سراغ ِ زندگی

ایمان آدھا صبر اور آدھا شکر ہے

شکیلہ اختر، ڈانگ پیلی بھیت

 

پیاری بیٹیو! میں نصیحت کے خیال سے اپنی آپ بیتی تم کو سنانا چاہتی ہوں۔
میں شہر کے ایک خوشحال گھرانے کے ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ بھائی کا خلیجی ملک میں اچھا کاروبار تھا۔ میری شادی کے لیے والد مرحوم نے رکن جماعت کا انتخاب کیا کیونکہ وہ خود بھی رکن جماعت تھے لیکن اتفاق سے ان کے معیار پر کھرا اترنے والا رکن جماعت ایک دیہات کے اوسط درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔
پیاری بچیو! سبھی جانتے ہیں کہ شہری اور دیہاتی زندگی میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے لیکن میں کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائی اور خندہ پیشانی سے دیہاتی زندگی کو اختیار کر لیا۔ مثلاً چولہے میں لکڑیاں جلا کر کھانا پکانا۔ ہاتھ سے کپڑے دھونا، ادرک لہسن پیاز وغیرہ سب ہاتھ سے پیسنا غرض کہ جو بھی کرنا پڑتا، ہنسی خوشی کرتی، ملازمہ کی مدد البتہ مل جایا کرتی تھی۔ خسر بزرگوار انتہائی قناعت پسند اور کفایت شعار انسان تھے۔
اللہ نے مجھے ۷ بیٹیاں اور ۳ بیٹے دیے۔ بچے آہستہ آہستہ بڑے ہونے لگے۔ بیٹی کسی کام کے لیے اپنے ابو سے کہتی کہ ادھر ایسا کمرہ بنوادیجیے یا ادھر ایسا فرش ڈلوا دیجیے وغیرہ تو وہ جواب دیتے کہ دادا جی سے کہو اگر وہ مناسب سمجھیں گے تو بنوا دیں گے۔ بچی جب داد سے کہتی تو دادا جی مرحوم انتہائی اطمینان سے جواب دیتے بیٹا! تیرا یہ گھر تھوڑی ہے، تیرا گھر تو کہیں اور ہی بنے گا۔ پوتی شرما کر خاموش ہو جاتی اور وہ مزید اطمینان محسوس کرتے۔
اب لڑکے جو کہ چار بہنوں سے چھوٹے تھے بڑے ہوئے اور ماں بہنوں کے آرام کے بارے میں سوچنے لگے مثلاً جنریٹر اور انورٹر کے فائدے ابو کو اور دادا کو انتہائی ادب اور احترام سے سمجھاتے۔ وقتاً فوقتاً مثلاً مہمانوں کی آمد کے تعلق سے اس کی اہمیت کا احساس دلاتے۔ ان دنوں لائٹ ایک ہفتہ دن میں آیا کرتی تھی اور ایک ہفتہ رات میں۔ پیاری بچیو! تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ کتنی مشکل ہوتی ہو گی بغیر لائیٹ کی زندگی۔ وہ تو کہیے کہ بڑا سا آنگن، کھلا ہوا گھر، کثیر مقدار میں تازہ ہوا کی آمد ورفت ورنہ تو۔۔۔!
اللہ نے کچھ سالوں کے بعد جنریٹر بھی عطا فرما دیا۔ دھیرے دھیرے واشنگ مشین پانی کی موٹر، انورٹر وغیرہ اللہ نے سب کچھ عطا فرما دیا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن بچوں کے ابا شہر سے 1000لیٹر کا واٹر ٹینک لے آئے۔ میں مغرب کی نماز میں تھی۔ سلام پھیر کر خوش خبری سنی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ بچے بہت خوش تھے کہ اب امی کو آرام ہو جائے گا اور وہ بہت خوش ہو جائیں گی لیکن آنسو دیکھ کر حیران کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اللہ جانے وہ آنسو خوشی کے تھے یا۔۔۔ میں تو دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی اور دعائیں کر رہی تھی کہ یا اللہ اسی طرح اپنے گھر کی بھی آسانیاں عطا فرمانا۔ رب کریم! میرے اندر یہ صبر اور شکر کی کیفیت ہمیشہ قائم رکھنا اور میری اولاد کو بھی ایسا ہی اٹھانا۔ شاید اسی وقت کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا قبول ہو گئی کہ ماشا اللہ سات بیٹیاں اپنے گھروں میں صبر و شکر کے ساتھ عزت کی زندگیاں گزار رہی ہیں اور حتی المقدور دین کا کام بھی انجام دے رہی ہیں۔
میں نے اپنے دیہاتی زندگی کے ابتدائی ایام میں ریڈیو پر ایک جملہ سنا تھا کہ آدھا ایمان صبر میں ہے اور آدھا شکر میں۔ بس میں نے وہی جملہ پلُّو میں باندھ لیا تھا۔
آج ماشا اللہ میری گاؤں کی زندگی میں اور شہری زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے الحمدللہ!
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اگر میں نے صبر نہ کیا ہوتا اور حالات سے اتنی خوشی سے سمجھوتہ نہ کیا ہوتا تو شاید آج یہ مثالی خوشحال زندگی نصیب نہ ہوتی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہاں آنے سے پہلے میں B.T.C کی ٹریننگ بھی کر چکی تھی لیکن اس وقت ماحول سروس والا نہ تھا اور خسر بزرگوار بھی قناعت پسند انسان تھے۔۔۔
کبھی کبھی خاندان کے لڑکے بھانجے بھتیجے کہتے کہ آپ نے سروس نہ کر کے اپنا نقصان کر لیا۔ کبھی کوئی سسرالی بھانجی بھتیجی کہتی کہ ہم نے ان کی طرح B.T.C کا سرٹیفکیٹ برباد کرتے کسی کو نہیں دیکھا۔ لیکن میں ہمیشہ اطمینان سے جواب دیتی کہ یہ جو ہماری زندگی میں سکون و اطمینان نظر آ رہا ہے یہ اس نقصان سے زیادہ ہے جو آپ لوگوں کو میرے سرویس نہ کرنے سے
نظر آ رہا ہے۔
پیاری بیٹیو! میں جب بہو تھی تب بھی مثالی تھی کئی عورتیں اپنی بہوؤں کے سامنے میری مثال پیش کرتی تھیں کہ دیکھو وہ بھی تو بہو ہے۔ (اپنے منھ میاں مٹھو نہیں بن رہی ہوں بلکہ نصیحت کی امید سے بتا رہی ہوں) اور آج جبکہ اللہ نے مجھے ساس بنا دیا ہے تو بھی لوگ میری مثال پیش کرتے ہیں کہ دیکھو وہ بھی تو ساس ہیں۔ ان کے طریقے دیکھو کہ وہ اپنی بہوؤں کے ساتھ کس طرح پیش آتی ہیں کسی طرح کی روک ٹوک نہیں کرتی ہیں وغیرہ۔ بغیر کسی نوک جھونک کے، رضا مندی سے بہوؤں کے کچن، پکانا کھانا، رہنا سہنا سب الگ کر دیا۔ ساتھ میں بھی ہیں اور الگ بھی۔ جب چاہیں ساتھ کھائیں جب چاہیں الگ کھائیں اور سب خوش رہیں خاندانی نظام کے تحت۔ آپسی تعلقات کا شرعی نقطہ نظر سب بچوں کو سمجھا دیا۔ بیٹے بھی راضی بہوئیں بھی راضی اور اللہ بھی خوش۔ الحمدللہ۔
شروع کے دنوں میں میرے خسر مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہمارا خاندان چالیس افراد پر مشتمل ہے اور الحمد للہ آج چالیس سال ہو چکے ہیں لیکن اس عرصے میں کبھی کسی کے درمیان کسی بات پر نوک جھونک نہیں ہوئی۔
آپ سوچتی ہوں گی اتنا صبر اور ہمت کیسے پیدا ہو سکتی ہے تو سنو میری بیٹیو! اس کے لیے میں تمہیں آسان طریقے بتاتی ہوں۔
۱۔ خدا کا خوف ہمیشہ دل میں جاگزیں رہے کہ جو قدم اور جو نظر ہم اٹھا رہے ہیں وہ اللہ کی نگاہ میں مقبول ہو۔
۲۔ تفہیم القرآن کا بغور مطالعہ
۳۔ احادیث پاک کا مطالعہ
٤۔ امہات المومنینؓ کی زندگیوں کا مطالعہ
۵۔ حضرت فاطمہؓ اور صحابیاتؓ کی زندگیوں کا مطالعہ
٦۔ اخلاقی کہانیاں اور ’’موتیوں کا ہار‘‘ (مرکزی مکتبہ دہلی) کا بغور مطالعہ
یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں ہیں جو میں نے بچپن میں پڑھی تھیں جو دل و دماغ میں سرایت کر گئیں ان ہی سے میں نے ایثار، صبر، شکر، قناعت اور حیا کے موتی چنے اور ان ہی کا ہار ہمیشہ زیب تن رکھا۔
اگر ہم بہنیں ان موتیوں کی مدد سے اپنی زندگیوں کو سنوارنا چاہیں گی تو جو جھگڑے معاشرے میں ہیں خصوصاً خواتین میں ان کو پنپنے کا موقع ہرگز نہ مل سکےگا۔ انشا اللہ
پیاری بچیو! زندگی میں ایسے مواقع بھی آئے کہ کوئی بات ناگوار گزری اور تلخی کی نوبت آ جاتی لیکن ہمیشہ خود کو جھکا کر معاملہ کو نمٹالیا۔ شیطان کو موقع نہیں دیا کہ وہ بیچ میں دخل انداز ہو جائے۔رسول کریمﷺ کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھو کہ اگر اللہ کے بعد کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو وہ شوہر کے لیے ہوتا کہ بیوی اس کو سجدہ کرے۔
پیاری بیٹیو! اگر ہم ذرا بھی آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں تو بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ میں نے خود کئی گھرانے ایسے دیکھے ہیں کہ بچے ایک طرف ہو جاتے ہیں، عموماً ماؤں کی طرف اور باپ بے چارہ ایک طرف الگ تھلگ ہو کر پڑ جاتا ہے۔۔۔
میں نہیں جانتی کہ قیامت کے دن ایسی عورتوں کا کیا حشر ہوگا۔ میں نے بہت غور کیا ہے کہ اکثر غلطی ماؤں کی ہی ہوتی ہے۔ وہ بچوں کو باپ کی قدر کرنا نہیں سکھاتیں، عزت و احترام سے پیش آنا نہیں سکھاتیں۔ براہ کرم باپ کی برائی کبھی ان کے بچوں کے سامنے نہ کریں۔ اللہ ہم سب کی سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی فرمائے آمین۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020