نعیم جاوید،سعودی عرب
خیر کی قوتیں جمع کر کے منفی جذبات کو دور کرنا کامیابی کا ضامن
ہم زندگی میں بھلے ہی لاکھ تنہائی پسند ہوں لیکن ذہنی طور پر ہردم وحشی افکار کے ریوڑ میں رہتے ہیں۔ خیالات کی بھیڑ ،خدشات کاہجوم ہمیں گھیرے رہتا ہے۔ ہماری ذات ایک کباڑیے کےپراگندہ گودام کی طرح ہوتی ہے جہاں قیمتی شے کسی گندے ڈھیر کے نیچے دبی ہوئی رہتی ہے۔ ہمارے اپنائے ہوئے کسی خیال سے لے کر مال تک، تمنا سے لے کر خدشات تک،جو چیزیں ہم نے سینت سینت کر رکھی ہوئی ہیں اس نے ہماری ذات کو کچل رکھا ہے ۔جہاں ہر ایک اضافہ چیز کے ساتھ ایک’’اچھی امید‘‘کا ٹیگ لگا ہوا ہے کہ یہ چیز ایک دن کام آئے گی ۔ یا پھر ایک ’’خوف‘‘کا ٹیگ کہ اس کے چھن جانے سے ہم اندر سے خالی ہوجائیں گے۔ اکثر سامان تو کسی اشتہار سے مرعوب ہوکر یا لالچ کے فریب میں آکر ہم اس کو خرید لاتے ہیں ۔ زیادہ تر خریدی تو وہ ذلت کے داغ ہوتے ہیں جو ہمارے قوتِ فیصلہ کی ہار اور بیچنے والے کی مکاری کے سبب ہم اپناتے ہیں۔ گھر لانے کے بعد سوائے احساسِ حماقت و حسرت کچھ نہیں بچتا۔
حسرتوں کا ہوگیا اس قدر دل میں ہجوم
سانس رستہ ڈھونڈھتی ہے آنے جانے کے لیے
(جگرجالندھری)
میرے نزدیک سامان کی ہزار شکلیں ہیں۔ روحانی، فکری، بدنی بلکہ زندگی کے ہر گوشے سے جڑا ایک رویہ ۔زندگی کا کوئی گوشہ ہو جیسے روحانیت کا؛جہاں ہم اپنے پیر یا گرو سے کرامتوں کی اُمید اور اسے ترک کرنے پر بدشگونی یابددعا کا دھڑکا۔ایسے ہی مسلک اور عقیدے کے اختیار کرنے کا معاملہ ہے، ادبی رجحانات و ترجیحات کا بھی، مالی وسائل کو برتنے اور صرف کرنے کا، سماجی زندگی گزارنے اور جینے کا، بدن کے تقاضے جو کھانے سے لے کر کسرت تک اور پھر گرہستی میں شادی کے تصور سے لے کر شادمانی کے ہر تصورتک ہم اکٹھا کردہ خیالات کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔جس کے سبب انتخاب کی ساری قوتیں ہم کھورہے ہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ کسی رہ گزر پر اگر کوئی روڑے اٹکائے تو نیا مسافر،نیا خیال اور نئی چیز کو اپنے لیے جگہ کہاں ہوگی۔ یہاں سے ترجیحات میں ٹکراو ہوگا۔ ذہنی بحران کے سبب فیصلہ کی قوت قربان ہوگی۔ گھر میں زیادہ سامان یا کباڑ ہوتو بدن راہ بناتے بناتے تھک جاتاہے ۔ اسی طرح ذہن میں ردی خیالات کا کہرام ہوتو ذہن سوچوں سے ہلکان ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ ایک مقصد کھل کر ہماری زندگی کے ساتھ نہیں چلتا۔اب تو زندگی کا ایک سادہ تصور بھی ہماری دنیا سے دور ہورہا ہے۔ایک تصور، ایک محبوب مقصد ،ایک راستہ اورایک منزل نہ ہونا دراصل یہ زندگی سے مشرکانہ برتاو ہے۔شرک کی پہچان یہ ہے کہ وہ بندے کی عظمت کو گھٹا کر مٹی میں رگڑ دیتی ہے۔اپنے ہی کیچڑسے خدا تراشنے پر لگاکر اس سے بندگی کروادیتی ہے۔ ایکائی کے انتخاب کو چھوڑ کر جب ہم کثرت کی خدائی کو قبول کرتے ہیں تو ہمارا مزاج کباڑیوں سا ہوجاتاہے۔ہماری آنکھ روشن مقاصد سے چوک جاتی ہے ۔زندگی میں مقاصدکی شفافیت اسے کہتے جسے ہم آنکھ بند کرکے اپنے تصور سے دیکھ سکتےہوں۔اس سے گتھے جذبات میں وضاحت کا نور ہوگا۔ اس سے انفرادیت کا بانکپن بنا رہے گا۔ کیوں کہ ہم ریوڑ پسند نہیں بلکہ سراپا شعور ی انتخاب کی راہ کے مسافر رہیں گے۔
میں اس لیے ہجوم کا حصہ نہیں بنا
سورج کبھی نجوم کا حصہ نہیں بنا
( شاہد ماکلی )
انفرادیت اور انتخاب کے سبب ہم جذبات کو اپنےشعور کا ساتھی بناسکتے ہیں۔آس پاس کی دنیا میں ملنے جلنے والوں میں انتخاب یا رد کرنے میں الجھن نہیں ہوگی۔حسن فطرت کو اپنی تمناوں میں شریک کرسکتے ہیں۔اس کی پرکھ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی خوف کی گھڑی میں یہ دیکھنا کہ اپنے قدم راہ شوق میں تھم گئے یا بڑھتے رہے۔ قدروں کو پامال کرتی گھڑیوں میں پرکھ لینا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ بلکہ ہمیشہ یوں تصور کرنا کہ زندگی کےرہ گزر میں راستہ کے ایک جانب آپ برائیوں کے کیمپ کو اور دوسری جانب بھلائیوں کے پڑاو دیکھتے ہیں۔ راستہ چلتے ہوئے لڑکھڑا کر بہکنا تو ممکن ہے لیکن یہ دیکھ لینا کہ کس کیمپ میں ہم دیر تک اور دور تک ان کے ہمراہ رہے۔ اس انتخاب کی آزادی کی نعمت سے جو بہرور ہوئے ،ان تمام مہم جووں نے اپنے اقدامات سے پہلے اپنے تصور کی دنیا دیکھ لی اور ایک شعوری ہجرت کرکےایک پراگندہ ماحول سے امکانات کی نئی زمینوں میں پناہ لے لی۔ اگرہم اپنی راہوں کو پرانے خیالات کے کباڑ کے سبب آگے صاف نہ دیکھ پائیں تو گنجلک سے گنجائش تک کاسفر ناممکن ہوگا۔اگر ہم زندہ رہنے کا حسین تصور چاہتے ہیں تو گنجان کو سنسان بنانا ہوگا۔اپنے سر کوشور شرابوں سے بچانا ہوگا۔ہجومِ تمنا سے اپنی جان کو نکالنا ہوگا۔ذہن و دل میں اتنی بھیڑ ہوگی تو تنہا محبوب، ایک مقصد اوراکیلے رب کو کہاں بھر پور جگہ مل سکےگی ۔ بلکہ ہم تو رب سے مانگتی ہوئی دعاؤں کی بھیڑ میں اپنی ترجیحات بھی بھول جاتے ہیں ۔ اس لیے بھی رب تعالیٰ ہمیں ہماری روح پر انکشاف بھی نہیں کرتا۔
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اُسے راستا ملے
(وسیم بریلوی)
خواہشوں کی بھیڑ کو اگر ہم ٹھوک بجا کردیکھیں تو یہ سب ہمارے وہ ٹالے ہوئے فیصلے ہوتے ہیں جو ڈھرت بن کر ہماری راہیں روکتے ہیں۔یہ سب وہ کَلکلاتی تمنائیں ہیں جو گزرے ہوئے کل کا ردّی مال ہے۔باسی غذا روح کو تعفن سے بیمار کرتی ہے۔تازہ خیال سے اپنے وجود کو تازگی دینا ہوگا۔ اگر ہماری مٹھیوں میں کل کی اُٹھائی ہوئی ریت ہوگی تو آج کا موتی ہمارے ہاتھوں میں کیسے جگہ بنا سکے گا۔جو ڈھیر ہاتھ لگے گا وہ تذبذب کاکیچڑ ہوگا۔ جب تک ہم اپنے ہاتھ کی پرانی مٹی نہیں جھٹکیں گے نئے خواب کے موتی جگہ نہیں لے سکیں گے۔ آپ پل بھر کے لیے اپنے اس تجربے کو یاد کی روشن سطح پر لائیں جہاں آپ نے کسی کباڑ کو اپنی زندگی سے الگ کردیا تھا۔ پل بھر کی دیر بھی نہ ہوئی ہوگی کہ وہ کباڑ آپ کے ذہن سے ایک بوجھ کی طرح اتر گیا ہوگا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کباڑ آپ کے کشادہ گودام میں نہیں تھا بلکہ وہ آپ کے پورے وجود پر تھا۔ اسی طرح اگر ہم اپنی ذات سے ایک وہم نکالیں۔ ایک وسوسہ گھٹا کر دیکھیں۔ ایک کمزوری جو بہت آسانی سے دور ہوسکتی ہے۔ ایک کلمہ خیر کو کہہ کردیکھیں۔ تو زندگی اتنی ہلکی ہوگی کہ اپنی زندگی کے مقاصد کو پانے کے لیے کسی ماہر نفسیات کے گھر پھیری لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔جس طرح ایک کٹیا کا کباڑ اس کےمکینوں پر گراں ہوتا ہے اس طرح انسانی ہجوم بھی کباڑ سے کم نہیں ۔ ان کی بے شخصیت آبادیاں بھی ردّی مال ہے۔ ان کی نفسیات کیا ہے ؟وہی جو بھیڑ کی ہوتی ہے۔ بات بات پر مشتعل ہونا، انفرادیت کا قتل کرنا۔بھیڑسے الگ ہونے پر راہیں بند کرنا۔
بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں
الگ الگ ہم لوگ بہت شرمیلے ہیں
(شارق کیفی)
ایک بڑا علمی نکتہ یاد آیا جب علامہ اقبا ل نے اٹلی کے سفر میں مسولینی سے ملاقات پر اس کو جو نصیحت کی تھی ۔ جسے سن کر اُس کے ہوش اڑگئے تھے۔ اور تفصیل پوچھنے پر اقبال نے کہا تھا کہ میں نے تو بس ایک حدیث کا مرکزی خیال تمہارے لیے ایک دانشوری کا تحفہ سمجھ کر دے دیا۔ اقبال نے کہا تھا کہ’’اپنے شہروں کی آبادی کی حد متعین کردو کیوں کہ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادیاں خیرکی قوتوں کو ختم کردیتی ہیں اور شر کے سرچشموں کو بڑھادیتی ہیں۔ یعنی جو فکر ذہن کو کثرت سے کباڑ بنادے ۔ وہی آبادی بھی شہروں کو وحشتوں کا جنگل بنا سکتی ہے۔ کیوں کہ زندگی توازن کا نام ہے۔ توازن اگر ایک پلڑے میں رکھے کباڑ کو کم کرنے سے آتا ہےتو دوسرے پلڑےمیں رکھا رب کا نور خود بخود جھک جھک آپ کا وقار بلند کرتا رہے گا۔اگر ہم اپنے ذہن سے فکروں کو، دل سے خدشوں کو ، بدن سے چربی یا امراض کو ، علم سے لغویات کو ، عقیدے سے خرافات کو، مال سے اسراف کو، جذبات کو ہیجانات سے اور فیصلوں کو تحفظات سے کم کرنا شروع کردیں تو دیکھنا زندگی میں کونسا رنگ ابھرتا ہے۔ زندگی کیسے انبیاؑ کی دعاوں کی مانگی ہوئی تعبیر نظر آتی ہے۔
(مضمون نگار شخصیت سازی کے ادارے ’ہدف‘ کے ڈائریکٹر ہیں)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 09 جنوری تا 15 جنوری 2022