ريزرويشن پر سپريم کورٹ کا فیصلہ، سماجی انصاف کی آئينی روح مجروح
پسماندہ طبقات ميں ناراضگی۔تحفظات کو کمزور کرنے کی پاليسيوں کے سبب حکومت کی نيت پر سوال!
ابھے کمار
دہلی انتخابات کے شور ميں سپريم کورٹ نے ريزرويشن سے متعلق ايک ايسا فیصلہ سنايا ہے جس سے محکوم طبقے ميں زبردست ناراضگی پائی جاتی ہے۔ 7فروری کے اپنے فیصلے ميں عدالت عظميٰ نے کہا کہ رياست اس بات کی پابند نہيں ہے کہ وہ تقرری يا ترقی ميں ريزرويشن دے، کيونکہ ريزرويشن دينا اس کا اختياری معاملہ ہے لازمی نہيں ہے۔ دوسرے الفاظ ميں رياست اپنی صوابديد کا استعمال کر کے ريزرويشن دے بھی سکتی ہے يا دينے سے انکار بھی کر سکتی ہے۔
جسٹس ايل ناگيشور راؤ اور ہيمنت گپتا پر مشتمل سپريم کورٹ کی دو ارکان پر مبنی بينچ نے کہا ہے کہ ريزرويشن آئين ہند کے بنيادی حقوق کا حصہ نہيں ہے۔ لہٰذا اسے نافذ کرنا يا نہ کرنا رياست کے فیصلے پر منحصر ہے۔
’’دفعات 16-4 اور 16-4 الف ايسی توضيحات ہيں جو ريزرويشن دينے کے راستے کھول ديتی ہيں۔ يہ رياست کو اس بات کا بھی اختيار مہيا کراتی ہيں کہ ضرورت پڑنے پر وہ ريزرويشن دے۔ يہ ايک طے شدہ قانون ہے کہ حکومت کو سرکاری آساميوں کی بحالی ميں ريزرويشن دينے کے ليے مجبور نہيں کيا جا سکتا۔ اسی طرح رياست اس کی بھی پابند نہيں ہے کہ وہ ترقی ميں درجہ فہرست ذات اور درجہ فہرست قبائل کے ليے ريزرويشن دے۔‘‘
عدالت عظميٰ نے يہ بھی واضح کيا کہ اگر رياست اپنی صوابديد کا استعمال کرتے ہوئے ريزرويشن دينا چاہتی ہے تو اسے مقدار اور اعداد و شمار جمع کرنے ہوں گے اور يہ بتلانا ہوگا کہ ريزرويشن حاصل کرنے والوں کی نمائندگی ناکافی ہے۔ ’’اگر ريزرويشن دينے کے رياست کے فیصلے کو چيلنج کيا جاتا ہے تو اس صورت ميں متعلقہ رياست کو عدالت کے سامنے قابل تعين ڈيٹا پيش کرنا ہوگا۔ رياست عدالت کو اس بات کے ليے بھی مطمئن کرے گی کہ ايک خاص زمرے کی آساميوں کی بحالی ميں ريزرويشن دينے کی وجہ يہ ہے کہ درجہ فہرست ذات اور درجہ فہرست قبائل کی نمائندگی نا کافی ہے۔ اگر ريزرويشن ديا جا رہا ہے تو اس بات کا بھی دھيان رکھا جائے کہ ريزرويشن دينے کی پاليسی انتظاميہ کی موثر کارکردگی پر منفی اثر نہيں ڈال رہی ہے۔‘‘
بھارت کے آئين کی دفعہ سولہ چار ميں يہ کہا گيا ہے کہ ’’اس دفعہ کا کوئی امر تقررات يا عہدوں کو شہريوں کے کسی پسماندہ طبقہ کے حق ميں جس ميں مملکت کے تحت ملازمتوں ميں کافی نمائندگی نہ ہو، محفوظ کرنے کے ليے کوئی توضيح کرنے ميں مانع نہ ہوگا‘‘ وہيں 16-4 ايف ميں کہا گيا ہے کہ ’’اس دفعہ کا کوئی امر رياست کو ايسی درج فہرست ذاتوں اور قبيلوں کے حق ميں، جن کی نمائندگی ملازمتوں ميں نا کافی ہے، کسی قسم کے عہدوں پر سينيارٹی کے ساتھ ترقی کے معاملوں ميں تحفظ کے ليے توضيح کرنے ميں مانع نہيں ہوگا۔‘‘
اس فیصلے کے بعد دلت، آدی واسی اور پسماندہ ذاتوں ميں کافی ناراضگی پائی جارہی ہے۔ جگہ جگہ کورٹ کے فیصلے سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے جلسے بھی منعقد کيے جا رہے ہيں۔ ’’ريزرويشن کے خلاف حملہ نيا نہيں ہے۔ يہ حملہ تب تک چلتا رہے گا جب تک سماج ميں اونچ نيچ پر مبنی ذات پات کا نظام قائم ہے۔‘‘ مذکورہ باتيں انسانی حقوق کے ماہراور امبيڈکر نواز اسکالر ڈاکٹر اُما کانت نے کہيں۔ اُما کانت نے بہار کے دلتوں پر جے اين يو سے پی ايچ ڈی پوری کی ہے اور سماجی انصاف سے متعلق موضوعات پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس فیصلے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی سرکار کو گھيرنا شروع کر ديا ہے۔ کانگريس نے کہا ہے کہ وہ سپريم کورٹ کے اس فیصلے سے غير متفق ہے۔ اس نے يہ بھی الزام لگايا کہ بی جے پی کی حکومت ميں ايس سی اور ايس ٹی کے حقوق خطرے ميں آ گئے ہيں۔ کانگريس کے جنرل سيکرٹری مُکل وسنيک نے کہا "کانگريس پارٹی کا يہ يقين ہے کہ ايس سی اور ايس ٹی کی تقرری کا معاملہ حکومت کی صوابديد پر نہيں چھوڑا جانا چاہيے۔ يہ معاملہ آئين کے بنيادی حقوق کا ہے”۔ حال ميں بی بی جی پی چھوڑ کر کانگريس ميں آئے دلت ليڈر اُديت راج نے اسی پريس کانفرنس ميں بولتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی بنيادی طور سے دلت اور ريزرويشن کے خلاف ہے۔‘‘کانگريس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی بی جے پی اور آر ايس ايس پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ ’’ بی جے پی اور آر ايس ايس نے کبھی نہيں چاہا کہ دلت آگے بڑھيں۔‘‘ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ ’’ميں ايس سی، ايس ٹی اور او بی سی کو يہ کہنا چاہتا ہوں کہ مودی جی اور بھاگوت جی کتنا بھی خواب ديکھ ليں، ہم ريزرويشن کو ختم نہيں ہونے ديں گے۔‘‘ ديگر اپوزيشن پارٹيوں نے بھی اس مسئلے پر مايوسی کا اظہار کيا ہے۔ آر جے ڈی کے ترجمان منوج جھا نے مرکزی حکومت سے ’’ريويو پٹيشن‘‘ داخل کرنے کا مطالبہ کيا ہے۔ اُنہوں کے کہا کہ اگر ايسا نہيں کيا جاتا تو سماجی انصاف کے نظريہ کو دھکا لگے گا۔ سی پی آئی اور ڈی ايم کے نے بھی سپريم کورٹ کے فیصلے کو ريزرويشن کی روح کے خلاف بتلايا ہے۔
حزب اختلاف کے علاوہ حکمراں اين ڈی اے کی معاون جماعتوں نے بھی اس مسٗلے پر بولنا شروع کر ديا ہے۔ اُن کو بھی يہ بات بخوبی معلوم ہے کہ اگر وہ ريزرويشن پر بھی خاموش رہتی ہيں تو اُن کی سماجی زمين نيچے سے کھسک جائےگی۔ لوک جن شکتی پارٹی اور جنتا دل يو نے بھی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ فیصلے کے بعد مرکزی وزير رام ولاس پاسوان نے اپنی رہائش گاہ پر دلت ارکان پارليمنٹ کی ايک ميٹنگ بلائی۔ جنتا دل کے قومی جنرل سکريٹری اور پارٹی ترجمان کے سی تياگی نےمرکزی حکومت سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ پارليمنٹ کے رواں اجلاس ميں ’’آرڈيننس‘‘لائے تاکہ ترقيات ميں ايس سي، ايس ٹی ريزرويشن کو جاری رکھا جاسکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مرکزی حکومت سے گزارش کی کہ وہ موجودہ بجٹ سيشن ميں ايک قرار دا د پاس کرے۔
ريزرويشن کا معاملہ پارليمنٹ ميں بھی اٹھايا گيا ہے۔ دس فروری کو وقفہ صفر کے دوران کانگريس ايم پی رنجن چودھری نے اس مسئلے کو اٹھايا اور کہا کہ کورٹ کا فیصلہ ريزرويشن کی روح کے خلاف ہے اور ريزرويشن ايس سی اور ايس ٹی کے ليے آئينی ضمانت ہے۔ ٹی ايم سی کے رکن کليان بنرجی نے کہا کہ آئين کے تيسرے حصے کے دفعہ سولہ چار بنيادی حقوق کا حصہ ہے۔ اُنہوں نے مطالبہ کيا کہ اس فیصلے کی خاميوں کو صحيح کرنے کے ليے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ڈی ايم کے رکن اے راجا نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کيا کہ وہ سپريم کورٹ ميں درخواست نظرثانی داخل کرے يا پھر ايک خصوصی قانون لائے۔ اس کے بعد سماجی انصاف کے مرکزی وزير گہلوت نے کہا کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کر رہے ہيں اورمعقول فیصلہ ليں گے۔‘‘
دلچسپ بات يہ ہے کہ تقريباً تمام سياسی پارٹياں، خواہ وہ حزب اختلاف کی ہوں يا حکمراں جماعت سے تعلق رکھتی ہوں، سب عدالت کے فیصلے کے خلاف کھڑی نظر آتی ہيں۔ مگر سچ يہ بھی ہے کہ ريزرويشن پر حملے ابھی رکے نہيں ہيں۔ عدليہ بھی ريزرويشن کی روح کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے اور وہ ’ايفیسينسي‘(استعداد) کے نام پر ريزرويشن فراہم کرنے کی راہ ميں ايک کے بعد ايک شرط لگاتی جا رہی ہے۔ سپريم کورٹ کے علاوہ ميڈيا اور سيول سوسائٹی کی طرف سے بھی ريزرويشن پر سوال اٹھايا جاتا رہا ہے۔ اس کی ايک بڑی وجہ يہ ہے کہ ان اداروں ميں محکوم طبقوں کی نمائندگی بہت کم ہے يا نہيں کے برابر ہے۔ اُن اداروں ميں اعليٰ ذات کی بالادستی بڑی حد تک قائم ہے۔
يہ بات صحيح ہے کہ ريزرويشن کے ساتھ استعداد کا خيال رکھنا بھی ايک پہلو ہے۔ مگر کيا يہ سماجی انصاف کے نظريے کا گلا گھوٹنے کے مترادف نہيں ہے کہ استعداد کے نام پر دلتوں، آدی واسيوں اور سماجی اور تعليمی طور سے پسماندہ ذاتوں کو ملک کی تعمير و ترقی سے باہر رکھنے کی وکالت کی جاتی ہے؟ افسوس کہ اس ناانصافی کی کارروائی کو جواز دينے کے ليے ميرٹ و موثر کارکردگی کا بہانہ بنايا جاتا ہے۔
ميڈيا کا بڑا حصہ سپريم کورٹ کے اس فیصلے کا خير مقدم کرنے کے ليے آگے آيا ہے۔ کوئی اس فیصلے کا جشن سامنے آ کر منا رہا ہے تو کوئی اس پر اٹھنے والے سوالات کو مسترد کر کے اپنی ريزرويشن مخالف ذہنيت کا اظہار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپوروا مندھانی نے 12فروری کے روز ’’پرنٹ‘‘ ويب پورٹل کے ليے ’’سپريم کورٹ کا فیصلہ کوئی نيا نہيں ہے‘‘ کے عنوان سے ايک مضمون لکھا اور يہ دليل پيش کی کہ ريزرويشن بنيادی حقوق کا حصہ تصور نہيں کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا مطالبہ کرنا درست ہے کيونکہ يہ طے شدہ قانون کی شکل اختيار کر چکا ہے۔ انہوں نے اپنی دليل ميں کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا ذکر کيا اور کہا کہ ماضی ميں بھی اس طرح کے فیصلے کورٹ صادر کرتی رہی ہے۔ مضمون نگار نے پانچ ججوں کی بينچ پر مشتمل ايم آر بلا جی بنام اسٹيٹ آف ميسور (1962) پانچ ججوں والی سی اے راجندر بنام يونين آف انڈيا (1967) نو ججوں والی اندرا ساہنی بنام يونين آف انڈيا (1992) پانچ ارکان پر مبنی ايم ناگراج بنام يونين آف انڈيا (2006) کا حوالہ ديا اور کہا کہ ان بڑے فیصلوں ميں سپريم کورٹ نے کہا ہے کہ دفعات (4) 15 اور (4) 16 خود بنيادی حقوق کا حصہ نہيں ہيں۔اس فیصلے کے بعد ’’ٹائمز آف انڈيا‘‘ نے اپنے اداريہ (دس فروري) ميں ريزرويشن کی پاليسی کو خوب نشانہ بنايا۔ اس نے کہا کہ ريزرويشن کی پاليسی سے برابری کے مواقع کے تصوّر پر مبنی مساوات کی پامالی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے حکومت کے ہاتھ بندھ جاتے ہيں کہ وہ کوئی دوسری پاليسی لے کر آئے۔
خيال رہے کہ موجودہ تنازع کی شروعات اتراکھنڈ سے شروع ہوتی تھی۔ وہاں ايس سی، ايس ٹی اور او بی سی کو ريزرويشن اُتر پرديش پبلک سروسز (ريزرويشن فار شيڈول کاسٹس، شيڈول ٹرائيب اينڈ ادر بيکورڈ کاسٹس) ايکٹ 1994کے تحت ديا جاتا تھا۔ اس قانون کا سيکشن (7) 3 يہ کہتا ہے کہ سرکار ترقی ميں ريزرويشن دے گی۔ سال 2011 ميں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے اپنے ايک فیصلے ميں سيکشن (7) 3 کو غير آئينی قرار ديا۔ سال 2012 کی اتراکھنڈ کی سرکار نے ريزرويشن نہ دينے کا فیصلہ کيا، جسے ہائی کورٹ ميں چيلنج کيا گيا۔ حکمراں بی جے پی اسی بات کو پکڑ کر کانگريس پرحملہ کر رہی ہے اور يہ الزام لگا رہی ہے کہ کانگريس کی زير قيادت اتراکھنڈ کی سرکار نے تب ريزرويشن مخالف فیصلہ ليا تھا اور آج وہ ريزرويشن حمايتی بن گئی ہے۔
اتراکھنڈ سرکار کے ريزرويشن نہ دينے کے فیصلے کو ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اپريل ميں خارج کر ديا۔ اس کے بعد ايک ريويو پٹيشن اتراکھنڈ ہائی کورٹ ميں داخل کيا گيا، جس ميں کورٹ نے کہا کہ دفعہ 16(4) ميں اختيارمہيا کرنے سے متعلق ضوابط ہيں جس ميں رياستی حکومت کو يہ حکم ديا کہ ريزرويشن دينے سے قبل وہ ايس سی اور ايس ٹی کی نمائندگی سے متعلق ڈيٹا جمع کرے۔ اس فیصلے کے خلاف سپريم کورٹ ميں چيلنج کيا گيا، جس پر فیصلہ گزشتہ ہفتہ آيا ہے۔
ريزرويشن کے معاملے ميں سياسی جماعتيں ايماندار نہيں رہی ہيں۔ ايک بات تو صاف ہے کہ امبيڈکر تحريک کے بعد کے دور ميں اصل دھارے کی سياسی جماعتيں تحفظات کی مخالفت ميں کھڑی ہوئی دکھائی نہيں دينا چاہتيں کيونکہ اُن کو بخوبی معلوم ہے کہ اعليٰ ذات کے ووٹوں سے وہ اقتدار پر قابض نہيں ہو سکتی ہيں۔ جمہوريت ميں پسماندہ سماج کے رائے دہندگان سرکار بنانے اور بگاڑنے کی طاقت رکھتے ہيں۔
مگر يہ بھی حقيقت ہے کہ اعليٰ ذات اور سرمايہ دار طبقات ريزرويشن کو پسند نہيں کرتے۔ کانگريس نے بھی ريزرويشن نافذ کرنے ميں اتنی ايمانداری نہيں دکھائی ہے جتنی محکوم طبقات نے اس سے اُميد لگائی تھی۔ مگر جہاں تک بات ہندو فرقہ پرست بی جے پی اور آر ايس ايس کی ہے تو يہ يقينی طور پر اُن کا حامی ايک بڑا طبقہ ريزرويشن کا سخت مخالف ہے۔ مودی کو ووٹ کرنے والوں ميں ايک بڑا طبقہ، جو اعليٰ ذات سے آتا ہے، يہ چاہتا ہے کہ سرکار جلد از جلد ريزرويشن کو ختم کر دے۔ مگر بی جی پی کی مجبوری يہ ہے کہ اعليٰ ذات کے 10 سے 15 فی صد ووٹ اگر اسے سب ايک ساتھ بھی مل جائيں تب بھی وہ سرکار نہيں بنا سکتی۔ اس ليے بی جی پی ريزرويشن کے خلاف نہيں بول سکتی کيوں کہ اسے دکھانا ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کی سب سے بڑی خير خواہ ہے۔
مگر يہ بھی حقيقت ہے کہ اس کا ايجنڈا ريزرويشن کو کمزور کر دينا بھی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ وہ دن رات نوکريوں کو پرائيويٹ ہاتھوں ميں بيچ رہی ہے اور کالج اور يونيورسٹی کو تباہ کرکے پرائيويٹ يونيورسٹی کو فروغ دينے کی کوشش کر رہی ہے۔ نہ رہيں گے سرکاری ادارے اور نہ ملے گا محکوم طبقات کو ريزرويشن! سرکاری محکموں ميں گروپ فور کی نوکرياں، جن ميں دلت، آدی واسی اور پسماندہ سماج کے لوگ بہت تعداد ميں تھے، اُن کو پرائيويٹ کيا جا چکا ہے اور اُن کی لاکھوں نوکريوں کو ختم کر ديا گيا ہے۔ کہنے کا مطلب يہ ہے کہ بی جے پی ريزرويشن کی مخالفت ميں بيان نہيں دے گی مگر اس کی پاليسی ريزرويشن کو کمزور کرتی رہے گی!
آر ايس ايس ريزرويشن کے خلاف ماحول بنانے ميں آگے رہی ہے کيوں کہ اس کی جواب دہی کسی کے تئيں نہيں ہے۔ ہميں آر ايس ايس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ريزرويشن مخالف بيانات کو اسی سياق ميں ديکھنا چاہيے۔ آر ايس ايس نے منڈل کميشن کی سفارشات کی بھی مخالفت کی تھی۔ 26 اگست 1990 کے شمارے ميں آر ايس ايس کا ترجمان ميگزين ’’آرگنائزر‘‘ يہ بات کہتا ہے کہ ’’يہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ريزرويشن کی پاليسی کس قدر سماجی تانے بانے کو توڑ رہی ہے۔ يہ نا قابل لوگوں کو فروغ ديتی ہے، برين ڈرين کو بڑھاوا ديتی ہے اور ذات پات پر مبنی دراڑ کو مزيد بڑھا ديتی ہے۔‘‘
جيسا کہ بابا صاحب امبيڈکر نے کہا ہے کہ اعلی ذات کے لوگ اگر بڑے محکموں پر بيٹھ جاتے ہيں تو وہ اپنے فرقے کا مفاد سب سے اوپر رکھتے ہيں۔ اُن کے نزديک دلتوں کے مفاد کا کوئی خيال نہيں رہتا۔ يہی وجہ ہے کہ ميرٹ کے نام پر محکوم طبقات کو نوکری پانے اور قانون ساز اسمبلی ميں جانے سے نہيں روکا جا سکتا کيونکہ اگر وہ ان اداروں ميں نہيں ہوں گے تو ان کے مفاد کا کون خيال رکھے گا۔يہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ امبيڈکر کی تصويروں پر پھول چڑھانے ميں بی جے پی اور آر ايس کے لوگ آگے رہتے ہيں مگر جب امبيڈکر سماج کے اور ديگر محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کی بات ہوتی ہے تو اس سے اُن کا بہت زيادہ سروکار نہيں ہوتا۔ يہی وجہ ہے کہ محکوم طبقات کورٹ کے فیصلے سے ناراض ہيں اور ان کی يہ ناراضگی بی جے پی سرکار کے ليے بھی بھاری پڑ سکتی ہے۔
(ابھے کمار جے اين يو ميں شعبہ تاريخ کے ريسرچ اسکالر ہيں۔)
[email protected]