زہریلی وبا (افسانہ)

(کویڈ19 کے تناظر میں)

عطیہ بی، لکھنو

دروازے پر زور دار دستک ہوئی… کون ہے؟ ارے بھائی کون ہے؟
دروازہ کھولیے مجھے اندر آنا ہے۔ ایک معصوم آواز نے گھر میں موجود سبھی افراد کے چہروں پر خوشی کی چمک بکھیر دی۔
کیا یہ افضل کی آواز ہے؟ آواز سنتے ہی سب خوشی سے بول اٹھے۔
ماموں جان نے دروازہ کھولا اور سامنے کھڑے افضل کو گود میں اٹھا لیا۔
تم کب آئے میرے بچے؟
صرف افضل ہی نہیں آیا ہے بھائی جان ہم بھی ہیں امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں بھائی تم بھی آئی ہو آؤ اندر چلو۔
’’ماموں جان نانی امی کہاں ہیں مجھے ان کے پاس جانا ہے۔ ’’افضل نے معصومیت سے کہا‘‘۔ اندر ہیں بیٹا چلو نانی امی کے پاس۔ اور یہ کہتے ہوئے گھر میں سبھی داخل ہوئے۔
ارے بھائی یہ کون آگیا؟
ارے نانی امی آپ مجھے بھول گئیں کیا؟ میں تو آپ کا لاڈلا بیٹا ہوں۔
’’نہیں میرے بچے تم کو کیسے بھول سکتی ہوں۔ نانی نے افضل کا ماتھا چوم لیا۔ چلو جلدی سے ہاتھ منہ دھولو پھر بتاؤ کیا کھاؤ گے تو وہی میں اپنے شہزادے کے لیے بنوادوں۔‘‘
’’ ارے امی کھانے میں بڑے نخرے ہیں ان کو ہر چیز پسند کہاں آتی ہے۔‘‘
’’امی نے نانی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں میرا بیٹا جو کھائے گا وہیں بنوا دیں گے‘‘۔
’’ مٹر پلاؤ کھائے گا میرا شہزادہ ابھی بنواتی ہوں میں‘‘۔
’’نہیں نانی امی مجھے تو ابھی ماموں جان کے ساتھ باہر جانا ہے ابھی وہاں سے چاکلیٹ اور پیزا لاؤں گا‘‘۔ افضل نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’ ابھی ابھی تو آپ آئے ہیں آرام کر لیجیے پھر چلے جائیے گا‘‘ نانی نے کہا۔
نہیں مجھے ابھی جانا ہے چلیے ماموں جان آپ نے کہا تھا کہ مجھے باہر لے جائیں گے۔
چلیے جلدی کہتے ہوئے وہ ماموں کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا۔
اچھا اچھا چلتا ہوں ٹہرو تو ذرا کہتے ہوئے ماموں نے میز پر رکھی گاڑی کی چابی اٹھائی اور دروازے کی طرف روانہ ہوئے۔
گاڑی پربیٹھتے ہی افضل نے طرح طرح کی چیزیں دیکھنا شروع کی اور انہیں لینے کی ضد کرنے لگا۔
ماموں جان نے ایک دکان کے سامنے جاکر اپنی گاڑی کھڑی کر دی اور دکان میں داخل ہوئے۔
افضل بے ساختہ بولا یہ گاڑی، غبارے، اور…بس، بس ابھی بس اتنا ہی لو پھر اور چیزیں بعد میں لینا۔
نہیں مجھے ابھی چاہیے … مجھے یہ سب بھی لینا ہے۔
دیکھو تویہ گاڑی کتنی اچھی ہے اس سے ابھی کھیل لو شام کو اور چیزیں دلا دوں گا۔
ٹھیک ہے مجھے ابھی پیزا دلائیے پھر شام کو دلائیے گا۔ ماموں نے افضل کو پیزا دلایا اور وہ افضل کو دوسری چیزوں کے لیے سمجھا ہی رہے تھے کہ اچانک ہلچل ہوئی لوگ تیزی سے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دکانیں بند ہونے لگیں۔
’’ کیا ہوا بھائی ماموں جان نے دکان دار سے پوچھا‘‘
ارے بھائی کیا بتائیں آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے یہاں بھی اس موذی بیماری کا ظلم شروع ہو گیا ہے سنا ہے پاس کے محلہ میں کوئی مریض ملا ہے جس کی وجہ سے یہ سب بند کرا رہے ہیں۔
یا اللہ مدد کر ماموں جان نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
افضل ماموں جان کا چہرہ دیکھتے ہی رہ گیا۔
’’ مامو جان یہ کورونا کیا ہے‘‘؟
’’ بیٹا یہ ایک بہت بُری بیماری ہے‘‘۔
’’ بیماری! جس میں ہمیں زکام بخار ہوتا ہے؟
ہاں! مگر یہ ایک جان لیوا بیماری ہے۔
چلو جلدی چلو اب یہاں کھڑا رہنا صحیح نہیں۔ میں گھر پر بتاتا ہوں یہ کہتے ہوئے ماموں افضل کے ساتھ روانہ ہوئے اور پاس میں موجود میڈیکل اسٹور سے کچھ سامان لیا یہ کیا ہے ماموں جان۔ یہ کورونا سے لڑنے کا سامان ہے ۔ ’’ماموں نے پیکٹ سے ایک ماسک نکال کر افضل کے منہ پر اور ایک خود لگا لیا اور باقی سامان جس میں سینی ٹائزر اور صابن بھی تھے گاڑی میں رکھ کر روانہ ہوئے۔
اسی وقت افضل نے سامنے کھڑے ایک پولس والے کو دیکھا جو ہاتھ جوڑ جوڑ کر لوگوں سے گھر جانے کی اپیل کر رہا تھا۔ ’’یہ پولیس انکل لوگوں کے ہاتھ کیوں جوڑ رہے ہیں ماموں‘‘؟
اس لیے جوڑ رہے ہیں بیٹا کہ لوگ اپنے گھروں میں چلے جائیں اور محفوظ رہ سکیں۔
ارے ایسی کیا بیماری آگئی ہے کہ لوگ گھروں میں ہی محفوظ رہ سکیں گے۔
یہ کورونا ہے ہی ایسی وبا۔
کورونا یہ کیسا نام ہے؟
ہاں کورونا… کہتے ہوئے ماموں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور گھر کی جانب رخ کیا۔ افضل ان حالات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کورونا وائرس میں ایسی کیا بات ہے جو لوگ اتنے پریشان ہیں جہاں ایک طرف لوگ بے ساختہ ضرورت کا سامان اکٹھا کرنے میں لگے ہیں تو دوسری طرف پولیس انکل کبھی ہاتھ جوڑ کر تو کبھی اپنے لمبے ڈنڈے سے ڈرا ڈرا کر لوگوں کو گھر جانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔
بس وہ خاموشی سے ماموں کی پیٹھ سے چپکا یہ سب حالات دیکھتا ہوا گھر جا رہا تھا۔ تبھی سامنے کوڑے دان کے پاس ایک معصوم بچہ اور اس کی ماں کوڑے میں موجود چاول اور کئی دن پرانی دال کو صاف کرکے الگ کرتے ہوئے دکھائی دیے۔
افضل یہ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ ’’یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ماموں جان دیکھیے تو ‘‘ماموں جان کا دل یہ دیکھ کر بھر آیا’’ اللہ ان کی مدد فرم
ائے‘‘۔
روکیے ماموں جان رکیے یہ کہتا ہوا افضل گاڑی سے اتر کر بھاگتا ہوا ان کے پاس جا پہون
چا یہ کیاکر رہے ہیں آپ دونوں یہ تو گندے چاول اور خراب دال ہے آپ ان کو کیوں کھا رہے ہیں‘‘سامنے موجود خاتون جس نے پھٹے پرانے کپڑے کچھ اس طرح سے اوڑھ رکھے تھے کہ اس کا جسم ڈھکا رہے بے تاب ہو کر بولی۔
کیا کروں بابو تین دن سے کچھ نہیں کھایا ہم دونوں نے لوگ ہمیں بھگاتے ہیں کورونا کے ڈر سے ہم تو غریب ہیں ہم کیا کریں۔
تو آپ لوگوں کو بھی محفوظ رہنا چاہیے اس بیماری سے۔
ہماری تو دونوں طرح سے موت ہے بیٹا کورونا سے مرے یا بھوک سے کورونا سے پہلے تو بھوک ہی ہمیں مار دے گی ہم کہاں سے لائیں گے کھانا۔
یہ سنتے ہی افضل کا ننہا دل مسک گیا اور ہاتھ جو پیزا پکڑے تھا ان دونوں کو دے دیا ماموں جان نے اپنے بٹوے سے کچھ پیسے نکال کر ان دونوں کو دیے اور افضل کو لے کر روانہ ہوئے۔
گھر پہونچتے ہی افضل نے امی سے پوچھا … ’’امی یہ کورونا وائرس کیا ہے ماموں جان بتا رہے تھے بہت خراب مرض ہے۔‘‘
امی افضل کی اس فکر کو سمجھتے ہوئے بولیں۔
ہاں بیٹا یہ بہت بری وبا ہے۔ یہ عام بیماریوں کی طرح ہرگز نہیں ہے یہ موذی مرض انسان کو انسان سے لگنے والا مرض ہے۔
’’ مگر امی یہ ابھی تک تو نہیں تھا اب کیسے‘‘
’’ اس کی شروعات چین کے ووہان شہر سے ہوئی ہے پہلے چین میں اس مرض نے لوگوں کی جان لی اور اب پوری دنیا میں اس کا قہر جاری ہے۔ اسی لیے تو سرکار نے لاک ڈاؤن کیا ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں محفوظ رہیں اور یہ بیماری دوسروں تک نہ پھیلے۔‘‘
مگر امی اس سے بچنے کا کوئی طریقہ تو ہوگا ایسے کیسے زندگی گزاریں گے لوگ‘‘
’’ہاں ہے احتیاط…‘‘۔
’’احتیاط‘‘ افضل نے تعجب سے پوچھا۔
ہمیں لوگوں سے دوری بنانی چاہیے، بغیر کسی ضروری کام کے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ باہر سے آنے پر کم سے کم ۶۰ سیکنڈ تک اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھونا چاہیے۔ سینی ٹائزرز کا استعمال کرنا چاہیے۔
ہائے رے امی کیا اتنی خطرناک بیماری ہے یہ
’’ہاں بیٹا… یوں تو اس کا پتہ دسمبر ۲۰۱۹ء میں چل گیا تھا اس لیے اسے Covid-19 کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔ Covid-19یہ کیا ہے؟Co کا مطلب کورونا، Viکا مطلب وائرس اور 19کا مطلب ۲۰۱۹ء؁ ہے‘‘۔
مگر امی یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ بیماری ہمیں ہے کہ نہیں۔
’’ اگر کسی کو کھانسی بخار زکام کافی دن سے ہو تو ڈاکٹر کے پاس جاکر جانچ کرانی چاہیے اور لوگوں سے دور ی بنانی چاہیے۔ ورنہ جان بھی جا سکتی ہے‘‘۔
’’ارے باپ رے امی یہ تو بہت خراب بیماری ہے پھر ان غریبوں کا کیا ہوگا جو کھانے کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے ہیں ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ بہت پریشان ہو گیا۔ اور کچن کی طرف جانے لگا۔
’’کیا ہوا افضل ؟‘‘ ’’امی نانی امی نے جو میری پسند کا کھانا بنایا ہے وہ میں لینے جا رہا ہوں تاکہ میں وہ ان لوگوں کو دے سکوں جو بھوکے ہیں ورنہ وہ کھانے کی تلاش میں نکلیں گے اور خطرناک بیماری انہیں ہو جائے گی‘‘۔
امی کو افضل کی اس معصوم کوشش پر بڑا فخر ہوا اور انہوں نے افضل کو گلے لگا لیا۔
***