سوڈان۔اسرائيل دوستی سے صرف صيہونی مفادات پورے ہوں گے
(سوڈان کی مجلسِ قيادت کے سربراہ عبد الفتاح برہان کی نيتن ياہو کے ساتھ ملاقات کے تناظر ميں)
ڈاکٹرعبد الحميد اطہر ندوی
سوڈان کی مجلسِ قيادت کے سربراہ عبد الفتاح برہان نے گزشتہ پير ۳ فروري۲۰۲۰ ميں يوگنڈا کے پايہ تخت عنتيبی ميں اسرائيلی وزيرِ اعظم بنيامين نيتن ياہو کے ساتھ ملاقات کی تھی جس کی تصويريں ميڈيا ميں نہيں دکھائی گئيں۔ دراصل برہان اس ملاقات کو پوشيدہ رکھنا چاہتے تھے ليکن اسرائيلی وزيرِ اعظم نے اپنے اکاونٹ پر اس ملاقات کا اعلان کر ديا۔ تجزيہ نگار خفیہ ملاقات کو ذرائع ابلاغ کے سامنے پيش کيے جانے کے تعلق سے کہتے ہيں کہ اسرائيلی وزير اعظم اپنے ہی ملک ميں مشکلات سے دوچار ہيں اور ان کو سياسی بحران کا سامنا ہے، يہ اعلان اس وقت کيا گيا ہے جب ڈونالڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی ميں امن منصوبے کو پيش کيا ہے، جس کو ’’صدی کی ڈيل‘‘ سے جانا جاتا ہے، دراصل اس اعلان کے ذريعے ٹرمپ نيتن ياہو کو سياسی فائدہ پہنچانا چاہتے ہيں۔الجزيرہ نے اسرائيلی ذرائع سے نقل کيا ہے کہ نيتن ياہو نے برہان سے درخواست کی کہ لاطينی امريکہ سے آنے والی اسرائيلی پروازوں کے ليے سوڈانی فضائی راستوں کو کھول ديا جائے۔ جب کہ برہان نے درخواست کی کہ امريکہ سے کہہ کر امريکی پابنديوں ميں تخفیف کی جائے اور سوڈان کو ’’دہشت گردوں کی فہرست‘‘ سے نکال ديا جائے۔اخبار دی ٹائمز آف اسرائيل نے ايک سوڈانی فوجی ذمے دار سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امارات نے برہان اور نيتن ياہو کی ملاقات کا انتظام کيا تھا۔
اسرائيلی وزير اعظم کا يہ اعلان سوڈانی قوم اور سوڈانی عارضی حکومت کے ليے ايک جھٹکا تھا، سوڈان کی سياسی پارٹيوں نے اس پر ناراضگی کا اظہار کيا ہے، جب کہ سوڈانی وزير خارجہ اسماء محمد نے اس ملاقات سے اپنی لاعلمی کا اظہار کيا ہے۔ سوڈانی سربراہ نے ذرائع ابلاغ ميں اسرائيلی وزير اعظم کا بيان آنے کے بعد سوڈانی ٹيسٹی نيوز کو انٹرويو ديتے ہوئے اپنی ملاقات کی تفصيلات بيان کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’ميں نے سفر سے پہلے اللہ سے خير طلب کيا، ميں نے ہر نماز ميں اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! اگر اس معاملے ميں خير ہے تو اس کو ہمارے ليے آسان فرما، اگر اس ميں خير نہيں ہے تو اس کو ہم سے دور فرما۔‘‘ انھوں نے اپنے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے:’’اس ميں سوڈان کی بہتری ہے‘‘ انھوں نے مزيد کہا کہ ’’ہماری سب فکريں سوڈان کے مفادات کے ليے ہيں، ہم دوسروں کو ديکھتے ہيں کہ وہ بھی اسرائيل کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے ہيں، يہاں تک کہ مسئلہ فلسطين پر توجہ دينے والے بھی فائدہ اٹھارہے ہيں‘‘
سوڈانی سياسی پارٹيوں نے اس ملاقات کو مسترد کيا ہے، اس کو فلسطينی قوم کے حق ميں پيٹھ ميں خنجر قرار ديا ہے، اور اس کو قومی و اخلاقی رذالت تعبير کيا ہے۔‘‘
عبد الفتاح برہان اور ان کے ہم نوا بعض فوجی قائدين اور بائيں بازو کی پارٹياں اسرائيل کے ساتھ تعلقات کی ہمواری کو سوڈان کے مسائل کا حل سمجھ رہے ہيں اور اسے بھنور سے نکالنے والی کشتی سمجھ رہے ہيں، جب کہ حقيقت يہ ہے کہ يہ ان کے ليے سلطنت کی کرسی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ سوڈان کی کميونسٹ پارٹی نے صدی کی ڈيل کے اعلان کے وقت اسے سخت ترين الفاظ ميں نشان ملامت بنايا اسی طرح آزادی اور تبديلی کی حامی سوڈانی طاقتيں بھی اس کی مخالف ہيں۔ وہ مجرم اسرائيلی ڈھانچے کے ساتھ تعلقات کی ہمواری کو کسی بھی صورت ميں قبول نہيں کريں گی جو ہر لمحہ اور ہر لحظہ اخلاق اور قانون کی دھجياں اڑا رہا ہے اور کسی بين الاقوامی قانون کی اس کی نگاہوں ميں کوئی حيثيت نہيں ہے اور وہ فلسطينيوں پر ظلم کی انتہا کر رہا ہے۔ليکن سوال يہ ہے کہ کيا اس سے سوڈان کے تمام مسائل حل ہو جائيں گے، کيا يہ اپنے فلسطينی بھائيوں کے ساتھ خيانت نہيں ہے اور کيا اس سے فلسطينی کاز کو نقصان نہيں پہنچے گا؟ اسرائيل کے ساتھ تعلقات ہموار کرنے کے حامی افراد عام طور پر اپنے موقف کا جواز فراہم کرنے کے ليے کہتے ہيں کہ سوڈان کا مفاد ہی ان کی ڈپلوميسی کا رہنما ہے۔ فلسطين اور عرب حکومتوں نے اسرائيل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہموار کرنے ميں کوئی کسر نہيں چھوڑی ہے تو سوڈان کو بھی اس سے پيچھے نہيں ہٹنا چاہيے۔کسی بھی قوم کے اصول ومبادی کا اس کی خارجہ پاليسيوں کو طے کرنے والے ابتدائی امور ميں شمار ہوتا ہے، کيوں کہ صرف روٹی پر ہی انسان زندہ نہيں رہتا، دوسروں کی پاليسيوں پر اپنی سفارتی پاليسيوں کی بنياد رکھنا خارجی سياسی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔دراصل سوڈان کے ساتھ تعلقات کو ہموار کرنے کا اسرائيلی مقصد يہ ہے کہ اسرائيلی پروازوں کے ليے سوڈانی فضائی حدود کو کھول ديا جائے، کيوں کہ مصر اور کينيا وغيرہ کے فضائی حدود کھول ديے گئے ہيں ليکن چوں کہ سوڈان کے حدود ابھی تک بند ہيں، جس کی وجہ سے اسرائيلی پروازوں کو برازيل وغيرہ جانے کے ليے لمبی چکر لگانا پڑتا ہے، ڈاکٹر درديری محمد احمد (سوڈانی صحافی اور وزارت خارجہ کے بہت سے عہدوں پر فائز ايک عہديدار) نے اس ملاقات کے تناظر ميں ايک مضمون تحرير کيا ہے، جس ميں اس موضوع (اسرائيلی پروازوں کے ليے سوڈانی فضائی حدود کو کھولنے) پر تفصيلی روشنی ڈالی ہے، ان کی باتوں کا خلاصہ يہ ہے کہ:
جب ميں وزارتِ خارجہ ميں برسرِ روزگار تھا تو کينيا کے صدر اوھورو کنياتا نے ۱۶ نومبر ۲۰۱۸ء کو اپنا خصوصی ايلچی صدر بشير کے پاس بھيجا تھا جس نے ايک خط صدر کے حوالے کيا، جس ميں تل ابيب جانے والی کينيا کی ائير لائن کو ۲۰۱۹ء کی شروعات سے سوڈان سے گزرنے کی اجازت دينے کی درخواست کی گئی تھی، صدر بشير نے وزارتِ خارجہ کو اس خط پر غور کرکے اپنی رائے دينے کے ليے کہا۔ وزارتِ خارجہ نے ميری نگرانی ميں چند ڈپلوميٹک افراد پر مشتمل ايک ٹيم کو اس کی ذمے داری دی۔۔۔۔۔ اس کام کے دوران مجھے مکمل تفصيلات سے واقف ہونے اور اس مسئلہ کی تاريخ سے مطلع ہونے کا موقع ملا۔ يہ مسئلہ تو قديم تھا، ليکن وقفے سے وقفے سے اس کو اٹھايا جاتا رہا۔۔۔۔۔ مجھے اس دوران معلوم ہوا کہ اسی مقصد کے ليے چلی (ساؤتھ امريکہ)، سيچل اور جنوبی افريقہ کی طرف سے ايسی درخواستيں قريبی تاريخوں ميں آچکی ہيں۔ ہماری ٹيم نے تحقيق کی کہ عرب ملکوں کی طرف سے اس طرح کے مسائل پيدا ہونے کی صورت ميں کيا فیصلے کيے گئے ہيں اور بين الاقوامی قوانين اس سلسلے ميں کيا کہتے ہيں؛ تمام پہلوؤں پر سوچا گيا، اخير ميں ہم اس نتيجے پر پہنچے کہ کينيا کی درخواست کو قبول نہ کيا جائے، اسی طرح دوسرے ملکوں کی درخواستوں کو بھی رد کر ديا جائے۔ ۱۷ ڈسمبر ۲۰۱۸ء ميں آخری فیصلے پر مشتمل ايک قرارداد تيار کی گئی اور اسے صدارتی دفتر کے سپرد کيا گيا، قرارداد کے تعلق سے تمام دلائل پيش کيے گئے تھے۔ صدر بشير نے اس قرارداد کو ليا اور تمام درخواستوں کو رد کرنے کا حکم جاری کيا۔ اس قرار داد ميں دوسرے مسائل اور دلائل کے ساتھ يہ بات بھی تحرير کی گئی تھی کہ اس طرح کی درخواستوں کو قبول کرنے سے سوڈان کا نہ کوئی مقصد پورا ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی مفاد وابستہ ہے، جب کہ کينيا اور ديگر ممالک کی درخواستوں کو قبول کرنے سے اسرائيل کے بڑے مفادات پورے ہوتے ہيں۔
اسرائيل تل ابيب اور ساؤ پاولو ( برازيل) کے درميان راست پرواز چلانے کی صلاحيت رکھتا ہے جو يہودی سياحوں کا محبوب سياحتی شہر مانا جاتا ہے۔ يہاں جانے والی اسرائيلی پروازوں کو طويل راستہ اختيار کرنا پڑتا ہے، اس سفر کی مسافت پندرہ گھنٹوں کی ہے، جب کہ سوڈان کے راستے سے جانے کی صورت ميں صرف دس گھنٹوں ميں يہ سفر طے ہوتا ہے۔ چاڈ کی حکومت کی طرف سے گزشتہ سالوں ميں اس کی فضائی حدود کو اسرائيلی پروازوں کے ليے کھول ديا گيا ہے، جب کہ ۱۹۷۰ سے يہ فضائی حدود بند تھے۔ گزشتہ سال نومبر ۲۰۱۸ء کو صدر ادريس تل ابيب اور شہرِ قدس کے سفر پر گئے، چوں کہ چاڈ ايک اکثريتی مسلم ملک ہے اس ليے اس سفر کو تاريخی مانا گيا۔ صدر ادريس نے اس موقع پر وعدہ کيا کہ وہ اسرائيل اور اپنے پڑوسی سوڈان کے ساتھ تعلقات کو ہموار کرنے کی کوششيں کرے گا۔صدر ادريس کی طرف سے سوڈان کے سامنے بار بار يہ درخواست پيش کی گئی کہ تل ابيب سے آنے والی پروازوں کے ليے سوڈانی فضائی حدود کھول ديے جائيں، اس کا سبب يہ تھا کہ جب تک سوڈانی فضائی حدود کو کھولا نہيں جائے گا اس وقت تک چاڈ کی فضائی حدود کھولنے سے اسرائيل کو کچھ بھی فائدہ ہونے والا نہيں ہے۔ اس طرح سوڈان پر توجہ بڑھنے لگی، اگر سوڈانی فضائی حدود کھل جاتے ہيں تو اس کا راست فائدہ اسرائيل کو ہوتا ہے اور يہ اس کے ليے نعمتِ غير مترقبہ کی طرح ہے جب کہ اس کے مقابلے ميں سوڈان کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑيں گے، کيوں کہ سوڈان کے ساتھ تعلقات بنانے سے اسرائيل کے ليے کوئی دوسرے فائدے حاصل ہونے والے نہيں ہيں۔ اسرائيل صرف سوڈانی فضائی حدود کو کھولنا چاہتا ہے تاکہ اس کے مفادات پورے ہوں، جب اس کے مفادات پورے ہوجائيں گے تو وہ سوڈان کی طرف مڑ کر بھی نہيں ديکھے گا جيسا کہ اس کا رويہ دوسرے ملکوں کے ساتھ رہا ہے اور اسرائيل کی پوری تاريخ اس کی گواہ ہے۔ بلکہ اسرائيل سوڈان کو علانيہ اور خفیہ طور پر نقصان پہنچانے کے ليے کوشاں بھی ہو سکتا ہے۔۱۹۵۸ء ميں سوڈانی پارليمنٹ ميں اسرائيلی بائيکاٹ کا جو قانون بنايا گيا تھا وہ اب تک نافذ العمل ہے، جس قانون کی رُو سے سوڈان ۱۹۲۲ ميں اعلان کردہ عرب بائيکاٹ پر مکمل کاربند ہے، سوڈان کی سبھی حکومتوں نے اس قانون کی پابندی کی ہے، اور يہ سوڈان کی خارجہ پاليسيوں کا دوٹوک حصہ ہے۔ سوڈان کی طرف سے اسرائيل کے ساتھ تعلقات بنانے سے دور رہنے کی دوسری وجہ يہ قانون ہے۔تيسری وجہ يہ ہے کہ سوڈان اگر اسرائيل کے ليے اپنی فضائی حدود کو کھول ديتا ہے تو اسے کچھ بھی فائدہ ہونے والا نہيں ہے، اسے صرف اسرائيل کی طرف جانے والی پروازوں کے گزرنے کی فیس ملے گی۔ پيش کردہ درخواست ميں اسرائيل کی طرف سے نہ کسی قسم کی کوئی ذمہ داری قبول کی گئی ہے نہ کسی بات کی ضمانت دی گئی ہے، جب کہ اسرائيل کو اس سے بے انتہا فائدے حاصل ہوں گے۔ڈاکٹر درديری سوڈانی سربراہ عبد الفتاح برہان کی اس بات کو وہم قرار ديتے ہيں کہ اسرائيل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صورت ميں امريکی پابندياں اٹھالی جائيں گی۔ وہ کہتے ہيں کہ اگر يہی بات ہوتی تو امريکہ معاہدے کی ضمانت ليتا، اگر ايسا ہوتا تو وہ عنتيبی ملاقات ميں شريک ہوتا اور پابنديوں کو اٹھانے کا پابند بنتا، نيتن ياہو اس کی ذمے داری اپنے سر نہيں ليتا (اس ليے يہ صرف زبانی وعدے ہيں اور يہودی وعدوں کا کبھی بھی پاس ولحاظ نہيں رکھتے) دوسرا سوال يہ ہے کہ اس کو معاہدے کی شکل ميں صراحت کے ساتھ کيوں نہيں لکھا گيا جيسا کہ مصر کے ساتھ امن معاہدوں ميں کثير رقومات دينے کو صراحت کے ساتھ لکھا گيا تھا اور اب تک امريکہ يہ رقومات ادا کر رہا ہے۔اس کا جواب يہ ہے کہ اس طرح کی کوئی چيز ہونا ممکن ہی نہيں ہے، اس کا سبب يہ ہے کہ اس طرح کی ترتيب کے ليے امريکی کانگريس کی موافقت ضروری ہے، جب کہ امريکی کانگريس کو اس ميں کوئی دلچسپی بھی نہيں ہے اور موجودہ امريکی انتظاميہ اس کی قدرت بھی نہيں رکھتی اور نہ امريکی کانگريس سوڈان کے ليے ايسا کرنے والی ہے اور نہ نيتن ياہو کے ليے۔ليکن اسرائيل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حامی اور داعی حضرات کو نيتن ياہو اور اس کی نيتوں پر بھروسہ ہے اور انھيں يقين ہے کہ نيتن ياپو اس مقصد کے ليے خود کو وقف کرديں گے اور نتن ياہو کی طرف سے امريکہ کے سامنے فقط ايک لفظ کہہ دينا کافی ہوگا۔ ليکن يہ لوگ بھول رہے ہيں يا بھولنے کا ڈھونگ کر رہے ہيں کہ اس طرح کے معاہدے سے نيتن ياہو کا مقصد صرف يہ ہے کہ تل ابيب آنے جانے والی پروازوں کے ليے سوڈانی فضائی حدود کو کھول ديا جائے۔ اگر دوسرا کوئی مقصد ہوسکتا ہے تو يہ ہے کہ اسرائيل ميں مارچ ۲۰۲۰ ميں ہونے والے انتخابات ميں نيتن ياہو کو سياسی فائدہ حاصل ہو۔نيتن ياہو نے اس ملاقات ميں صرف زبانی وعدے کيے ہيں، جب وہ اوسلو جيسے مضبوط معاہدے کی دھجياں اڑا سکتا ہے تو زبانی وعدوں سے دامن جھاڑنے ميں اسے ذرہ برابر دير نہيں لگے گی۔ نيتن ياہو ٹرمپ کے ساتھ سوڈان سے پابنديوں کو ہٹانے کے سلسلے ميں بات کرنے کی حماقت بھی نہيں کرسکتا ہے، کيوں کہ نيتن ياہو کو معلوم ہے کہ ٹرمپ کے ہاتھ ميں کچھ بھی نہيں ہے، بلکہ سارا اختيار امريکی کانگريس کا ہے۔ اسے يہ بات بھی معلوم ہے کہ موجودہ پارليمنٹ کی اکثريت اور اس کی سربراہ نينسی بيلومسی اس تعلق سے ٹرمپ کی کوئی بات ماننے کے ليے تيار نہيں ہيں۔ جب کہ ٹرمپ کو صدارت سے ہٹانے کے ليے مواخذہ کی تحريک چل رہی ہے تو اس کی طرف سے جو بھی درخواست پيش کی جائے گی امريکی اندرونی سياست ميں اس کا کوئی وزن نہيں ہوگا۔اس ليے اسرائيل کے ساتھ معاہدہ کرنے کے ليے کوشاں بعض سوڈانی قائدين صرف وہم ميں مبتلا ہيں، اس طرح کے کسی بھی معاہدے سے سوڈان کا کچھ بھی فائدہ ہونے والا نہيں ہے بلکہ الٹا اس سے سوڈان کا نقصان ہی ہوگا۔ دوسری طرف سوڈانی عوام بھی اس کے ليے کسی بھی طرح تيار نہيں ہوں گے، اور تيسری طرف سوڈانی سياسی پارٹياں بھی اس طرح کے معاہدے کی مخالف ہيں۔ جو قائدين معاہدہ کرنے کے خواہاں ہيں وہ امريکہ اور اسرائيل کی مدد سے سوڈان کی حکومت پر قابض ہونے کا ارادہ رکھتے ہيں۔