سید احمد عروج ؔقادری کی زندانی شا عری ،تعمیری ادب کاسرمایہ

دلشاد حسین اصلاحی ، نئی دلی

 

اردو شعر و ادب اور زندان کا بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ برطانوی دور غلامی میں خاص طور پر آزادی کی جدوجہد کرنے والے شعرا نے زنداں میں رہتے ہوئے بھی مشق سخن جاری رکھی تھی اور اردو شاعری کو مالا مال کیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور ظفر علی خان جیسے اساطین ادب کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ترقی پسندوں نے بھی پس زنداں رہ کر شعر گوئی کی ہے اور وافر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ چاہے وہ فیض ہوں یا سردار جعفری وغیرہ۔ اردو شعر گوئی میں زندانی شاعری مستقل ایک موضوع کی حیثیت رکھتی ہے۔
شاعر معاشرہ کا بیدار مغز حصہ ہوتا ہے جو چیزوں کو خاص انداز میں دیکھ کر اثر پذیر ہوتا ہے اور اپنے محسوسات کو تخلیقی صلاحیت کے ذریعہ صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتا ہے جس سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہوتی ہیں۔ شعر و ادب فنی لحاظ نہ سہی ضمناً اپنے دور کی تاریخ بھی ہوتا ہے۔ بہت سے فن پاروں سے ماضی کے واقعات و حادثات کی طرف رہنمائی ہوتی ہے اور بعض اوقات بہت سے فن پاروں سے اس دور کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً ہمارے دور میں بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ اردو شاعری میں محفوظ ہوگیا ہے۔ اسی طرح رام مندر پر آئے فیصلہ کو بھی اردو شاعری نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک تاریک واقعہ 15جون 1975 کو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ذریعہ لگائی گئی ایمرجنسی بھی ہے۔ جس نے عوام و خواص کو متاثر و بیکل کردیا تھا۔ انارکی کا عالم تھا شہریوں کو دم مارنے کا یارا نہ تھا۔ بے تحاشہ جیلوں کا پیٹ بھرا جا رہا تھا۔ عدل وانصاف کا قتل دیکھ کر دستور ہند بھی اشک ریز تھا۔ ایسے ماحول میں پس زنداں نہ جانے کتنے شعرا اپنے خیالات کو تخلیق کے جامہ میں محفوظ کر رہے تھے۔ کچھ بعد میں شائع ہوئے جن کے ذریعے ایمرجنسی کی بے اعتدالی اور نا انصافی کو اردو ادب نے اپنے دامن میں جگہ دی۔ ایسے ہی شعرا میں ایک نام عروجؔ قادری صاحب کا بھی ہے۔
مولانا سید احمد عروجؔ قادری 24 مارچ 1913 کو ایک دیندار علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ (وفات 17 مئی 1986) والد کا نام سید عبداللہ قادری تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ بہار سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ کچھ عرصہ اسی ادارہ میں تفسیر، حدیث اور فقہ کا درس بھی دیا۔ ان کے والد بھی یہاں شیخ التفسیر کے عہدے پر فائز تھے۔ وطن مجھر شریف ضلع اورنگ آباد بہار تھا۔ تحریک سے وابستگی اور اس کی مصروفیات کے باعث رامپور کو وطن ثانی بنالیا تھا۔ یہیں کی خاک نے اپنے آغوش میں جگہ دی۔ ان کی رہائش گاہ سیف الدین کی اونچی مسجد سے متصل بائیں جانب تھی۔ آخری آرام گاہ اسی مسجد کے دائیں جانب چھوٹے سے قبرستان میں عمل میں آئی۔
عروجؔ قادری صاحب برصغیر کے علمی حلقوں میں معروف شخصیت ہیں۔ علمی لحاظ سے ان کی شخصیت متنوع الجہات ہے وہ ایک عالم با عمل، فقیہہ، محدث، مفسر، محقق اور صوفی منش تھے۔ جماعت کے فکری قائدین کی صف اول میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اپنے تبحر علمی کے باعث قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ متعدد تصانیف ان کے قلم سے منصۂ شہود پر آئیں۔ کاغذ و قلم سے ان کا رشتہ پوری عمر قائم رہا۔ آخری وقت تک جماعت کے فکری ترجمان ماہنامہ زندگی رامپور کے مدیر رہے۔
عروجؔ قادری صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اوائل عمر ہی سے شعر کہتے رہے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’سمت سفر‘‘ کے نام سے 1971 میں شائع ہوا جس میں نظمیں غزلیں، رباعیات ، قطعات اور گیت شامل ہیں۔ مگر ان کی زندگی کا شاعرانہ پہلو دبا ہوا ہی رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ جس میدان کے شخص تھے اس نے کماحقہ اس طرف توجہ کا موقع ہی نہ دیا یا پھر وہ بحیثیت شاعر اپنی شناخت بنانے کے خود قائل نہ رہے ہوں اور یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ ’’شعر و شاعری سے دل چسپی تو اسی وقت سے ہے جب میں اردو اچھی طرح پڑھنے لکھنے لگا تھا لیکن یہ دل چسپی زندگی کا مشغلہ کبھی نہیں بننے پائی‘‘۔
’’سمت سفر‘‘ ہی کے پیش لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ابتدائی دور کا وافر شعری ذخیرہ ان کے قلم ۔۔۔۔۔۔ کے داعیانہ کردار ادا کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیت کو بھی دعوت کے لیے استعمال کیا ہے۔
ایک نظم میں اپنی شاعری کے متعلق کہا ہے کہ ؎
شعر و سخن بھی تیرے لیے ہے
میرا یہ فن بھی تیرے لیے ہے
الحمدللہ و الشکرللہ
ان کی پوری شاعری اسی فکر کی عکاس ہے۔ وہ ابتدا ہی سے ادارہ ادب اسلامی سے وابستہ رہے ہیں۔ رامپور سے ادارہ کا ایک ترجمان ماہنامہ ’’دانش‘‘ نکلتا تھا اس کی ادارت بھی کی ہے۔ اسلامی ادب کے متعلق انہوں نے جنوری، فروری 1980کے شمارہ میں لکھا تھا کہ ’’اسلامی ادب ایک ایسا سدا بہار گلشن ہے جو توحید کی زمین پر اگتا، وحی الٰہی کی پاکیزہ بارش سے سیراب ہوتا ہے اور آخرت کی لازوال خوشبو سے مہکتا ہے اور غیر اسلامی ادب ایک ایسا صحرائے خار دار ہے جو الحاد و شرک کی سر زمی
ن پر پنپتا، مادیت کے گدلے پانی سے پھیلتا اور نفسیانیت، عریانیت، فحاشی و ہوس کی بدبو سے وبال جان بنتا ہے‘‘۔ (بحوالہ پیش لفظ سمت سفر صفحہ 11)
اس مضمون میں عروجؔ قادری صاحب کے اس کلام کا جائزہ مقصود ہے جو انہوں نے ایمرجنسی کے زمانہ میں قید و بند کے دوران سنٹرل تہاڑ جیل دلی میں سپرد قلم کیا ہے جو ’’تحفہ زنداں‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ انہوں نے اسے جیل کی سوغات سے تعبیر کیا ہے؎
اشعار کبھی سادہ منظوم حقائق
اشعار کبھی مظہر تشہیر و محاکات
ہے کار گہ فکر رواں رات بھی دن بھی
گلدستہ افکار یہ ہے جیل کی سوغات
عروج ؔقادری صاحب سوا چھ ماہ حکومت کے مہمان رہے۔ (گرفتاری 5جولائی 1975۔ رہائی 20جنوری 1976) اس دوران جن خیالات نے شعر کا قالب اختیار کیا وہ سب زبانی ترتیب سے ’’تحفہ، زنداں‘‘ میں شامل ہیں۔ جو نظم، غزل، قطعات، رباعیات جیسی اصناف شعری پر مشتمل ہیں۔ بقول خود پہلا جو خیال شعر میں ڈھلا یہ تھا؎
کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک
کوئی مجنوں یہ مصرع لکھ گیا دیوار زنداں پر
پانچ پانچ مصرعوں پر مشتمل سات بند کی ایک نظم جولائی 1975میں بعنوان ’’دعوت نظارہ‘‘ کہی جس میں جیل کے ماحول کا بیان ہے۔ آزاد گھومنے والے حکومتی گرگوں پر طنز کیا ہے؎
کیا جیل کے پھاٹک پہ کھڑا دیکھ رہا ہے
اے ہمدم دیرینہ یہاں آکے ذرا دیکھ
دیواروں کے گھیرے ہیں کیا حشر بپا دیکھ
بے جرم ہیں محبوس ہزاروں سے بھی اوپر
انسان پر انسان کے ستم دیکھ جفا دیکھ
کیا رنگ ہے کیا ڈھنگ ہے ظالم کی ادا دیکھ
ان مصرعوں میں جہاں مظلومین کے احوال کا بیان ہے وہیں مسز گاندھی کی ادائے کج ادائی لفظ ظالم نے بڑی خوبی سے واضح کردی ہے۔ آگے ساکنان زندان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو مجنوں کی طرح مست ہیں ان قافلہ شوق کے راہیوں کو اس راہ کی دشواریوں کا پہلے سے خوب اندازہ ہے ؎
زنداں سے گزرتی ہے رہ عشق وفا دیکھ
پھر مومنانہ حوصلہ اور ذہنیت کو یوں بیان کیا ہے؎
خورشید جو ڈوبا ہے تو ڈوبے گا قمر بھی
چھائی ہے اگر رات تو آئے گی سحر بھی
دیوار تخیل بھی ہے آزاد و فلک سیر
ہے روح بھی آزاد یہاں قلب و نظر بھی
اللہ کے درمیان میں مومن کا جھکاؤ دیکھ
ایک مختصر نظم ’’کربلا کی یاد‘‘ ہے اس کے یہ شعر دیکھیے؎
یہ کون لوگ آگئے یہ قافلہ کہاں کا ہے
اذان صبح و شام سے تہاڑ جیل گونج اٹھا
زمین میں نور بھر گیا جبین سجدہ ریز سے
کلام حق کی روشنی سے آسماں چمک گیا
ان اشعار کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ قید و بند کا مرحلہ عین مصلحت پروردگار تھا کہ اعلان حق سے مجلس کی فضائیں معمور ہوں اور بندگان خدا کے سجدوں کی یہ زمین روز قیامت گاہ بنے۔ نظم کا آخری شعر رجائیت پسند اور پیغام کا حاصل ہے۔ ’’کربلا‘‘ کی تلمیح نے معنویت اور مفوم کو دوبالا کردیا ہے۔ سفر ہے ؎
ابھی تو اور مرحلے ہیں راہ عشق میں عروج
یہ مرحلہ تو کچھ بھی نہیں اگر ہو یاد کربلا
ایمرجنسی کا نفاذ دراصل سیاسی جھنجھلاہٹ اور اپنے سیاسی حریفوں سے انتقام لینے کے جذبہ کا نتیجہ تھا۔ دنیا کے ایک عظیم جمہوری ملک میں یہ آمریت کا کھلا اعلان و اقدام تھا اس کے مضمرات کو عروج ؔصاحب نے ’’آمریت کا نشہ‘‘ میں یوں واضح کیا ہے؎
جو مقصود اصلی ہو اپنی حکومت
کہاں کی مروت کہاں کی شرافت
ہر اک ظلم جائز ہر ایک جور واجب
اگر رہ سکے اس سے طاقت سلامت
نشہ آمریت کا گہرا ہے اتنا
کر ترشی ہے اس کی شکست حکومت
اسی نظم میں ظالم کو آگاہ کرتے ہوئے تاریخ کے حوالے سے یہ پیغام دیا ہے کہ فرعون ، نمرود، ہٹلر تک اپنے اقتدار کو قائم نہ رکھ سکے جن کی طاقت و حکومت تم سے کہیں زیادہ مستحکم اور پائیدار تھی۔ سب ظالمانہ رویہ کی وجہ سے اپنے اقتدار کے ساتھ پیوند خاک ہوگئے۔ آج کی بی جے پی حکومت بھی اسی ’نشہ آمریت‘‘ میں مدہوش ہے۔ ایک دن ریت کی دیوار کی مانند یہ بھی بیٹھ جائے گی اور تاریخ کے ظالمانہ کرداروں میں شامل ہوجائے گی۔
فاعتبروا یا اولی الابصار ایک نظم کا عنوان ہے ’’کیا چیز خلاف قانون ہے‘‘ اس میں انہوں نے کچھ سوالات اٹھا کر اہل اقتدار سے ان کا جواب طلب کیا جو ان کے پاس نہیں ہے؎
کیا چیز خلاف قانون ہے اے صاحب تخت و تاج و نگیں
کیا رسم وفا کیا؟ حسن عمل؟ کیا خلق حسن؟ کیا دین مبیں
اے جبر حکومت کچھ تو بتا یہ بات سمجھ میں آتی نہیں
کیا چیز خلاف قانون ہے کیا صدق و صفا ؟ کیا نور یقیں
اس نا انصافی کے خلاف اسی نظم میں اپنا احتجاج یوں درج کراتے ہیں ؎
جھوٹ کو چھپنے کی رخصت ، ہے سچ کی اشاعت پر قدغن
ہیں حق و صداقت زیر زمیں اور سطح زمین پر مکر و فن
تو وزن برابر کرتا ہے اور ظلم و ستم ہم سہتے ہیں
کیا تیری کتاب آئیں میں انصاف اسی کو کہتے ہیں
پر لطف بات یہ ہے کہ یہی فلسفہ کانگریس حکومت نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد جماعت پر پابندی عائد کرنے کے جواز میں لگا رکھا تھا اور نرسمہا راؤ نے توازن برقرار رکھنے ہی کی بات کہی تھی۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پارٹی کی پالیسی حق و ناحق کے سلسلہ میں کیا ہے۔ اس نظم میں اٹھائے گئے سوالات کے جوابات وہ خود ’’حکومت کی زبان‘‘ والی نظم میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’فرد قرارداد جرم‘‘ ایک طویل نظم ہے جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ نہایت جرات سے جماعت پر پابندی لگانے کی وجہ بیان کی ہے جس میں ان کا فکری اور مومنانہ شعور جھلکتا ہے۔ اس نظم میں اقبال کی نظم ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ جیسا آہنگ پایا جاتا ہے اگرچہ کام اس جیسا نہیں ہے۔ مناجات کا انداز ہے 39 اشعار کی اس نظم کے اول حصہ میں اس چیز کا بیان ہے کہ ہم ہندوستان میں کیا کر رہے ہیں کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ چند شعر ملاحظہ ہوں ان سے نظم کا خلاصہ اور خود شاعر یا (بالفاظ دیگر) تحریک کا نصب العین سامنے آجائے گا ؎
ہم نے چاہا کہ ترا بول ہو سب سے بالا
اور ہوجائے ترے دین کا پرچم اونچا
گلشن ہند میں اخلاق کی آجائے بہار
ہم نے چاہا کہ بڑھے ہند کا دنیا میں وقار
ہم نے چاہا کہ یہاں امن و اماں آجائے
آدمیت کی اخوت کی فضا چھاجائے
یہی ارماں بھی رہا اور یہی کاوش بھی رہی
یہی خواہش بھی اور یہی کوشش بھی رہی
نظم کے دوسرے حصہ میں جو بارہ اشعار ہیں اولاً اپنے عہد الست سے عہدہ برا ہونے کا تذکرہ ہے۔ بعدہ حاکمیت الہ کے قیام کی کوششوں کا ذکر ہے جو اہل ایمان کا طاغوت کی نظر میں اصل جرم ہے جس کے لیے در زنداں وا رہتے ہیں اور ہر زمانے میں اللہ کے ایسے بندوں پر اہل ستم کا دست ظلم دراز رہا ہے۔ اصحاب کہف سے لے کر مکہ کے مسلمانوں تک کی داستان اسی کی گواہ ہے۔ اشعار دیکھیے۔
ساورنٹی ہے تری حاکم اعلیٰ تو ہے
سبھی بندے ہیں ترے مالک و مولیٰ تو ہے
ہم اسی جرم میں دراصل گرفتار ہوئے
قید خانے کی جفاوں کے سزا وار ہوئے
باعث غیض و غضب اس کے سوا کچھ بھی نہیں
بین لگنے کا سبب اس کے سوا کچھ بھی نہیں
تہاڑ جیل میں ہی 1975کا ماہ رمضان بھی وارد ہوا جو مسلمانوں کے لیے ایک مبارک مہینہ ہے۔ اس میں تمام نظام الاوقات تبدیل کرکے لوگ اپنے رب کے حضور حاضری کا وقت نکالتے ہیں۔ ہر لحاظ سے اہتمام ہوتا ہے ہر جگہ چہل پہل خوشیوں اور اسلام پر عمل آوری کا سماں رہتا ہے۔ یہ سب برکتیں آزاد ماحول میں میسر آتی ہیں قید خانہ میں یہ فرحت و خوشی کب میسر آسکتی ہے۔ مگر عروج ؔقادری صاحب یہاں بھی ماہ رمضان کی روح تک رسائی حاصل کرنے کا عزم کرتے ہیں اور روزے کے مقصد کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے صرف ایک شعر جو پوری نظم کا نچوڑ ہے ملاحظہ کریں۔
روزے کیا ہیں؟ مشق اطاعت، مشق جبر و ضبط
روح اطاعت بھر کے پئیں گے تقویٰ کے پیمانے میں
اسی طرح عید بھی جیل میں آئی اور جب ہلال عید نمودار ہوا تو شاعر کا دل شدت جذبات سے لبریز ہوگیا۔ 18اشعار کی نظم ہلال عید کو مخاطب کرکے کہی جس میں قیدیوں کے جذبات ، بے گناہی، گھر اور اہل خانہ کی یادوں کا کرب سب کچھ شامل ہے لیکن مایوسی اور قنوطیت کا شکار نہیں ہوئے۔ امید و رجا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ اس نظم سے ایک قیدی کی عید کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
دے رہی ہیں سیکڑوں آنکھیں تجھے اس کا جواب
بیوی بچوں سے جدا رہ کر ہیں کتنے دل کباب
ان کے غم کا اے ہلال عید تو اندازہ کر
عید آئی اور جن کا کچھ نہیں گھر کی خبر
ایمرجنسی کے تناظر میں جیل سے باہر کے ماحول کی منظر کشی اس شو میں دیکھیے۔
مجھ کو کیا غمگیں کرے گی جیل کے اندر کی عید
اے ہلال عید جب خوش کن نہیں باہر کی عید
آگے کے اشعار میں ایمرجنسی کے نفاذ کے مقاصد کے ساتھ ساتھ ملک کی عروج ؔکا درج بھی سمودیا ہے کہ ہم ہی قیدی نہیں ہیں پورے ملک کا ماحول قید خانہ سے مشابہ ہے۔ اس طرح کی بے باکی و جرات کچھ سر پھروں ہی کا حصہ ہوتی ہے ؎
فرد واحد کی حکومت کی حفاظت کے لیے
اے مہ نور ایک پارٹی کی قیادت کے لیے
دیکھ کتنے لوگ جیلوں میں بھرے ہیں بے قصور
آہ کتنے لوگ اپنے بال بچوں سے ہیں دور
اے مہ نو کیا یہی ہے عید کی خوشیوں کا رنگ
اپنے ہی لوگوں پہ غصہ، اپنے ہی لوگوں سے جنگ
جبر و استبداد کا یہ نا مبارک کھیل ہے
دہشت انگیزی سے سارا ملک گویا جیل ہے
عروجؔ قادری صاحب کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے بزرگوں نے شعر کے قالب میں اسی دور کے حالات کو محفوظ کیا ہوگا اور اپنے جذبات کو اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہوگا۔ ہماری دسترس سے فی الحال باہر ہے۔ اگر اسی دور کی رسی ’’زندانی‘ شاعری کو یکجا جمع کردیا جائے تو یہ اردو شعر و ادب کی ایک اچھی خدمت اور ’’زندانی ادب‘‘ میں اضافہ ہوگا۔ علمی سطح پر ظلم و جبر کی یہ داستاں ایک دستاویز سے کم نہ ہوگی۔
[email protected]
***

عروجؔ قادری صاحب برصغیر کے علمی حلقوں میں معروف شخصیت ہیں۔ علمی لحاظ سے ان کی شخصیت متنوع الجہات ہے وہ ایک عالم با عمل، فقیہہ، محدث، مفسر، محقق اور صوفی منش تھے۔ جماعت کے فکری قائدین کی صف اول میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اپنے تبحر علمی کے باعث قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ متعدد تصانیف ان کے قلم سے منصۂ شہود پر آئیں۔ کاغذ و قلم سے ان کا رشتہ پوری عمر قائم رہا۔ آخری وقت تک جماعت کے فکری ترجمان ماہنامہ زندگی رامپور کے مدیر رہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020