص کا مال واپس کردو گے تو میں ممنون احسان رہوں گا‘‘۔
صحابہ کرامؓ کو تو ہر وقت خوشنودی رسول مطلوب رہتی تھی۔ فوراً تمام مال و اسباب ابوالعاص کو واپس کردیا۔ وہ تمام مال ومتاع لے کر مکہ پہنچے اور تمام لوگوں کو امانتیں واپس کر دیں۔ پھر اہل مکہ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’اے اہل قریش اب میرے ذمے کسی کی کوئی امانت تو نہیں ہے؟‘‘
تمام اہل کہ نے ایک زبان ہو کر کہا ۔ ’’بالکل نہیں، خدا تمہیں جزائے خیر دے تم ایک نیک نہاد اور باوفا شخص ہو‘‘۔
حضرت ابو العاصؓ نے کہا ’’تو سن لو کہ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ خدا کی قسم اسلام قبول کرنے میں مجھے صرف یہ امر مانع تھا کہ تم لوگ مجھے خائن نہ سمجھو‘‘۔
یہ کہہ کر کلمہ شہادت پڑھا اور اس کے بعد ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ یہ محرم ۷ ہجری کا واقعہ ہے۔
چوں کہ حضرت زینبؓ اور حضرت ابوالعاصؓ میں شرک کی وجہ سے تفریق ہو گئی تھی اس لیے جب ابوالعاصؓ مشرف بہ اسلام ہو کر مدینہ پہنچے تو حضورؐ نے حضرت زینبؓ کو پہلے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے حضرت ابو العاصؓ کے گھر بھجوادیا۔
حضرت زینبؓ اس واقعے کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور ۸ ہجری میں خالق حقیقی کے حضور پہنچ گئیں۔ اس کا سبب اسقاط حمل کی وہ تکلیف تھی جو پہلی دفعہ مکہ سے آتے ہوئے ذی طویٰ کے مقام پر پہنچی تھی۔
حضرت ام ایمنؓ، حضرت سودہؓ حضرت ام سلمہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کے مطابق میت کو غسل دیا۔ جب غسل سے فارغ ہوئیں تو حضور کو اطلاع دی۔ آپ نے اپنا تہ بند عنایت فرمایا اور ہدایت کی کہ اسے کفن کے اندر پہنا دو۔
صحیح بخاری میں مشہور صحابیہ حضرت ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ میں بھی زینبؓ بنت رسول اللہؐکے غسل میں شریک تھی۔ غسل کا طریقہ حضور خود بتلاتے جاتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا پہلے ہر عضو کو تین بار یا پانچ بار غسل دو اور اس کے بعد کافور لگاو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐنے حضرت ام عطیہؓ سے فرمایا:
’’اے ام عطیہ میری بیٹی کو اچھی طرح کفن میں لپیٹنا اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنانا اور اسے بہترین خوشبووں سے معطر کرنا‘‘۔
نماز جنازہ رسول اللہ ﷺ نے خود پڑھائی اور حضرت ابوالعاصؓ نے قبر میں اتارا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ خود بھی قبر میں اترے۔
جس دن حضرت زینبؓ نے وفات پائی حضورؐبے حد مغموم تھے۔ آپؐکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ فرما رہے تھے:
زینبؓ میری سب سے اچھی لڑک تھی جو میری محبت میں ستائی گئی‘‘
حضرت زینبؓ نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علیؓ اور ایک لڑکی امامہؓ کو چھوڑا۔ ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقعے پر علی بن ابوالعاصؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق انہوں نے جنگ یرموک میں شہادت پائی اور ایک تیسری روایت کے مطابق وہ سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔
تھوڑے عرصے بعد حضرت ابو العاصؓ نے بھی وفات پائی۔ وفات سے پیشتر انہوں نے اپنی لڑکی امامہؓ کو حضرت زبیر بن عوامؓ (اپنے ماموں زاد بھائی) کی سرپرستی میں دے دیا۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی وفات کے بعد حضرت امامہؓ حضرت زبیرؓ کے ایما پر حضرت علیؓ کے عقد نکاح میں آئیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 تا 25 دسمبر 2021